الہدیٰ
کمزور ایمان والوں کی مصیبت کے وقت حالت
آیت 10 {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللہِ ط} ’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ پر‘ مگر جب انہیں اللہ کی راہ میں ایذا پہنچائی جاتی ہے تو وہ لوگوں کی ایذا رسانی کو اللہ کے عذاب کی مانند سمجھ لیتے ہیں۔‘‘
یہاں یہ نکتہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ آیت مکّہ میں اُس وقت نازل ہوئی جب اسلام میں منافقت کا شائبہ تک نہ تھا‘ بلکہ یہ وہ وقت تھا جب کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے ہر شخص پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا جاتا تھا۔ ایسے ماحول میں جو کوئی بھی اسلام قبول کرتا تھا اس کے ایمان میں کسی شک و شبہ کا امکان نہیں تھا۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ سب لوگوں کی طبیعتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں اور جذبے‘ بہادری‘ استقامت وغیرہ میں سب انسان برابر نہیں ہوتے۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ میں اسی حوالے سے ایک ایسے کردار کا ذکر ہو رہا ہے جو ایمان تو پورے خلوص سے لایا ہے مگر اس راستے کی مشکلات اور آزمائشوں کو جھیلنے کا حوصلہ اس میں نہیں ہے۔
{وَلَئِنْ جَآئَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّکَ} ’’اور (اے نبیﷺ!) اگر آپ کے رب کی طرف سے مدد آ جائے‘‘
{لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ ط} ’’یہ ضرور کہیں گے کہ ہم آپ لوگوں کے ساتھ ہی تو تھے۔‘‘
{اَوَلَیْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ(10)}’’تو کیا اللہ بخوبی واقف نہیں ہے اس سے جو جہان والوں کے سینوں میں مضمر ہے؟‘‘
درس حدیث
روزہ اور قرآن کی شفاعت
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ : ((اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ ‘ یَقُوْلُ الصِّیَامُ : اَیْ رَبِّ اِنِّیْ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّھَوَاتِ بِالنَّھَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ ‘ وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ : مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشِّفِعْنِیْ فِیْہِ ‘ فَیُشَفَّعَانِ)) (رواہ احمد والطبرانی والبیھقی )
حضرت عبدا للہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’روزہ اور قرآن (قیامت کے روز) بندے کے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا : اے ربّ! میں نے اِس شخص کو دن میں کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکے رکھا‘ تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما! اور قرآن یہ کہے گا کہ اے پروردگار! میں نے اسے رات کے وقت سونے سے روکے رکھا‘ لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما! چنانچہ (روزہ اور قرآن) دونوں کی شفاعت بندے کے حق میں قبول کی جائے گی۔‘‘
تشریح: رمضان المبارک میں روزہ رکھنا اور قرآن حکیم کی تلاوت کرنا اِس قدر قیمتی اعمال ہیں کہ مسلمان کے گناہوں کی معافی اور اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ دونوں اعمال بندے کے حق میں اللہ کے رُو بہ رُو روزِ قیامت سفارش کریں گے اور پروردگار دونوں کی سفارش قبول کریں گے۔