(اداریہ) روحِ رمضان اور اس کے تقاضے - رضا ء الحق

10 /

اداریہ


رضاء الحق


روحِ رمضان اور اس کے تقاضے


رمضان کا بابرکت مہینہ ہم پر سایہ فگن ہو چکا ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ اِس بابرکت مہینے کو اِس کی اصل روح کے مطابق گزارا جائے ، اِسے سال کے باقی11 مہینوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی حقیقی بندگی کی خاطر ایک تربیتی کیمپ کے طور پر بسر کیا جائے۔اپنے سرکش نفس کو لگام دینے کی جدوجہد میں کھپایا جائے اور رسول اللہﷺ کےمبارک اسوہ کے گوشے گوشے سے خود کو جوڑنے کی سعی کی جائےاور اِس سے بھر پور استفادہ کیا جائے ، پھرتویہ عظیم مہینہ نیکیوں کی فصلِ بہار ثابت ہوتاہے۔ایک حدیث مبارکہ کے مطابق اِس ماہِ مبارکہ میں شیاطین گرفتار کر لئے جاتے ہیں۔ماحول میں نیکی اور بھلائی کی فضا طاری ہو جاتی ہے اور بندے کے لیےنیکی کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کا تہہ دل سے شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے ہمیں نیکیوں کا یہ موسم بہار عطا کیا ،اور خود کو بدی و گناہ سے دور کرنے کا موقع ایک مرتبہ پھر عطا فرمایا ۔بہت سے لوگ ایسے ہیں،جو پچھلے سال ہمارے ساتھ تھے،مگر دوران سال وفات پا گئے،اور یہ رمضان اُنہیں نصیب نہ ہو سکا۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ اِس کو اپنی زندگی کا آخری ماہِ رمضان سمجھ کر اِس کی برکات سے فیض یاب ہوں،نیکیوں کا خزانہ سمیٹیں،اللہ تعالیٰ سےرحمت، مغفرت اور بخشش طلب کریں،اُس کو راضی کریں،تاکہ آخرت کی دائمی زندگی میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں۔حدیث رسولﷺ کے مطابق یہ بڑی بدنصیبی، محرومی اور بربادی کی بات ہے کہ کوئی شخص رمضان کا مہینہ پائے اور اپنی مغفرت کا سامان نہ کر سکے۔
قرآن مجید میں روزے کی عبادت کا تفصیلی ذکر سورۃ البقرہ کے23ویں رکوع میں ہے۔اِس رکوع میں روزے کا حکم ،غرض و غایت ،قرآن مجید کے ساتھ اِس ماہِ مبارک کا تعلق،اُس کا اصل حاصل،اُس کے احکام اور اعتکاف کے مسائل جیسے موضوعات کو جمع کر دیا گیاہے۔ فرمایا:
’’مومنو!تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں،جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘(البقرۃ:183)
اِس آیت میں روزے کی فرضیت کا ذکر ہے اور ترغیب وتشویق کے لیے فرمایا کہ روزہ صرف تم پرہی فرض نہیں کیا گیاہے،بلکہ سابقہ اُمتوں پر بھی فرض تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی اکرمﷺ تک جو دین بھیجا ہے وہ اصلاً ایک ہی ہے، یعنی دینِ تو حید۔اِس کے اہم ارکان میں روزہ ہمیشہ سے شامل رہاہے۔البتہ عربوں کامعاملہ یہ رہا کہ اُن پر اڑھائی ہزار سال ایسے گزرے کہ اُن کے ہاں کوئی نبی یارسول آیا ہی نہیں۔ چنانچہ وہ ان چیزوں سے ناواقف تھے۔
اِس آیت میں روزے کا اصل حاصل اور مقصود تقویٰ بتایاگیا ہے۔ہمارے دین میں تقویٰ کی بڑی اہمیت ہے۔ تقویٰ تمام خوبیوں اور بھلائیوں کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اِس کا محل دل ہے۔ نبی اکرمﷺ نے ایک بار قلب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ’’تقویٰ یہاں ہوتا ہے ‘‘ (صحیح مسلم )
تقویٰ اِس احساس کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے، اور ایک دن اُس کے حضور حاضر ہو کر مجھے اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہے۔ یہ احساس پیدا ہو گا توپھر ا نسان اپنے طرزعمل کو صحیح بنیادوں پر استوار کرے گا۔ تقویٰ ہو گا تو سارا عمل ٹھیک ہو گا۔ آدمی نماز پڑھے گا تو اس میں خشوع و خضوع ہو گا، پوری شریعت پر نیک نیتی سے عمل کرے گا۔ورنہ شریعت کو بھی بازیچۂ اطفال بنا لے گا، جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ جو ہم نے خود پر آپ ہی طاری کر رکھا ہے۔ بھلا رمضان المبارک کی فضیلت کیسے حاصل ہوگی، دن کے روزہ میں صبر کا پھل کہاں حاصل ہوگا۔ قیام اللیل کی بابرکت ساعتوں سے کیا استفادہ ہوگا، قرآن مجید کی تلاوت و سماعت اپنے حقیقی معنوں کے ساتھ دل میں کیسے اُتاریں گے، نیک اعمال کی توفیق کیسے حاصل ہوگی،اپنی شخصیت کو رسول اللہ ﷺ کے اسوئہ مبارک کے ساتھ کیسے جوڑیں گے، غزہ اور دنیا کے دیگر حصّوں میں مظلوم و مجبور مسلمانوں کی حالت ِ زار پر دل میں اضطراب کہاں سے پیدا ہوگا، ’’مُسْتَضْعَفِيْنَ فِی‌ الْاَرْضِ‘‘ کے لیے دُکھ اور اپنی بے بسی کے آنسو کیسے بہیں گے، طاغوتی قوتوں کے خلاف بنیانِ مرصوص بننے کی خواہش کیسے پیدا ہوگی، جذبہ جہاد اور شوق شہادت کہاں سے وارد ہوگا،رب کی دھرتی پر رب کے نظام کو قائم و نافذ کرنے کی جدوجہد میں اپنا حصّہ ڈالنے کا احساس کیسے جنم لے گا۔ دن کے روزہ کو جب بوجھ سمجھا جائے گا تو وقت گزاری کے لیے طرح طرح کی تفریحات ڈھونڈی جائیں گی۔ رات کو قرآن کے ساتھ قیام پر جب چیمپینز ٹرافی مقدم رہے گی اورمختلف ٹیلی ویژن چینلز پر رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر ہونے والے تماشوں میں شرکاء کی نوک جھونک لطف دے گی تو رمضان کی مبارک ساعتوں کو بھی لہو و لعب کی نظر کر دینے کے سواکیا حاصل ہوگا۔ ملکی معیشت سودی نظام کے تحت چلتی رہے گی اور میڈیا فحاشی و عریانی پھیلانے میں مغربی تہذیب کا آلہ کار بنا رہے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کیسے حاصل ہوگی ۔ تقویٰ کیسے حاصل ہو گا؟
الغرض انسان کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھنے والی چیز تقویٰ ہے۔ یہ حقیقی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے ۔ قرآن کا مطالعہ کریں، اہلِ جنت کے تذکرہ میں اُن کی صفت تقویٰ کا ذکر آیا ہے۔ گویا کامیابی کے لیے تقویٰ کو شرط قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً ’’ہدایت ہے متقین کے لیے ‘‘ (البقرہ:2) ’’(جنت) تیار کی گئی ہے‘ متقین کے لیے‘‘(آل عمران:133)اور’’کامیابی متقین کے لیےہے۔ ‘‘ (النبا:31)ایک اور جگہ فرمایا:’’بے شک متقین جنت میں ہوں گے اور اللہ کی نعمتوں سے متمتع ہو رہے ہوں گے۔ ‘‘(الطور:17)ایک اور مقام پر فرمایا:’’بے شک پرہیز گار بہشتوں اور چشموں میں (عیش کر رہے) ہوں گے۔‘‘ (الذاریات: 15)
تقویٰ کی پونجی حاصل کرنے کے لیے دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ روزے کی عبادت فرض کی گئی ہے ۔روزہ اور قرآن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔روزہ سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے‘اور اہلِ تقویٰ ہی کے لیے قرآن مجید ہدایت اور رہنمائی کا سامان ہے۔جیسے فرمایا:’’یہ وہ کتاب ہے جس (کے منجانب اللہ ہونے) میں کوئی شک نہیں‘ہدایت ہے متقین کے لیے۔‘‘(البقرہ:2) بلاشبہ قرآن امکانی طور پر potentially)) پوری نوعِ انسانی کے لیے ہدایت ہےاور ہدایت ہی وہ سرمایہ ہے جس کی دعا ہم نماز کی ہر رکعت میں مانگتے ہی،’’(اے اللہ) تو ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے دے ‘‘۔
دنیا کی زندگی میں انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہدایت ہے۔اِس ضرورت کو اللہ نے قرآن کی شکل میں پورا فرمادیا۔یہ وہ ہدایت نامہ ہے جو پوری نوعِ انسانی کے لیے ہے۔اِس میں مرد اور عورت،حکمران اور رعایا، عالم اور بے علم، والدین اور اولاد،خاونداور بیوی،استاد اور شاگرد، الغرض سب شامل ہیں۔
رمضان المبارک صبرکامہینہ ہے۔نبی اکرمﷺ نے صبر کے اَجر کی وضاحت بھی فرمائی کہ:’’صبر کا بدلہ جنت ہے۔‘‘روزے کی حالت میں بندے کو بھوک اور پیاس لگی ہو‘ بہترین کھانے اور مشروبات سامنے ہوں‘ مگر وہ خود کو اُن سے روکے رکھے۔ اسی طرح جنسی خواہش کو پورا کرنے سے بھی رک جائے۔ایک صبر تو یہ ہے لیکن دوسری قسم کا صبر بھی ہے جس سے مراد جھوٹ بولنے سمیت تمام گناہ کے کاموں سے بچنا ہے۔اِس کے بغیر بھی روزہ مکمل نہیں ہوتا۔احادیث کی رو سے جس شخص نے دوران ِروزہ بھی جھوٹ بولنا اور گناہ کے کاموں کو ترک نہ کیا تو اللہ کو اِس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پیناچھوڑ دے۔اس طرح درحقیقت اُس نے فاقہ کیا ہے۔ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ اُنہیں اپنے روزے سے سوائے بھوک (اورپیاس) کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اور کتنے ہی رات کو قیام کرنے والے بھی ایسے ہیں جنہیں سوائے شب بیداری کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ‘‘
البتہ یہ بات واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں قیام باعث اَجروثواب ہے۔چونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پرنرمی رکھی ہے،اِس لیے دن کا روزہ تو فرض کر دیا گیا،جب کہ رات کے قیام کی ترغیب دلائی گئی۔ قیام اللیل سے مراد قرآن کے ساتھ جاگنا ہے، جس کی بہترین صورت یہ ہو سکتی ہے کہ رات کا بڑا حصّہ اللہ کے سامنے حاضر ہو کر تہجدیا تراویح میں قرآن پڑھتے ہوئے گزاریں۔ رات کو صرف کھڑے رہنا یا نوافل پڑھتے چلے جانا مقصود نہیں ہے،بلکہ قیام اللیل سے مراد نوافل میں زیادہ سے زیادہ قرآن حکیم کا پڑھناہے۔شب قدر کی فضیلت کی بنیاد بھی یہی ہے کہ اس میں قرآن نازل کیا گیا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان سے ناواقف ہے لہٰذا اُن کے لیےقرآن کریم کو بغیر ترجمے کے سمجھنا محال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی زبان کی تحریر کو اس کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ اصل پیغام کو بعینہ پہنچانے کا حق ادا نہیں کر سکتا۔یہی معاملہ عربی زبان کا بھی ہے اور یہاں معاملہ خود اللہ رب العزت کے کلام کا ہے جس کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے میں دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی مضمر ہے۔ لہٰذا ہمارے خطے میں پائے جانے والے اِس خلا کا ادراک کرتے ہوئے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے 1984ء میں دورۂ ترجمۂ قرآن کی بنیاد رکھی کہ نمازِ تراویح کے ساتھ قرآن کا جتنا حصّہ سُنا اُس کو کسی درجے میں سمجھا بھی جاسکے۔ بات سمجھ میں آئے گی تو ہی اُس پر عمل کیاجاسکے گا۔ الحمدللہ اِس سال تنظیم اسلامی اور انجمنانِ خدام القرآن کے تحت پاکستان بھر میں سوا سو سے زائد مقامات پر دورۂ ترجمۂ قرآن اور خلاصۂ مضامینِ قرآن کی محافل کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ جن مقامات پر خواتین کے لیے باپردہ شرکت کا اہتمام ممکن ہے وہاں اُن کے لیے بھی یہ سہولت موجود ہے۔لہٰذا نمازِ تراویح معہ دورۂ ترجمۂ قرآن سے استفادہ کریں تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے اور پھر اُس پر عمل کرنے کی مقدور بھر کوشش بھی کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اِس ماہ مبارک کے فیوض و برکات سے بھرپور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین!