METڈیپارٹمنٹ نے تین ماہ پہلے ہی معمول سے کہیں زیادہ بارشوں
اورسیلاب کی وارننگ جاری کردی تھی لیکن NDMAنے اس
دوران کوئی کام نہیں کیا :رضا ء الحق
سیلاب کی صورت حال ایک بہت بڑے انسانی المیہ کوجنم دے رہی ہے۔
اس سے نمٹنے کے لیے اجتماعی سطح پر حکومت ، اپوزیشن، فوج اور
عوام سب کو مل کر کوشش کرنے کی ضرورت
ہے : ڈاکٹر مشتاق مانگٹ(الخدمت فاؤنڈیشن)
اس وقت متاثرین کی مدد میں اپنا مال ، صلاحیت اور وقت سب کچھ لگانے
کی ضرورت ہے ۔جولوگ زکوٰۃ دیتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اس وقت
دے دیں کیونکہ اس وقت سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو ضرورت
ہے :عامر سعید بھٹی ( تریاق ویلفیئرآرگنائزیشن )
سیلاب کی تباہ کاری اور متاثرین کی امداد کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: فیڈرل فلڈ کمیشن سیلابوں کے بارے میں ہرسال اپنی رپورٹس اور الرٹس جاری کرتا رہتاہے اگراس کمیشن کی سفارشات پربہتر انداز میں عمل کیا جاتا تو کیا سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانہیں جاسکتا تھا؟
رضاء الحق: اصل میں ہماراقومی مزاج یہ بن چکا ہے کہ قدرتی آفات کے حوالے سے پہلے کوئی تیار ی نہیں کی جاتی، جب کوئی آفت آتی ہے توسرپر پڑنے کی وجہ سے ہر کوئی فعال دکھائی دیتا ہے لیکن نہ پہلے کام کیاجاتاہے اور نہ بعد میں۔ البتہ رپورٹس بنتی رہتی ہیں۔ 2010 ء میں جو سیلاب آیاتھا اس کوسپرفلڈ کانام دیاگیا تھا۔ پھرفلڈ کمیشن کی رپورٹس میں بارہاا س بات کاذکر کیاگیا ہے کہ جن علاقوں میں سیلاب کے خطرات ہوتے ہیں اُن میں ضلعی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے کام کوفوکس کیا جائے لیکن ہمارے ہاں سنٹر کے اندر پاور مرکوز کردی جاتی ہے۔ METڈیپارٹمنٹ نے تقریباً تین ماہ پہلے اس بات کی وارننگ جاری کردی تھی کہ اس مرتبہ بارشیں زیادہ ہونے کا امکان ہے لیکن NDMAکا ادارہ جس کو فلڈ مینجمنٹ کے لیے قائم کیا گیا تھا اس نے سیلاب سے پہلے اور سیلاب کے دوران کوئی کام نہیں کیا ۔ اب بھی سرکاری سطح پر رسکیو کے حوالے سے کام کم ہو رہا ہے اور زیادہ تر Photo ops ہورہی ہیں ۔ عملی کام زیادہ تر این جی اوز کی سطح پر ہو رہاہے۔ فلڈ کمیشن نے جو سفارشات پیش کی تھیں وہ حسب ذیل تھیں :
(1) این ڈی ایم اے سمیت ڈیزاسٹر مینجمنٹ اینڈ کنٹرول کے تمام اداروں کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔ (2) صوبائی اور ضلعی سطح پر فلڈ مینجمنٹ اور کنٹرول کے ادارے قائم کیے جائیں اور فلڈ کنٹرول کے واضح ایس او پیز مرتب کیے جائیں۔ (3) فلڈ کنٹرول انفراسٹرکچر کو مضبوط کیا جائے۔ پشتوں اور بندوں کو مضبوط بنایا جائے۔ سیلابی پانی کا رخ بدلنے کے لیے چینلز کو ترتیب دیا جائے۔ سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کے مقامات کو قائم کیا جائے۔ بیراجوں کی صلاحیت بڑھائی جائے۔ (4) نئے ڈیم تعمیر کیے جائیں جن میں بڑے ڈیموں کے ساتھ چھوٹے ڈیم بھی شامل ہوں۔ (5) وہ پانی جو پہاڑوں سے برف پگھلنے پر بہہ آتا ہے اُسے بحیرۂ عرب میں گر کر ضائع ہونے سے بچانے کے منصوبے بنائیں جائیں۔ (6) سیلابی ریلوں کو روکنے اور زمین کے کٹاؤ میں کمی لانے کے لیے بڑے پیمانے پر درخت لگائے جائیں۔ (7) پہاڑی اور میدانی علاقوں کے لیے بہتر فلڈ مینجمنٹ اور کنٹرول کی علیحدہ علیحدہ پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔ (8) ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارش اور خشک سالی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے بھی ایک مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ (9) سیلاب کے حوالے سے وہ علاقے جو زیادہ خطرے میں آ سکتے ہیں وہاں سے آبادیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے نیز غیر قانونی تعمیرات کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ (10) سیلاب کی پیشگی اطلاع اور انتباہ کی صلاحیت بڑھائی جائے اور MET آفس سمیت موسمیاتی پیشین گوئی کے ادارے دیگر اداروں کے ساتھ بہتر انداز میں مل کر کام کریں۔(11) سیلاب سے متاثرہ افراد اور علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف اور پھر تعمیر نو کے لیے مربوط منصوبہ بندی کی جائے۔
یہ فلڈ کمیشن کی رپورٹ ہرسال آتی ہے لیکن افسوس سے کہناپڑتاہے کہ اس کے لیے کوئی کام نہیں کیاگیا۔سرکاری سطح پر ابھی بھی رسکیو ، ریلیف کا کام بہت سست ہے اور rehablitationکے لیے بھی واضح منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی ۔
سوال: پوری دنیا جانتی ہے کہ الخدمت فائونڈیشن بہت بڑے لیول پراطمینان بخش کام کررہی ہے ۔ آپ فلڈ ریلیف کی تفصیلات شیئر کیجیے ؟
ڈاکٹر مشتاق مانگٹ:یہ فلڈ دوطرح کے ہیں ایک دریائوں کافلڈ ہوتاہے جس کو کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے کیونکہ اس کے بارے میں پہلے سے معلومات مل جاتی ہیں اور پھراحتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔دوسرا فلڈ بارشوں کی وجہ سے آتاہے جسے ہم فلیش فلڈ کہہ سکتے ہیں۔ موجودہ فلڈ بھی بارشوں کی وجہ سے آیا۔ چونکہ بڑے بڑے پہاڑ ہیں، ان کے اوپر جب بارشیں ہوتی ہیں توبڑی تیزی سے پانی نیچے آتاہے اور میدانی علاقوں میں سیلاب کا باعث بنتا ہے ۔ بارشوں کا سیلاب غیر متوقع ہوتاہے کیونکہ کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب کتنی بارش ہونی ہے اور اس کے نتیجے میں کتنا سیلاب آئے گا ۔ بہرحال اس فلڈ کاپہلا نقصان حسن آباد(ہنزہ) کاپل تھا جوگرگیا وہاں ہم نے خیمہ بستی بسائی۔ اس حوالے سے فی الحال ریسکیو اور ریلیف پر کام ہورہا ہے ، ابھی ہم rehabilitationکے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ابھی ستمبر کاپورا مہینہ مون سون کا ہے اور جب تک یہ بارشیں ہیںاس وقت تک صرف ریسکیوا ورریلیف پرہی کام ہوگا۔ہمارا پہلا کام ریسکیوکا ہے اس میں ہمارے پاس کشتیاں ،موٹرکشتیاں وغیرہ ہیں۔ اس وقت تقریباً دوتہائی پاکستان ڈوباہوا ہے۔ تقریباًایک سوپچاس اضلاع میں ہماری ٹیمیں موجود ہیں۔ ہمارے لوگوں کی تعداد تقریباً بیس پچیس ہزار کے قریب ہے جواس کام میں سرگرم ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ متاثرین کونکال کر شیلٹر میں لانا ہے تاکہ وہ اپنا سامان بچا سکیں ۔ یہ معاملہ مشکل ہے کیونکہ اس میں نفسیاتی مسائل ہیں لوگ اپنامحلہ او رعلاقہ نہیں چھوڑنا چاہتے کیونکہ انہیں اپنی چیزیں اور گھر کی فکر زیادہ ہے۔چنانچہ ہرآدمی یہی سوچتاہے کہ میں اپنے گھر کے قریب ہی کسی اونچی جگہ پر چلاجاؤںاو روہاں سے اپنے سامان اور گھر کی نگرانی کرتا رہوں ۔ اس لیے پھرہم لوگوں کے علاقوں میں ہی ٹینٹ ویلج لگاتے ہیں تاکہ جب حالات ٹھیک ہوں تووہ اپنے ٹینٹ ساتھ لے جائیں گے۔ اس میں ہم ٹینٹ، ترپال، چٹائیاں وغیرہ فراہم کرتے ہیں۔ دوسرے لیول پرکھانا ہے۔ کھانے میں ہم دوطرح کے کام کررہے ہیں۔ ایک دو وقت کاپکاہوا کھانا بھی دے رہے ہیں۔ یعنی روزانہ کھاناپکانا اور ان لوگوں میں جاکرتقسیم کرناجہاں کچھ پتا نہیں کہ لوگوں کی تعداد کتنی ہے کیونکہ متاثرین کی تعداد روزبروز بڑھ رہی ہے ۔ پھرجہاں ممکن ہوتاہے وہاںہم لوگوں کو خشک راشن بھی دیتے ہیں۔ تیسرا اہم کام میڈیکل کی سہولت کی فراہمی ہے کیونکہ سیلاب کی وجہ سے وبائیں بھی بہت پھیلتی ہیں ۔ وہاں دو طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں ایک گیسٹو اور پیٹ سے متعلق بیماریاں ۔دوسری الرجی یعنی جلدکی بیماریاں ۔ پھربدقسمتی سے سانپ ، بچھو اور دوسرے زہریلے حشرات سیلاب کی وجہ سے باہر نکل آتے ہیں اور آبادیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کے لیے ویکسینزکی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں فراہم کرنی پڑتی ہیں تاکہ سانپ اگر کاٹ دے توفوری اس کا علاج ہوسکے۔پھر ان متاثرین کو برتن وغیرہ بھی چاہیے ہوتے ہیں وہ بھی ہم فراہم کرتے ہیں ۔
سوال: آپ تریاق ویلفیئر آرگنائزیشن چلارہے ہیںآپ کی سرگرمیاں کیاہیں ؟
عامرسعید بھٹی:اس وقت ہم نے خشک راشن کو فوکس کیاہواہے۔جہاں جہاںالخدمت فائونڈیشن راشن دے رہی ہے ان جگہوں کے علاوہ جہاں ابھی راشن نہیں پہنچ پایا وہاں ہم راشن پہنچا رہے ہیں ۔ اس میں انرجی بسکٹ شامل ہیں ، ہمارے ساتھ کچھ کمپنیز جڑگئی ہیں وہ ہمیں یہ بسکٹ ریگولر دے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ چنے ، دال، چاول اور دیگر راشن شامل ہے ۔ پھر اس کے ساتھ ہم کھجور دے رہے ہیں تاکہ باڈی کی جو ریکوائرمنٹ ہے اس کوبھی پورا کیاجائے ۔اللہ کا شکر ہے ہم راجن پوراور اس کے اردگرد تین چھوٹے چھوٹے گائوںمیںخدمت کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ تونسہ شریف کے پاس کے علاقوںمیں بھی ہمارے کیمپس لگے ہوئے ہیں۔ نوشہرہ میں بھی ہماری سرگرمیاں ہیں۔ پھرپہلی دفعہ لاڑکانہ اورسندھ میںجانے اور کام کرنے کااتفاق ہوا۔ کل پہلی راشن کی تقسیم سوات سے اوپرعلاقے میں ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے 1992ء سے اس خدمت میںڈالاہے۔اس وجہ سے لوکل آرگنائزیشنز کے ساتھ ہمارا تعلق رہتاہے کیونکہ ان کے بغیر ہم چل ہی نہیںسکتے۔ یعنی لوکل برادری اور تناظیم کو اپنے ساتھ شامل کرکے اس کام کو آگے لے کرچل رہے ہیں۔ہمارے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ خشک راشن میں کم سے کم پیناڈول اور اوآر ایس کو بھی شامل کریں توہم نے وہ بھی شامل کیا۔ پھروہاںجوتوں کی بہت بڑی کمی ہے۔ چنانچہ شوفیکٹری والوںنے ہمیں لیڈیز، جینٹس اور بچوں کے لیے تقریباًدس ہزار جوڑے جوتوںکے دیے ہیں۔وہ بھی ہم ہرایک راشن پیک کے ساتھ دے رہے ہیں۔ہمارا ٹارگٹ ہے کہ ایک ماہ میںتقریباً پندرہ ہزار خاندانوں کو راشن مہیا کریں۔ چونکہ یہاںسے سامان لے جانامشکل ہے اس لیے راجن پور اور تونسہ کے لیے ہم نے ملتان میں اپنابیس کیمپ لگایاہوا ہے وہاں سے سپلائی چین ہے۔ کیونکہ وہاں سے بہت سی اچھی کمپنیز ہمارے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد ہمارا ٹارگٹ ہے کہ جہاں پراللہ تعالیٰ ہمیں خدمت کاموقع دے رہاہے وہاں ہم متاثرین کومستقبل طور پر سہولیات مہیا کریں۔ ان کے لیے میڈیکل، سکولز اور دوسری سہولیات کاپروگرام بنارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔
سوال: جومخیرحضرات ہیں ان کوآپ کیامشورہ دیںگے کیونکہ ہرکوئی متاثرین کے پاس پہنچنا چاہتاہے اور ان کی مدد کرناچاہتاہے ۔ کیاایسے لوگ خود بخود ان کی مدد کریں یاآپ جیسی تناظیم کے ساتھ مل کر ان کی خدمت کریں ؟
عامرسعید بھٹی: اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے میں مس مینجمنٹ کے مسائل جنم لیتے ہیں۔اس لیے میں ایسے لوگوں کو مشورہ دوں گاکہ جو فلاحی تناظیم پہلے سے کام کر رہی ہیں ان کے ساتھ مل کر کام کریں جوجس فیلڈ کی صلاحیت رکھتاہے وہ اس میں اس کو سپورٹ کرے او رجس پرآپ کااعتماد ہے اس کے ساتھ جڑجائے۔ پھر یہ کہ ان تنظیموںکو بھی لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جوان کے معاون بن سکیں۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیںجو اپنے ہاتھ سے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیںتوہم ان کواپنے ساتھ لے کرجاتے ہیںاور وہاں وہ اچھے جذبے کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ انفرادی طورپر کام کرنے والوںکی پہنچ صرف روڈ تک ہے چنانچہ وہ روڈ کی حدتک ہی سامان دے کر آجاتے ہیں او رسمجھتے کہ شاید وہ سامان متاثرین کوملناشروع ہوگیا ہے لیکن اگر وہ ہمارے پاس آئیںگے توہم ان کو ان کے گھروں تک رسائی دے سکتے ہیں ۔کیونکہ ہمارے پاس زیادہ معلومات ہیں۔
سوال: مخیرحضرات رفاہی اداروںکی کیسے معاونت کرسکتے ہیں؟ کون کون سے طریقے ہیں کہ ایک مخیرآدمی آپ کی مدد کرے توآپ بہتر اندازمیں کام کرسکتے ہیں؟
ڈاکٹر مشتاق مانگٹ: ابھی متاثرین کو جن چیزوں کی زیادہ ضرورت ہے ان پر فوکس کریں۔کپڑے ان کو بعد میں ضرورت ہوںگے لیکن ابھی وہاں کپڑوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔ اس وقت انہیں کھانا، دوائیوں اور بستروں کی ضرورت ہے ۔ میں سمجھتاہوںکہ ہم سب demand orieintedبنیں نہ کہ سپلائربننے کی کوشش کریں ۔ پھربلوچستان میں اس وقت سردی شروع ہوچکی ہے، اگلے پندرہ بیس دن کے بعد بارش کی وجہ سے مزید سردی بڑھ جائے گی۔ اب وہاںایشو یہ بن رہاہے کہ اگر خواتین اور بچوں کوسردی سے نہ بچایاگیا توپھر کیاہوگا۔ پھرکیمپس کے ساتھ ٹائیلٹس کابھی مسئلہ ہے ۔ یعنی بڑی ہی کمپلیکس صورت حال ہے۔ میرے نقطۂ نظر میں اس وقت تین بہت اہم ایشو ہیں۔ سب سے پہلے شیلٹر دیناہے، اگر کسی کے پاس ٹینٹ یاچادریںہیں تووہ مہیا کرے۔ دوسرا خوراک کامسئلہ ہے ۔ کچن کاساراسامان ،جوتے وغیرہ سب اس میں آجائیں گے ۔ پھرپینے کا پانی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ تیسری بڑی ضرورت میڈیکل اور ادویات کی ہے ۔ ایک دن میں میڈیکل کاخرچہ ایک لاکھ تک ہوجاتاہے۔ روزانہ تقریباً چار،پانچ سومریض آتے ہیں ، ان کے لیے صرف چار ڈاکٹرز بہت کم ہیں۔ یہ صورت حال ایک بہت بڑے انسانی المیہ کوجنم دے رہی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے ، حکومت ، اپوزیشن، فوج اور عوام سب کو مل کر کوشش کریں گے تو شاید مسئلہ سے نمٹ سکیں گے ورنہ بہت مشکل صورت حال ہے ۔
سوال: سیاستدان بھی فنڈز جمع کرنے کادعویٰ کررہے ہیں عمران خان صاحب نے پانچ سوکروڑ جمع کرلیے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان کی طرف سے یہ دعویٰ آیا ہے کہ ہم نے ایک کھرب تیس ارب روپے ایک گھنٹے میں یواین ممالک سے اکٹھا کرلیاہے ۔ کیا سیاسی جماعتو ں کے ذریعے آنے والے یہ فنڈز منصفانہ انداز میں متاثرین تک پہنچ پائیں گے ؟
رضاء الحق:اس وقت جو ابتدائی تخمینہ لگایاجارہاہے اس کے مطابق تقریباً دس ارب ڈالرز کے نقصانات کا خدشہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سیلاب سے 67فیصد علاقہ زیرآب ہے تواس کامطلب ہے کہ ہمارا بنیادی انتظامی ڈھانچہ تباہ وبرباد ہوچکا ہے ۔ پھرمکان گرچکے ہیں،مویشی مرگئے ہیں اور فصلیں تباہ ہوچکی ہیںاس سے پورے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری میںکتنااضافہ ہوگا اس کا اندازہ بھی ابھی نہیں لگایا جا سکتا ۔ سیلاب کی وجہ سے بیماریاں جنم لیں گی اور ان سے نمٹنے کے لیے میڈیکل کا بہت خر چہ آئے گا اور دوائیاں مہنگی ہو جائیں گی ۔ ہماری شرح نمو پہلے ہی کم ہوکر ساڑھے تین فیصد تک آچکی تھی، ڈیفالٹ کے اوپر ہم پہلے ہی پہنچے ہوئے تھے لیکن آئی ایم ایف کی طرف سے قرضہ آ گیا۔ مختلف ممالک سے ایڈ بھی آئے گی اور مخیرحضرات کا چندہ بھی آجائے گا۔ سیاستدانوں کی طرف سے بھی پیسہ جمع ہوجائے گا لیکن اس سارے پیسے کی تقسیم کیسے ہوگی؟یہ اصل سوال ہے۔ 2005ء میںجب زلزلہ آیاتھا تواس موقع پربھی بہت پیسہ اکٹھا ہوگیا تھا لیکن اس کابڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوگیا۔ اس وقت بھی کرپشن کاخدشہ ظاہر کیا جارہاہے۔ پوری دنیا میںآفات آتی رہتی ہیں لیکن وہاںپرڈیزاسٹر منیجمنٹ کے نظام موجود ہیں۔ قدرتی آفات آزمائش ہیں یاعذاب یہ الگ موضوع ہے لیکن ہمارے کرنے کا جو کام ہے وہ تو کرنا ہی ہے ۔ کیایہ صرف پرائیویٹ تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوںکی خدمت کریں ؟ اگر سرکاری سطح پر اس کی سرپرستی نہیںکی جائے گی، امدادی کاموں میں مصروف لوگوں کی مدد نہیں کی جائے گی توپھر صورت حال انسانی المیہ کی طرف جائے گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ صورت حال اس طرف نہ جائے اور حکومت بھی ہوش میں آئے اور سرکاری ادارے بھی اپنافرض صحیح طریقے سے ادا کریں ۔
سوال: سندھ میںمسلمانوںکے علاوہ اقلیتیںبھی ہیں۔ امدادی سرگرمیوں میں تنظیمی ںاقلیتیوں کے ساتھ کیسا سلوک کررہی ہیں؟
عامرسعید بھٹی:اس وقت وہاں ایمرجنسی کی صورت حال ہے۔میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی تنظیم وہاں امداد کرتے وقت کسی سے اس کامذہب پوچھتی ہوگی ۔ نہ ہم نے کسی سے پوچھا ہے۔ ابھی راجن پور کے علاقے میں اچھی خاصی تعداد اقلیتوںکی ہے، وہاں ہندو بہت بڑی تعداد میںہیں ہم نے بڑھ چڑھ کرامداد وہاں پہنچائی ہے ۔ اس وقت برابری کی سطح پر لوگوںکی مدد کی جارہی ہے کیونکہ لوگوں کی جان بچانی اصل مقصد ہے ۔ ابھی ڈونیشن اکٹھا کرنے کی بات ہورہی تھی تومیں گزارش کروںگا کہ اگر یہ ڈونیشن صرف بیس فیصد انفراسٹریکچر پرلگادی جائے تومتاثرین کو کافی سہولت مل جائے گی ۔
سوال: ہمارے ہاں سیلاب آنے کی بڑی وجہ آبی ذخائر کانہ ہوناہے ۔ کالاباغ ڈیم کے بارے میں بڑا پروپیگنڈہ کیاجاتا تھاکہ اگر کالاباغ ڈیم بنا تونوشہرہ ڈوب جائے گا۔ اب دودفعہ نوشہرہ توڈوب گیا لیکن کالاباغ ڈیم پھر بھی نہیں بنا تو ایسے لوگوں سے کیاسوال کیاجائے ؟
رضاء الحق: یہ اصل میں اپنے مخالفین کونیچا دکھانے کے طریقے ہوتے ہیں۔حقیقت یہ کہ پاکستان میں تربیلا اور منگلا کے بعد کوئی ڈیم نہیں بنابس فزیبیلٹیز بنتی رہیں۔ حالانکہ یہاں پرفوجی حکمران بھی آتے رہے اگر وہ چاہتے توبڑے ڈیمز بناسکتے تھے ۔ انڈیا میں تین ہزار اور چین میں تیس ہزار کے قریب ڈیمز بن چکے ہیں کیونکہ انہوں نے واٹر مینجمنٹ کواہمیت دی ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سرکاری سطح پر اس کی پلاننگ نہیں کرتے او ر پھر تنفیذ بھی نہیں کرتے۔ پھر کالاباغ ڈیم جیسے ایشوز سیاست کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ ہمارے انڈس واٹر کمیشن میں دو مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ہمارے کمشنر ہمارا کیس لڑنے کی بجائے پیسہ لے کر انڈیا کا کیس لڑتے رہے اور پھر یہاں سے بھاگ گئے ۔ جب تک ہم اپنا قبلہ درست نہیں کریں گے تو یہ ڈیمز بننے مشکل ہیں۔ پاکستان میں ڈیمز اور آبی ذخائر کی بہت ضرورت ہے ۔ جب تک ہم اس ضرورت کو پوری نہیں کریں گے تب تک اس طرح کے المیے ہوتے رہیں گے ۔
سوال: دکھی انسانیت کی خدمت کے حوالے سے آپ قوم کوکیاپیغام دیناچاہیں گے ؟
ڈاکٹر مشتاق مانگٹ:رسول اللہﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جوشخص کسی دوسرے شخص کی مصیبت اور مشکل دور کرنے میں لگا رہتاہے تواللہ تعالیٰ اس کی مصیبت اور مشکل کودور کرتاہے۔جولوگ سیلابی علاقوں میں گئے ہیں ان کامشاہدہ یہ ہے کہ وہاں پرچندگھنٹے گزارنا ممکن نہیں ہے۔ وہاں صورت حال بہت پریشان کن ہے ۔ میں کہوں گا کہ جس کے پاس جتنی استعداد ہے وہ اس کے مطابق متاثرین کی امدادضرور کرے ۔ اللہ کے ہاں اس استعداد کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ اگر آپ متاثرین کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تو آپ خود کہیں گے کہ اپنے پاس جو کچھ ہے اس کو بچا کر نہیں رکھنا چاہیے ۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ کوئی ایک ہفتے کاکام نہیں ہے اس میں مہینے لگ سکتے ہیں ۔ جہاں تک انفراسٹریکچر کامعاملہ ہے توبلوچستان میں انگریزی دور کے بنے ہوئے ڈیرھ سو سال پرانے ٹنلز ابھی تک موجود ہیں لیکن ہماری حکومتوں نے جو پل بنائے تھے وہ اس سیلاب میں سارے ٹوٹ گئے ہیں ۔ یعنی اتنے کمزور پل تھے ۔ ایسی نااہلی پرآواز بلند ہونی چاہیے۔ کوئی ایسا کمیشن ہو جواس کو چیک کرے ۔ بہرحال خواص و عوام سے یہی اپیل ہے کہ بہت سے مجبور اور مصیبت زدہ لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہم نے ان کی مدد نہ کی تواگلامعاشی بحران آئے گاجوہم سب کے لیے زیادہ خطرناک ہوگا۔
عامرسعید بھٹی:میںنے جتنا دین کوپڑھاہے اور رسول اللہﷺ کی سیرت سے جوسیکھاہے اس کے مطابق یہ سچ ہے کہ لوگوں کی مدد میں بہت بڑا انعام ہے۔ اس وقت مخیرحضرات کوزیادہ سے زیادہ امداد دینی چاہیے ۔ جس کے پاس صلاحیتیں ہیں اس کواپنی صلاحیتیں متاثرین کی مدد میں لگانی چاہئیں۔ جس کے پاس وقت ہے وہ اپناوقت لگائے۔ جولوگ زکوٰۃ دیتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اس وقت دے دیں کیونکہ اس وقت دکھی انسانیت کو ضرورت ہے ۔بہرحال ہرصورت میں اور ہرایک شخص اپنا حصہ نکالے۔ کپڑا، کھانا،برتن ،جوتے جوکچھ بھی دے سکتا ہے وہ دے۔ہماری تناظیم وہاں کام کرتی ہیں جس میں صلاحیت ہے وہ ہمارا بازو بنے ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025