(دعوت و تحریک) دجّالیت کے آفاقی اور زمینی مظاہر - ڈاکٹر اسرار احمد

8 /

دجّالیت کے آفاقی اور زمینی مظاہر

ڈاکٹر اسرار احمدؒ

(قسط اوّل)

 

تمہیداً عرض کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا بلاشرکت غیرے خالق بھی ہے اور مالک بھی‘حاکم مطلق بھی ہے اور آمر مطلق بھی۔ ارشادِ الٰہی ہے :{اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ ط} (الانعام:57‘ یوسف:40)’’حکم کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے‘‘۔ اور:{وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا(26)}(الکہف) ’’اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔اور:{اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط} (الاعراف:54) ’’خبردار رہو‘ اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے‘‘۔ اگرچہ کسی انسان کے لیے آمر کا لفظ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا‘ انسانوں کے لیے آمریت بری شے ہے‘ لیکن میں جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کے لیے ’’آمر‘‘ کا لفظ استعمال کر رہا ہوں ‘ اس لیے کہ اللہ واقعتاً آمر مطلق ہے۔ جیسے تکبر انسانوں کے لیے اچھی بات نہیں‘ لیکن اللہ کی ذات کو کبریائی کا جامہ زیب دیتا ہے۔ ایک حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ((اَلْکِبْرِیَاءُ رِدَائِیْ))’’تکبر میری چادر ہے۔‘‘
عالم ِخلق اور عالم ِامرکے بارے میں آپ جان چکے ہیں کہ عالم ِ امر میں اللہ تعالیٰ کے احکام آناً فاناً ظہور پذیر ہوتے ہیں‘ ان میں ’’وقت‘‘ کا عنصر قطعاً نہیں ہوتا‘ جبکہ عالم ِخلق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ اس میں کسی کام کے تکمیل پذیر ہونے میں وقت ضرور لگتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق چھ دنوں میں کی ہے۔میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ دن کوئی آفاقی دن تھے۔ انہیں چاہے ’’six ages‘‘ کہا جائے‘ six millenniums کہا جائے یا کچھ اور۔پھر یہ کہ نبوت و رسالت کا آغاز پہلے انسان حضرت آدم ؑسے ہوا‘ لیکن اسے بھی تدریجاً تکمیل کو پہنچنے میں تقریباً سات آٹھ ہزار برس لگے ہیں۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک جیسے جیسے انسان کی ذہنی اور فکری صلاحیتیں نشوونما پاتی گئیں ویسے ویسے ہدایت بڑھتی چلی گئی۔ جیسے جیسے انسانی تمدن میں ارتقاء ہوا، ایسے ہی اللہ کا دین بھی تکمیل کے مراحل سے گزرا‘ یہاں تک کہ حضورﷺ پر آ کر نعمت ہدایت کا اتمام بھی ہو گیااور دین ِ حق کی تکمیل بھی ہو گئی۔ سورۃ المدثر میں فرمایا گیا:{کَلَّا وَالْقَمَرِ(32)}’’ہرگز نہیں‘ قسم ہے چاند کی‘‘۔ رسول اللہﷺ کی آمد سے پہلے دنیا میں جو نورِ ہدایت تھا وہ چاند کے مشابہ تھا اور چاند کی روشنی سورج کی روشنی کا مقابلہ تو نہیں کر سکتی۔ گویا وہ ایک طویل رات تھی جس میں چاند رفتہ رفتہ بڑھ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور نبوت بھی بڑھ رہی تھی۔{وَالَّـیْلِ اِذْ اَدْبَرَ(33)}’’اور (قسم ہے) رات کی جبکہ وہ پلٹتی ہے‘‘۔ یعنی پھر وہ وقت آیا کہ رات رفتہ رفتہ پیٹھ موڑ کر چلتی بنی۔ {وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ(34)}’’اورصبح (کی قسم) جبکہ وہ روشن ہوتی ہے‘‘۔ اب گویا صبح طلوع ہو گئی اور ہدایت کا سورج محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی شکل میں ظاہر ہو گیا۔ یعنی یہ سب کچھ تدریجاًہوا۔ {اِنَّھَا لَاِحْدَی الْـکُبَرِ(35)}’’یہ یقیناً بہت بڑی باتوں میں ہے‘‘۔ {نَذِیْرًا لِّلْبَشَرِ(36)} ’’یہ خبردار کرنا (یعنی بعثت ِمحمدیؐ) تمام انسانوں کے لیے ہے‘‘۔یہ صرف عرب کے لیے نہیں۔ {لِمَنْ شَآءَ مِنْکُمْ اَنْ یَّتَقَدَّمَ اَوْ یَتَاَخَّرَ(37)}’’تم میں سے ہر اُس شخص کے لیے جو آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے رہ جانا چاہے۔‘‘
محمدرسول اللہﷺ نے دین کو کامل اور مکمل شکل میں قائم کر دیا اور وہ تیس برس تک مکمل شکل میں قائم اور نافذ رہا۔ پھر اس کے اندر تدریجاً زوال آنا شروع ہوا۔ جیسے رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا:
(( بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ غَرِیْـبًا فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ)) ’’اسلام کی جب ابتدا ہوئی تھی تو یہ اجنبی تھا‘ اور پھر ویسے ہی اجنبی ہو جائے گا جیسے ابتدا میں تھا۔ پس ایسے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے۔‘‘
اسلام کا آغاز اس حال میں ہوا تھا کہ وہ اجنبی سی شے تھی‘ لوگ اسے پہچانتے نہیں تھے کہ محمد (ﷺ) یہ کیا نئی بات کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ آپ ؐکی بعثت مکّہ مکرمہ میں ہوئی اور وہاں تو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا کوئی حوالہ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیرے تھے اور بالخصوص آخرت کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ نہ کوئی شریعت تھی‘ نہ کوئی قانون تھا اور نہ کوئی کتاب۔ تو انہیں اسلام کی دعوت بڑی عجیب سی بات لگی کہ یہ محمدؐ‘ کیا کہہ رہے ہیں؟ پھر یہ ہوا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو گیا ۔ تو اب چونکہ اسلام غالب ہو گیا اور اسلام کا نظام قائم ہو گیا تو سبھی اس کے جاننے اور پہچاننے والے ہو گئے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی فرما دی کہ عنقریب اسلام پھر اجنبی ہو جائے گا۔ یہ اجنبی ہونے کا عمل خلافت ِ راشدہ کے بعد سے شروع ہو گیا اور مسلسل جاری رہا۔ ساتھ ہی ساتھ تجدید کا عمل بھی جاری رہا۔ ہر صدی کے اندر مجددین اُمت آئے اور رفتہ رفتہ تجدید کا یہ عمل بھی چودہ سو برس میں پورا ہو رہا ہے اور اب دنیا تجدید کامل کے دروازے پر کھڑی ہے۔آپﷺ کے ہاتھوں جو تکمیل دین ہو گئی تھی اسی طرح کی تکمیل دوبارہ ہونی ہے‘ اور اب وہ عالمگیر ہو گی ۔ تو ان سارے معاملات کے اندر ایک تدریج ہے۔
عالم ِخلق میں تدریج قانونِ الٰہی ہے۔ اس میں کوئی کام اچانک نہیں ہوتا‘ بلکہ اس میں وقت لگتا ہے‘ اور وقت کے حوالے سے ہمارے پیمانے بہت چھوٹے ہیں ‘جبکہ اللہ کا پیمانہ بہت بڑا ہے۔ اللہ کا تو ایک دن ہمارے حساب کتاب سے کم از کم ایک ہزار سال کے برابر ہے‘ ورنہ اللہ تعالیٰ کا وہ دن بھی ہے جسے سورۃ المعارج میں پچاس ہزار سال کا کہا گیا ہے۔ بالفاظِ قرآنی:
{تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَـیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ(4)} (المعارج) ’’ملائکہ اور روح اُس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔‘‘
اور یہ جو تخلیقِ کائنات کا عمل میں نے بتایا ہے اس کے لیے لاکھوں کروڑوں سال کا ایک دن ہو سکتا ہے۔ بہرحال اب یہ جو تجدید کامل کی کوششیں ہو رہی ہیں یہ ایک سلسلۃ الذھب (سنہری زنجیر) ہے اور تنظیم اسلامی اس زنجیر کی ایک کڑی ہے۔ہم یہ نہیں سمجھتے کہ ہم کوئی نئی بات لے کر آئے ہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: ((مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ)) ’’(دین وہی ہے) جس پر میں اور میرے صحابہؓ ہیں‘‘۔ رسول اللہﷺ نے اصلی اور کامل شکل کے اندر دین قائم کیا تھا اور اسے اب دوبارہ نافذ کرنا ہے۔ تنظیم اسلامی اسی کام کے لیے قائم ہوئی ہے‘کسی جزوی کام کے لیے نہیں‘ صرف اصلاحی‘ تبلیغی اور تعلیمی کام کے لیے نہیں۔ یہ سارے کام بھی ہوںگے‘ لیکن یہ سب اُس بڑے کام یعنی انقلاب کے رُخ پر ہوں گے ‘تاکہ ایک انقلاب برپا ہو اور پورے کا پورا دین حق قائم ہو جائے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ کوئی بھی قوت‘ کوئی بھی تنظیم‘ کوئی بھی جماعت یا کوئی بھی تحریک اگر اقامت ِدین کی جدّوجُہد کے لیے کوشاں ہے تو اس کے لیے یہ شعور لازم ہے کہ دنیا میں اِس وقت کیا ہو رہا ہے‘ کون کون سی قوتیں برسرکار ہیں اور کون کون سی قوتیں برسرِپیکار ہیں۔ تصادم ہو رہا ہے تو کن کن کے مابین ہو رہا ہے۔ اگر کچھ لوگ یا قوتیںفعال ہیں تو وہ کون کون سی ہیں‘ ان کے مقاصد کیا ہیں‘ ان کا ایجنڈا کیا ہے۔ وہ کیا پیش قدمی کر رہے ہیں۔ پھر خاص طو رپر اپنے ملک میں جہاں آپ کو کام کرنا ہے‘ کون کون سی قوتیں کیا کیا کام کر رہی ہیں۔ تو اس حوالے سے ان لوگوں کے اندر ایک واضح شعور کا ہونا ضروری ہے جو اقامت ِدین کی جدّوجُہد میں اپنے آپ کو شامل کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے ہمیں د و سطحوں پر شعور حاصل کرنا ہو گا۔ ایک عالمی یا آفاقی سطح پر اور دوسرے زمینی سطح پر۔ میں نے آغازِ خطاب میں سورۃ الروم کی آیت 41 کی تلاوت کی ہے: {ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ} ’’فساد نمایاں ہو گیا ہے برمیں بھی اور بحر میں بھی لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ ہماری یہ زمین دو حصوں پر ہی مشتمل ہے‘ یا سمندر ہے یا خشکی ہے ۔ تو اب کوئی حصّہ بھی اس فساد سے خالی نہیں رہا اور یہ ہوا ہے لوگوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے۔ آگے فرمایا:{لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَـعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَo} ’’تاکہ اللہ تعالیٰ مزا چکھائے ان کو اُن کے بعض اعمال کا شاید کہ وہ باز آجا ئیں‘‘۔چنانچہ ایک ہے آفاقی فساد اور ایک ہے زمینی فساد۔
دجّالیت کے آفاقی مظاہر
آفاقی فساد کی تین سطحیں ہیں ۔ بالفاظِ دیگر دجّالیت کے تین آفاقی مظاہر یا تین سطحیں ہیں۔ میں یہ چیزیں کئی بار بیان کر چکا ہوں اور آج ایک اضافے کے ساتھ اس طرف محض اشارات کر رہا ہوں۔ سب سے اونچی سطح ہے سیاسی سطح۔ اس سطح پر فساد یہ ہے کہ سیاسی سطح پر اللہ تعالیٰ کو بے دخل کر دو(معاذ اللہ) -------اللہ حاکم نہیں ہے بلکہ عوام حاکم ہیں۔ عوامی حاکمیت اللہ تعالیٰ کے خلاف سب سے بڑا کلمہ ٔ بغاوت ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے : { اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ ط}اور:{وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا(26)}(الکہف)ایک اورجگہ ارشاد ہے : {اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُھَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُط}(الحشر:23) ’’وہ بادشاہ ہے‘ نہایت مقدّس‘ سراسر سلامتی‘ امن دینے والا‘ نگہبان‘ سب پر غالب‘ اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا اور بڑا ہو کر رہنے والا۔‘‘ لیکن دجّالیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ریاست سے‘سیاست سے‘ حکومت سے‘ قانون سے بے دخل کر دو۔ ریاست کا کسی مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے‘ مذہب صرف انفرادی معاملہ ہے۔چاہے مسجدوں میں جا کر نماز پڑھو‘ رکوع و سجود کرو‘ چاہے مندروں میں جا کر بتوں کے سامنے ڈنڈوت کرو۔ تم اپنے چرچز ‘ سینیگالزاور گردواروں میں جانے کے لیے آزاد ہو‘ لیکن حاکمیت عوام کی ہو گی۔ یہی سیکولرازم ہے کہ دستور و قانون کا کوئی تعلق کسی مذہب‘ کسی آسمانی ہدایت کے ساتھ نہیں‘ وہ ہم خود بنائیں گے۔ یہ فساد بمعنی بغاوت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے خلاف سب سے بڑی بغاوت ہے‘ جس کا نام ہے عوامی حاکمیت اور سیکولرازم۔
آفاقی فساد یا دجّالیت کی دوسری سطح معاشی ہے اوریہ بھی یونیورسل ہے۔ اِس وقت دنیا کا پورا معاشی نظام سود اور جوئے پر مبنی ہے‘جبکہ ازروئے قرآن یہ بدترین گناہ ہے‘ سود سے بڑاجرم کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر سود سے باز نہیںآتے ہو تو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ دوسری چیز جوا ہے۔ آج تمام کاروبار اور فنانس مارکیٹ جوئے پر مبنی ہے‘ سٹاک ایکسچینج میں بھی جوا ہے۔ معاشی سطح پر مزید دو چیزیں قحبہ گری اور منشیات بھی شامل ہیں ۔آج کی دنیا میں سیکس بھی جائز ذریعۂ آمدنی ہے‘ قحبہ گری یا عصمت فروشی (prostitution)کوئی حرام یا بُری شے نہیں‘ اور یواین او کی سفارشات یہ ہیں کہ اس دھندے میں ملوث عورتوں کوعصمت فروش بھی نہ کہا جائے‘بلکہ انہیں سیکس ورکر کہا جائے۔ ایسے ہی نشہ آور چیزیں بنانا اور بیچنا سب جائز ہے۔ تو یہ چار چیزیں ہو گئیں‘ سود‘ جوا‘ فحاشی اورمنشیات۔
تیسری سطح سماجی ہے کہ شرم و حیا اور عفت و عصمت کے تصورات سب دقیانوسی باتیں ہیں۔ آزاد جنسی تعلقات استوار کرنے میں کوئی حرج نہیںہے۔ عورت اپنے حسن کی نمائش جس طرح چاہے کرے‘ اسے روکنے والے تم کون ہوتے ہو؟ اسی وجہ سے آج آپ کو سڑکوں پر نیم عریاں جوان لڑکیاں تھرکتی ہوئی چلتی نظر آتی ہیں۔ یہ تیسری چیز یعنی شرم و حیا اور عفت و عصمت کے خاتمے کی وبا ہمارے ہاں ابھی اتنی نہیں آئی ہے۔ ابھی عالم ِاسلام پوری طرح اس کے دھارے میںنہیں آ سکا۔ ہمارا ایلیٹ طبقہ جو بالکل مغرب پرست ہے ‘ وہاں پرتو یہ چیزیں آ گئی ہیں ‘ لیکن عمومی طور پر نہیں آئیں۔ اس لیے اس وقت اس پر بہت زور لگ رہا ہے۔ این جی اوز کو اس مقصد کے لیے اربوں ڈالر دیے جا رہے ہیں کہ یہ جوشرم و حیا اور عفت و عصمت کے تصورات اور خاندانی نظام ابھی عالم ِ اسلام کے اندر موجود ہے‘ اسے ختم کرناہے۔ ہنٹنگٹننے 1996ء میں جوکتاب لکھی تھی: Clash of Civilizations (تہذیبی تصادم) تو اس میں اُس نے یہی لکھا ہے کہ مسلم تہذیب ہمارے اندر مدغم نہیں ہو رہی‘ یہ ہمارے لیے لوہے کا چنا ثابت ہو رہی ہے‘ ہم اسے اپنے اندر جذب (assimilate) نہیں کر پا رہے۔ لہٰذا اس کے لیے بہت زور لگایاجا رہا ہے ۔ عورتوں کی مکمل آزادی اور ان کے مَردوں کے برابر حقوق کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایک آرڈیننس پاس ہوا ہے اور قانون بن گیا ہے کہ جب تک زنا کے چار عینی گواہ مجسٹریٹ کے سامنے جاکر گواہی نہ دے دیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے زنا ہوتے دیکھا ہے تب تک زنا کا پرچہ ہی درج نہیں ہو گا اور اس سلسلے میں کوئی تفتیش نہیں ہو گی۔ یہ سب اس لیے کیا گیا ہے تاکہ عورت کو اس خوف سے آزاد کر دیا جائے کہ اگر وہ اس کام میں پکڑی گئی تو سزا ہو جائے گی۔(جاری ہے)
(14 نومبر 2008ء کے خطاب جمعہ سےماخوذ)