(منبرو محراب) تنظیم اسلامی کی انسداد سود مہم اور متاثرین سیلاب کی مدد - ابو ابراہیم

8 /


تنظیم اسلامی کی انسداد سود مہم اور متاثرین سیلاب کی مدد

(قرآن و حدیث کی روشنی میں)


مسجد جامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہورمیں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے2ستمبر 2022ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام سود کے خلاف تین ہفتوں پر مشتمل مہم کے دوران ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ سود کی حرمت اور ممانعت کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ لٹریچر سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کے ذریعے عام کیا جائے ۔ سود کی شناعت اور تباہ کاریوں کے حوالے سے قرآن و حدیث میں جو احکامات اور تفصیلات آئی ہیں ان کو ہم نے ہر سطح پر عام کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے ساتھ ہم نے ملکی معاشی معاملات کے حوالے سے بھی توجہ دلانے کی کوشش کی۔ اتنی بڑی تباہی جوسود کے نظام کو جاری رکھنے کی وجہ سے ہے اسی کاتسلسل ہے کہ آج ہمارے پاس ملکی سطح پر معاملات کوچلانے کے لیے وسائل ہی دستیاب نہیںہیں۔ ہماری وفاقی حکومت نے 2022-23ء کے لیے 9500ارب روپے کا سالانہ بجٹ پیش کیا ہے۔ اس میں سے تقریباً4000ارب روپے تو صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں ان چار ہزار ارب روپے میں سے بھی ساڑھے تین ہزار ارب روپے اندرون ملک قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے ہے جبکہ تقریباً پانچ سو ارب روپے بیرونی قرضوں کی مد میں ادا کیے جائیں گے۔ علاوہ ازیں اقتصادی سال2021-22کے پہلے7ماہ کے دوران ملکی قرضہ تقریباً44کھرب روپے بڑھ گیا جس کی وجہ سے کم وبیش 2500ارب روپے کا اضافی سود واجب الادا ہو گیا۔ گویا گزشتہ اور حالیہ عرصہ کے دوران قرضوں پر سود کی ادائیگی پر تقریباً 6500ارب روپے خرچ ہو گا۔ اس کے بعدجو پیسہ بچے گا اس میں سے8سوارب روپیہ ترقیاتی پراجیکٹس، 157 ارب روپیہ تعلیم اور 57ارب روپیہ صحت کے لیے مختص ہوا ہے۔اس بجٹ کوسامنے رکھیں اور سوچیں کہ قوم کا سارا پیسہ کہاں جارہا ہے ؟ کیا سود اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد ہمارا پاس اتنا پیسہ بچتاہے کہ ہم اس میں ڈیم بنا سکیں یا سیلاب سے متاثرہ آبادیوں کو منتقل کر سکیں ؟یعنی کہ ہماری قوم تعمیر و ترقی کا سارا عمل اس سود کی وجہ سے رکا ہوا ہے بلکہ بڑھتا ہوا یہ سود ہمیں تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے جیسا کہ اللہ فرماتاہے :{فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ج } (البقرۃ:279) ’’ خبردار ہو جائو کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔‘‘
کم ازکم اب تو ہمیں سمجھ آجانی چاہیے ۔سورۃالبقرۃ میں کہاگیا:{یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط} (البقرۃ:276) ’’اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’سود کالازمی انجام تباہی وبربادی کے سود کچھ نہیں ۔‘‘
اس تناظر میں دیکھیں توسود کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ ہم کررہے ہیں ۔یہ سود ی نظام کو جاری رکھنے کا نتیجہ ہے ۔لیکن اس کے باوجود قومی اور ریاستی سطح پر اللہ اور اس کے رسول ﷺسے جنگ ختم کرنے کو تیار نہیں ہیں؟حالانکہ آج سے اکتیس سال پہلے وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو سودی نظام ختم کرنے کی ہدایت کی تھی ۔ اس کے بعد 1999 میں دوبارہ فیصلہ آیا ، پھر 2022ء میں فیصلہ آیا لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ ختم کرنے کی بجائے ہم ڈھٹائی کے ساتھ اس کو جاری رکھنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ حالیہ فیصلے کے بعد بھی سٹیٹ بنک سپریم کورٹ میں اپیل لے کرگیاہواہے۔حالانکہ واضح ہو چکا کہ اس جنگ میں سراسر تباہی ہماری ہی ہونی ہے اور ہو رہی ہے۔ آج اتنی بڑی ناگہانی آفت بھی ہم پر آچکی ہے لیکن ہم کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ بالخصوص ہمارا حکمران طبقہ اشرافیہ اور حکومتی ادارے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں ڈھائی تین لاکھ کا مقروض بچہ پید اہورہاہے اورہم غلام در غلام بنتے جارہے ہیں۔اس کے بعد بھی ہم کون سی تباہی کے منتظر ہیں کہ جس کے بعد ہمیں بات سمجھ میں آئے گی ۔ جب اللہ کہہ دیتاہے کہ مجھ سے اور میرے رسول ﷺ سے جنگ کے لیے تیار ہوجائو تواس سے بڑی تھرٹ ایک مومن کے لیے کیاہوسکتی ہے ۔ اللہ ہمیں ہدایت عطا فرمائے ۔
سود کی تباہ کاریاں
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت ملک کا ایک بڑا حصہ زیرآب آچکا ہے اور کروڑوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ فوری متاثرین میں تو وہ ہیں جوبے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پرمجبور ہو چکے ہیں لیکن باقی ساری قوم بھی اس تباہی سے متاثر ہوگی کیونکہ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں جس کا لازمی نتیجہ بہت زیادہ مہنگائی کی صورت میں نکلے گا۔ پھرسیلاب متاثرین کوسیٹل کرنے کے لیے جو وسائل ملکی سطح پر درکا رہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں، ان کی فراہمی کے لیے جوکچھ کرناپڑے گایقینا ًاس کا اثر ہم پربھی پڑے گا۔
عذاب ، آزمائش یا نااہلی
2005ء کازلزلہ ہویا2010 ء کا سیلاب ہویہ بحث مستقل چلتی رہتی ہے کہ آیا یہ عذاب ہے ، آزمائش ہے، یا ہماری نااہلی ہے ۔ ہمارے سیکولر حضرات کا مؤقف ہے کہ یہ فزیکل معاملہ ہی توہے، بارشیں توآجایاکرتی ہیں، سیلاب بھی آجایاکرتے ہیںلیکن دوسری طرف سے یہ بحث بھی چلتی ہے کہ یہ صرفPhysical phenomena ہی نہیںہوتا بلکہ اس کی میٹافزیکل کازز بھی ہوا کرتی ہیں ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بعض سیکولر ذہن رکھنے والے لوگوں کی طرف سے اٹھنے والے ان اعتراضات کاجواب دیا جائے ۔ اس نکتہ پربھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔تیسرا طبقہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ ہمارا گورننس کانظام ٹھیک نہیں، ہمارے سیاستدان اکثر کرپٹ ہیں ، انہوں نے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے اور آفات سے بچنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے وسائل کا صحیح طور پر استعمال کیا ۔ کرپشن کی وجہ سے قوم کا پیسہ ضائع ہو گیا اور اب حالت یہ ہے کہ ہم ڈیمز بنانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں ۔ لہٰذا اصل مسئلہ ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کاہے جس کی وجہ سے ہمیں یہ سب کچھ بھگتنا پڑتاہے ۔ ایک درجے میںیہ بات بھی اپنی جگہ درست ہوگی۔
ایک دینی نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں بھی آیاکرتی ہیں،کبھی اللہ کی طرف سے تنبیہات بھی آتی ہیں ،کبھی اللہ تعالیٰ لوگوں کوامتحانات میں بھی مبتلا کرتاہے ۔ بہرحال یہ دوتین قسم کی گفتگو ہمارے ہاںمستقل چلتی آئی ہے ۔ ان تمام معاملات کو دیکھیں تویہ اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ کئی مرتبہ ہم پرمصیبتیںہمارے کرتوتوںکی وجہ سے بھی آتی ہیںاورپھر اگر بیڈ گورننس ہوگی تواس کانتیجہ بھی بُرا ہی ہمارے سامنے آئے گا۔ اس میں دورائے نہیں ہیں۔ قرآن پاک بھی گناہوں اور دیگر اعتبارات سے کہتاہے :
{وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ (30)}(الشوریٰ)’’اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ درحقیقت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی(اعمال) کے سبب آتی ہے اور (تمہاری خطائوں میں سے) اکثر کو تو وہ معاف بھی کر تا رہتا ہے۔‘‘
پھر اللہ کاایک قانون بھی ہے کہ جب اللہ نے قوموں کی طرف انبیاء ورسل کوبھیجا ہے تواللہ نے قوموں کوسختیوں میںمبتلا کیاہے ۔ اس میں حکمت ہوا کرتی ہے۔سورۃ الاعراف میں فرمایا:
{وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَہْلَہَا بِالْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُوْنَ(94)} ’’اور ہم نے نہیں بھیجا کسی بھی بستی میں کسی بھی نبی کو مگر یہ کہ ہم نے پکڑا اُس کے بسنے والوںکو سختیوں سے اور تکلیفوں سے تا کہ وہ گڑ گڑائیں ( اور ان میں عاجزی پیدا ہو جائے )۔‘‘
قرآن پاک یہ بھی بتاتاہے کہ جب قوموں کے کردار میں بگاڑ پیدا ہواجس کو ہم میٹافزیکل کازز کہیںگے تواللہ تعالیٰ نے ان قوموں کوہلاک بھی کیا،اس صورت میں بھی زلزلے آتے ہیں ۔Physical phenomena بھی ہوتاہے اس کی نفی نہیں ہے ،طوفانی بارشیں بھی ہوجایاکرتی ہیں لیکن یادر رہے کہ زلزلہ شعیب علیہ السلام کی قوم پربھی آیاتھا،آپؑ کی قوم پرشعلے بھی برسائے گئے تھے ۔یہ قوم شرک کے ساتھ ساتھ ناپ تول کی کمی کے جرم میںبھی مبتلاتھی تواللہ نے اس کو عذاب میں مبتلا کیا ۔لوط علیہ السلام کی قوم ہم جنس پرستی کے گندے میںمرض میں مبتلا تھی تواللہ تعالیٰ نے اس پر پتھروں کی بارش بھی برسائی ، ان کواندھا بھی کیا،ان کی بستی کو پٹخ بھی دیااورانہیں بحیرہ مردار میں غرق کرکے نشان عبرت بنادیا۔اسی طرح نوح علیہ السلام کی قوم اور آل فرعون کوغرق کیاگیا۔ان تمام قوموں کو پرکبھی شرک کی وجہ سے ،کبھی سیاسی معاملات میںبگاڑ کی وجہ سے ،کبھی معاشی معاملات میں بگاڑ کی وجہ سے اورکبھی معاشرتی بگاڑ کی وجہ سے عذاب استیصال آئے۔ ان عذابوںسے پہلے اللہ نے ان قوموں کو آزمائشوں میں مبتلا کیاتاکہ وہ لوگ اللہ کی طرف لوٹیں۔ سورۃالروم میں فرمایا:
{ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا } ’’بحر و بر میں فساد رونما چکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب تا کہ وہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا۔‘‘
حکمت کیاہے؟
{لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَo} ’’تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘
عین ممکن ہے کہ جانے والاچلاگیا باقی تواللہ کی طرف رجوع کریں ۔ ا س انداز سے دیکھیں توکبھی فزیکل فنومنا بھی ہو ا کرتا ہے ۔ زمین پرتبدیلیاں آتی ہیںکوئی حرج نہیں لیکن یہ یادر ہے کہ ہم ان فزیکل لاء ز کے پابند ہیں لیکن اللہ کسی فزیکل لاء کاپابند نہیں ہے ۔
ایک سوال یہ ہوتاہے کہ اس طرح کے حادثات میں غریب ہی مرتے ہیں ،امیر تونہیں مرتے۔ یہ جملہ تھوڑا بے باکی والا ہے ۔کیاجن کی فصلیں تباہ ہوگئیں وہ غریب لوگ ہوں گے ؟جن کے ہوٹلز گرگئے ہیں کیاوہ غریب لوگ ہوں گے ؟پھریہ بھی کہاجاتاہے کہ اس کے اندر نیک لوگ بھی چلے گئے ہوں گے ؟یہ بڑا قیمتی سوال ہے ۔ اہل علم نے اس کے جوابات دیے ہیںاورا حادیث مبارکہ میں ذکر ہے ۔ رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا: ایسی ناگہانی کیفیات میں دنیا سے جانے والا ایک درجے میں شہید کارتبہ پاتاہے۔ جوشخص ڈوب کرمرگیا، کسی وبائی مرض میں مرگیا، ایک خاتوں حالت حمل میں یابچے کوجنم دیتے ہوئے انتقال کرگئی، کوئی آگ میں جل کرانتقال کرگیاتو اس صورت میں اسے ایک درجے میں شہید کا رُتبہ ملے گا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ ایسے معاملات میں ہرایک جا رہاہو گالیکن ہرشخص قیامت کے دن جب کھڑاہوگاتواپنی اپنی نیت ،اپنے اپنے عقیدے اوراپنے اپنے عمل پراللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوگا۔
جہاںتک اللہ کے عذاب کامعاملہ ہے توپچھلی نافرمان قومیں اس میں مٹا دی جاتی تھیںلیکن رسول اللہ ﷺ نے اس امت کے بارے میں فرمادیا ہے کہ ایسے نہیں کہ ساری کی ساری امت مٹا دی جائے مگر یہ چھوٹے چھوٹے عذابوں کاآنااور لوگوںکے اوپر مسلط کیاجانااس کے امکانات توموجود ہیں۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
سبق
علمی بحثیں اپنی جگہ ہیں لیکن ہمارے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس سے کچھ سبق سیکھا ، کیا ہمارے دل نرم ہوئے ، کیا ہم نے اللہ کی طرف رجوع کیا ؟ کیا ہمارے دلوں میں خوف خدا پیدا ہوا ؟ہماری اکثریت جو گھروں میں بیٹھی ہے وہ تصاویر اورویڈیوز فاروڈ کررہے ہیں ۔ حکمرانوں اور اپوزیشن کی نااہلیوںپرتبصرے ہورہے ہیں۔بالکل ان کی نااہلیاں ہیں کیونکہ ان کو قوم کے مقابلے میںاپنی کرسی اوراقتدار والے معاملات زیادہ عزیز ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ شیئرز کرکے ہمیں کیافائدہ حاصل ہورہاہے ؟کیااتناوقت ہم نے اللہ کی طرف رجوع کرنے میں لگایا ہے ؟اللہ کہتاہے :
{لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(41)} ’’تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘
{لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُوْنَ(94)} ’’تا کہ وہ گڑگرائیں (ان کے اندر عاجزی پیدا ہو جائے۔‘‘
{تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًاط}(التحریم:8) ’’اے اہل ایمان! توبہ کرو اللہ کی جناب میں خالص توبہ۔‘‘
ہم نے یہ مملکت خداداد پاکستان حاصل کی۔ اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔ بقیہ مسلم ممالک کے مقابلے میں اس کامعاملہ بالکل علیحدہ ہے اس کے باوجود ہم سنبھل کے اور سدھر کے نہیں دے رہے ۔اللہ کبھی زلزلے ، سیلاب اور کبھی معاشی مسائل لے کر آرہاہے مگر اجتماعی طور پر ہم رجوع کے لیے تیار نہیں۔ ایک انفرادی سطح کا معاملہ ہے کہ ہمیں ذاتی طور پر گناہوں ، نافرمانیوں کو چھوڑنا پڑے گا ۔ یہ تو ہم کر سکتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے لیکن جہاں اجتماعی بغاوت اور سرکشی ہے وہاںتوبہ بھی اجتماعی سطح پر کرنا ہوگی اور اللہ کی طرف رجوع بھی اجتماعی سطح پر کرنا ہوگا ۔ ہمارا معاملہ باقی تمام دنیاکے مسلمانوں سے الگ ہے ۔ انہوں نے اپنی ریاستیں زبان ، علاقہ اور نسل کی بنیاد پر قائم کیں ۔ جیسے مملکتہ السعودیہ العربیہ ۔ لہٰذاہمیںکسی دوسرے اسلامی ملک سے کوئی شکوہ نہیںہے کیونکہ انہوں نے دعویٰ ہی نہیںکیاکہ وہ اسلام کے نام پر بنے۔لیکن ہم نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم اسلامی ہیں ۔دعویٰ ہم نے کیا توفرض ہمارا بھی پہلا ہے اور اگر وہ فرض ہم ادا نہیںکررہے تو اس طرح کی آزمائشوں کے معاملات ہمارے ساتھ ہی زیادہ ہوںگے ۔ یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ہم نے یہ ملک اس وعدے پر لیا تھا کہ اے اللہ ! یہاں تیرے حکم کی اور تیرے رسول ﷺ کی سنت کی بالا دستی ہوگی ۔ آج ہم سینہ ٹھوک کرکہہ رہے ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف سود کی شکل میں جنگ جاری رکھیں گے ، بے حیائی نہیں چھوڑیں گے ، فلمیں ،گانے ،ڈرامے ، تھیٹر سب چلتا رہے گا، حتیٰ کہ حکومتی سطح پر 14اگست کی تقریب میں بے حیائی اور فحاشی دکھا کر ہم نے اعلان کر دیا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بغاوت ہم نہیں چھوڑیں گے ۔ یہ سرکشیاں او ربغاوتیں ہم اگر کریں گے تو پھر بتائیے ہمارے حالات سدھریں گے یا بگڑیں گے ؟ آج قوم کویہ بات سمجھ نہیں آرہی ۔
انسداد سود مہم تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے چل رہی ہے اس کوہم جاری رکھیںگے ۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سیلاب کی تباہی بھی سود ی نظام کوجاری رکھنے کی وجہ سے ہے ۔بہرحال عرض کرنے کا مطلب ہے کہ ؎
اپنی امت پرقیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ
ہمیںرجوع الی اللہ اور توبہ کی ضرورت ہے ۔ اور اصل توبہ کیاہے ؟گناہوںکو چھوڑنا۔ اوراجتماعی گناہ ہمارا کیاہے کہ ہم نے شریعت کونافذ نہیںکیا۔اب اجتماعی توبہ یہ ہوگی کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ ختم کرنا ہوگی ، ہمیں شریعت کے نفاذ کے لیے کھڑا ہونا ہوگا ۔ یہ ہماری اصل توبہ ہوگی ۔ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے ہم نے توبہ کی پکار کاذکر کئی مرتبہ کیا،اس پربھی ہم نے مہمات چلائیں۔ اسی لیے آج ہم خطاب جمعہ میںبھی اس پرکلام کر رہے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ قوم کوتوبہ کی دعوت دی جائے، اور لوگوںکے دلوں میںنرمی پیدا کی جائے ۔یہ وقت ہے کہ ہمارے اندراحساس زیاں پیدا ہو۔ یہ وقت ہے کہ اللہ کے سامنے رجوع کیاجائے ،اس کے سامنے گڑگڑایاجائے ،اللہ سے مانگا جائے اور اپنے گناہوں سے باز آنے کی کوشش کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔
سیلاب زدگان کی مدد
اس وقت قوم پر بہت بڑی آزمائش ہے ۔ لاکھوں مسلمان بھائی اس وقت بے گھر اور بے سروسامان ہیں ، اُن کے پاس کھانے کو خوراک اور پینے کو صاف پانی تک نہیں ہے ۔ ہم روزہ رکھتے ہیں تو ہمیں بھوک کی شدت کا احساس ہوتاہے ، اسی طرح متاثرین سیلاب کے دکھ درد کو وہی سمجھ سکتاہے جو ان حالات سے گزر رہا ہے ۔ پوری قوم کو اس وقت متاثرین کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کی بھرپور مدد کرنی چاہیے ۔ ہم تنظیم اسلام کے پلیٹ فارم سے یہ دعوت دے رہے ہیںکیونکہ ہم سب (انماالمومنون اخوۃ) کے مصداق بھائی بھائی ہے۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہوتوسارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ہمارے اسلام،ایمان اور اسلامی رشتے کاتقاضا ہے کہ ان کی تکلیف کو ہم اپنی تکلیف محسوس کریںاور جو ہمارے بس میںہے وہ ہم کرڈالیں ۔ رسول اللہﷺ نے ترغیب دلائی کہ تم آج کسی کی تکلیف کودور کرتے ہواللہ تعالیٰ تمہاری قیامت کی تکلیفوںمیں سے کسی تکلیف کودور کرے گا۔ بخاری شریف کی حدیث ہے ۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی حاجت کو پورا کرنے میں لگا رہتاہے تب تک اللہ تعالیٰ ایسے بندے کی حاجت کو پورا کرنے میں لگار ہتاہے ۔ اسی طرح اللہ کے رسولﷺ نے یہ بھی فرمایاکہ جس نے اپنے مسلمان بھائی کو ایسے مقام پر چھوڑ دیاجہاں اس کومدد کی ضرورت تھی اوراس نے اس کی مدد نہیں کی اللہ اسے اس دن چھوڑ دے گاجب اس کو مدد کی ضرورت ہوگی ۔
تنظیم اسلامی میں’’قدرتی آفات فنڈ‘‘ قائم ہے ۔
رفقائے تنظیم خاص طور پر اس کواپنادینی فریضہ سمجھ کر اس میں اپناحصہ ڈالیں اورپھرتنظیمی نظم کے تحت پاکستان بھرمیں متاثرین تک امداد پہنچانے کی کوشش کریں ۔ اس کابڑا حصہ کیش کی صورت میں ہے تاکہ ان کی اصل ضروریات کو پورا کیاجاسکے۔ فوری ضروریات میں خوراک ، کپڑے اور دوائیاں شامل ہیں لیکن اس کے بعد جن کا گھر ختم ہو چکا ہے وہ کیا کریں گے ۔ لہٰذا یہ مستقل کرنے والاکام ہے ۔ تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہم یہ کام کررہے ہیں۔ اس میں پوری قوم کو اپناحصہ ڈالنا چاہیے، یہ صرف دوچار جماعتوں کے کرنے کا کام نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں مزید توفیق عطا فرمائے ۔آمین !
انسانی حقوق کی تنظیمیں جو ہر ایشو پر دنیا بھر میں شور مچاتی کھڑی ہو جاتی ہیں ان کی اکثریت اس وقت نظر نہیں آرہی اور نہ نظر آئیں گی کیونکہ ان کا ایجنڈا مختلف ہوتاہے ۔ لیکن الحمدللہ دینی مدارس،دینی جماعتوں اور دینی اداروں کے لوگ اس جدوجہد میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اس وقت کوئی سیاسی سکورنگ کامسئلہ نہیں ہے بلکہ اپنے فرض کوا دا کرنے کامسئلہ ہے ۔ جس کاجہاں اعتماد ہے وہاں وہ اپناحصہ ڈالے تاکہ کل اللہ کے سامنے جواب دے سکے۔اس موقع پرکوشش کریں کہ اپنے بچوں کی تربیت کریں ۔ہمیں مغرب سے انسانی حقوق سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارا رب ہمیںایمان اورانسانی رشتے سے جوڑتاہے اوررسول ﷺ کی احادیث ہمارے سامنے ہیں، ان کو سامنے رکھ کرہم اپناکردار ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !