(اداریہ) 7 ستمبر - ایوب بیگ مرزا

8 /

اداریہ

ایوب بیگ مرزا

7 ستمبر

7 ستمبر 1965ء ایک ایسا تاریخی دن ہے جس دن ایک طرف ہمارے شاہینوں نے پاک فضاؤں کو نہ صرف دشمن کی جارحیت سے محفوظ بنا لیا بلکہ دشمن کی سرزمین میں گھس کر دشمن کے ایئربیس میں کھڑے جنگی طیاروں کو تباہ و برباد کر دیا۔ اسی جنگ میں وہ عالمی ریکارڈ بھی قائم ہوا تھا کہ ایم ایم عالم نے چشم زد ن میں دشمن کے پانچ طیارے فضا میں نشانہ بنائے اور اُن کی راکھ زمین پر آگری۔ اس حملےنے دشمن کی فضائی قوت کی کمر توڑ دی اور ہماری سرزمین کے ساتھ ساتھ ہماری فضائیں بھی محفوظ ہوگئیں۔ دوسری طرف نو سال بعد 7 ستمبر ہی کو پاکستان نے ایک ایسا تاریخ ساز فیصلہ کیا جس نے اس مملکت خداداد کی نظریاتی سرحدوں کے گرد ایک انتہائی مضبوط حصار قائم کر دیا اور وہ تھا ختم نبوت پر آئینی اور قانونی مہر ثبت کر دینا۔ گویا ایک پاکستانی مسلمان جو پہلے صرف شرعی طور پر تسلیم کرتا تھا اور یہ اُس کے ایمان کا جزوِ لاینفک ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اب آئین ِپاکستان کے مطابق بھی اُس کا حضور ﷺ کی اس حیثیت کو تسلیم کرنا لازم ہوگیا۔ کیونکہ پاکستان کی پارلیمان نے بھی آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے اور اُسے تسلیم کرنے کو کفر قرار دے دیا۔ لہٰذا پاکستان کا مطلب کیالا الٰہ الا اللہ کے ساتھ محمد الرسول ﷺ کو جوڑ دیا گیا یعنی ریاست پاکستان نے نظریاتی سطح پر کلمہ طیبہ مکمل طور پر پڑھ لیا اور وہ ایک گروہ جو مرزا غلام احمد کو نبی یا مجدد مانتا تھا اور مسلمانوں کا حصہ بھی بنا ہوا تھا اُسے اعلانیہ طور پر خود سے کاٹ کر الگ کر دیا۔ اس سے پہلے کہ ہم قادیانیوں کو الگ کرنے کی تفصیل عرض کریں ہم قارئین کو تاریخی طور پر یہ بتانا چاہیں گے کہ اس ناسور نے برصغیر میں کیوں اور کیسے جنم لیا تھا۔
برصغیر میں مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود ایک طویل عرصہ سے ہندوستان پر حکومت کر رہے تھے اور ہندو اکثریت اُن کی رعایا کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہی تھی۔ بالفاظِ دیگر مسلمان حکمران تھے اور ہندو محکوم، مختلف مسلمان خاندانوں نے ہندوستان پر حکومت کی جن میں آخری مغلیہ خاندان تھا جن کا شجرہ نسب ترکانِ تیموری کے ساتھ ملتا تھا۔ اورنگزیب کے جانشین نااہل ثابت ہوئے جس سے ہندوستان کی مرکزی حکومت انتہائی کمزور ہو چکی تھی، جگہ جگہ شورشیں اور بغاوتیں جنم لے رہی تھیں اور مختلف علاقائی حکومتیں وجود میں آچکی تھیں۔ یورپ اس وقت سائنسی ترقی کی بدولت صنعتی دوڑ میں داخل ہو رہا تھا اور ترقی و خوشحالی کی منازل بڑی تیزی سے طے کر رہا تھا۔ ہندوستان کی اتنی کمزور حالت دیکھ کر انگریزوں، فرانسیسیوں اور ولندیزیوں نے ہندوستان جو اناج کے حوالے سے سونے کی چڑیا کی حیثیت رکھتا تھا، پر قبضہ کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ انگریز اس کوشش میں کامیاب ہوگئے اور اُنہوں نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ انگریز کے ہندوستان پر قبضہ کرنے سے مسلمانوں کی بادشاہت اور حکمرانی جاتی رہی جبکہ ہندو کی حیثیت جوں کی توں رہی۔ وہ پہلے مسلمانوں کا غلام تھا اب نئی صورت حال میں وہ انگریزوں کا غلام ہوگیا۔ جہاد چونکہ ایمان کا ایک اہم رکن ہے جو مسلمان عوام کے جذبۂ عمل کو ابھارنے کے لیے ایک مثبت مہمیز کی حیثیت رکھتا ہے۔چنانچہ علماء کرام جب مسلمان عوام کے جذبہ جہاد کو ابھارتے تھے تو انگریزوں کے لیے مسائل پیدا ہوتے تھے۔ مرزا غلام احمد قادیانی گمراہی میں غرق ہونے سے پہلے علماء میں ایک اچھا مقام رکھتا تھا۔ اُس نے عیسائی مشنر یوں کو کئی مناظروں میں زبردست شکست دی تھی اور اس حوالہ سے مسلمانوں میں کافی مقبولیت حاصل کی تھی۔ یہ شہرت اسے راس نہ آئی اور ظرف کی کمی کے باعث وہ تکبر میں مبتلا ہو کر شیطان کا آسان شکار بنتا چلا گیا۔ انگریزوں نے مرزا غلام احمد پر کام شروع کیا اور مختلف ترغیبات اور لالچ دے کر اُسے راضی کر لیا کہ وہ فتویٰ دے کہ آج کے دور میں اسلام میں جہاد معطل ہو چکا ہے۔ خصوصاً اس صورت میں کہ حکمران مسلمانوں کے نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے میں رکاوٹ نہ بن رہے ہوں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کی گمراہی کا آغاز جہاد کے خلاف تقاریر اور تحریروں سے ہوا۔ اُس کی یہ گمراہی اس حد تک بڑھ گئی کہ اُس نے یہ شاعرانہ ہرزہ سرائی بھی کی۔
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال
جبکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ بار بار مسلمانوں کو برائی اور باطل کے خلاف جہاد کا حکم دیتا ہے۔ پھر یہ کہ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک جہاد کا فریضہ ادا کرتی رہے گی۔ بہرحال انگریزوں نے اُس کی بھرپور مدد کی تو اس کی اس گمراہی نے اسے کئی نئی راہیں دکھلائیں، کبھی مسیح موعود ہونے کادعویٰ کیا، کبھی نبوت کا دعویٰ کیا، کبھی خود کو حضور ﷺ کی ذات کا تسلسل قرار دیا اور کبھی معاذ اللہ محمد ﷺ ہونے کا دعویٰ کیا اور کبھی بروزی نبوت کا دعویٰ کیا۔ مرزا غلام احمد کا جھوٹ اُس کے ایک جگہ کھڑے ہونے اور کوئی ایک مضبوط مؤقف قائم کرنے میں رکاوٹ تھا۔ اس کے پیروکار دین سے عدم واقفیت اور ناسمجھی کی وجہ سے اس کے دعوؤں کو تسلیم کرتے چلے گئے۔ انہوں نے خود کو اصل مسلمان سمجھنا اور پوری امت محمدیہ ؀ﷺ کو گمراہ اور کافر خیال کرنا شروع کر دیا۔ واضح رہے کہ قادیانی‘ مسلمانوں سے کبھی مخلص نہ تھے۔ پہلے پاکستان کے قیام کے خلاف سازشیں کرتے رہے اور بعد ازاں اُنہوں نے پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ اُنہوں نے اپنا ایک آفس تل ابیب میں کھول رکھا ہے تاکہ یہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرسکیں۔
مسلمانوں نے پاکستان بنتے ہی انہیں اقلیت قرار دینے کی پُر امن جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا۔ 1953ء میں یہ ایک ملگ گیر تحریک کی صورت اختیار کر گئی، جسے تشدد اورجبر سے دبایا گیا۔ لیکن شہیدوں کا لہو رنگ لایا، 1974ء میں قادیانیوں کے خلاف ایک پُر امن تحریک چلی جسے ابتدا میں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے دبانے کی کوشش کی لیکن بعدازاں اُنہوں نے درست فیصلہ کرتے ہوئے یہ مسئلہ قومی اسمبلی کے حوالے کر دیا۔ اسمبلی میں اس وقت قادیانی لیڈر مرزا ناصر محمود کو اپنا مؤقف پیش کرنے اور اس کا دفاع کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا۔ مرزا ناصر محمود سے پوچھا گیا کہ تم مرزا غلام احمد قادیانی کو کیا سمجھتے ہو تو اُس نے صاف صاف کہا کہ ہم اُسے نبی مانتے ہیں۔ اس سے پوچھا گیا کہ جو اُسے نبی نہیں مانتے اُنہیں آپ کیا سمجھتے ہیں، تو اسے بالآخر یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ہم انہیں کافر سمجھتے ہیں۔ گویا تمام مسلمانان جو نبی اکرم ﷺ کی رسالت اور ختم نبوت کو جزوِ ایمان سمجھتے ہیں،اور مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتے بلکہ کاذب سمجھتے ہیںوہ سب ان کی نگاہ میں کافر ہیں۔ اُن کے اس جواب پر اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔یہ 7ستمبر 1974ء کا مبارک اور تاریخی دن تھا جب اللہ اور رسول ﷺ کے دشمنوں کو‘ جو نقب لگا کر مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ہوئے تھے، غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ قادیانیوں نے اس آئینی فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور وہ ایسی سرگرمیوں میں مصروف رہے کہ دنیا اُنہیں امت مسلمہ کا حصہ سمجھے۔ اس پر 1984ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کرکے قادیانیوں کی حیثیت کا صحیح تعین کردیا گیا۔ اس آرڈیننس کے مطابق قادیانیوں پر درج ذیل پابندیاں عائد کر دی گئیں: (1) کوئی قادیانی خود کو بلاواسطہ یا بالواسطہ مسلمان نہیں کہہ سکتا اور اپنے عقیدے کو اسلام کا نام نہیں دے سکتا۔ (2) وہ اپنے عقائد کی ایسی تبلیغ نہیں کر سکتا جس سے مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوں۔ (3) وہ اپنی عبادت کے لیے لگائی جانے والی پکار کو اذان نہیں کہہ سکتا۔ (4) وہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتا۔ (5) قادیانی امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین، صحابہ، اہل بیت اور اُمہات المومنین کی اصطلاحیں استعمال نہیں کر سکتے۔ (6) وہ مسلمانوں کے کلمہ طیبہ ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ( ﷺ)‘‘ کو نہ اپنی کسی عبادت گاہ پر تحریر کر سکتے ہیں اور نہ ہی بیج کی صورت میں سینہ پر آویزاں کر سکتے ہیں۔
یہاںایک وضاحت بہت ضروری ہے۔ ایک اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ وہ غیر مسلم اقلیتوں کی جان و مال اور عزت کا تحفظ کرے، وہ انہیں اپنے عقائد کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کی سہولت فراہم کرے اور ان کا تحفظ کرے۔ مسلمانوں کے عقائد کے مطابق اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ بالکل اسی طرح لازم ہے جیسے مسجد کا تحفظ، لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اقلیت اقرار کرے کہ وہ مسلمانوں سے الگ مذہب رکھتے ہیں۔ اگر کوئی گروہ یا جماعت یہ دعویٰ کرے کہ وہ مسلمان ہیں جبکہ وہ اسلام کے کسی بنیادی عقیدے کو ترک کر چکے ہوں۔ خصوصاً اگر وہ ختم نبوت پر ایمان نہ رکھتے ہوں اور آپﷺ کے بعد نبوت کے ہر دعویدار کو کاذب اورلعنتی نہ سمجھتے ہوں تو ایسے شخص یا گروہ یا جماعت کو اقلیت نہیں بلکہ مرتد کہا جائے گا اور مرتد کی سزا حدیث رسول ﷺ سے طے شدہ ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا۔مناسب ہوتا اگر 1974ء کی قومی اسمبلی قادیانیوں کے غیر مسلم قرار دینے کے ساتھ ہی مرتد کی سزا کے نفاذ کا اعلان بھی کر دیتی۔ ہاں علماء سے مشورہ کے بعد یہ طے کیا جا سکتا تھا کہ اس حوالے سے مرتد کی سزا کا اطلاق آئینی ترمیم 1974ء کے بعد کسی مسلمان کے قادیانی ہونے پر کیا جائے گا۔ رہے وہ لوگ جو بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ جب قادیانی بھی حضور اکرم ﷺ کو نبی مانتے ہیں تو ہم انہیں کافر اور مرتد کہنے پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟ تو انہیں جان لینا چاہیے کہ حضور ﷺ کو خاتم النبیین ماننا قرآنی حکم ہے اور نبی اکرم ﷺ کے دو صد کے قریب ایسے فرامین ہیں جن میں آپ ﷺ نے اپنے آخری نبی ہونے کی بات بڑی وضاحت سے کی ہے۔ آپ ﷺ نے ’’لا نبی بعدی‘‘ کا اعلان نہ صرف ڈنکے کی چوٹ پر کیا ہے، بلکہ یہ بھی واضح کیا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ کذاب اور دجال شمار ہوگا۔ جبکہ کاذب مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتابوں میں سینکڑوں بار نبوت اور رسالت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ہم یہاں آپ کو صرف ایک حوالہ دیتے ہیں: ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا ( دافع البلا روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 225،226)‘‘ ختم نبوت کے حوالہ سے قرآن کے واضح حکم اور احادیث نبوی کی روشنی میں نبوت و رسالت کا دروازہ تا قیامت بند ہو چکا ہے، لہٰذا علمائے حق کا مذکورہ مسئلہ پر اجماع ہے کہ جو شخص اس میں نقب لگانے کی جسارت کرے گا وہ کاذب، فریبی اور لعنتی تصور ہوگا اور مسلمانوں میں سے کوئی اگر اس پر ایمان لائے یا اسے ولی، مجتہد اور ابدال کا درجہ دے گا تو وہ مرتد قرار پائے گا۔