(اداریہ) اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ - ایوب بیگ مرزا

8 /

اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ

پاکستان ایک ایسے زخمی جاندار کی طرح زمین پر بے حس و حرکت پڑا ہے جس کا خون بہہ رہاہے اور اُس کا گوشت اپنے بیگانے سب نوچ رہے ہیں ۔ یہ اندازِ تحریر شایدکچھ قارئین پر بڑا گراں گزرے گا، لیکن یہ ہمارے دل کا دکھ ہے جو ایک روگ کی شکل اختیار کر رہا ہے ۔ یہ اولاد کی محبت میں تڑپتی اُس ماں کا اندازِ بیان ہے جس کا نافرمان لخت جگر اپنی ناروا حرکات اور اپنی غلط کارستانیوں کی وجہ سے والدین کے لیے سوہانِ روح اور اپنے خاندان کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بنا ہوا ہے ۔ پاکستان کا یہ حشر ونشر کسی ایک فرد ، گروہ ، جماعت ، طبقہ ، ادارے یا حکومت کی وجہ سے نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہےکہ ہمارے سمیت پاکستان کے بائیس (22)کروڑ عوام سب اس کی بربادی کے ذمہ دارہیں ۔ البتہ یہ بات واضح رہے کہ گزشتہ پون صدی میں جس کے پاس جتنا اختیار اور اتھارٹی تھی وہ اتنا ہی زیادہ ذمہ دار ہے ۔ عوام کا قصور اتناہی ہے جتنا کسی مظلوم کا ہوتاہے کہ اُس نے کمزور اور ناتواں ہو کر ظالم کو ظلم کرنے کا موقع دیا ۔ عوام پر جو غلامی مسلط کی گئی تھی عوام نے عارضی اور وقتی مفاد کو سامنے رکھا اور ظلم کے خلاف جدوجہد کی مشقت اٹھانے کی بجائے اِسے سہنے میں عافیت جانی ۔ ہمارے نزدیک یقیناً عوام کا یہ قصور ہے، اگرچہ اکثریت اسے بے بسی اور اشرافیہ کے ظلم کی انتہا کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔ بہرحال اس بات پرتو مکمل اتفاق ہے کہ پاکستان کی اس بربادی میں کلیدی اور اہم ترین کردار سیاسی ،معاشی اور عسکری لحاظ سے طاقتور حلقوں کا ہے ۔ اس حوالے سے عدلیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی جو جرم کے بجائے سٹیٹس کو دیکھ کر فیصلے کرتی ہے ۔
سیاست کا حال تو کئی سال پہلے شورش کاشمیری نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا: ’’میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو، گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں۔‘‘ اس مملکت خداداد میں اس طرح بھی ہوا کہ راتوں رات ایک نئی سیاسی جماعت نے جنم لیا اور صبح تک ایوان کی اکثریت اُس نئی جماعت میں منتقل ہوگئی، لہٰذا اس نئی جماعت کی حکومت قائم ہو گئی ۔ ہے کوئی پولیٹیکل سائنس کا طالب علم جو اس پر تبصرہ کر سکے ۔ کیاتاریخ کا کوئی طالب علم اسے کسی مہذب قوم کی تاریخ میں کہیں سمو سکے گا۔
معیشت کی دردناک کہانی بھی سن لیجئے۔ اس حوالے سے پہلی ایک ڈیڑ ھ دہائی چھوڑ دیں، بعد میں ہم نے معیشت سے وہ کھلواڑ کیا کہ رہے نام اللہ کا۔ ایک وقت وہ تھاجب پاکستان اقتصادی لحاظ سے ایشیائی ممالک کی اکثریت پر بازی لے گیا تھا۔ یہ ممالک پاکستان سے اقتصادی منصوبے اور رہنمائی حاصل کرتے تھے ۔ پی آئی اے نے مشرق وسطیٰ کی بہت سی ایئر لائنز کو اُڑنا سکھایا ۔ آج حالت یہ ہے کہ ماضی میں معاشی لحاظ سے ایشیاء کے یہی پسماندہ ممالک ہم سے اتنے دور اور آگے نکل چکے ہیں کہ پاکستانی دوربین لگائیں تب بھی وہ نظر نہ آئیں۔ اور وہ ایئر لائنز جنہیں پی آئی اے نے پالا پوسا تھا، تربیت دی تھی، وہ آسمان کی اتنی بلندی پر فراٹے بھر رہی ہیں کہ اگر آج پی آئی اے کا عملہ اُنہیں سر اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کرےتو سر کی ٹوپی پشت کی طرف گر جائے گی۔
روس سے غلطی ہوگئی دنیا کی دوسری بڑی سٹیل مل کراچی میں لگادی ۔ آج اُس کے پُرزے کراچی میں ریڑھیوں پربک رہے ہیں ۔ سٹیل توکھا پی کر ڈکار لیا گیا ہے اب اُس مِل کی زمین پر نظرہے جس کی قیمت کئی ارب روپے ہے۔ بہرحال کتنے نوحے کہیں، کتنا ماتم کریں لیکن کچھ سدھرتے نظر نہیں آتا ۔
عدلیہ میں نظریہ ضرورت کے موجد جسٹس منیر کو بہت رگیدا جاتاہے۔ حالانکہ وہ موجد ضرور تھے لیکن اس نظریہ پر کمال بعد میں آنے والے اکثر ججوں نے حاصل کیا ۔ بہت سے تبصرہ نگاروں کی رائے میں کئی جج ایسے تھے، ایسے ہیں جو گیٹ نمبر چار کی طرف رخِ زیبا کرکے پوچھتے ہیں :بتا تیری رضا کیاہے ۔ہم دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سےاپنی فوج کی کارگزاری کو تہ دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے قوم کو اس عفریت سے نجات دلائی لیکن اسٹیبلشمنٹ کا حب الوطنی کی سٹیمپ اپنے قبضہ میں لے لینا انتہائی غیرمناسب ہے، بلکہ سچ پوچھیں تو یہ انتہائی ضرر رساں ہے ۔ ہر دوسرے دن DG-ISPR میڈیا پر سیاست دانوںکو سبق پڑھاتا ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ کتنا خوبصورت ہے یہ سبق لیکن لوگ الزام دیتے ہیں کہ سیاسی شطرنج پر سب سے فیصلہ کن چالیں GHQمیں ہی چلی جاتی ہیں ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہم میں سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔
عمران خان کی حکومت جب اُکھاڑ بچھاڑ کرکے ختم کی گئی تو کہا گیا کہ آئینی اور جمہوری طریقے سے اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے اور یہ کون سی جمہوریت ہے کہ ایک جماعت کے اسمبلی ممبران خرید کر اُنہیں سندھ ہاؤس میں بند کر دو اور تحریک عدم اعتماد منظور کر لو۔ پھرقومی اسمبلی میں PTI کے ڈپٹی سپیکر نے کس قانون کے تحت تحریک عدم اعتماد اٹھا کر ایوان سے باہر پھینک دی تھی۔ نوازشریف کو اقامہ رکھنے پر زندگی بھر کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ یہاں بھی نوٹ کریں کہ پہلے 184(3) کے تحت نااہل کیا گیا، اُس وقت کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا، بعد ازاں عدالت لگا کر اس نااہلی کو عمر بھر کے لیے کیا گیا۔ اب موجودہ چیف جسٹس تاحیات نااہلی کے قانون کو ڈریکولائی قانون قرار دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی پیچھے نہیں رہا ۔ اُس نے ایک انتہائی احمقانہ بلکہ جاہلانہ فیصلہ کرکے عمران خان کی نااہلی کا اعلان کیا۔ بعدازاں کہنا شروع کر دیا کہ ہم نے عمران خان کو صرف میانوالی سے ڈی سیٹ کیا ہے۔ وہ آئندہ بھی الیکشن لڑسکتا ہے۔ ماہ اپریل میں رجیم چینج کا جومبینہ ڈراما رچایا گیا اُسے عوام نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ عوام عمران خان کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ ایک ٹی وی چینل نے ہمت کا مظاہرہ کیا۔ اُس چینل کو ڈرایا دھمکایا گیا لیکن وہ اپنی ڈگر پر قائم رہا تو اسے بند کر دیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے بندش کے احکامات ختم کر دئیے۔ زبردستوں نے عدالتی احکامات تسلیم نہ کیے لیکن کوئی توہین عدالت لاگو نہ ہوئی۔ بالآخر اِس شرط پر اُس چینل کو کھولا گیا کہ اُس کے ’’ ناپسندیدہ‘‘ اینکرز کو فارغ کر دیا جائے۔ اُن اینکرز پر زندگی تنگ کر دی گئی ۔ بالآخر وہ اپنا وطن چھوڑ کر بیرون ملک جانے پر مجبور ہوگئے۔ اُن میں سے ارشد شریف نے بڑی شہرت پائی۔ لیکن چند روز پہلے انہیں کینیا میں فائرنگ کرکے مار دیا گیا۔ اس پر عوام کا ناقابل یقین ردعمل اور غم و غصہ سامنے آیا۔ عمران خان نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ اس ساری صورتِ حال نے اسٹیبلشمنٹ کو بہت پریشان کیا اور 27اکتوبر کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ DG-ISPRاور DG-ISI نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اور عمران خان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ اسٹیبلشمنٹ کا یوں کسی سیاست دان پر کھلم کھلا تنقید کرنا بھی پہلے کوئی نظیر نہیں رکھتا۔ یقیناً ان کے الزامات سچے بھی ہوں گے لیکن اس پریس کانفرنس نے فوج کے ادارے کے امیج کو خراب کیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک فوج جو اپنی قوت اور اپنے ڈسپلن کے حوالے سے دنیا میں نام رکھتی ہے آج ایک سیاست دان کے سامنے بے بس اور مجبور ہے۔ آخر یہ نوبت کیوں آئی؟ ہمیں اس پر دکھ ہوا۔ دو گھنٹے کی پریس کانفرنس میں یہ وضاحت نہ ہو سکی کہ اس کے مقاصد کیا تھے، خود پر لگنے والے الزامات کی صفائی تھی یا عمران خان کی عوام میں پوزیشن خراب کرنا مقصود تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں مقاصد حاصل نہ ہوئے، معاملات مزید الجھ گئے بلکہ مزید نئے سوالات پیدا ہوگئے۔
آخر میں آئیے اُس لانگ مارچ کی طرف جس نے ملک میں عجیب ماحول پیدا کر دیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ لانگ مارچ تحریک انصاف کے عوامی پاور شو کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کا اصل مطالبہ ہے کہ فوری طور پر انتخابات کروائے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس لانگ مارچ سے خوف زدہ ہو کر فوری انتخابات پر تیار ہو جائے گی۔ ہماری رائے میں حکومت میں مزید ضد پیدا ہو جائے گی۔ ایک لشکر کو دیکھ کر مخالف کے مطالبے کے آگے جھک جانا حکومت کے لیے مزید مشکل ہو جائے گا۔ لانگ مارچ کرنے والوں کے مطالبات ماننے سے انکار کرنے پر دو قسم کے نتائج برآمد ہوں گے: خون خرابہ ہوگا یا عمران خان کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑے گا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو سیاسی نقصان ہوگا لہٰذا ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لانگ مارچ کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ اگر وہ حکومت کو پریشان کرنا چاہتے ہیں تو اس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ پنجاب اور KPK کی اسمبلیاں توڑ دی جائیں تاکہ مرکزی حکومت کے قائم رہنے پر سوال کھڑا ہو جائے لیکن یہاں باوا آدم ہی نرالا ہے۔ اس ساری صورت حال پر ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ ہم جنگل کی مخلوق ہیں اورکار سرکار چلانے والے دماغی توازن کھو چکے ہیں۔اب جو نقشہ بنتا نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ آئندہ جس ملک میں کوئی اصول، کوئی نظام اور کوئی نظم و ضبط نہیں ہوگا اور وہ بُری طرح لاقانونیت کا شکار ہوگا تو اُسے بنانا ری پبلک نہیں بلکہ پاکستان ری پبلک کہا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے، ہمارے گناہ معاف فرمائے اور ہمیں صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین