(منبرو محراب) تین اوامراورتین نواہی - ابو ابراہیم

8 /

تین اوامراورتین نواہی(سورۃالنحل کی آیت90کی روشنی میں )

 


مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ  کے21اکتوبر 2022ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

تلاوت آیات کے بعد :
آج ہم ان شاء اللہ سورۃ النحل کی آیت 90کا مطالعہ کریں گے ۔ یہ معروف آیت ہے جس کی تلاوت جمعہ کے خطبات کے آخری حصے میں کی جاتی ہے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دورمیں اس آیت کریمہ کوجمعہ کے خطبہ میں جاری کیاگیا۔ اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تین کاموں کوکرنے کاحکم دیااورتین کاموں سے اجتناب کاحکم دیا۔ اس آیت کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے یہ بھی ارشاد فرمایاہے کہ وہ تمام کام، وہ تمام بھلائیاں،وہ تمام خیر جواللہ چاہتاہے کہ اس کے بندے اختیار کریںان کاذکراس آیت کریمہ میں ہے اوروہ تمام کام جن سے اللہ چاہتا ہے بندے اجتناب کریں ان سب کا بیان بھی اس آیت میں ہے۔ امام شافعی ؒ کا قول ہے کہ اگر قرآن میں صرف سورۃ العصر نازل ہوتی تو وہ لوگوں کے لیے کفایت کرجاتی۔اسی طرح سورۃالنحل کی اس آیت کے بارے میں بھی مفسرین اور اہل علم نے بیان فرمایاکہ اگر اللہ تعالیٰ نے صرف یہ ایک ہی آیت نازل کی ہوتی تویہی انسانیت کے لیے کفایت کرجاتی۔ یعنی یہ اس قدر جامع آیت کریمہ ہے ۔اسی طرح نبی اکرمﷺ نے بعض مشرکین کے سامنے جب یہ آیت تلاوت کی توان کوجواباًکہناپڑا کہ یہ کسی انسان کاکلام نہیں ہوسکتا۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(90)} ’’یقینا ًاللہ حکم دیتا ہے عدل کا‘ احسان کا اور قرابت داروں کو (ان کے حقوق) ادا کرنے کا اور وہ روکتا ہے بے حیائی ‘ برائی اور سرکشی سے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم سبق حاصل کرو۔‘‘
اللہ کاحکم:
پہلی بات یہ ہے کہ اللہ حکم دے رہاہے اور اللہ کاحکم ایسا نہیں کہ جب دل چاہا تو قبول کرلیا اور جب دل چاہا تورد کر دیا۔ کل اس کے بارے میں ہم نے اللہ کوجواب دیناہے ۔ ایک معمولی ڈاکٹر کے کہنے پر ہم حلال چیزیں چھوڑ دیتے ہیں تو کائنات کا رب جب ہمیں حکم دے رہا ہے تو ہمارے اندر حساسیت بڑھ جانی چاہیے اورجب وہ کسی بات سے منع فرماتاہے تواس حکم کی اہمیت کاہمیں اندازہ رہناچاہیے۔
پہلاحکم: عدل کرنا
عدل ایک بہت جامع اصطلاح ہے۔ بعض اوقات اس کا مفہوم غلط طور پر انصاف بیان کیا جاتاہے جوکہ غلط ہے کیونکہ انصاف کا ترجمہ ہے نصف نصف کر نا ۔ جبکہ عدل کے معنی ہیں : جس کا جو حق بنتاہے وہ اس کو دیا جائے۔ بہت سارے معاملات میں عدل کاتقاضا ہے۔ کسی نے اگر دونکاح کیے ہیں تودونوں بیویوں کے درمیان عدل کرناچاہیے، اولاد کے درمیان عدل کرناچاہیے ، اپنے ملازمین اورمتعلقین کے درمیان عدل کرناچاہیے اور حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ عدل کرناچاہیے ۔ ایک نعرہ بڑا پیار ا لگتاہے کہ مساوات ہونی چاہیے۔ ایک درجے میں تو مساوات ہوگی کہ تمام لوگوں کو جینے کاحق ملناچاہیے ،اگر کوئی غریب ہے تواسے اس کا حق ملناچاہیے ،ریاست اس کی کفالت کرے یعنی شہریوں کوسارے حقوق میسر آنے چاہئیںلیکن کیا جوحقوق ماں باپ کے ہیں وہی حقوق اولادکے ہوں گے ؟کیا ایک آرمی جنرل اور ایک عام سپاہی کی تنخواہ ، مراعات برابر ہو سکتی ہیں ؟ یہاں بات نصف نصف نہیں بلکہ عدل کی ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ایک ڈاکو منٹری Ampire of Faithکے نام سے بنی تھی۔ جس میں رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کے بارے میں غیرمسلم پروفیسرز،ڈاکٹرز وغیرہ کے انٹرویوز تھے ۔ ان تمام لوگوں کی گفتگو میں مثبت پیغام یہ تھا:
"The beauty of teaching of Prophet Muhammad (s.a.w) is the catching word Justice."
یعنی محمدرسول اللہﷺ کی تعلیمات کاخوبصورت ترین پہلو عدل ہے اورمحمدرسول اللہﷺ نے صرف عدل کی بات کرکے نہیں دکھائی بلکہ عدل کانظام قائم کرکے دکھایا۔ بہرحال ایک عدل کاپہلو یہ ہے کہ جس کاتناسب کے اعتبار سے جوحق ہے وہ دے دیاجائے ۔یہ ہمارے عام معاشرتی رویوں کے اعتبار سے بھی بات ہورہی ہے۔ اسی طرح ایک عدل یہ بھی ہے کہ بندہ افراط وتفریط سے بچ جائے اور انتہاپرنہ ہوبلکہ اعتدال پررہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا } (البقرۃ:143) ’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے‘‘
وسط کاترجمہ درمیان،بہترین اوراعتدال بھی کیا جاتا ہے۔ یہود دنیا کی محبت میں ڈوبے اور دین سے دور ہو گئے۔ نصاریٰ نے دنیا کو ترک کرکے رہبانیت کی روش اختیار کی تو وہ بھی فطرت کے خلاف تھا ۔ اللہ نے ان دوانتہائوں سے منع کرکے ہمیں اعتدال والادین عطا کیا گیا۔ہمیں یہ بھی بتایاگیا کہ تمہارے اعمال میں غلونہ ہو۔ سورۃالنساء میں اہل کتاب کو کہاگیا: {یٰٓــاَہْلَ الْـکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ } (النساء:171) ’’اے اہل ِکتاب ‘ اپنے دین میں غُلو (مبالغہ) نہ کرو۔‘‘
عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے مقام و مرتبہ کے بیان میں اتنا غلو کیا معاذ اللہ خدا کابیٹا قرار دے دیا ۔اس غلو نے انہیں شرک میں مبتلا کر دیا ۔ اگر مخلوق اپناقانون خود بنائے گی تو اُسے کبھی عدل میسر نہیں آئے گا ۔ لیکن اگر خالق کے قانون کو مان لیا جائے اور اس کا نفاذ ہو تو انسانیت کو عدل مل جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ذات العادل ہے ۔ وہ عدل کو پسند فرماتا ہے ۔یہ معاشرے کی تعمیر کے لیے پہلابنیادی تقاضا ہے کہ جس کاجوجائز حق بنتاہے وہ اس کو دیاجائے۔یہ توپہلاتقاضا ہے۔
دوسرا حکم:احسان کرنا
احسان عدل سے اگلی منزل ہے کہ کسی کا حق محض اداہی نہ کیا جائے بلکہ اس کے ساتھ بہترین،خوبصورت اور فیاضی کارویہ اختیار کیا جائے ۔ ایک سادہ مثال ہے کہ کسی مزدور کے ساتھ آپ نے طے کیا تھا کہ کام ہو جانے پر اسے ایک ہزار روپے مزدوری دی جائے گی ۔ مزدور نے اچھا اور بروقت کام کیا تو آپ نے اسے بارہ سو روپے دے دیے ۔ یہ دو سو روپے اضافی جو آپ نے دیے وہ احسان ہیں ۔ یہ چیز عدل اور قانون سے آگے بڑھ کر اخلاقی سطح پر آگئی ۔ یادرکھیئے!گھرہویامعاشرہ زندگی محض قانو ن کے ڈنڈے سے نہیں چل سکتی جب تک کہ اخلاق کاپہیہ اس میں نہ لگادیاجائے ۔معاشرہ عدل کی بنیاد پر اچھا چلے گا لیکن اس میں خوبصورتی اس وقت آئے گی جب اس میں احسان کا رویہ ہوگا ۔ یعنی اچھے اندازسے کسی کو اس کا حق دینا۔اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہو گئی تو عدل کاتقاضا ہے کہ اس کاازالہ ہوناچاہیے لیکن اگر اگلا بندہ معاف کر دے تو یہ احسان کا دوسرا پہلو ہے ۔ البتہ شریعت نے جہاں حدود معین فرمادیںاوران حدود میں متعلقہ مسئلے کے بارے میں ثبوت مل گئے تووہ سزائیں تو نافذ ہوں گی وہ اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ معاف کرنا، عفودرگزر کرناپسندیدہ ہے ۔ارشاد ہوتاہے :
{وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاطاَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ ط }(النور:22) ’’اور چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر سے کام لیں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے۔‘‘
واقعہ افک ایک مشہور واقعہ ہے جس میں صدیق اکبر ؓ نے اپنے کزن کی مدد روک لی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے نہ صرف اپنے کزن کو معاف کردیا بلکہ ان کی مدد بھی پہلے سے دگنی کر دی ۔ ہمارے دین میں احسان بڑی جامع اصطلاح ہے۔ معروف حدیث جبرئیل میںجبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں آئے اورانہوںنے صحابہ کرام ؓ کی تربیت کے لیے رسول اللہﷺ سے کچھ سوالات کیے کہ اسلام کیاہے؟ ایمان کیاہے اور احسان کیاہے ؟جواب میں احسان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’رب کی ایسے عبادت کرو(دوسری روایت میں ہے رب کاایسے خوف اختیار کرو،تیسری روایت میں ہے رب کے لیے ایسے عمل کر و) گویاتم اسے دیکھ رہے ہو اور اگریہ مرتبہ حاصل نہیںتویہ یقین رکھوکہ رب تمہیںدیکھ رہاہے۔‘‘
یہ احسان فی العبادت ہے ۔ جتنایہ احساس ہو گا عمل میں حسن پیدا ہوجائے گا۔اس حسن کی دعا رسول اللہ ﷺ نے ہرنما ز کے بعد سکھائی:
((اللھم اَعِنِّی علٰی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک )) ”اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اپنی بہترین عبادت کے سلسلہ میں میری مدد فرما۔“
رسول اللہﷺ عبدکامل ہیں،معصوم ہیںلیکن آپ ﷺ کی نماز کی تسبیحات کیاتھیں:اللہ اکبر،استغفراللہ، استغفراللہ، استغفراللہ۔ یعنی اے اللہ !میں تیرے حکم پرجھک توگیا لیکن اگر اس جھکنے میںکوئی کمی رہ گئی تومعاف فرما۔ بہرحال ہماری عبادت سے پہلے ایمان کامسئلہ ہے۔ایک بڑا معروف جملہ ہے :وہ ایمان جوہمیں بستر سے اٹھاکرمصلے پر کھڑا نہیں کررہاہم چاہتے ہیںکہ وہ ہمیں قبر سے اٹھا کر جنت میں لے جائے۔عبادت میں حسن تو بعد میں آئے گا لیکن پہلے ایمان ضروری ہے۔ ہمیں جائزہ لینا چاہیے ۔ بہرحال جب ایمان میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہو تو عمل اور عبادت میں حسن پیدا ہوتاہے ۔یہ حسن کیاہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جب تم جانور کوذبح کروحسن کے ساتھ ذبح کرو۔ ((واذا قتلتم فاحسن قتلا)) جب کسی کوقتل کرو تو حسن کے ساتھ قتل کرو۔ کیامطلب ؟جانور کوذبح کررہے ہوتوکھلاپلاکراور چھری تیز کرکے ذبح کرو۔کسی دوسرے زندہ جانور کے سامنے ذبح نہ کرو،ٹھنڈا ہوجائے تو پھراس کی کھال اتارو۔اسی طرح قاتل کو موت کی سزا تو ملے گی لیکن تلوار اتنی تیز ہو اور ہاتھ اتنے مضبوط ہوں کہ اس کو کم سے کم تکلیف ہو۔ جانور اور قاتل کے بارے میں حسن مطلوب ہے توعبادات اور معاملات ِزندگی میںکس قدر حسن مطلوب ہوگااور یہ 24گھنٹے مطلوب ہے۔
تیسرا حکم:رشتہ داروں کودینا
ملک اور معاشرہ بعد میں ہے ، پہلے گھر اور رشتہ دار ہیں ۔ گھر معاشرے کی بنیادی اکائی ہے ۔ گھر مضبوط ہوگا تو معاشرہ مضبوط ہوگا ، معاشرہ مضبوط ہوگا تو ملک و ملت مضبوط ہوں گے ۔ اللہ کا دین چاہتا ہے کہ مومن کا گھر مضبوط ہو ۔ گھر تب مضبوط ہوگا جب گھر میں عدل و احسان کا معاملہ ہوگا ۔ یہ دین تووہ ہے جوبتاتاہے کہ پیاسے کتے کو پانی پلانے پرایک گنہگار عورت کوبخش دیاگیااورایک عورت نے بلی کو بھوکاباندھ کررکھا تواس کوعذاب دیا گیا۔ جو دین کتے اور بلیوںکے بارے میں راہنمائی دے رہا ہے توانسانوں کے بارے میں اس کی راہنمائی کس قدر اعلیٰ ہوگی، بالخصوص جو قریبی رشتے ہیں ان کے بارے میں دین کی راہنمائی کس قدر بڑھ کرہوگی۔ چنانچہ رشتہ داروں، رحمی رشتوںکے بارے میں کس قدر اللہ کادین ہمیں تاکید فرماتاہے۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیںکہ جس نیکی کا اجر اللہ تعالیٰ سب سے جلد عطا فرماتاہے وہ رحمی رشتوں کے ساتھ بھلاسلوک ہے اور سب سے جلد جس گناہ کی سزااللہ دیتاہے وہ رحمی رشتوں سے قطع تعلقی اوربرا سلوک ہے ۔ حدیث میں ذکرآیاکہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوںکو خوب نوازتا ہے حالانکہ ان کی حرکتیںایسی ہیںکہ وہ اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں۔ پوچھاگیا :یارسول اللہﷺ ان کواللہ کیوں دیتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:اس لیے کہ وہ رحمی رشتوں کا حق ادا کرتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے یہ بھی فرمایاکہ جب تم اپنے رشتہ دارکودیتے ہوتودہرا اجر ملتاہے ۔ ایک دینے کااجر اورایک رشتہ داری کاحق اداکرنے کا اجر۔ کیا پیارا دین ہے کہ جو نہ صرف رحمی رشتوںکاخیال رکھنے کو کہتا ہے بلکہ ان کا حق ادا کرنے کو کہتاہے ۔ سورئہ بنی اسرائیل میں فرمایا:
{وَاٰتِ ذَاالْقُرْبٰی }(بنی اسرائیل:26)’’اور حق ادا کرو قرابت داروں کا۔‘‘
یعنی تمہیں اللہ نے معاشی طو رپراچھا رکھا،تمہیں وسائل دے دیے ،تمہارا پیٹ بھرا ہواہے۔ تم اگر رشتہ دار کو دیتے بھی ہوتوکوئی احسان نہیںکررہے بلکہ یہ ان کاحق ہے ۔ اگر اس طرح کا عمل ہوگا توکوئی تکبر نہیں آئے گااور نہ کسی پر کوئی احسان جتاسکتاہے کیونکہ وہ کہے گاکہ میںنے تواپناحق اد ا کیاہے۔یہ تواللہ کانظام ہے کہ کسی کو کم دیا تو اس کابھی امتحان اور کسی کوزیادہ دیا تواس کابھی امتحان ہے۔ بہرحال یہ وہ احکام ہیں جن پراللہ تعالیٰ عمل کروانا چاہتاہے تاکہ ایک صحت مندمعاشرہ وجود میںآسکے۔
تین نواہی
اس کے بعد تین نواہی ہیںجن سے اللہ تعالیٰ منع فرماتاہے ۔
پہلا:فحشاء سے بچنا:
فحشا کا مفہوم بڑا وسیع ہے ۔بےہودہ کام ، لغو اور فحش گفتگو ، بے پردگی ، بے حیائی ، ایسے کام جس سے شہوانی جذبات بھڑکتے ہوںاور نتیجتاً زنا کے راستے کھلتے ہوں سب فحشا ء میں شامل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس سے منع فرماتا ہے۔آج مسلمان ملک کا یہ حال ہے کہ پروڈکٹس کی فروخت کے لیے عورتوں کو بے پردہ اور نمایا ں کرکے اشتہار میں کھڑا کر دیا جاتاہے ۔ اب تو نکاح سے انکار کی باتیں سرعام ہو رہی ہیں ۔ زنا کے ذرائع عام ہو رہے ہیں۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ خاندانی نظام برباد ہو رہا ہے ، حیا کاجنازہ نکل رہاہے ،جوانیاں لٹ رہی ہیں اور بیماریاں (جسمانی ونفسیاتی امراض)بڑھ رہی ہیںکیونکہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
((اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَاشِئْتَ))(صحیح بخاری)  ’’جب تم حیا چھوڑ دو تو جو دل چاہے کرو!‘‘
حیا ایک فطری احساس یارکاوٹ ہے جوبندے کو گناہ سے روکتاہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جوفطرت کے اندر موجود ہے لیکن یہ میڈیا،سوشل میڈیا،فلمیں ،گانے ،ناچ وغیرہ کے ذریعے جوکچھ دکھایاجارہاہے اس سے حیا ختم ہوتی جارہی ہے اور پاکیزہ جذبات کی بجائے شہوانی جذبات پروان چڑھتے ہیںاور زنا کے راستے کھلتے ہیں جس سے معاشرہ گندگی کاڈھیر بنتاہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:حیااور ایمان دونوںساتھی ہیںاگر ایک چلا جائے تودوسرا بھی چلاجائے گا۔حیااور ایمان ہی مومن کے ہتھیار ہیںاگر یہ دونوں چلے گئے تومومن کے پاس کیا بچا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان اور حیا کی حفاظت فرمائے۔
دوسرا:منکر سے بچنا
جس کام کو ہماری فطرت ناپسند کرے وہ منکر ہے ۔ جھوٹ،گالی ،دھوکہ ، چوری ، فراڈ ہر معاشرے میں برے سمجھے جاتے ہیں ۔ بنیادی اخلاقیات ہماری فطرت میں موجود ہیں لیکن اس کاتکمیلی تصور وحی کی تعلیم سے ملتاہے ورنہ آج برہنہ پھرنا لوگوںکو خوبصورت لگ رہاہے ۔ مخلوط معاشرت اورنکاح کاانکار لوگوں کو بڑاایڈوانس لگ رہاہے۔ اس لیے کہ وحی کی تعلیم سے لوگ دور ہورہے ہیں۔ حالانکہ وحی کی تعلیم منکرا ور معروف کامکمل تصور عطا کرتی ہے ۔اللہ تعالیٰ منکر سے بچنے کا حکم دے رہا ہے ۔
تیسرا:سرکشی اورزیادتی سے بچنا:
حد سے تجاوز کرنا سرکشی ہے۔ شریعت کے کسی حکم پر عمل نہ کرنا گناہ ہے لیکن شریعت کے کسی حکم کاانکار کرنا کفر ہے ۔ یہ زیادتی بندوں کے بارے میں بھی ہوسکتی ہے آج تو جان ،مال، آبروسے کھیلنابائیں ہاتھ کاکھیل ہے۔ گواہوں، ججز،وکیلوں کومروا دو،اپنے سگے بھائی کو مروا دو۔ کراچی ،بحریہ ٹائون میںپپ جی گیم دیکھ کرجاکر ماںاور دوبھائیوں کومار ڈالا۔یہ امت کا حال ہو گیا ۔ حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوادع کے خطبے میں کیا فرمایا تھا : ’’تمہارامال ،تمہاری جان،تمہاری آبرو ایک دوسرے پراسی طرح حرام جیسے آج کادن (نوذوالحجہ) اوریہ مہینہ اور یہ مقد س زمین حرام ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان تین چیزوں (فحشاء،منکر اوربغی ) سے منع فرمایا۔اگر یہ چیزیں معاشرے میں چلتی رہیں تومعاشرے حیوانیت اور انتشارکی طرف جائیں گے۔ اخلاق کاجنازہ نکل جائے گا،انسان درندگی پر اتر آئے گا۔ ان چھ احکام پرغور کریںتواللہ سے بہتر کوئی بات بتا سکتا ہے جو ہمارا خالق ہے ۔ جوفرماتاہے :
{اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط}(الملک :14) ’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟‘‘
زیر مطالعہ آیت کے آخر میں فرمایا:{یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(90)} ’’ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم سبق حاصل کرو۔‘‘
آج لوگ اپنے پروفیشنل کورسز ،اپنی کمپنی کی مارکیٹنگ کے لیے بعض مینجمنٹ کے گروز اور سافٹ اسکیلز سکھانے والے اور موٹیوینشل اسپیکرز کو لاکھ لاکھ اور پچاس پچاس ہزار روپے دے کر اخباروں میں دولائن کا بیان چھپواتے ہیں تاکہ ان کی پروڈکٹ کی مارکیٹنگ ہو کیونکہ ان کو دنیا پورے دھیان اورتوجہ سے پڑھتی ہے۔ لیکن بندہ مومن اللہ کی بات کادھیان کتنا رکھ رہاہے اوراللہ کی بات پرکتنا موٹیویٹڈ ہے۔دنیا تودنیاوالوںکو پڑھ کر موٹیویٹڈاورسنجیدہ ہوتی ہے، ہم توایمان والے ہیں، ہم ان باتوں کے بارے میں کس قدر سنجیدہ ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہمیں غور وفکر کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !