(اداریہ) آئینِ پاکستان کی گولڈن جوبلی یا پچاسویں برسی - ایوب بیگ مرزا

8 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

آئینِ پاکستان کی گولڈن جوبلی یا پچاسویں برسی

پاکستان کا پہلا آئین قیامِ پاکستان کے (9) نو سال بعد ایک سویلین وزیراعظم چودھری محمد علی نے بنایا۔ 23 مارچ 1956ء کو اس آئین کا نفاذ ہوا۔ اس خوشی میں ملک بھر میں عام تعطیل کی گئی۔ یہاں یہ بات تاریخ کا حصہ بننا چاہیے کہ اس دن کو یومِ جمہوریہ قرار دیاگیا اور ملک بھر میں اس روز کو عام تعطیل کا اعلان ہوا۔ تین سال یہ سلسلہ جاری رہا، پھر جمہوریت تو ختم ہوگئی لیکن ایک جادوگری سے یومِ جمہوریہ کو یومِ پاکستان بنا دیا گیا اور 23 مارچ کو 1956ء کی بجائے 1940ء سے جوڑ دیا گیا۔ تاکہ تعطیل کی وجہ سے عوام بھی خوش رہیں اور جمہوریت کا بھرکس بھی نکل گیا۔ بہرحال 1956ء کے آئین میں پارلیمانی طرز حکومت اپنایا گیا جس میں وزیراعظم چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے ہوتا ہے اور صدر ریاست کا آئینی سربراہ ہوتا ہے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک متوازن آئین تھا۔ اس میں ایسی شقات تھیں جن سے ایک اسلامی ریاست کا تصور اُبھر کر سامنے آتا تھا۔ لیکن ابھی اس کی عمر بمشکل ڈھائی سال ہوئی تھی کہ ایک خود ساختہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے یہ آئین ختم کر دیا۔ گویا یہ وہ کلی تھی جو بن کھلے مرجھا گئی بلکہ صحیح تر الفاظ میں بُری طرح مسل دی گئی۔
فوجی حکمران نے 1962ء میں ایک نیا آئین دیا۔ لیکن اقتدار سے رخصتی کے وقت خود ہی اپنے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کی بجائے آرمی چیف کو سونپ دیا۔ لہٰذا یہ آئین بھی ختم ہوگیا۔ ملک دو لخت ہوگیا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور وہ قومی اسمبلی جو پورے پاکستان کی نمائندگی کے لیے وجود میں آئی تھی وہ what remains of Pakistan کی automaticallyیعنی خود بخود آئین ساز اسمبلی بن گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اس نئے پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ حالانکہ وہ اس اسمبلی میں منتخب ہوئے تھے جو سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے متحدہ پاکستان کے دور میں وجود میں آئی تھی۔
1973ء میں ایک نیا آئین بن گیا۔ جسے 2023ء میں پچاس سال مکمل ہو جائیں گے۔ گویا اس سال کو آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے طور پر منایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم نے جو ’’آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی یا پچاسویں برسی‘‘ کا عنوان باندھا ہے وہ بھی کوئی ایسا بے معنی یا غیر منطقی یعنی illogical نہیں ہے۔ اس حوالے سے ماضی کو تھوڑا سا کھنگالنا پڑے گا اور تاریخ کاجائزہ لیناہوگا۔ جب آئین سازی کے ابتدائی مراحل طے ہو رہے تھے اور آئین ساز اسمبلی کے سامنے اس کی شقات لائی جا رہی تھیں تو اُس وقت کی اپوزیشن نے سخت اعتراض کیا کہ یہ تو تمام تر اختیارات اور طاقتیں صدر کو دے رہے ہیں جس سے یہ صدارتی آئین بن جائے گا۔ جس پر بہت لے دے ہوئی، بالآخر ذوالفقار علی بھٹو مان گئے اور اُنہوں نے وہ سارے اختیارات وزیراعظم کے کھاتے میں ڈال دیئے۔ اب صدر بے چارہ مکمل طور پر فارغ ہوگیا۔ اس پر بھی اعتراض ہوا، لیکن بھٹو نے سخت رویہ اختیار کیا اور اپوزیشن پر الزام لگایا کہ وہ کوئی ایک مؤقف اختیار نہیں کرتی۔ بالآخر 10 اپریل 1973 ء کو مغربی پاکستان، جو سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 'ـ"what remains of Pakistan"' کہلاتا تھا، اُس کی آئین سازاسمبلی نے متفقہ طور پر آئین پاس کر لیا، جس پر 12اپریل 1973ء کو صدرِ مملکت نے دستخط کر دیے اور 14 اگست 1973ء کو 1973ء کا آئین پاکستان بھر میں نافذ العمل ہوگیا۔
وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے 4 مئی 1974ء یعنی آئین کے نفاذ کے تقریباً ساڑھے نو ماہ بعد ہی آئین میں پہلی ترمیم کر ڈالی۔ پہلی آئینی ترمیم میں فرسٹ شیڈول کے ساتھ آرٹیکل 1، 8، 17، 61، 101، 193، 199، 200، 209، 212، 250، 260 اور 272 میں ردوبدل کیا گیا۔ اور یوں ذاتی اور جماعتی مفادات کی خاطر آئین پاکستان کا حلیہ بگاڑنے کے لامتناہی سلسلے کا آغاز ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کے اختتام سے چند ماہ قبل تک یعنی 14 اگست 1973ء سے 16مئی 1977ء کے چار سال کے دوران آئین میں سات ترامیم کر ڈالیں۔ یہ آئین ابھی چار سال کا ہوا تھا کہ یہ بھی بھاری فوجی بوٹوں تلے کچل دیا گیا۔ لیکن اس مرتبہ سوچ سمجھ کر اسے موت کے گھاٹ نہ اتارا گیا بلکہ زخمی حالات میں زندہ رکھا گیا اور یہ اپنے تمام تر زخموں کے ساتھ بھی کہلاتا 1973ء کا آئین ہی تھا۔ ایک فوجی ڈکٹیٹر کو پاکستان کی عدلیہ نے فرد واحد کی حیثیت سے اس آئین میں ترمیم کا اختیار دے دیا۔ پھر یہ اختیار خوب استعمال ہوا یہاں تک کہ فوجی ترامیم کے بعد نہ اسے پارلیمانی کہا جا سکتا تھا اور نہ صدارتی۔ پھر بھی کہنے والے اسے 1973ء کا ہی آئین کہتے تھے، اس لیے کہ کسی کے پاس کہنے کو کچھ اور تھا ہی نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم سمیت 1973ء کے آئین میں تین ترامیم کرڈالیں۔ آٹھویں ترمیم میں موصوف نے 58-2(B)کے تحت پارلیمان تحلیل کرنے کا اختیار حاصل کر لیا۔ گویا یہ آئین نہ پارلیمانی رہا اور نہ صدارتی۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء دور کے بعد جو جمہوری دور شروع ہوا، اس دور میں ایک مرتبہ پھر آئین کی بھرپور سرجری ہوئی۔ صدر کو ایک مرتبہ پھر بے اختیار کرکے ایوانِ صدر تک محدود کر دیا گیا۔ اسمبلی توڑنے کا حق دوبارہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو مل گیا۔ 12 اکتوبر 1998ء کو جنرل مشرف نے مارشل لاء لگا دیا۔ مارشل لاء کا مطلب اگرچہ آئین کا انتقال پُرملال ہوتا ہے، لیکن جنرل صاحب نے آئین کی چند شقات ہی کو نہلایا، کفنایا اور دفنایا لیکن قوم کو 1973ء کے آئین کے زندہ رہنے کی نوید سنائی، حالانکہ اُس کی روح بڑی تکلیف کی حالت میں قفسِ جمہور سے پرواز کر چکی تھی۔ جنرل مشرف اور اُن کی حکومت کو بھی ہمارے عظیم نظامِ عدل نے نظریہ ضرورت کے تحت نہ صرف قانونی قرار دے دیا بلکہ اُنہیں بھی فردِ واحد کی حیثیت سے آئین کی مرمت کرنے کی اجازت دے دی۔ جسے اُنہوں نے بحقِ سرکار خوب استعمال کیا۔ موصوف خواتین پر بہت مہربان تھے۔ لہٰذا اسمبلیوں میں خواتین کو اتنی نشستیں الاٹ کر دیں کہ آپ آسانی سے 1973ء کے آئین کو آئین برائے خواتین کہہ سکتے ہیں۔ اُنہوں نے ایک بار پھر آئین میں یہ شق بھی داخل کر دی کہ صدر اسمبلی توڑ سکتا ہے، لیکن اس مرتبہ اُنہوں نے اُس میںبعض شرائط عائد کر دیں۔
مشرف دور ختم ہوا۔ جمہوریت نے ایک بار پھر جنم لیا۔ اس بار پاکستان پیپلز پارٹی حکومت میں تھی، جس میں صدر زرداری آل اِن آل تھے۔ اُنہوں نے بھی 1973ء کے آئین کو آڑے ہاتھوں لیا اور اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو بے لگام کر دیا۔ اب بہت سے معاملات میں وفاقی حکومت چیخ و پکار تو کر سکتی ہے، کسی نافرمان صوبے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
بہرحال ہم 1973ء کے آئین کی بیک وقت گولڈن جوبلی بھی منا رہے ہیں، لیکن اُس کے پچاسویں عرس کا بھی بڑی دھوم دھام سے انتظام کر لینا چاہیے۔ کسی نے کیا خوبصورتی سے ہمارے بارے میں کہا تھا ’’بیکار مباش کچھ تو کیا کر اور کچھ نہیں تو اُدھیڑ کر ہی سیّا (سِلا) کر۔‘‘ اِس اُدھیڑنے اور سِلنے کا عمل ہم 1973ء کے آئین پر اس قدر کر چکے ہیں کہ اب وہ بے سدھ پڑا ہے جو چاہے کھلواڑ کرلے۔ most welcome
یہ تو ہے آئین کا حال اور تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ہمارے معاشرے کی اکثریت ظالم ہندوانہ رسومات اور مادر پدر آزاد مغربی تہذیب کا ملغوبہ دکھائی دیتی ہے اِسی طرح یہ مظلوم اور مضروب آئین قیامِ پاکستان کے بنیادی تقاضوں کی تکمیل نہ کر سکا۔ لہٰذا ہم نئی بوتل میں پرانی شراب انڈیل کر وقت گزاری کر رہے ہیں جس سے ’’ہم نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے‘‘ یعنی ہم دنیوی ناکامیوں کی وجہ سے منہ کے بل گِرے پڑے ہیں اور آخرت بھی تباہ کر رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ہمیں ہدایت دے اور صراطِ مستقیم پر گامزن کرے۔ آمین ثم آمین!