(منبرو محراب) جنتی گھرانہ - ابو ابراہیم

8 /

جنتی گھرانہ

(سورۃ الطور کی آیت 21کی روشنی میں )

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے30دسمبر 2022ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
اللہ تعالیٰ نے جابجا قرآن حکیم میں اہل جنت اور اہل دوزخ کاذکر فرمایاہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اوصاف، کردار اور انجام کوبیان فرماتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ آخرت کے بار ے میں کئی مرتبہ غفلت کے پردے پڑجاتے ہیں ،توجہ نہیںرہتی ،انسان غافل ہوجاتاہے ، یقین نہیں ہوتا۔ان سب وجوہات کی بناء پر اعمال میں کوتاہیاں پید اہوتی ہیں۔فکربھی کمزور بلکہ کج اورٹیڑھی ہوجاتی ہے اوراعمال میں بھی بگاڑ پید اہوتاہے۔ آخرت اگر سامنے ہوتوفکر بھی ٹھیک رہتی ہے۔ جیسے دنیا میں ہمیں بعض چیزوں کی فکر ہوتی ہے ۔ امتحان کی ٹینشن ہے ، باس کا سامنا کرنے کی ٹینشن ہے، آڈٹ آجائے گا اس کی ٹینشن ہے ،مہینے کے آخر میں کرایہ دیناہے جیب میں پیسے نہیں ہیں توٹینشن ہے ۔وغیرہ۔ان کو ہم اردو میں فکریں کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر آخرت کی فکر ہو تو ہماری کیفیت بدل جائے گی، ہمارے اعمال بھی درست ہوجائیں گے۔اس لیے قرآن مجید ہمیں آخرت کی فکر دلانے کے لیے آخرت کے مختلف موضوعات مختلف مقامات پر ہمارے سامنے لاتاہے۔ انہی میں سے ایک مقام سورۃ الطور کی آیت21 ہے ۔جہاں ایک جنتی گھرانے کا نقشہ پیش کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّـتَہُمْ}’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی پیروی کی ایمان کے ساتھ‘ ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اس اولاد کو‘‘
دیگر مقامات پرقرآن مجید ایمان کے ساتھ اعمال صالح اور دین کے دیگر تقاضوں پرعمل کرنا بھی لازم قرار دیتا ہے ۔ اس لحاظ سے یہاں ایساہی ایمان مُراد ہے جس کی گواہی انسان کا عمل بھی دیتا ہو ۔ اگر اس طرز عمل کے حامل والدین ہیں اور اُن کی اولاد بھی اسی طرزعمل میں والدین کی پیروی کر رہی ہے تو پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ جنت میں انہیں ضرور ایک دوسرے سے ملا دے گا ۔
مراد یہ ہے کہ جنت میں بہت سارے درجات ہیں۔کوئی درجات کے لحاظ سے بلند مقام پر ہوگا، کوئی درمیانہ درجہ میں ہوگا اور کسی کا درجہ ذرا کم ہوگا ۔ ان مختلف درجات کی بنیاد پر جنت میں مختلف مقامات جنتیوں کو ملیں گے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ وہ نیچے والوںکو بلند کر دے گا اور اوپر والوں کے ساتھ ملا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی اس شان کریمی پر تمام مفسرین نے کلام کیا ہے ۔ آگے فرمایا:{وَمَآ اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ ط} ’’اور ہم اُن کے عمل میں سے کوئی کمی نہیں کریں گے۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ درجات بھی مختلف ہوں گے لیکن اس کے باوجود مختلف درجات کے لوگوں کو ملا بھی دیا جائے گا ۔ یعنی ایسا نہیں ہوگا کہ جو لوگ بلند درجہ پر فائز ہیں ، اُن کے درجہ میں کوئی کمی کرکے نیچے والوں سے ملا دیا جائے گا بلکہ اللہ کی شان کریمی یہ ہوگی کہ نیچے والوں کو اوپروالوں کے ساتھ اللہ ملادے گا۔
یہ توہے ایک جنتی گھرانے کا نقشہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں پیش کیا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے آخرت کے مختلف نقشے پیش کیے ہیں ۔ کبھی اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتاہے :
{قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط}(الزمر:15) ’’آپؐ کہہ دیجئے کہ اصل میں خسارے میں رہنے والے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو خسارے میں ڈالا قیامت کے دن۔‘‘
دنیا میں بہت سے خسارے ہوتے ہیں۔ کوئی طالب علم امتحان میں فیل ہوگیا،کوئی انٹرویو میں فیل ہوگیا اورکوئی بزنس میں فیل ہوگیا وغیرہ وغیرہ ۔یہ سب خسارے آخرت کے خسارے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ آخرت کا خسارہ اصل خسارہ ہے ۔ اسی طرح قرآن حکیم دہلا دینے والے نقشے بھی ہمارے سامنے رکھتاہے ۔ سورۃ عبس کے آخرمیں فرمایا:
’’اُس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے۔اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے۔اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔اُس دن ان میں سے ہر شخص کو ایسی فکر لاحق ہو گی جو اسے (ہر ایک سے) بے پروا کر دے گی۔‘‘
کیوں بھاگے گا؟تاکہ مجھے کسی طرح جہنم سے بچالیا جائے۔ اس کی انتہائی شکل سورۃ المعارج کے شروع میں آتی ہے :
’’مجرم چاہے گا کہ کاش اس دن کے عذاب کے بدلے میں اپنے بیٹوں کو دے دے اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو اور اپنے اس کنبہ کو جو اسے پناہ دیتا تھااور ان سب کو جو زمین میں ہیں پھر اپنے آپ کو بچا لے۔‘‘
آخرت کے یہ نقشے بھی قرآن کریم پیش کرتاہے ۔ اللہ تعالیٰ اس دن کی ہولناکیوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔کیا ہم اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے( جن کی انگلی بھی چولہے میں آگ میں جلناگوارا نہیں کرسکتے) آخرت کی فکر کر رہے ہیں ؟ ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے جنت کاسوال شعوری طورپردن میں کتنی مرتبہ کررہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے جنت بنائی اورسجائی ہے جس کاذکرجابجا اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایاہے ۔ وہ اللہ کی جنت سستی نہیں ہے ،فری میں ملنے والی نہیں ہے ۔ اللہ کے فضل سے ملنے والی ہے۔ رب نے جواوصاف اہل جنت کے بیان فرمائے وہ تقاضا کرتے ہیں کہ بندہ اس جنت کے حصول کے لیے اپنے آپ کولگائے اوراپنے آپ کو کھپانے کی کوشش کرے۔لیکن آج ہماری زندگیوں میں ،ہمارے گھروں میںہمارا کیا رویہ ہے؟ گلاس ٹوٹے ،سمارٹ فون ٹوٹے یاایل سی ڈی ٹوٹے توہمیں غصہ آتاہے لیکن اگر گھر میں نماز کاحکم ٹوٹتاہے، شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے تو کیا ہمیں غصہ آتا ہے ؟کیانقشے ہیں گھروں کے اندر، کیاکچھ سکرین پرچل رہاہے، اخلاق ورویے کیسے ہیں؟ گھروں میں میتھ،فزکس،کیمسٹری بھی ہے،جاپانی اور جرمن زبان بھی سیکھ رہے ہیں تاکہ جاب مل سکے ، کیا ہم اللہ کا قرآن بھی سیکھ رہے ہیں تاکہ آخرت بن جائے ؟ اللہ کی کتاب ہمارے گھروںمیں کتنی کھلتی ہے؟ہم محمدمصطفیﷺ کے نام لیوا ہیں ،آپﷺ کی ساری زندگی کی جدوجہد ، محنت اورقربانیاں اس مشن کے لیے تھیں کہ اللہ کا لایا ہوا دین غالب کیا جائے ۔ کیاآج ہمارے گھروں اور ہماری زندگیوں میں اس جدوجہد اور مشن سے کوئی نسبت ہے ؟محمد رسول اللہﷺ ایک پردہ کرنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ حیا کرنے والے تھے لیکن آج ہمارے گھرانوں کی حیاکی کیفیت کیسی ہے ؟رسول اللہﷺ کی صاحبزادی بی بی فاطمۃ الزہرۃ ؓ نے فرمایاکہ میرا جنازہ رات کی تاریکی میں اٹھانا۔آج ہمارے گھرانوں میں ہماری بیٹیوںا وربہنوں کاڈریس کوڈ کیسا ہے ؟ان کالباس کیساہے ؟جنت ہمیں چاہیے توفری میں توتھوڑی ملے گی؟
ہم اپنے رویوں کو بھی دیکھیں اور قرآن مجید نے آخرت کے جن مقامات کا نقشہ کھینچا ہے اُن کو بھی ذہن میںلائیں اور فیصلہ کریں کہ کیا ہم خود کو اور اپنے گھروالوں کو خسارے کی طرف لے کر جارہے ہیں یا جنت کی طرف؟ہمارے گھروں میں کتنی مرتبہ جہنم کی آگ کے بارے میں سوچ کررونا آتاہے جیسے کہ اماں عائشہk روئیں تو رسول اللہﷺ نے پوچھاکہ تمہیں کس شے نے رلایا؟ انہوں نے کہاکہ جہنم کی آگ کے خوف نے رلایا۔ آج ہمیں اس بات پرتو رونا آتا ہے کہ ہمارے بچوں کے ہاتھ میں آئی فون تو ہے مگر آئی فون 14نہیں ہے ، فلاں نے اپنی بچی کی شادی پر کروڑ خرچ کیے میں صرف پچاس لاکھ خرچ کر سکا ۔ لیکن کیا جہنم کے خوف سے بھی رونا آتاہے ؟ مسنداحمد کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ پوری رات اللہ تعالیٰ سے اپنی اُمت کے لیے التجا کرتے ہوئے روتے رہے ۔ آج ہمارے رونے دھونے کیاہیں؟ کیا آج آخرت اور جنت ہماری ترجیحات میں شامل بھی ہے کہ نہیں ؟ پیسہ ، پلاٹ ، دوکان ، دنیوی ترقی کے لیے تو ہماری پوری دوڑدھوپ ہے ، کیا آخرت کے لیے بھی کوئی کوشش ہمارے معمول میں شامل ہے ؟
بہرحال ہم اپنے گھروں کاجائزہ لیں ،گھر میں دیکھیںکہ نمازوںکی کیاصورت حال ہے ، قرآن کی تلاوت کتنی ہورہی ہے اورمحمدرسول اللہﷺ کے اسوہ پر کتنا عمل کیاجارہاہے ؟ گھروالوںکوکھلاناپلانا بالکل ٹھیک ہے۔ جائز طریقے پر حلال ذرائع سے پور اکریںکوئی حرج نہیں مگر صرف کھلانے پلانے تک ہی آپ کی ذمہ داری محدود نہیں ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’تم سب راعی (حاکم) ہو اور تم سب اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیے جائو گے۔‘‘ (صحیح بخاری)
پھراللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں۔ ‘‘ (صحیح مسلم)
آج اس حوالے سے والدین کا کیا رول ہے ؟ یہ انتہائی فکری مندی کی بات ہے کہ کہیں ہم خود ہی اپنی اولاد کی آخرت تباہ تو نہیں کر رہے ؟اگر گھرمیں ایمان ، عمل صالح، اسوہ رسولﷺ پرعمل کی فکر نہیں ہے، صرف دنیاداری کی فکرہے ،صرف دنیا کو ہی جنت بنانے کے چکر میں ہیں، صرف دنیا ہی ترجیح ہے تو پھر سوچئے کہ کل اللہ کے ہاں جوابدہی مشکل ہوجائے گی ۔ ارشاد بار ی تعالیٰ ہے : {وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج}(الحشر:18)
’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اُس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے!‘‘
ہر ایک کو اپنے گھروالوں کے لیے جواب دیناہے۔ ارشاد ہوتاہے : {یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا} (التحریم:6) ’’اے اہل ایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے‘‘
ہمارے ہاں مختلف جماعتیں ہیںجوتوجہ دلاتی رہتی ہیں۔ ہم بھی تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے اپنے ساتھیوںکوتوجہ دلاتے ہیں کہ دین کے تقاضوں میں خود اللہ کے دین کو سیکھنے کی کوشش کرنا،اللہ کی بندگی کرنا، قرآن حکیم سے تعلق کی مضبوطی ،اجتماعیت میں شامل ہونا، اجتماعیت سے جڑ کراللہ کے دین کے تقاضوں پرعمل کرنا، اللہ کی بندگی کی دعوت دوسروں کو دینا،اللہ کی بندگی پرمبنی نظام کوقائم کرنے کی جدوجہد کرنابھی شامل ہے وہیں ہم اپنے رفقاء تنظیم کویہ بھی توجہ دلاتے ہیں کہ اپنے گھروں میں دین کو قائم کریں ۔اس کے لیے ہمارے ہاں ’’گھریلو اُسرہ ‘‘کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ اُسرہ عربی میں خاندان کو کہتے ہیں۔ یعنی باقاعدہ گھروالوں کے لیے دینی نشستوں کا اہتمام ہو جہاں گھروالوں کو بٹھا کر قرآن حکیم، سیرت النبی ﷺ،حدیث مبارکہ کاذکر ہو،مسنون آداب کا ذکرآئے، کچھ لٹریچر کامطالعہ ہو،کچھ فہم دین کااہتمام ہو۔اگر آج ہمارے گھروںمیںاس پر محنت ہورہی ہے توپھریہی نقشہ کل ہوگاکہ جوایمان پرتھے اور ان کی اولاد بھی ایمان پررہی تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے یہ آخرت میں بھی اللہ کے فضل سے اکٹھے ہوں گے ۔ لیکن ذہن میں یہ رکھ لیں کہ آج ہمارے عقیدے اور ایمان بھی ہاتھ سے جارہے ہیں ۔کبھی وہ دور تھاکہ کالجز، یونیورسٹیز اورمیڈیاپر انکار سنت کے فتنے کے حوالے سے باتیں ہوتی تھیں ، آج تواللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میںبحثیں شروع ہوگئی ہیں ۔ اگر اللہ ہی کاانکار ہو گیا توپھر آخرت کی کیسی فکر اور اس کا آخرت میں انجام کیا ہوگا ؟ اس حوالے سے فکرمند ہونے کی ضرورت ہے ۔زیر مطالعہ آیت کے آخر میں فرمایا :
{کُلُّ امْرِیٍٔ م بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ (21)} ’’ہر انسان اپنی کمائی کے عوض رہن ہو گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جنت تیار کی ہے لیکن اس کے لیے دنیا میں اسے بامقصد زندگی گزارنے کے لیے بھیجا ۔ اسے جسم ،مال،صلاحیتیں دی ہیں، یہ سب اس کے پاس اللہ کااُدھارہے ۔ دنیا میں کوئی شے رہن (گروی) رکھوا کر ہم قرض لیتے ہیں ،جب قرض ادا کریں گے تو وہ شے واپس مل سکے گی ۔ اسی طرح ہماری جان پھنسی ہوئی ہے۔ہمارے پاس جان، مال،صلاحیت،اوقات وغیرہ یہ سب اللہ کی امانت ہیں ،یہ سب ادھارہیں،اس سب کو اللہ ورسولﷺ کی تعلیم کے مطابق استعمال کریں گے تو ہماری جان چھوٹے گی ورنہ بہت بڑے خسارہ کی طرف ہم سب جارہے ہیں ۔ یعنی جہنم کی طرف ۔ جہنم سے جان کو چھڑانا آسان نہیں ہے ۔اس کے لیے جان ، جسم ، صلاحیت اور وقت جو کچھ بھی اللہ نے دیا اس کو اللہ کی رضا کے لیے ، اللہ کے دین کے لیے لگانا پڑے گا ۔ سورۃ التوبہ آیت 111 میں ارشادہوتاہے :
{ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ ط} ’’یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔‘‘
یہ اللہ کی شان کریمی ہے ورنہ اللہ کو کسی سودے کی حاجت نہیںہے ۔ ہمارے پاس جوکچھ ہے وہ اللہ کی امانت ہے، ہم مالک نہیں ہیں بلکہ کسٹوڈین ہیں۔ اس سب کو اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری اور رضا کے مطابق لگائواورا للہ کی جنت کو پالو۔
مفسرین نے ایک اورگہرا نکتہ بیان فرمایا کہ دنیا میں ماںباپ نیک ہوںتواولاد کو فائدہ پہنچ سکتاہے بشرطیکہ اولاد ایمان پرہولیکن اگر اولاد ظلم وزیادتی کررہی ہے تووہ خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاںجوابدہ ہے۔یہ جو جملہ ہے :{کُلُّ امْرِیٍٔ م بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ (21)} ’’ہر انسان اپنی کمائی کے عوض رہن ہو گا۔‘‘اس تعلق سے سورۃ الکہف کوذہن میں رکھیے جہاں جناب خضرو موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے ۔ ایک واقعہ میں حضرت خصر نے یتیم بچوں کی گری ہوئی دیوار سیدھی کر دی کیونکہ اس دیوار کے نیچے خزانہ تھا ۔ آگے اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{وَکَانَ اَ بُوْہُمَا صَالِحًاج} (الکہف:82)’’اور ان کا باپ نیک آدمی تھا۔‘‘
باپ نیک تھا تو اس کی نیکی اولاد کے کام آگئی ۔ اس تعلق سے ہمارے اسلاف کاطرزعمل ہوتا تھا کہ نوافل ادا کیے، کچھ تھک گئے ، کچھ دیر کے بعد پھر دو رکعت اور ادا کرلیے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پربھی فضل فرمائے اور میری اولاد پربھی فضل فرمائے۔ آج تصور یہ ہے کہ چار کاروبار کر رہا ہوں تو پانچواں بھی شروع کردوں، دونوکریاںکررہا ہوںتو تیسری بھی شروع کردوں، کیا کروں بچوں کے مستقبل کا سوال ہے ۔ حالانکہ اگر آج ماں باپ خیرمیں ،نیکی میں آگے بڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اولاد کی دنیا بھی سنوار دے گامگر ہم اللہ کے دین کوفراموش کرکے دنیا بنانا چاہیں گے تواللہ ذلیل کرے گا اورجوبندہ دنیا کی بجائے اللہ کوترجیح دے ،اللہ کے دین کوترجیح دے گا حدیث میں ذکر آتاہے کہ اللہ دنیا کو ذلیل کرکے اس کے قدموں میں ڈال دیتا ہے مگر ہم دنیا کے پیچھے پڑے رہیںگے تویہ دنیا ہمیں ذلیل کروا دے گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں کی سمجھ عطا فرمائے ۔ آمین !