(نقدو نظر) ایک جائزاور بروقت مطالبہ - ڈاکٹر ضمیر اختر خان

8 /

ایک جائزاور بروقت مطالبہ

ڈاکٹر ضمیر اختر خان

چند دن قبل سوشیل میڈیا پر ،مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے لیٹر پیڈ پر اوران کے دستخطوں سے، ایک پوسٹ سامنے آئی۔ مفتی صاحب کی ثقاہت (Credibility) کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نےاسے فوری طور پر، مزید تحقیق کیے بغیر، جاننے والوں کو بھیج دیا۔ اس کا عنوان تھا’’کھلا خط‘‘۔ اس کے مندرجات نہ صرف یہ کہ ملت اسلامیہ پاکستان کے ایک ایک فرد کے دل کی آوازہیں بلکہ یہ پوری امت مسلمہ کی آرزو بھی ہے۔ خط کی عبارت حسب ذیل ہے:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ کھلا خط ۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے پہلی بار 11 لاکھ فوج کا سربراہ ایک حافظ قرآن ہے اور 11 پارٹیوں( مراد پی ڈی ایم) کا سربراہ ایک عالم دین ہے۔ اب شرعی نظام نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں حتیٰ کہ اپوزیشن بھی نہیں۔ کھلا میدان ہے ۔ ایسی صورت میں رکاوٹ صرف منافقت تصور ہوگی۔ مجھے قوی امید ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کی قیادت اس مسئلے پر اپنا حقیقی سیاسی ودینی کردار ادا کر کے دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوگی اور پاکستان کو اصل معنوں میں شریعت محمدی ﷺ کا تحفہ دے کر تمام فتنوں کا سر کچل دے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اس دور کا سب سے بڑا فتنہ یہی لوگ تصور کیے جائیں گے۔ تاریخ اور بالخصوص پاکستانی عوام انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی کیونکہ اب ان کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علمائے کرام کو اپنا اصل کام ، دین اسلام کی خدمت، کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔ بندہ محمد تقی عثمانی (دستخط)۔‘‘
تھوڑی ہی دیر میں یہ انکشاف ہوا کہ یہ پوسٹ فیک (جعلی) ہے۔ ویسے بھی بعد میں یہ پوسٹ پڑھتے ہوئے احساس ہو گیا تھا کہ یہ اردو مفتی صاحب کی نہیں ہے ۔ مزید براں املا کی اغلاط نے اس احساس کو مزید تقویت پہنچائی۔ اس کے ساتھ ہی مفتی صاحب کا صوتی پیغام بھی آگیا کہ یہ پوسٹ ان کی نہیں ہے۔ مگر اس پوسٹ کے مندرجات پرغور کیا جائے تو ہر ایک فرد مسلم اس سے اتفاق کرے گا۔ یہ ملک بنا ہی اسلام کے نام پر ہے۔ تحریک پاکستان میں اسی ایک مطالبے نے ایسا جوش وخروش پیدا کردیا تھا کہ انہونی ہوگئی اور پاکستان اللہ تعالیٰ نے رمضان کی ستائیسو یں شب کوعطا فرما دیا۔ علیحدہ ملک کے حصول کا جوا ز ہی یہی تھا کہ یہاں پر اہل ایمان اللہ کے احکام اور نبی ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ مفتی صاحب خود 2018ء میں علماء کے ایک نمائندہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ فرما چکے ہیں کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے ایک زور دار تحریک چلنی چاہیے۔ اسی طرح 2010ء میں بمقام لاہور ان کے مسلک کے لگ بھگ ڈیڑھ سو علماء کے ایک بڑے اجتماع میں بھی اسی مؤقف کو پیش کیا گیا تھا کہ پاکستان کے جملہ مسائل کا حل نفاذ اسلام میں ہے ۔ اس اجتماع کا اعلامیہ بھی مفتی تقی صاحب نے تحریر فرمایا تھا اس اعلامیے کے درج ذیل پرما گراف کو سامنے رکھا جائے تو مفتی صاحب سے منسوب پوسٹ فیک ہونے کے باوجود وقت کا اہم ترین تقاضا اور اہل پاکستان کا ایک جائز مطالبہ ہے اور اسے فوری طور پرپورا ہونا چاہیے تاکہ ملک کی بقا کا سامان ہو جائے اور عوام کے دکھوں کا مداوا بھی ہوجائے ۔ 2010ء میں مفتی صاحب کے تحریر کردہ اعلامیہ کا عکس ملاحظہ کیجیے:
’’اس بات پر ہمارا غیر متزلزل ایمان ہے کہ اسلام ہی نے یہ ملک بنایا تھا اور اسلام ہی اسے بچا سکتا ہے، لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں اسلامی تعلیمات اور قوانین کو نافذ کرنے کے لیے مؤ ثر اقدامات کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور ملک کے آئین کا اہم ترین تقاضا بھی اور اسی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ملک میں انتہا پسندی کی تحریکیں اٹھی ہیں ۔ اگر ملک نے اپنے مقصد وجود کی طرف واضح پیش قدمی کی ہوتی تو ملک اس وقت انتہا پسندی کی گرفت میں نہ ہوتا ۔ لہٰذا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ پُرامن ذرائع سے پوری نیک نیتی کے ساتھ ملک میں نفاذ شریعت کے اقدامات کیے جائیں ۔ اس غرض کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ کو فعال بنا کر ان کی سفارشات اور فیصلوں کے مطابق اپنے قانونی اور سرکاری نظام میں تبدیلیاں بلا تاخیر لائی جائیں اور ملک سے کرپشن ، بے راہ روی اور فحاشی و عریانی ختم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ تمام سیاسی و دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے دوسرے مقاصد پر نفاذ شریعت کے مطالبے کو اولیت دے کر حکومت پر دباؤ ڈالیں اور اس غرض کے لیے مؤثر مگر پُر امن طور پر جدوجہد کا اہتمام کریں اور عوام کا فرض ہے کہ جو جماعتیں اور ادارے اس مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ، ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔‘‘
مفتی صاحب کی طرف منسوب جعلی پوسٹ میں جو مطالبہ 2023ء میں کیا گیا ہے اس سے زیادہ زور دار مطالبہ 2010ء میں کیا گیا تھا جس کو مفتی صاحب نے ہی تحریر کیا تھا۔ ہماری خواہش تھی کہ مفتی صاحب اس پوسٹ کی اپنی طرف نسبت کی نفی کرتے ہوئے اگر یہ فرما دیتے کہ اگرچہ یہ میری طرف سے نہیں ہے مگر اس کے نفس مضمون سے مجھے اتفاق ہے تو یہ گویا ان کے 2010ء کے مؤقف کی تائید ہو جاتی۔ مفتی صاحب نے 2018ء میں بھی کراچی میں علماء کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نفاذ دین کے لیے ایک زور دار تحریک کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ مفتی صاحب مولانا فضل الرحمن صاحب سے مطالبہ کریں کہ وہ اپنی موجودہ حیثیت کا حق ادا کریں اور پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے یہ اعلان کریں کہ اس ملک میں نفاذ شریعت کا بلا تاخیر آغاز کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے انتخابات ملتوی کرنا پڑیں تو کرلیں کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ اس وقت قوم کی خوش قسمتی ہے کہ بری فوج کے سربراہ حافظ قرآن ہیں اور حکومتی اتحاد کے قائد ایک عالم دین ہیں،جن کا اپنا بھی ایک مقام ہے اور اپنے والد محترم مفتی محمودؒ کے علمی و سیاسی جانشین  کی حیثیت سے تو ان پر نفاذاسلام کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر کا حافظ قرآن ہونا ان کے جرنیلی مقام سے بڑا اور فضیلت کا مقام و مرتبہ ہے۔ وہ اپنے اس مقام فضیلت کی لاج رکھتے ہوئے ملک میں نفاذ اسلام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ پاک افواج کا ایک زمانے میں یہ ماٹو بنایا گیا تھا ’’ایمان ، تقوی، جہاد فی سبیل اللہ‘‘۔ اس الہامی ماٹوکو پاک افواج کو فخر سے اختیار کرنا چاہیے۔ ان شاء اللہ دنیا وآخرت دونوں میں سرخرو ہوں گے۔ ملک میں دین اسلام کی بالا دستی پاک افواج کا اعلیٰ ترین مشن ہے، اسی لیے اس ملک کی حفاظت پر مامور ہونا جو اسلام کے نام پر بنا ہے بہت بڑا اعزاز ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کا شعور عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین !