ہمارے نظام تعلیم میں کردار کی کمی
ڈاکٹرمحمدیونس خالد
نظام تعلیم اس تعلیمی سرگرمی کانام ہے۔ جس کے ذریعے افراد کے شعور وکردار کو بہتر بناکر ان کوایک قوم کی لڑی میں پرو دیا جائے اوران کوملک وملت کے لیے مفید وکارآمد بنانے کی مربوط کوشش کی جائے۔ ہرملک کا نظامِ تعلیم الگ ہوتا ہے جسے قومی سطح کی ضروریات اور تقاضوں کو مدنظررکھتے ہوئے ترتیب دیا جاتا ہے ۔ اور وہ قوم کی آئیڈیالوجی یا نظریہ حیات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ مثلا ًہم اپنے ملک پاکستان کے نظام تعلیم کی بات کریں تو اس کی تشکیل کے وقت اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ یہاں کے لوگ اس نظام تعلیم سے استفادہ کرکے اچھے کردارو اخلاق کے مالک باشعورمسلمان اور پاکستان کےمفید شہری بنیں۔پاکستان کے جغرافیائی ونظریاتی سرحدوں کے پاسبان بنیں۔ اورساتھ ہی دنیا میں اچھی ملازمت یاکاروبار کرنے کے قابل ہوکرخود بھی کامیاب زندگی گزاریں اور معاشرے کوبھی فائدہ پہنچائیں۔
تعلیم کے بنیادی مقاصد
تعلیمی عمل کا پہلا ہدف انسانی ذہانت ،شعور کی بہتری ا ورجذبات میں توازن پیداکرنا ہے جبکہ دوسر ا اہم ہدف انسان کے کردار کو بہتر بنانا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کام کو بھی وقت پر ٹھیک طریقے سے نہ کیا جائے تو تعلیمی عمل اپنے مقاصد کوحاصل کرنے میں ناکام ہوجائے گا۔ انسان کی صلاحیتیں اس کے شعوری ارتقا اور جذباتی توازن سے نکھر کرسامنے آتی ہیں۔ جب تک انسان کے شعور کو پروان چڑھانے پر کام نہ کیاجائے اور اس کی ذہانت کو پالش کرکے اسے فروغ نہ دیا جائے۔ تب تک اس کی صلاحیتیں اندر ہی اندر دب کررہ جاتی ہیں۔
لیکن دوسری طرف اس کے کردار کو بہتر بنانے کی کوشش اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ کردار انسان کے ہر عمل کو بہتر اور متوازن بنانے میں مدد دیتا ہے۔ کردار سے انسان کی اخلاقیات بہتر ہوجاتی ہیں۔اس میں احساس ذمہ داری آجاتی ہے۔ کردار پرکام سے انسان کی نیتیں خوب صورت اور اس کے جذبات نفیس ہوجاتے ہیں۔ کردار کو بہتر بنانے سے انسان کی مجموعی شخصیت بہترہوجاتی ہے۔ اس میں، ایمان داری، خود احتسابی اور خوف خدا پیدا ہوجاتاہے۔ اور انسان اپنی تنہائیوں میں بھی خود کو اس سے زیادہ ذمہ دار محسوس کرتا ہے جتنا وہ لوگوں کے ہجوم میں رہتے ہوئے کرتاہے۔
کردار پر توجہ نہ دینے کا انجام
اگر انسان کے شعور پر کام کرکے اسے بہتربنادیا لیکن کردار پر کام نہ کیا گیا۔ تو نقصان یہ ہوگا کہ یہ انسان اپنے علم ،شعور اور ادراک کی صلاحیتوں کو دوسرے انسانوں کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرےگا۔ کردار کی بلندی حاصل کیے بغیر شعور کی بلندی ایک ویلیوایبل اسکل کی مانند ہے جس سے دوسرے کو ڈرا دھمکاکر بلیک میل کیا جاسکتاہے۔لہٰذا اگر شعور کے ساتھ کردار کو نہ جوڑا گیا تو یہی شعور دوسروں کی بلیک میلنگ کا ذریعہ بن جائے گا۔
نظام تعلیم میں شعور وادراک کی اہمیت
چنانچہ ہمارا مشاہدہ بتاتاہے کہ دنیامیں شعور اپنی بلندیوں کو چھورہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں اعلیٰ ڈگریوں اور اعلیٰ گریڈز کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ انسانی ذہانت نے نت نئی ایجادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ قائم کیا ہوا ہے ۔ انسانی شعور اور ذہانت کائنات کو مسخر کرنے کی تگ ودو میں مصروف عمل ہے۔ خلا کی وسعتیں اور سمندر کی تاریک وعمیق گہرائیاں اب انسانی شعور کی جولانگاہ بنی ہوئی ہیں۔
دور حاضر میں انسانی شعور کی پیداوار آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) نے تو کمال ہی کردیا ہے۔ اس نے زندگی کے ہرکام کو خود کار طریقے سے کرنے کے لیے آٹو میشن کی بنیاد رکھی۔اب اے آئی بیسڈ روبوٹ انسان کے تمام رویوں کی نقالی کررہا ہے۔ اور یہی نہیں مستقبل قریب میں بہت ممکن ہے کہ یہ روبوٹ خود انسان کو قابو میں کرلے۔ گویا انسانی ذہانت فعال لما یرید کا دعوے دار بنتی جارہی ہے ۔ یوں آج تعلیم کی مرہون منت انسان اپنی ذہانت کو بھر پور طریقے سے استعمال کے قابل ہوگیا ہے۔
تعلیم میں کردار کافقدان
اصولی طور پر ہمارے نظام تعلیم کی اساسی بنیادیں تو قرآن وسنت اور اسلامی فکر کے اوپر اٹھائی گئی ہیں۔ جس نے شعور سے زیادہ کردار کو اہمیت دی۔ کیونکہ ہمارا ملک پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس کی اکثر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس ملک کی پرداخت اور اٹھان ہی اسلام کے نام پر کی گئی ہے۔ اور اس ملک کی اولین شناخت بھی اسلام ہی ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ کہ ان سب کے باوجود آج کردار کا وجود ہمارے معاشرے اور ہمارے نظام تعلیم میں کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔
ہمارے نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو اس میں شعور وادراک کی نشوونما کو اوّلین ترجیح حاصل ہے۔ پورا نظام تعلیم اچھے نمبروں اور اچھے گریڈز کے حصول کی مشین کے طورپر کام کررہا ہے۔ حال یہ ہے کہ اس نظام تعلیم میں ڈگری، اچھے نمبرز اور اچھے گریڈز سے آگے سوچنے تک کو غیر ضروری اور وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے۔ اور کردار واخلاق جسے پاکستان کے نظام تعلیم میں روح رواں کا کردار کا درجہ حاصل ہونا چاہیے تھا عملی طورپر اسے انتہائی غیر ضروری عنصر سمجھا گیا۔اور اسے اپنے ایجوکیشنل سسٹم سے آہستہ آہستہ اس طرح ہٹایا گیا جیسے دودھ میں سے مکھی کو ہٹادیا جاتاہے۔
نتیجہ کیا نکلا؟
جب نظام تعلیم سے شعور کو باقی رکھ کر کردار کو ہٹایا گیا ، تو نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں پروفیشنلز تو بے شمار پیدا ہوئے لیکن وہ سب کردار سے خالی تھے۔ ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ، علماء، آرٹسٹ، سیاست دان، بزنس مین اور ادیب تو بے شمار بنے لیکن بدقسمتی سے ان میں کردار کی کمی تھی۔ اور نتیجہ یہی نکلا کہ اپنے شعوری بلندی کی مہارت یا اسکل کو انہوں نے معاشرے کے فلاح وبہبود پر خرچ کرنے کے بجائے ذاتی مفاد کے حصول کے لیے استعمال کرنا شروع دیا ۔ یوں معاشرے میں کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی بنیاد پڑگئی۔ خود تعلیمی اداروں اور تعلیمی معیار کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ تعلیمی نظام کونقل مافیا کی آماجگاہ بنادیا گیا۔ قومی اداروں کو کرپشن ، رشوت ستانی، اقرباپروری اور ڈیوٹی دئیے بغیر تنخواہیں وصولی کا ذریعہ بنادیا گیا۔ اوریوں آج کا پورا معاشرہ اس کرپشن کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔
مسئلے کا حل کیا ہے؟
نظام تعلیم کو بہتر بنائے بغیر اس مسئلے کاکوئی حل بظاہر نہیں نکلتا نظر نہیں آتا۔ کیونکہ معاشرہ اسی وقت بنتا ہے جب ملک کا نظام تعلیم درست ہو۔ اس کے ذریعے معاشرے کی نہ صرف شعوری ارتقاء پر کام کیا جائے بلکہ کردارو اخلاق کو بھی بھرپور طریقے پروان چڑھایا جائے ۔ کیونکہ نظام تعلیم اس لڑی کانام ہے جولوگوں کے ہجوم کو جوڑ کر ایک قوم کی ہار میں پرودیتا ہے۔ اور اچھے نظام تعلیم کی وجہ سے معاشرہ ایک گلدستہ کا منظر پیش کرتا ہے۔ ورنہ معاشرہ صرف لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے سے نہیں بنتا۔ جب لوگ اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے ایک جگہ جمع ہوں اور ان کو اکٹھا کرنے میں کوئی اجتماعی مقصد کارفرما نہ ہو توا سے لوگوں کا ہجوم یا لوگوں کی منڈی کہا جاسکتا ہے۔ معاشرہ نہیں کہا جاسکتا۔
جب درست نظام تعلیم بنانے کی بات کی جائے تو شعور اور کردار دونوں کی نشوونما کو یکجا کرنا پڑے گا۔
خلاصہ ٔکلام
خلاصہ کلا م یہ ہےکہ ہمارے ملک پاکستان کو اس وقت ایک منظم ومربوط نظام تعلیم کی اشد ضرور ت ہے، جس میں شعوری ارتقا ءکے علاوہ کردار واخلاق کی بہتری پر کام کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہو۔ اس وقت پاکستان میں کئی الگ نظام تعلیم کام کررہے ہیں۔ جوصرف شعوری ارتقاء پر کام کررہے ہیں۔ کردار پر کام ان کے پیش نظر ہے ہی نہیں۔ اس حوالے سے پوری قوم میں شعور بیدارکرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے قومی سطح کے پالیسی میکرز میں اس رجحان کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے کو صرف شعوری تعلیم کی کمی ہی کا سامنا نہیں بلکہ حُسن ِ کردارکی تعلیمی کمی بھی بہت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ اللہ کرے کہ یہ نکتہ ہمارے ارباب حل وعقد کو بھی محسوس ہو۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024