(زمانہ گواہ ہے) اردگان کی فتح اورترکیہ کامستقبل - وسیم احمد

8 /

رجب طیب اردگان نے بہترین حکمت عملی کےساتھ ترکیہ میں اسلامی نقطہ نظررکھنے

والوں کی پذیرائی کی اور ملک کو بحرانوں سے نکالا : ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف

موجودہ عالمی حالات اور خطے کی صورتحال میں ترکیہ کا انتہائی اہم رول ہمیں نظر

آتا ہے ۔ اس لیے مستحکم ترکی اُمت مسلمہ کے لیے ناگزیر ہے : رضاء الحق

رجب طیب اردگان کا ایک ویژن تھا جس کے لیے انہوں نے جدوجہد کی اور اس کے

نتیجہ میں ترکیہ کو استحکام ملا : ڈاکٹر محمد عارف صدیقی

اردگان کی فتح اورترکیہ کامستقبل کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میںمعروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

سوال: طیب اردگان کا مسلسل تیسری مرتبہ صدارتی انتخابات جیت کر اقتدار میں آنا ترکیہ اور عالم اسلام کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے ؟ 
رضاء الحق: رجب طیب اردگان 1994ء میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے تھے ۔ اس کے بعد 2003ء سے 2014ء تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے ۔ 2014ء میں یہ پہلی بار ترکیہ کے صدر منتخب ہوئے ، 2018ء میں دوسری مرتبہ اور اب 2023ء میں رن آف الیکشن کے بعد 52 فیصد ووٹ لے کر تیسری مرتبہ ترکیہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ طیب اردگان کو اپنے دور صدارت میں بہت سارے چیلنجز کا سامنا رہا ۔ جیسا کہ 2015ء میں ان کے خلاف بغاوت کی کوشش کی گئی ۔ اس بغاوت میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ ملوث تھا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے پیچھے فتح اللہ گولن کا ہاتھ تھا جس کو عوام نے ناکام بنا دیا ۔ اسی طرح ترکیہ کو معاشی چیلنجز کا بھی سامنا تھا ۔ دوتین سال پہلے ترکیہ کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں اتنی گر گئی کہ قطر کو تقریباً 15بلین ڈالرز کا بیل آؤٹ پیکج دینا پڑا ۔ اس کے علاوہ ترکیہ پر امریکی پابندیاں بھی ایک بڑا چیلنج تھیں جس سے ترکیہ کی سٹیل کی ایکسپورٹ متاثر ہوئی ۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ طیب اردگان نے بہتر پالیسیوں کی بدولت ترکیہ کو اس مشکل صورتحال سے نکالا ۔ خاص طور پر ایسی صورتحال میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا اصول ہے کہ شرح سودبڑھائی جاتی ہے لیکن طیب اردگان نے اسے بڑھانے کی بجائے مزید کم کردیا ۔ اس سے ترکیہ کو خاطر خواہ فائدہ ہوا ۔ البتہ ایک فطری بات ہے کہ اگر کوئی طویل عرصہ تک حکمران رہتا ہے تو اس کی مقبولیت میں تھوڑی کمی ضرور آتی ہے جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ 2019ء کے میئر کے انتخابات میں طیب اردگان کی جسٹس پارٹی کو استنبول ، انقرہ اور ازمیر میں شکست ہوئی ۔ پھر یہ کہ علاقائی اور بین الاقوامی ایشوز میں بھی مخالف قوتوں نے ترکیہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جیسا کہ کردوں کا مسئلہ ہو یا شام کا مسئلہ ہو ۔ لیکن طیب اردگان نے ان مسائل سے نمٹنے میں بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہے ۔ اب سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اس وجہ سے بھی ترکیہ کے لیے مستقبل میں ایک موقع میسر آئے گا۔ اس کے علاوہ روس اور یورپی یونین کی جنگ بھی ایک بڑا ایشو ہے ۔ اس جنگ میں فریقین ترکیہ کو اپنی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ روس کے ساتھ ترکیہ کا تنازعہ بھی بہت پرانا ہے۔ خاص طور پر جب سلطنت عثمانیہ قائم ہوئی تھی تو انہوں نے بازنطینیوں کو استنبول سے نکال دیا تھا اور مشرقی آرتھوڈاکس نے اپنا دارالحکومت استنبول سے ماسکو میں منتقل کر لیا تھا ۔ اس کے علاوہ ترکیہ کا یونان کے ساتھ بھی قبرص کے معاملہ پر تنازعہ چل رہا ہے ۔ پھر طیب اردگان کو اندرونی طور پر بھی ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے ۔ یہاں تک کہ ترکیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدارتی انتخابات میں رن آف کا معاملہ کرنا پڑا کیونکہ پہلے مرحلے میں طیب اردگان کو مناسب اکثریت نہیں مل سکی تھی ۔ یعنی طیب اردگان کو اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ جب ہم خطے کے حالات اور عالمی حالات کو دیکھتے ہیں تو ترکیہ کا انتہائی اہم رول ہمیں نظر آتا ہے ۔ اس لیے مستحکم ترکیہ اُمت مسلمہ کے لیے ناگزیر ہے ۔
ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف: رجب طیب اردگان کے ووٹرز نے عالمی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طیب اردگان کے بیس سالہ دوراقتدار میں ترکیہ بہت حد تک بدل گیا ہے اور بہت کچھ بہتر ہوا ہے ۔ اس کے پیچھے طیب اردگان کی بہتر معاشی پالیسیاں ہیں ۔ ایک دور وہ تھا کہ ترکیہ کی کرنسی کی ویلیو بالکل ختم ہو چکی تھی ۔ طیب اردگان نے اس کو دوبارہ استحکام دیا ۔ اسی طرح ایک خاتون نے کہا کہ وہ حجاب پہنتی ہے اور پہننا چاہتی ہے اور اس کی وجہ طیب اردگان ہے کہ اس نے اسلام کے قریب کیا ۔ البتہ طیب اردگان کے مخالفین میں زیادہ تر انتہا پسند ہیں جن میں سے کچھ نے کہا کہ اگر ہم کامیاب نہ ہوئے تو ہم ترکیہ چھوڑ کر چلے جائیں گے ۔ بہرحال طیب اردگان کی پالیسیوں کا ایک اثر ہے جو نظر آتاہے ۔ اس میں باقی عالم اسلام کے حکمرانوں کے لیے بھی سبق ہے ۔ ترکیہ میں جب حالیہ زلزلہ آیا تو طیب اردگان نے اپنی جائیداد فروخت کرکے ساری رقم زلزلہ زدگان کے لیے وقف کردی ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ مغرب اور امریکہ طیب اردگان کے خلاف ہیں۔ وہ بالکل نہیں چاہتے تھے کہ طیب اردگان دوبارہ ترکیہ کے صدر منتخب ہوں ۔ لیکن طیب اردگان نے اپنی الیکشن مہم میں بہت بڑے بڑے جلسے کیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مقبولیت ابھی بھی موجود ہے ۔ ان کی جیت پر عالم اسلام میں جشن منائے گئے ۔ امیر قطر شیخ تمیم ، افغانستان کے ملا محمد حسن اخوند اور آذر بائیجان ، ہنگری اورلیبیا کے حکام نے ان کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا ۔ سب سے بڑا جشن فلسطین میں منایا گیا ۔ حالانکہ اسرائیل کے ساتھ ترکیہ کے سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں لیکن اس کے باوجود اردگان نےہمیشہ فلسطینیوں کے لیے آواز اُٹھائی ہے ، اسی طرح انہوں نے کشمیر کے حق میں بھی ہمیشہ آواز اُٹھائی ہے ۔ یو این او میں ان کی جتنی بھی تقاریر ہیں ان میں انہوں نےفلسطین اور کشمیر کاذکر ضرور کیا ہے ۔ بہرحال عالم اسلام کو طیب اردگان سے بہت سی اُمیدیں وابستہ ہیں ۔
سوال: طیب اردگان اور ان کی جماعت کا اسلام کی احیائی تحریکوں سےکوئی تعلق جڑتا ہے اور کیا ترکیہ دور حاضر کی ماڈرن اسلامک سٹیٹ بن سکتی ہے؟
ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف:اسلام کی احیائی تحریک سے ان کا تعلق بالکل جڑتا ہے ۔ اگر ہم ماضی میں تھوڑا پیچھے جائیں تو ترکیہ میں سعید نورسی کی تحریک بڑی مقبول تھی ۔سعید نورسی نے توحید کی بنیاد پر تحریک کا آغاز اس وقت کیا جب ترکیہ پر یورپی اثرات بہت زیادہ تھے ، اور بہت زیادہ مخالفت بھی تھی ۔ سیکولر تحریکیں بھی اپنے زوروں پر تھیں۔ اس دوران میں قرآن مجید کی تعلیمات کو پھیلاتا آسان نہیں تھا،وہ گرفتار بھی ہوئے لیکن انہوں نے اپنا کام نہیں چھوڑا ۔ وہ جیلوں میں بیٹھ کر لکھتے تھے ، رسالہ نور کے نام سے انہوں نے بارہ کتابیں لکھی ہیں ۔ ان کی تحریک کا مقصد خلافت کا احیاء تھا ۔ سعید نورسی نے کمال اتا ترک کے زمانہ میں اسمبلی میں کھڑے ہوکر خطاب کیا جس میں انہوںنے قرآن کی بات کی اور خلافت کے احیاء کی بات کی جس کے بعد ان پر پابندی لگا دی گئی ۔ پھر ان کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے اس تحریک کو آگے بڑھایا ۔عدنان مندریس کا تعلق بھی سعید نورسی کی تحریک سے تھا ۔ان کو بغاوت کے جرم میں پھانسی دے دی گئی ۔ اس کے بعد نجم الدین اربکان کا دور ہے ۔نجم الدین اربکان نے سعید نورسی کی تحریک سے متاثر ہوکر پہلے نیشنل وائس پارٹی بنائی جس پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ ترکیہ کے آئین میں کوئی مذہبی پارٹی نہیں بن سکتی تھی ۔ پھر انہوں نے نیشنل سالویشن پارٹی بنائی اس پر بھی پابندی لگا دی گئی پھر انہوں نے رفاء پارٹی بنائی اور حکومت میں شامل ہوئے۔ 1995ء میں وہ وزیر اعظم بنے لیکن ایک سال بعد ہی ان کو ہٹا دیا گیا ۔ نجم الدین اربکان کے دو شاگرد ہوئے۔ ایک فتح اللہ گولن اور دوسرے رجب طیب اردگان۔ ان دونوں نے محسوس کیا کہ اگر احیائی تحریک کو ہمیں آگے بڑھانا ہے تو ہمیں مختلف راستہ اختیار کرنا ہوگا ۔ لہٰذا طیب اردگان نے خدمت کا راستہ اختیار کیا ۔ وہ 1994ء میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے اور خدمت کا سلسلہ شروع کیا ۔ فتح اللہ گولن نے تبدیلی بذریعہ تعلیم کا راستہ اختیار کیا ۔ انہوں نے سکول اور کالجز بنائے ۔ پھر فتح اللہ گولن امریکہ چلے گئے اور طیب اردگان وزیراعظم بن گئے ۔ پھر اب وہ تیسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے ہیں ۔ ایک بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ سعید نورسی نے احیائی تحریک کا آغاز 1898ء میں کیا تھا ۔ آج سوا صدی گزرچکی ہے ۔ پھر طیب اردگان کتنے عرصہ سے حکومت میں ہیں لیکن انہوں نے عجلت پسندی سے کام نہیں لیا کیونکہ عجلت پسندی احیائی تحریک کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اس میں ہمارے لیے بھی سبق ہے۔جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا ترکیہ دور حاضر کی ماڈل اسلامی ریاست بن سکتا ہے تو بالکل بن سکتا ہے۔ طیب اردگان جس طرح کام کررہے ہیں ان پر تنقید بھی بہت کی جاتی ہے ۔ اسرائیل سے تعلقات پر تنقید ہے ، نیٹو کے اتحادی ہونے پر تنقید ہے لیکن انہوں نے اسی دوران راستہ نکالا ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ نجم الدین اربکان کی مخالفت اس وجہ سے کی گئی تھی کہ ان کی اہلیہ نے سکارف پہن لیا تھا ۔ طیب اردگان نے ان تجربات سے سیکھا اور بڑے محتاط انداز میں آگے بڑھے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی جدوجہد میں کامیاب ہیں کیونکہ آج پچاس فیصد سے زائد لوگ ان کے ساتھ ہیں ۔ حالانکہ ترکیہ کے آئین میں ہے کہ فوج سیکولر ازم کو تحفظ دے گی لیکن اس کے باوجود طیب اردگان نے راستہ نکالا ہے۔ لہٰذا آگے چل کر ترکیہ ایک ماڈرن اسلامی ریاست بھی بن سکتا ہے ۔ ان شاءاللہ!
سوال: ترکیہ نیٹو کا اہم رکن بھی ہے اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات بھی قائم کیے ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف طیب اردگان انٹرنیشنل فورمز پر امریکہ اور اسرائیل کے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف آواز بھی اُٹھاتے رہتے ہیں ۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے ؟

ڈاکٹر محمدعارف صدیقی :یہ سوال شاید ہر دوسرے پاکستانی کے ذہن میں ہوگا ۔ میں بھی ایک عام آدمی کی حیثیت سے یہی کہوں گا کہ بالکل اسرائیل کے ساتھ ترکیہ کے کسی قسم کے تعلقات نہیں ہونے چاہئیں ۔ لیکن دوسری طرف آپ اگر حکمت عملی دیکھیں  تو اسی وجہ سے ترکیہ فلسطینیوں کی مدد بھی کر سکتاہے ۔ میں فلسطینیوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں لیکن پاکستانی پاسپورٹ پر میں اسرائیل نہیں جا سکتا کیونکہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ۔ جب غزہ میں محصور فلسطینیوں کے لیے پوری دنیا سے امداد اکٹھی کی گئی مگروہاں تک کوئی پہنچ نہیں پارہا تھا تو پھر ترکیہ کا جہاز وہاںپہنچا ۔ دوسری بات اگر ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تو ہم فلسطینیوں کے لیے کیا کر رہے ہیں یا وہ عرب ممالک کیا کر رہے ہیں جنہوں دعویٰ کیا کہ ہم ابراہیم اکارڈکی روشنی میں فلسطینیوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہے ہیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کے لیے کوئی قدم اُٹھایا ؟ دوسری طرف ترکیہ نے ہرفورم پر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اُٹھائی ہے ۔ جہاں ضرورت پڑی انہوںنے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا ۔ کئی مرتبہ ترکیہ نے بین الاقوامی فورمز پر اسرائیل کا بائیکاٹ کیا اور اسرائیل کو اس کی وجہ سے کافی خفت اُٹھانی پڑی ۔ جبکہ ہمارے ہاں الٹا کام چل رہا ہے کہ بظاہر ہم میں سے اکثر ممالک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا مگر ڈپلومیسی کے ذریعے اسرائیل کو تمام تر مراعات دیے جا رہے ہیں۔ اگر نتائج کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ترکیہ ان ممالک سے بہتر ہے ۔
سوال: مڈل ایسٹ میں ایران اور سعودی عرب کی سردجنگ کے خاتمے اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کیاآپ کو مستقبل قریب میں ایران، سعودی عرب، پاکستان، افغانستان اور ترکیہ پر مشتمل پانچ ممالک کا اسلامک بلاک بنتا ہوا نظر آتا ہے ؟
ڈاکٹر محمدعارف صدیقی : یہ معاملہ کافی عرصے سے زیر غور ہے۔ اگر یہ بلاک بن جائے تو ایک بہت بڑی تبدیلی خطے میں رونما ہو سکتی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ملائشیا کو بھی شامل کرنا چاہیے کیونکہ اس کی بھی ایک سٹریٹجیک پوزیشن ہے ۔ جیسے سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال ہے ، ترکیہ مسلم اُمہ کو لیڈ کر سکتا ہے ، پاکستان کے پاس ایٹمی قوت اور پیشہ ور فوج ہے ، افغانیوں سے زیادہ گوریلا جنگ کا ماہر کوئی نہیں ہے ۔ ان کے خون میں دشمن کے خلاف کھڑے ہونا شامل ہے ۔ اگر ملائشیا کو بھی ایڈ کرلیں تو ملائشیا اکانومک ویژن میں آگے ہے ۔ ملائیشیا نے کئی ترقی یافتہ ممالک کو بھی اکانومک گروتھ میں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ ایران اگر پڑوسی ممالک میں مداخلت اور اپنی وسعت کا نظریہ چھوڑ دے تو وہ امت مسلمہ کے کام آسکتا ہے ۔اگر یہ بلاک بن جائے تو مسلم اُمہ کے پاس یہ سب صلاحیتیں آجائیں گی ۔ پھر ہمیں نہ تو ورلڈ بینک کی ضرورت پڑے گی ، نہ یو این او کی اور نہ ہی آئی ایم ایف کی ۔ دشمن کو اسی بات کا خطرہ ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس سے پہلے کوالالمپور کانفرنس میں کچھ چیزوں کو عملی شکل دینا مقصود تھی جیساکہ مسلم اُمہ کا ایک چینل ہو ، ایک کرنسی ہو اور ویزہ فری کیا جائے اور یہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کاروباری، تجارتی سفارتی اور رشتہ داری کے تعلقات بنا سکیں۔ اگر یہ معاملہ پایہ ٔ تکمیل تک پہنچ جاتا تو پھر اقوام متحدہ، ورلڈ بینک،آئی ایم ایف ، FATF سب زمین بوس ہو جاتے ۔ دشمن نے اس وقت بھی ٹانگ اڑائی اور یہ معاملہ نہیں ہونے دیا لیکن اب دوبارہ ایسی صورتحال پیدا ہو رہی ہے کہ شاید دلوں میں وسعت پیدا ہو، پرانے اختلافات کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کو گرا کراگر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھیں تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگلی صدی نہیں بلکہ اگلی دہائی مسلم اُمہ کی ہوگی ۔
سوال:امریکہ اور روس کی سرد جنگ اور روس اور یوکرائن کی گرم جنگ جو ایک عرصہ سے جاری ہے اس میں ترکیہ کیا رول ادا کر سکتا ہے ؟
رضاء الحق: ترکیہ کے حوالے سے رینڈ کارپوریشن کی ایک بڑی دلچسپ رپورٹ 2007ء میں The rise of Political Islam in Turkey. کے عنوان سے سامنے آئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اب ترکیہ جس سمت میں بڑھنا شروع ہوا ہے اس میں ہمیں احیائے اسلام کے جراثیم نظر آتے ہیں ۔ اس رپورٹ میں باقاعدہ لکھاہوا ہے کہ ترکیہ اب درجہ بدرجہ احیائے اسلام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کے لیے انہوں نےcreeping islamizationکی اصطلاح استعمال کی اور کہا کہ یہ مغرب کے لیے بڑا خطرہ ہے ۔ جو مثالیں انہوںنے دیں اس میں حجاب کا آجانا ، سکولز ، کالجز میں اسلام کو متعارف کروانا ، مذہبی رجحان والے لوگوں کا سیاست میں آجانا اور سیکولر عدلیہ اور فوج کا پریشر میں آتے جانا، ترکیہ کا جھکاؤ مسلم ممالک کی طرف بڑھنا وغیرہ شامل تھا ۔ اس کا انہوںنے حل بھی تجویز کیا کہ ترکیہ کو یورپی یونین اور نیٹو کی طرف لایا جائے ۔ لیکن ترکیہ دس سال قبل جس طرح پُرزور انداز میں یورپی یونین کا ممبر بننے کا خواہش مند تھا اب نہیں ہے اور نیٹو میں بھی اس کی دلچسپی نہیں رہی ۔ یہاں تک کہ حالیہ دنوں میں روس کے خلاف نیٹو کا جو محاذ بن رہا ہے اور حال ہی میں اس میں فن لینڈ کو بھی شامل کیا گیا ہے اور سویڈن بھی شامل ہونا چاہتا تھا مگر ترکیہ نے اس کے خلاف ووٹ دیا کیونکہ سویڈن نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تھی ۔ اب نیٹو ترکیہ کی منتیں کر رہا ہے ۔ بہرحال رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ میں دوسری تجویز یہ دی گئی تھی کہ ترکیہ میں سیکولر عدلیہ کو مضبوط کیا جائے تاکہ وہ سیکولرازم کو ہر حال میں بالا دست کر سکے اور سیکولر آئین کی ایسی تشریح کرے کہ مذہبی جماعتوں کے لیے ترکیہ میں کوئی جگہ نہ رہے ۔ موجودہ بین الاقوامی حالات میں جبکہ روس اور یوکرائن کی جنگ شروع ہے اس میں ترکیہ ایک مرتبہ پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام سمندری راستے جو روس کو گرم پانیوں تک پہنچاتے ہیں یا گیس پائب لائن جہاں سے یورپ تک پہنچتی ہیں یا یورپ کا تجارتی سامان جس سمندری راستے سے گزرتاہے وہ اہم سمندری راستے ترکیہ کےپا س ہیں ۔ اس لیے امریکہ اور یورپ کی کوشش ہے کہ ترکیہ کو روس سے دور کرکے مکمل طور پر اپنے گروپ میں شامل کرلے ۔ لیکن ترکیہ نے بڑا سوچ سمجھ کر کردار ادا کیا ہے ۔ نہ تو اس نے سو فیصد امریکہ کا ساتھ دیا ہے اور نہ ہی سوفیصد روس کا ساتھ دیا ہے بلکہ وہ ایشو ٹو ایشو معاملا ت کو دیکھ کر آگے چل رہا ہے ۔ طیب اردگان نے فریقین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور شروع کروائے۔ طیب اردگان اپنے ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر چل رہے ہیں ۔خدشہ ہے کہ امریکہ طیب اردگان کے لیے مسائل کھڑے کرے ۔
سوال:1923ء میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہواتو اس وقت ایک معاہدہ لوزان ہو ا تھا جس کوجولائی 2023ء میں سو سال پورے ہو نے کو ہیں ۔ آپ یہ فرمائیے کہ کیا سوسال پورے ہونے کے بعد یہ معاہدہ واقعی ختم ہو جائے گا اور اگر ایسا ہوگا تو اس کے بعد ترکیہ میں احیائے خلافت کے امکانات روشن ہو جائیں گے یا نہیں ؟
ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف:یہ معاہدہ 24جولائی 1923ء کو سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میںہوا تھا ۔ اس لیے اس کو معاہدہ لوزان کہا جاتا ہے ۔ اس معاہدہ میں یہ تو طے تھا کہ یہ سوسال کے لیے ہے لیکن ایسی کوئی شرط نہیں تھی کہ سو سال بعد یہ ختم ہو جائے گا ۔ اس معاہدہ کے تحت ابنائے ہرمز پر ترکیہ کا کنٹرول ختم ہوا ۔ اس کے معدنی ذخائر پر ترکیہ کا کنٹرول ختم ہوا۔ اسی طرح اس معاہدہ میں یونان ، بلغاریہ اور ترکیہ کی سرحدیں متعین کی گئیں ، قبرض ، عراق اور شام پر ترکیہ کا دعویٰ ختم ہوگیا ۔ اب اگر ہم کہیں کہ سو سال بعد قبرص، شام اور عراق پر ترکیہ کا دوبارہ قبضہ ہو جائے تو یہ ناممکن ہے ۔ البتہ جیسا کہ ترکیہ کے عوام کے ذہنوں میں ہے کہ اس معاہدہ کے سو سال پورے ہونے پر ترکیہ کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ابنائے ہرمز اور اس کی معدنیات پر دوبارہ ترکیہ کا کنٹرول ہو جائے اور ابنائے ہرمز میں بحری تجارتی ٹرانسپورٹ پر ترکیہ کا ٹیکس بحال ہو جائے گا ۔ اگر یہ دو چیزیں ہو جائیں تو ترکیہ کو واقعی معاشی فوائد حاصل ہو ں گے ۔ طیب اردگان نے بھی کئی دفعہ اپنی تقریروں میں ذکر کیا تھا کہ 2023ء ترکیہ میں  تبدیلی کا سال ہو گا ۔ اُمید ہے کہ ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا ۔
رضاء الحق: رجب طیب اردگان جب حالیہ صدارتی انتخابات جیتے ہیں تو انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ یہ ترکیہ کی بہتری کی صدی کا آغاز ہے ۔انہوں نے خلافت عثمانیہ کا ذکر نہیں کیا ۔ لوزان ٹو معاہدے میں جو ایک تو معدنیات کے اوپر قدغن لگا دی گئی لہٰذا وہ اب ترکیہ کے اختیار میں نہیں رہیں ۔ عراق ، شام اور قبرص پر بھی دوبارہ ترکیہ کا قبضہ ممکن نہیں ہے ۔ اسی طرح بین الاقوامی پانیوں کی حدود بھی ترکیہ میں نہیں رہیں ۔ اب لوزان ٹو معاہدہ اگر ختم ہوتا بھی ہے تو میرا نہیں خیال کہ یہ پانی دوبارہ ترکیہ کو مل سکیں گے ۔ البتہ کوئی نئے معاہدے ہوں اور ترکیہ اپنی شرائط منوانے کے قابل ہو جائے کہ فلاں فلاں چیزوں پر میرا اختیار تسلیم کیا جائے تو ممکن ہے چندچیزیں ترکیہ کو واپس مل جائیں ۔ لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ترکیہ کے پاس کتنی سفارتی، اخلاقی، معاشی اور عسکری طاقت ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنی بات منوا سکے ۔
ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف: جس طرح سے طیب اردگان نے ترکیہ کو بحرانوں سے نکالنے میں ایک مرد آہن کا کردار ادا کیا ہے ،خاص طور پر 2015ء کے بعد وہ جن بحرانوں سے گزرے ہیں ، اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کے اتحاد کو عملی شکل دینے کی کوشش ضرور کریں گے ۔ البتہ تحریک خلافت موجودہ حالات میں اتنی آسان نہیں ہے ۔ جو ممکن ہے وہ یہ ہے کہ مسلم یواین او طرز پر کوئی اتحاد بن جائے یا مسلم کرنسی کی باتیں ہوتی رہتی ہیں ، اس حوالے سے ممکن ہے وہ کوئی کردار ادا کرسکیں ۔
سوال: طیب اردگان کی حلف برداری کی تقریب میں پوری دنیا کے اہم ترین لوگ شریک ہوئے، وزیراعظم پاکستان بھی خصوصی طور پر گئے اوروہاں جومکالمہ ہوا وہ بھی آپ نے میڈیا کے ذریعے سنا۔ یہ بتائیے کہ وزیر اعظم پاکستان کا اس تقریب میں جانا کتنی اہمیت کا حامل ہے؟
ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف:وزیر اعظم پاکستان کا وہاں جانا بہت ضروری تھا کیونکہ ایک توترکیہ ، روس ، چین ، ایران کا جو بلاک بن رہا ہے اس میں پاکستان ایک اہم پارٹنر بن سکتا ہے ۔ اس بلاک میں BRIمنصوبے کی بہت زیادہ اہمیت ہے جس کا بہت گہرا تعلق پاکستان کے strategic حالات سے ہے، پھر اس منصوبے میں گوادر پورٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔چونکہ اس خطہ میں امریکہ کا فرنٹ مین بھارت ہے اس لیے وہ چاہ بہار پر انوسٹمنٹ کر رہا ہے لیکن ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی سے امریکہ اور بھارت کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے ۔ اس لیے وزیراعظم پاکستان کا دورہ ترکیہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا اور یہ message دینا ضروری تھا کہ ہم ترکیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان کے معاشی اور سیاسی مفادات کا شدید تقاضا ہے کہ وہ ترکیہ کے ساتھ کھڑا رہے ۔
رضاء الحق: بنیادی طور پہ جس طرح خطے کے حالات بنتے جا رہے ہیں کہ افغانستان ، ایران ، پاکستان ، سعودی عرب وغیرہ یہ سب چاہتے ہیں کہ ان کاانحصار امریکہ پر کم سے کم ہو جائے اور چین اس حوالے سے ان کو لیڈ کررہا ہے۔ خاص طور پر معاشی لحاظ سے چین ان کو سپورٹ کر رہا ہے جبکہ روس کی ملٹری طاقت اس گروپ کو تقویت دیتی ہے۔ پاکستان کے لیے بھی اس گروپ میں رہنا انتہائی مفید ہوگا کیونکہ ایک تو اس کی آئی ایم ایف وغیرہ سے جان چھوٹ جائے گی اور اس کو بھی ترقی کرنے کا موقع ملے گا ۔ دنیا کے معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی ایک ملک پوری دنیا کو فتح کرنے نکل جائے ۔ اب بلاک بن رہے ہیں اور بلاکس کا ہی تصادم آئندہ کسی نہ کسی صورت میں نظر آرہا ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں ۔ یہ نہیں کہ امریکہ کے ساتھ کوئی جنگ مول لے لیکن امریکہ سے دور ہٹ کےاپنے مفادات کا تحفظ کرے ۔ اس کے لیے اس بلاک میں جانا مستقبل کی ضرورت ہوگی ۔
ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف: یہ بات ذہن میںرہے کہ ترکیہ کا پاکستان کے ساتھ جو تعلق ہے وہ گہرا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے خلافت عثمانیہ کے حق میں تحریک چلائی تھی ۔ اس وجہ سے ترکیہ کےلوگ پاکستان کے مسلمانوں سے لگاؤ رکھتے ہیں اور انہیں ترجیح دیتے ہیں ۔ ابھی بھارت نےسری نگر میں  G-20 منعقد کیا ۔ چین نے بھی اس کا بائیکاٹ کیا ۔ ترکیہ OICکا وہ واحد ممبر تھا جس نے اس کانفرنس میں جانے سے منع کیا جس کی وجہ سے باقی بعض مسلم ممالک بھی وہاں جانے سے رک گئے ۔ اس لحاظ سے ترکیہ کی بہت زیادہ سپورٹ ہے پاکستان کو ۔ اس لیے پاکستان کے حکمرانوں اور ذمہ دار حلقوں کو چاہیے کہ وہ ترکیہ کے ساتھ مل بیٹھیں لیکن اس سے پہلے پاکستان کے اندر بھی استحکام لانا ہوگا ، جو خلفشار ہے اس کو ختم کرنے کے لیے دستور کو تحفظ دینا ہوگا اور ساتھ ساتھ ترکیہ کے ساتھ جو ہمارا رشتہ ہے اس کو بھی مضبوط سے مضبوط بنانا ہوگا ۔