پاکستان:عذابوں کے سائے میںاسباب، وجوہات اورحل
مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی ،کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے09جون 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں مختلف پیرایوں میں گزشتہ اقوام کاتذکرہ فرمایااوران اقوام میں جوبگاڑ پیدا ہوا جس کے نتیجے میں اللہ کے عذاب ان پرنازل ہوئےاس کاتذکرہ بھی کیا۔ ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون عذاب کوبھی مختلف پیرایوں میں بیان کیا۔ قرآن حکیم تاریخ کی کتاب نہیںہے بلکہ کتاب ہدایت ہے۔ چنانچہ ان واقعات کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ ہردور کاقرآن حکیم کو پڑھنے والا عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ مملکت خداداد پاکستان کے موجودہ حالات سے ہر کوئی اچھی طرح واقف ہے اور ہر کوئی تبصرہ بھی کر رہا ہے ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اکثر تبصرے مادہ پرستانہ نقطہ ٔنظر کے تحت ہوتے ہیں ۔ جبکہ ایک مسلمان کاوطیرہ یہ ہوناچاہیے کہ وہ وحی کی آنکھ سے ان حالات کودیکھنے اور ان کاتجزیہ کرنےکی کوشش کرے ۔ یعنی قرآن سے بھی معلوم کرے اور اللہ کےرسول ﷺ کی تعلیم سے بھی معلوم کرے اور اس کے بعد اپنے اعمال کی اصلاح کی کوشش بھی کرے ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ وحی الٰہی اوررسول اللہ ﷺ کی مبارک احادیث کی روشنی میں غوروفکر اور احساس زیاں بیدار کرنے کی دعوت دیاکرتے تھے اور ساتھ ساتھ سیاسی تبصرے بھی کر دیا کرتے تھے۔ چنانچہ اسی تسلسل میںآج ہم ان شاء اللہ قرآن مجید کے چند مقامات سے کچھ آیات کا مطالعہ کریں گے ۔ پہلا مقام سورۃ الانعام کی آیت نمبر 65ہے ۔ فرمایا :
’’کہہ دیجیے کہ وہ قادر ہے اس پر کہ تم پر بھیج دے کوئی عذاب تمہارے اوپر سے‘یا تمہارے قدموں کے نیچے سے‘یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک کی طاقت کا مزا دوسرے کو چکھائے۔ دیکھو کس کس طرح ہم اپنی آیات کی تصریف کرتے ہیں تا کہ وہ سمجھیں۔‘‘
تصریف آیات کامطلب ہے مختلف پیرایوں میں بیان کرنا تاکہ بات واضح ہو۔پچھلی قوموں کے حالات و واقعات کا بیان عبرت،سبق آموزی اوریاددہانی کے لیے ہے۔ بہرحال یہاں پرعذاب کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔
اوپرسے عذاب
پچھلی اقوام پربھی یہ عذاب آیا۔ حضرت لوط ؑ کی قوم معاشرت کے اعتبار سے گندے طرزعمل میں مبتلا ہوئی۔آج کی ترقی یافتہ قوموں نے اس کوقانون کادرجہ دے دیااوریواین او کے چارٹرپرسائن کروا کرمسلمان ممالک کوبھی اس راستے پرلگا رکھاہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط dکی قوم کا تذکرہ عبرت کے طور پر کیا ۔ اس قوم پر طرح طرح کے عذاب آئے۔ ان کواندھاکیاگیا،ان کی بستی کواوپرلے جا کرپٹخ دیاگیااورپھر ان پر پتھر برسائے گئے۔ قرآن کہتاہے :
{مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ ط}(ھود:83) ’’وہ نشان زدہ تھے تمہارے رب کی طرف سے۔‘‘
یعنی کس پتھرنے کس مجرم کوہلاک کرناہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے تھا۔یہ اوپرسے عذاب کی ایک مثال ہے۔ اسی طرح حضرت نوح ؑ کی قوم شرک میں مبتلا تھی۔ اس قوم کے سرداروں نے رسول کی نافرمانی کی ، مذاق اڑایا، اوررسولؑ کی دعوت کو رد کیاتواللہ تعالیٰ نے اوپر سے شدیدبارش برساکراور زمین کے نیچے سے چشموں کو جاری کرکے ان پرعذاب کومسلط کیا اور وہ ہلاک کردیے گئے۔ اسی طرح سورۃا لفیل ہم سب کو یاد ہے ۔ جس میں ابرہہ اللہ تعالیٰ کے گھر بیت اللہ شریف کوگرانے کے لیے ہاتھیوں کالشکر لایاتھاتواللہ تعالیٰ نے چھوٹے چھوٹے پرندے بھیجےجنہوں نے ان پرچھوٹی چھوٹی کنکریاں برسائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :{فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ(5)}(الفیل)’’پھر اُس نے کر دیا ان کو کھائے ہوئے بھس کی طرح۔‘‘اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہفتے بھر آندھی چلا کر ایک قوم کو ہلاک و برباد کر ڈالا۔
نیچے سے عذاب
حضرت نوح ؑ کی قوم پر اوپر سے بھی پانی برسایا گیا اور زمین کے نیچے سے بھی پانی ابل پڑا تھا اور کشتی میں ایمان والوں کو بچا لیا گیا تھا۔ فرعون اور آل فرعون کو غرق کیا گیا ۔ ہر دور کا طاقتور سمجھتا ہے میں طاقتور ہوں ہر دور کا جابر ظالم سمجھتا ہے کہ میری کرسی مضبوط ہے اللہ نے فرعون کی لاش کو محفوظ کر دیا۔ارشاد ہوتاہے :{فَالْیَوْمَ نُـنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَـکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃًط} (یونس:92) ’’تو آج ہم تمہارے بدن کو بچائیں گے تاکہ تُواپنے بعد والوں کے لیے ایک نشانی بنا رہے ۔‘‘
اس نے رب اعلیٰ ہونے کا دعوی کیا تھا، یہ میرے محلات، یہ میری نہریں، موسیٰ کے پاس کچھ نہیں ،میرے پاس طاقت ، اقتدار ، فوجیں ، اختیار سب کچھ ہے ۔ آج والے بھی تو اسی گھمنڈ اورزعم میں مبتلاہیں ،چاہے غیروں میں ہوں یا اپنوں میں ہوں۔ فرعون کی لاش کو اللہ تعالیٰ نے اسی لیے محفوظ کیا کہ ہر دور کے فرعون اس سے عبرت حاصل کریں۔ اسی طرح قارون ایک مادہ پرستانہ سوچ رکھنے والا انسان تھا ۔اللہ تعالیٰ سورۃ القصص کے آٹھویں رکوع میں کہتاہےکہ اتنے خزانے اس کوہم نے دیےکہ ان کا ریکارڈ تو بڑی بات ، خزانوں کی چابیاں اُٹھانے کے لیے کئی اونٹ درکار تھے ۔ قرآن کہتا ہے :{فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ قف} (القصص:81) ’’تو ہم نے اُسے اور اُ س کے محل کو زمین میں دھنسا دیا۔‘‘
یہ دو قسم کے عذاب بیان ہوئے۔البتہ علماء اور مفسرین نے اس کی مزید تشریح کی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس i نے بھی اس کی وضاحت فرمائی کہ اوپر سے عذاب یہ بھی ہے کہ اللہ ظالم و جابر حکمرانوں کو مسلط کر دے، ظالم ذمہ داران کو مسلط کردے اور نیچے سے عذاب یہ بھی ہے کہ حکمرانوں کی رعایا نافرمان ہو جائے۔ یہ عذاب گھروں میں بھی آسکتا ہے ، کاروباری مقامات پر بھی آسکتا ہے ۔ آج عوام بھی حکمرانوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور جب حکمرانوں کے ساتھ ہاتھ ہوتا ہے تو وہ بھی عوام کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ یہ اوپر سے اور نیچے سے عذاب کی قسمیں ہیں۔ چنانچہ اس کی وضاحتیں حضورﷺ کی احادیث سے ملتی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’ جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسے تم پر حکمران، ذمہ داران مسلط کیے جائیں گے ۔‘‘(شعب الایمان)
ایک عربی کا مقولہ معروف ہے، اس کو ہم حدیث کے طور پر بیان کرتے ہیں:
(اعمالکم عمالکم) ’’تمہارے اعمال تمہارےعمال ہیں۔ ‘‘
تمہارے اعمال اچھے ہوئے تو تمہارے اوپر والے بھی اچھے ہوں گے، تمہارے اعمال بُرے ہوئے تو تمہارے اوپر والے بھی بُرے ہوں گے ۔ ایک حدیث میں آتا ہے بہترین حکمران وہ ہیں جن کےلیے تم دعائیں کرو کہ اللہ ان کی زندگی میں برکت دے اور انہیںمزید قوت دے۔ آپ ذرا دل سے پوچھیں۔ آج ہم یہ دعا کرنے کی پوزیشن میں ہیں ؟آج جو لوگ اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے ہیں یا جو حکمران ہیں سب نے اس قوم کے ساتھ جو کیا ہے سب کے سامنے ہے ۔اسی طرح اللہ کے پیغمبرﷺ فرماتے ہیں: تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں کہ جن کے لیے تم بد دعائیں کرو کہ اللہ ان سے ہمیں نجات دلا دے ۔ البتہ جیسا کہ آغاز میں ذکر ہوا کہ ہم حالات پر تبصرہ ضرور کرتے ہیں مگر قرآن و حدیث کی روشنی میں تجزیہ نہیں کرتے ۔ اس نگاہ سے نہیں دیکھتے کہ ہمارے اعمال کیسے ہیں ؟آج ہمارا اجتماعی کردار کیا ہے ۔ استثنا تو ہو سکتا ہے ، تہجد گزار پرہیز گار لوگ بھی موجود ہوں گے۔البتہ اللہ تعالیٰ کے اجتماعی فیصلے لوگوں کے اجتماعی کرتوتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ احادیث کی روشنی میں بیان کرتے تھے کہ ہمارا اجتماعی کردار منافقانہ ہو چکا ہے ۔ بخاری شریف میں منافق کی تین نشانیاں بیان ہوئی ہیں اور مسلم شریف میں چار نشانیاں بیان ہوئی ہیں:جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ، جب امانت رکھوائی جائے خیانت کرے اور جھگڑے گا تو گالیاں دے گا۔ آج یہ ہمارا قومی مزاج ہے کہ نہیں؟ ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھے: آج ہمارے معاشرے میں جو جتنے بڑے عہدے پر ہے وہ اتنا ہی جھوٹا ، اتنا ہی خیانت کرنے والا ،اتنی ہی وعدہ خلافی کرنے والا اور اتنی ہی گالیاں دینے والا ہے ۔ استثنا آٹے میں نمک کے برابر البتہ ہوگا ۔ یہ آج ہمارااجتماعی کردارہے لہٰذا جیسے ہمارے اعمال ہیں ایسے ہی ہم پر حکمران اور ذمہ داران بھی مسلط کیے جائیں گے ۔ ارشاد ہوتاہے :{وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ (30)}(الشوریٰ) ’’اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ درحقیقت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی(اعمال) کے سبب آتی ہے اور (تمہاری خطائوں میں سے) اکثر کو تو وہ معاف بھی کر تا رہتا ہے۔‘‘
قرآن مجید کا دوسرا مقام جس کا ہم مطالعہ کریں گے وہ سورۃ الروم کی آیت نمبر 41 ہے ۔ فرمایا :
{ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا} ’’بحر و بر میں فساد رونما چکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب‘تا کہ وہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا‘‘
یہ دنیا دارالامتحان ہے دارالجزا نہیں ۔ جزا اور سزا کا عمل تو آخر میں ہی ہوگا البتہ ہمارے بعض اعمال کا مزہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی چکھا دیتا ہے تاکہ ہم نصیحت حاصل کریں اور رجوع کرلیں ۔ حکمت یہ ہے کہ لوگوں کے دل نرم ہوں ،غلطی کا احساس پیدا ہو جائے اور وہ توبہ کر لیں ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یورپ اور امریکہ والوں کو کیوں نہیں پکڑتا جو نافرمانیوں میں ڈوب چکے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل ایمان کے لیے اللہ کا قانون کچھ اور ہے اور کفار کے لیے قانون کچھ اور ہے ۔ بن جاؤ پورے کافر اور لے لو دنیا لیکن آخرت میں کافروں کے لیے کچھ بھی بھلا نہیں ہوگا ۔ وہ دنیا میں عیش کرلیں ، آخرت صرف متقین کے لیے ہے۔ بہرحال یہ عذاب کی دو صورتیں بیان ہوئیں ۔ دنیا صرف فزیکل کازز کو دیکھتی ہے کہ زلزلے اس وجہ سے آتے ہیں ، سیلاب فلاں وجہ سے آیا وغیرہ لیکن اللہ کا قرآن کہتا ہے کہ زلزلے توشعیب ؑ کی قوم پر بھی آئے، شعلے شعیب ؑ کی قوم پر برسائے گئے، اس لیے کہ وہ ناپ تول میں کمی کیا کرتے تھے ۔ یعنی قوموں کے بگاڑ کی وجہ سے بھی عذاب آتے ہیں ۔
تیسراعذاب:گروہوں میں تقسیم
فرمایا:{اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّیُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ط}(الانعام:65) ’’یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک کی طاقت کا مزا دوسرے کو چکھادے۔‘‘
اب اس بارے میں اللہ کے پیغمبرﷺکی چنداحادیث کا میں ذکر آپ کے سامنے کروںگا۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مجھے سرخ اور سفید دو خزانے دے دیے گئے سونےاور چاندی کے اور میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے سوال کیا کہ وہ ان کو عام قحط سے ہلاک نہ کرےاور یہ کہ ان کے اوپر ان کا ایسا مخالف دشمن مسلط نہ کرے جو ان کوبالکل ختم کر دے، تب میرے رب نے فرمایا کہ :میں کوئی تقدیر بنا دیتا ہوں تو مسترد نہیں ہوتی اور میں نے آپ کی امت کے لیے یہ طے کردیا ہے کہ اس پر ایسا قحط نہیں آئے گا جو پوری اُمت کو مٹا دے اور ان پر ایسا دشمن مسلط نہیں ہوگا جو پوری اُمت کو ہلاک کردے ۔ لیکن یہ آپس میں لڑیں گے اور بعض بعض کو قیدی بنائیں گے۔ (مسلم شریف)
ایک اور روایت جامع ترمذی میں اسی تسلسل میں حضرت خباب بن الارت ؓ سے بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ بہت طویل نماز ادا فرمائی۔ صحابہ اکرمj نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! آپؐ نے ایسی نماز ادا کی جو آپؐ عام طورپر نہیں پڑھتے۔ (تہجد کا معاملہ الگ ہے)فرمایا کہ ہاں اللہ سے رغبت اوراس سے خوف کی نماز تھی۔میں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کا سوال کیا۔اس نے مجھے دو چیزیں عطا فرما دیں اور ایک سے منع فرما دیا۔ میں نے اللہ سے سوال کیا میری (پوری)امت کو قحط میں ہلاک نہ کرنا تو اللہ نے میری دعا قبول فرمائی ۔ میں نے سوال کیا میری امت پر ان کے مخالف کو مسلط نہ کرنا جو ان سب کو ہلاک کر دے، اللہ نے میری دعا قبول فرمائی ۔ میں نے سوال کیا کہ میری امت کے بعض بعض سے جنگ نہ کریں تو مجھے اس دعا سے روک دیا گیا ۔یہ اللہ کی مشیت تھی ۔ یہ ہونا تھا کہ امت کے لوگ آپس میں لڑیں گے ، ایک دوسرے کو قتل کریں گے ، قید میں ڈالیں گے اور آج یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے۔ پہلے فرقہ واریت کی وجہ سے قتل و غارت گری ہوتی تھی ۔ پھر لسانیت کی بنیاد پر بوریوں میں بند لاشیں کراچی شہر نے اُٹھائیں ۔ ٹارچر کرنا ، جسموں میں سوراخ کرنا ، کھالیں اُدھیڑنا ، یہ سب اس ملک میں ہوا اور اب یہی کچھ سیاست کے نام پر ہورہا ہے ۔ جس کے ہاتھ میں طاقت ہے وہ دوسرے کو مٹادینا چاہتا ہے ۔ یہ ظلم و زیادتی ، یہ اُٹھانا ، غائب کرنا ، ٹارچر کرنا ، بلیک میلنگ، یہ سب کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ کو بھی جواب دینا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج} (الحشر:18)’’ اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اُس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے!‘‘
اللہ نے فرعون کو بھی موقع دیا تھا ، نمرود کو بھی ،ابو جہل کو بھی لیکن وہ سب نشان عبرت بن گئے ۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عمر i سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے مہاجروں کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو گئے تو ان کی سزاتو ملے گی اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ پانچ بُری باتیں تم تک پہنچیں۔ نمبر ایک جب بھی کسی قوم میںبے حیائی اعلانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں میں نہیں ہوتی تھی۔ آج پوری دنیا میں آپ دیکھ لیں LGBTQ+ کو تو قانونی تحفظ دیا جارہا ہے ۔ نکاح کا انکار ہو رہا ہے اور زناکے راستے کھل رہے ہیں ۔ دوسری طرف کیسی کیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ دوسری بات : جب وہ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں توان کو قحط سالی، روزگار کی تنگی اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے سے سزا دی جاتی ہے۔آج یہ سب عذاب ہم پر مسلط ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لین دین میں ڈنڈی مارتے ہیں ۔ ریڑھی والے سے لے کر پٹرول پمپ کے مالک تک سب ڈنڈی مارتے ہیں ۔ الا ماشاء اللہ ۔ اوپر کی سطح پر جو کرپشن ہو رہی ہے اس کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے ۔ تیسری بات : جب وہ زکوٰۃ دینا بند کرتے ہیں تو ان سے کی بارش روک لی جاتی ہےاور اگر جانور نہ ہوں تو انہیں کبھی بارش نہ ملے ۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے سرمایہ دار ، سیاستدان ، سوسائٹیوں کے مالک کیا سب زکوٰۃ دیتے ہیں؟ نتیجہ یہ ہے کہ وقت پر بارش نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو تباہی لاتی ہے ۔ یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ چوتھی بات :جب وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا عہد توڑتے ہیں تو ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن مسلط کر دیےجاتے ہیں۔ کبھی انگریز بیٹھ کر ہم پر بادشاہت کر رہا تھا ، اب انگریز کے پٹھو بیٹھ کر ہم پر حکمرانی کررہے ہیں ، اوپر سے IMFنے پوری قوم کی کمر توڑ دی ہے ۔ یہ سب عذاب اس وجہ سے ہیں کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے کیا ہوا عہد توڑا ۔ ہم نے ملک لیا اللہ سے اس وعدے پر کہ اسلام یہاں نافذ کریں گے ، ہم نے آئین میں لکھا کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی لیکن حکم سارے کے سارے امریکہ اور IMFکے مان رہے ہیں ۔ بجلی ، گیس ، پٹرول کے ریٹ بھی خود طے نہیں کر سکتے ، ہمارے بیرونی آقا ہمیں حکم دیتے ہیں۔یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ پانچویں بات : جب ان کے امام یعنی حکمراں اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان میں آپس کی لڑائی ڈال دیتا ہے۔
یہ اللہ کے فتوے ہیں۔آج ہم آپس کی لڑائیاں دیکھ رہے ہیں ۔ ظلم و جور بھی دیکھ رہے ہیں ، یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ حل صرف ایک ہے کہ ہم سب توبہ کرلیں ، ہمارے حکمران ، سیاستدان ، وردی والے ، ججر، علماء ، عوام سب سچی توبہ کریں اور اپنے معاملات درست کرلیں ۔ لیکن اصل توبہ اجتماعی توبہ ہوگی ۔ ہم نے جس وعدہ پر ملک لیا اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں ۔ جب تک یہ وعدہ پورا نہیں کریں گے اُلٹے لٹک جائیں مسئلے حل نہیں ہو سکتے ۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجاتاللہ تعالیٰ ہمیں سچی پکی انفرادی اور اجتماعی توبہ کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024