(اداریہ) ہماری قربانیاں - ایوب بیگ مرزا

8 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزاہماری قربانیاں

ندائے خلافت کا یہ شمارہ جب قارئین کے ہاتھوں میں ہو گا تو عیدِ قرباں قریب ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اُمت ِ مسلمہ یہ دن ایک ایسے واقعہ کی یاد تازہ کرنے کے لیے مناتی ہے، جس کے بارے میں بلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ انسانی تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والے حیران کن اور عظیم ترین واقعات کی جب بھی کوئی فہرست بنائی جائے گی تو حضرت ابراہیم ؑ کا یہ عمل، یہ کارنامہ، یہ محیرالعقل قدم کہ اپنے رب کے حکم پر، اُس کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لیے اپنے جواں سال بیٹے کی گردن پر چھُری چلا دی، یقیناً سر فہرست ہو گا۔ انسانی تاریخ کا یہ ایسا واقعہ ہے کہ ممتحن خود پکار اٹھا کہ بس بس تم کامیاب قرار پائے، تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ اللہ کے آخری نبی محمد مصطفیٰ احمدمجتبیٰ ﷺ سے صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ !یہ قربانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’ تمہارے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔‘‘ ستاسی سال کی عمر میں اولادِ نرینہ کی نعمت سے نوازے جانے والے باپ نے سو سال کی عمر میں اپنے 13 سالہ اکلوتے بیٹے کو اللہ کی راہ میں ذبح کرنے کے لیے زمین پر لٹا دیا۔ انسانی فطرت کو سمجھتے ہوئے اور بیٹے کے لیے باپ کے جذبات کا اندازہ کرتے ہوئے یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ کسی بھی باپ کا اپنی جان کو قربان کر دینا، خاص طور پر اس عمر میں، اپنے بیٹے کو قربان کر دینے کی نسبت انتہائی کمتر درجہ کی قربانی ہے۔ حالانکہ ہزاروں سال میں انسان نے یہ جانا اور صحیح جانا کہ اپنی جان سے بڑھ کر کوئی شے عزیز نہیں ہوتی۔
ہمیں یہاں قربانی کے مسائل اور فضائل بیان کرنا مقصود نہیں وہ تو علماء کرام بیان کرتے رہتے ہیں۔ صرف یہ عرض کر دینا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر دو اور دو چار کی طرح واضح کر رہا ہے کہ دنیا میں انسان کی عزیز ترین متاع بھی اللہ کے حکم کے مقابلے میں سِرے سے کوئی وقعت، کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ اپنی آخری کتاب قرآن مجید فرقانِ حمید میں فرماتا ہے: ’’ اور ہم نے نہیں پیدا کیا جن و انس کو مگر اپنی بندگی کے لیے۔‘‘ (الذاریات:56) انسان کا مقصد ِپیدائش ہی اللہ تعالیٰ کی بے چون وچرا اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ پھر یہ کہ جو کچھ دنیا میں ہمارے پاس ہے، وہ اُسی کا فضل ہے اور اُسی کا عطا کردہ ہے۔ گویا ہم اُسی کا دیا ہوا، اُسی کے حضور پیش کرتے ہیں اور وہ اپنی رحمت کے صدقے اسے ہماری طرف سے قربانی قرار دے دیتا ہے۔ لیکن آج اُمت مسلمہ کی عظیم اکثریت نے اس قربانی کو کیا بنا دیا ہے؟ حلال روزی کے شرعی تقاضوں کو بالائے طاق رکھو، جیسی چاہو حرام خوری کرو، دوسروں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتے رہو، رشوت ستانی اور بلیک مارکیٹنگ کا بازار گرم رکھو، بے حیائی کا ارتکاب کرو اور پھر جو چاہو کرتے چلے جائو، لیکن عید پر لاکھوںروپے کی مالیت کا عظیم الجثہ جانور قربان کرد و اور پھر اُس سارے اجر وثواب کا خود کو حقدار سمجھو جس کا ذکر احادیث ِمبارکہ میں کیا گیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب میں صاف صاف فرماتا ہے کہ جانور کا گوشت یا خون اُس تک نہیں پہنچتا بلکہ اصلاً تقویٰ درکار ہے۔ یعنی خلوص اور نیک نیتی سے کیا گیا عمل۔ ہم نے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر قربانی کے فلسفے کو سمجھنے اور جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ بچے قربانی کے جانوروں سے دل بہلاتے اور کھیل کود کرتے ہیں اور بڑے گوشت کھانے اور کھلانے کے علاوہ قربانی کا کوئی تصور ہی نہیں رکھتے۔ کوئی نفسانی خواہشات کو قربان کرنے کو تیار نہیں، کوئی اپنے حقوق کی قربانی کرنے کو تیار نہیں ۔ کسی کو شریعت کے تقاضے پورے کرنے کی فکر نہیں۔ امیر غریب پر مسلط ہے اور اُس پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے اور غریب سر توڑ کوشش کر رہا ہے کہ وہ بھی امیر ہو جائے اور پھر جو کچھ ظلم اُس پر ہوتا رہا وہ اُس سے بھی بڑھ کر کرے۔
انفرادی سطح پر یہ کچھ ہو رہا ہے اور معاشرہ چونکہ افراد سے ہی تشکیل پاتا ہے لہٰذا معاشرے کے لیے الگ طور پر کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ حکمرانوں کا تصور یہ بن چکا ہے کہ حکومت ملنے کا مطلب عیش و عشرت کا حصول اور ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہے۔ اُنہیں نہ عوام کی صحت کی فکر ہے اور نہ تعلیم و تربیت سے مطلب ہے۔ حکومت دن رات کرسی بچانے کی فکر میں رہتی ہے اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دان حکومت مخالف نت نئی تحریکیں اٹھانے کے علاوہ کچھ کرنے کو تیارنہیں۔ ریاستی اداروں کی حالت مختلف نہیں۔ ہم اداروں کی کارکردگی پر کئی صفحات سیاہ کر سکتے ہیں لیکن بقول سابق برطانوی وزیراعظم چرچل، انصاف کی فراہمی ریاستی سلامتی اور تحفظ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یعنی وہی ریاست سلامت اور محفوظ رہتی ہے جس میں عدل قائم ہو۔ لہٰذا ہم صرف اپنے عدالتی نظام کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ توہین ِعدالت کا عصا اژدھا بن کر ہمارے اس معصوم سے جریدے کو ہڑپ کر سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام ہماری اشرافیہ کی چوکھٹ پر سر بسجود رہتا ہے۔ یہ انصاف غریب کی رسائی سے کوسوں دور ہے۔ ہمارا قانون آنکھیں رکھتا ہے ۔ یہ طاقتور کے سامنے کورنش بجا لاتا ہے اور کمزور پر کوڑا بن کر برستا ہے۔ ہماری عدلیہ کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں ۔ یہ عدالتی نظام وردی سے خوفزدہ ہو کر عوامی وزیراعظم کو پھانسی لگا دیتا ہے۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ اِسے عدالتی قتل بھی تسلیم کر لیا جاتا ہے اور کسی ’’طاقتور ‘‘ کے خلاف کسی صورت کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوتا، چاہے آئین اور قانون ملیا میٹ کر دیا جائے۔ بہرحال یہ تو ہم نے قارئین کو تاریخ کی چیخ سنوائی ہے اور تاریخ کی چیخ و پکار کبھی نہیں رکتی، چاہے مائی لارڈ کتنے ہی زوردار انداز سے ہتھوڑا میز پر مارتے رہیں۔
نجی اور احتجاجی سطح پر اس پس منظر میں کہ دھن اور دھاندلی کا معاشرے میں تسلط ہو تو قربانی کے لیے مطلوب تقویٰ ناپید ہو گا اوراخلاص اور نیک نیتی کہاں سے آئے گی؟ اگرچہ ہمارا ایمان ہے کہ کم ازکم مسلم معاشرہ کبھی بھی ایسے صالح لوگوں سے مکمل طور پر خالی نہیں ہوتا جن سے اللہ راضی ہوتا ہے اور جو اللہ سے راضی ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان انگلیوں پر شمار کیے جانے والے صالحین نے ہی اس خستہ ریاست کو کندھا دے کر گرنے سے بچایا ہوا ہے۔ لیکن قوم کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اتنے کم لوگ اتنی بڑی قوم کو سہارا دے کر کب تک کھڑا رکھ سکیں گے؟ مسلمانانِ پاکستان کو کچھ کرنا ہو گا۔ اس سے پہلے کہ ان صالحین کے کندھے جواب دے جائیں۔ کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ قربانی کے جانور کی گردن پر چھُری پھیرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ناجائز خواہشات پر بھی چھُری چلائیں۔ اپنے نفس کو قابو کریں۔ پھریہ کہ ذاتی طور پر اللہ اور رسولؐ کی فرمانبرداری اختیار کریں اور اجتماعی سطح پر نظام عدل و قسط قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ اگرچہ بُرائی کو دل سے بُرا جاننا بھی کسی درجہ میں ایمان کی موجودگی کا ثبوت ہے، لیکن ہمارا قومی جسد جتنے خوفناک عوارض کا شکار ہو چکاہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے آگے بڑھ کر کم ازکم زبان سے بُرائی کے خلاف جہاد شروع کریں۔ آج کا دور زبان درازی کا دور ہے۔ سیکولر میڈیا کی گزگز لمبی زبانیں بے خدائی اور بے حیائی کے بیج بو رہی ہیں۔ انہیں جواب دینا ہو گا،لیکن شائستگی کے ساتھ، حکمت کے ساتھ! اللہ رب العزت سے مدد طلب کرتے ہوئے، اس دعا کے ساتھ کہ جلد وہ وقت آئے کہ ہم اللہ اور دین کے دشمنوں کا ہاتھ سے مقابلہ کر سکیں۔ پھر وہ نظام قائم ہو گا جس میں اکثریت متقین کی ہو گی اور اُن کی قربانی اخلاص اور نیک نیتی کی بنیاد پر ہو گی ، جسے اللہ تعالیٰ شرفِ قبولیت بخشے گا۔ان شاء اللہ! ہماری مسلمانانِ پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ جانوروں کی قربانی ضرور کریں کہ یہ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ؑ کی عظیم سنت ہے، یہ ربّ ذوالجلال کے پاک اور مقدس گھر کے معمار باپ بیٹا کی سنت ہے، یہ اُس عظیم ہستی کی سنت ہے جس کے پاک وجود نے آتش کدہ کو گلشن بنا دیا، لیکن یاد رکھیں کہ نیک نیتی اور تقویٰ یعنی عمل صالح قربانی کی بنیادی شرط ہے ۔ اللہ ربّ العزت ہماری صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے اور ہماری قربانیاں قبول فرمائے۔ آمین!