مملکت خدادا د پاکستانمصائب اور عذابوں کےسائے میں!!!وجوہات، اسباب اور کرنے کا کام
l یوں تو اہل پاکستان پون صدی یعنی پچھتر سال سے سُن رہے ہیں کہ پاکستان کے حالات خراب ہیں اور پاکستان ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ لیکن آج یہ بات ایک خوفناک حقیقت بن کر ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ سیاسی عدم استحکام بدترین داخلی انتشار کا باعث بن چکا ہے۔ معاشی بد حالی سے پیدا ہونے والی گرانی سے اب غریب ہی نہیں متوسط طبقہ کے لوگوں کے لیے بھی زندگی وبال بن گئی ہے۔ بچوں کو بھوک سے تڑپتے ہوئے دیکھ کر کئی والدین نے خودکشی یعنی حرام موت کو گلے لگا لیا ہے۔ اخلاقی دیوالیہ پن اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اس حوالے سے اسلام تو دور کی بات ہے، ہم عام انسانی سطح سے بھی گر چکے ہیں۔
l ہمارے معاشرہ میں ظلم‘ ناانصافی‘ کرپشن‘ خیانت‘ جھوٹ‘ بددیانتی اور منافقت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔ مقتدر طبقات کی لوٹ مار اور دولت اور وسائل کی اس غیرمنصفانہ تقسیم نے طبقاتی خلیج کو بہت وسیع کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو نزلہ و زکام کے علاج کے لیے یورپ میں ہسپتال بک کرواتے ہیں اور اپنے کتوں کے لیے ایئرکنڈیشنڈ کمرے تعمیر کرواتے ہیں‘ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو بنیادی انسانی ضروریات سے محرومی کے باعث بھوک اوربیماری کے ہاتھوں موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔
l سیاسی سطح پر ہم ایک دوسرے سے دست و گریبان ہی رہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا۔ کئی سیاسی لیڈروں سمیت چند مذہبی سیاسی رہنماؤں کی گفتگو اسلام کے اعلیٰ و ارفع معیار تو درکنار کسی طور پر ایک انسانی معاشرے کے معیارات پر بھی پورا نہیں اترتی۔ اقتدار کی رسہ کشی سیاست دانوں کو ذاتی دشمنی اور عناد میں مبتلا کر چکی ہے جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ انانیت کی روش نے ملکی سالمیت کو شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
l قرآن کریم بتاتا ہے کہ لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے انہیں مصائب و آفات میں مبتلا کر دیا جاتا ہے جس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ گناہوں سے باز آئیں اور اصلاح کا رویہ اختیار کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’خشکی و تری میں فساد رونما ہو گیا لوگوں کے اعمال کی وجہ سے تاکہ وہ (اللہ) انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا تاکہ وہ (اللہ کی طرف) پلٹ آئیں۔‘‘ (سورۃ الروم: 41)۔ اس طرح قرآن کریم میں عذاب کی ایک قسم یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ لوگوں کو باہم تقسیم کردیا جائے اور وہ جنگ و جدال کا شکار ہوجائیں۔ فرمان الٰہی ہے ’’یا اللہ تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک کی طاقت کا مزہ دوسرے کو چکھائے۔ ‘‘(سورۃ الانعام: 65)
l ایک حدیث مبارک میں پانچ گناہوں پر مختلف نوعیت کے عذاب مسلط کر دیئے جانے کی وعید سنائی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرi سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے مہاجروں کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو گئے (تو ان کی سزا ضرور ملے گی) اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ (بری چیزیں) تم تک پہنچیں۔
(i) جب بھی کسی قوم میں بے حیائی (بدکاری وغیرہ) علانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔
(ii) جب وہ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، ان کو قحط سالی، روزگار کی تنگی اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے سے سزا دی جاتی ہے۔
(iii) جب وہ اپنے مالوں کی زکوٰۃ دینا بند کرتے ہیں تو ان سے آسمان کی بارش روک لی جاتی ہے۔ اگر جانور نہ ہوں تو انہیں کبھی بارش نہ ملے۔
(iv) جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتے ہیں تو ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن مسلط کر دیے جاتے ہیں، وہ ان سے وہ کچھ چھین لیتے ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
(v) جب بھی ان کے امام (سردار اور لیڈر) اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے اتارا ہے اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان میں آپس کی لڑائی ڈال دیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ)
l قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں خانہ جنگی کی صورت میں عذاب کا ذکر ہے کہ کسی ملک کے عوام یا قوم کے مختلف گروہ آپس میں لڑپڑیں۔ اللہ تعالیٰ کو آسمان سے کچھ گرانے کی ضرورت ہے نہ زمین کو دھنسانے کی۔ یہ گروہ بندی اور اس کی بنیاد پر باہمی خون ریزی عذاب الٰہی کی بد ترین شکل ہے‘ جو آج مسلمانان پاکستان پر مسلط ہے۔ تقسیم ہند سے قبل جب ہندو سے مقابلہ تھا تو مسلمان ایک قوم تھے۔ پاکستان بنا تو اس کے تمام باسی پاکستانی تھے۔ اب یہی پاکستانی قوم چھوٹی چھوٹی قومیتوں اور عصبیتوں میں تحلیل ہوچکی ہے۔ لسانی، مسلکی لڑائیوں سے بڑھ کر اب سیاسی اعتبار سے جنگ وجدال اور طاقتور طبقات کے محکوم طبقات پر ظلم و ستم نے ملک کی سالمیت کو خطرہ اور عوام کو ہیجان اور اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔
l سوال یہ ہے کہ کیا مملکت خداداد پاکستان کو اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ سودی معیشت کو جاری اور عالمی ساہوکاروں سے قرضے لے لے کر ملک کو عالمی سامراج کا غلام بنا دیا جائے؟ مہنگائی اور ٹیکسوں کے پہاڑ تلے عوام کو روند دیا جائے؟ آزادیٔ نسواں کے نام پر خاندانی نظام کو تلپٹ کر دیا جائے یا ماؤں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کو چوک چوراہوں میں کھڑا کردیا جائے؟ ٹرانسجینڈر قانون بنا کر معاشرتی اقدار کو مغربیت کے پاؤں تلے روند دیا جائے؟ مملکت خداداد میں اسلامی احکامات کی خلاف ورزی اور ان کے خلاف قانون سازی‘ مذہبی شعار و رسومات پر پابندیاں اور دوسری طرف ویلنٹائن ڈے‘ عورت مارچ‘ ہولی‘ دیوالی‘ کرسمس اور دیگر غیر اسلامی تہوار و تہذیب کی حوصلہ افزائی کیا معنی رکھتا ہے؟
l •یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے کرتوتوں اور قومی جرائم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مظاہر دن بدن سامنے آ رہے ہیں، کبھی سیلاب، کبھی طوفانی بارشیں، کبھی مسلسل زلزلوں کے جھٹکے، کبھی سیاسی انتشار کی وجہ سے ملکی سالمیت کو لاحق خطرات تو کبھی معیشت کی تنگی! وجہ یہی کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے کیے گئے عہد کی خلاف ورزی کی اور کلمہ کے نام پر حاصل کی گئی مملکت خداداد میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ دین اسلام کو نافذ کرنے سے گریز اور فرار اختیار کیا۔
l •ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال کی انتہائی ہنگامی بنیادوں پر فکر کی جائے اور تمام طبقات (بشمول حکمران، اپوزیشن، عدلیہ، افواج، علماء، صاحب اثر حضرات اور عوام) ہوش کے ناخن لیں اور ملک کی سالمیت کو ترجیح اول بناتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔
فوری و عبوری نوعیت کےقابل توجہ اور لائق عمل پہلو!!!
-1• کسی بھی نوع کا حکومتی یا ماورائے حکومت جبر، ماورائے قانون گمشدگیاں، گرفتاریاں، خواتین کی بے حرمتی، چادر و چار دیواری کی پامالی اور کسی بھی شہری پر انتقامی طور پر فرضی مقدمات کا دائر کرنا ملک کے لیے بلاشبہ نقصان، انتشار اور نفرتوں کے بڑھانے کا باعث ہیں اوردینی اعتبار سے بھی جائز نہیں ہیں۔ سیاست دانوں کی مفاد پرستی، انانیت، ضد، عناد اور دشمنی پر اتر آنے کی روش نے قوم کو ہیجان اور اضطراب میں مبتلا کر ڈالا ہے۔ ذاتی مفادات کے مقابلہ میں ملک کے مفاد اور سالمیت کی ترجیح اشد ضروری ہے۔
2- ہر ادارہ چاہے وہ حکومت ہو یا پارلیمان، پولیس ہو یا عدلیہ، سول یا ملٹری بیورو کریسی تمام ادارے ملک کو ان حالات تک پہنچانے میں کم وبیش برابر کے حصہ دار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ادارے داخلی طور پر آئین و قانون کی بالادستی کے لیے اپنے کردار کی حدود میں رہ کر حقیقی روح کے مطابق عمل کا عزم کریں۔ ہر ادارہ اپنی سطح پر بلا استثنیٰ حقیقی معنی میں احتساب کا نظام قائم کرے نیز اپنے اندر موجود کرپٹ افراد کو قانون کی گرفت میں لائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔
3- پاکستان کی خصوصی اہمیت، مستقبل کے منظر نامہ اور عالمی سطح پر بالآخر دین اسلام کے غلبہ کے تناظر میں ملک کی دفاعی اور عسکری صلاحیت بہت بڑی نعمت و امانت ہے۔ اس کی حفاظت ہمارا قومی اور دینی فریضہ ہے۔ ملک، عوام اور ریاستی اداروں کے ٹکراؤ کا متحمل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ دین اور پاکستان دشمن طاقتوں کی سازشوں کا ادراک اور ان کا توڑ کرنا ضروری ہے۔ کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی کارکنان ریاست کی املاک اور اداروں کے خلاف اشتعال اور پُرتشدد کارروائیاں کریں تو اپنا اور ملک کا نقصان کریں گے۔ اس انتشار اور پُرتشدد کارروائیوں سے اجتناب ضروری ہے۔
4- ملک میں کسی بھی نوع کی آمریت چاہے وہ سویلین ہو یا فوجی ملک کے لیے نقصان دہ بلکہ زہر قاتل ہے۔ پاکستان کی سالمیت کے لیے جمہوری عمل جاری رہنا چاہیے۔ آئین و قانون کے مطابق انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ عوام میں گھٹن نہ ہو، نیز عوامی رائے کے حصول اور اس پرعمل درآمد کا راستہ کھلا رہے۔ چنانچہ سردست فوری بنیادوں پر صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات کا اہتمام کیا جائے۔ اس سے عوام کے اضطراب اور بےچینی کے خاتمے اور کشیدہ ملکی حالات کو سنبھالنے میں مدد مل سکے گی۔
5- حکومت جانبدارانہ قانون سازی کرنے کی بجائے مذاکرات کے ذریعہ انتخابات پر اتفاق رائے پیدا کرے۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں غیر ملکی مفادات کو تحفظ دینے کی بجائے ملکی سالمیت و مفاد میں فیصلے کریں۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اندر موجود ایسے عناصر جو کرپشن، ملکی مفاد کے مخالف سرگرمیوں، بیرون ملک ایجنڈا پر قائم ہیں ان سے اعلان برأت کرتے ہوئے عہد کریں کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ پاکستان کا کردار غیر جانبدارانہ ہو اور کسی پراکسی وار کا حصہ نہیں بنیں گے۔
6- مقتدر طبقات اور بااثر افراد موجودہ ہیجان اور اضطراب کے خاتمہ کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور ملک کی سالمیت کو ترجیح دیتے ہوئے متعلقہ فریقین کے درمیان مفاہمت کی کوشش کریں۔
پاکستان کے مسائل کا اصل حل !!!
1- البتہ پاکستان کے مسائل کا اصل حل اور حقیقی سلامتی ”نفاذِ اسلام“ کے ساتھ وابستہ ہے۔ نظریہ کا تحفظ اور اس پر عمل نہیں تو سلامتی بھی ممکن نہیں۔ سوویت یونین جیسی عظیم ایٹمی طاقت اسی لیے شکست و ریخت سے دوچار ہوئی کہ اس نے اپنی نظریاتی اساس سے انحراف کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریۂ پاکستان کو عملی تعبیر دی جائے اور ملک میں اسلام کے عادلانہ نظام کو قائم و نافذ کیا جائے۔
2- آج بھی پاکستان کو ہر قسم کے اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ لگا کر یعنی قرآن اور سنت کی بالادستی قائم کرتے ہوئے نظریۂ پاکستان کی عملی تعبیر کی طرف پیش قدمی کرنا ہو گی۔ 1973ء کے آئین کی اس شق کو کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی اس پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہو۔ سودی معیشت اللہ اور رسولﷺ سے جنگ ہے یہ انسانوں کا بدترین استحصال ہے اسے مٹانے اور نیست و نابود کرنے کے لیے باقاعدہ ایک پلان کے تحت سود کی جنم بھومی یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ کا آغاز کرنا ہوگا۔ جس کے لیے نظریاتی، سیاسی، معاشی اور عسکری سطح پر پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانا ہوگا۔ یہ جنگ جیتنا مشکل ہے ناممکن نہیں ہے۔ پاکستان کو اتنا مضبوط و مستحکم کرنا ہو گا کہ یہ تصادم مول لیا جائے اور جیتا جائے۔ ہمت مرداں مدد خدا کے اصول کے تحت یہ جنگ بھی جیتی جا سکتی ہے۔ لیکن لازم ہے کہ ہم پہلے اسلام کا دامن تھامیں تاکہ پاکستان مستحکم اور مضبوط ہو کر میدان میں اترے۔
3- یاد رہے کہ نفاذِ دین کا مطلب محض چور کے ہاتھ کاٹنا، زانی کا سنگسار کرنا، قاتلوں سے قصاص لینا وغیرہ ہی نہیں بلکہ اسلام کے عادلانہ نظام کا مکمل نفاذ ہے جس میں تمام مسلمان حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی باعزت شہری کی حیثیت سے کر سکیں اور اقلیتوں کے جان و مال اور عزت کو تحفظ حاصل ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد کا اصل حاصل پاکیزہ، فلاحی اور عادلانہ نظام کا قیام ہے جس کے لیے منہج انقلاب نبوی ﷺ سے رہنمائی لیتے ہوئے ایک پُر امن، منظم، انقلابی تحریک برپا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
4- جب تک اسلامی انقلاب برپا نہ ہو جائے ہر نوع کی آمریت کے مقابلہ میں کم برائی کے طور پر، بطور ضرورت جمہوری عمل جاری رہے البتہ ہمارے ملک میں انتخابات کے غیر جانبدارانہ انعقاد اور شفافیت کے غیر یقینی ہونے نیزمقتدر طبقات اور اکثر اہل سیاست کے مفاد پرستی پر مبنی طرز عمل سے موجودہ فرسودہ نظام کی بربادی اور تباہی بالکل واضح ہو چکی ہے۔ تنظیم اسلامی کا اصولی مؤقف یہ ہے کہ انقلابی راستہ اور تحریک کے بغیر پاکستان میں نفاذِ اسلام ممکن نہیں۔ چنانچہ اس بات پر اصل توجہ مرکوز رکھنا ضروری ہے۔ حالات ابتر بلکہ بد تر ہیں۔ ملکی حالات کی نزاکت کے باعث ضروری ہے کہ انقلابی جدوجہد کی اہمیت اور منہج انقلاب نبوی ﷺ کو اچھی طرح سمجھا جائے کیونکہ ہمارے جملہ مسائل کا حل اسی راستہ کو اختیار کرتے ہوئے غلبہ دین کی جدوجہد اور اسلام کے نفاذ میں ہے۔**
وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
tanzeemdigitallibrary.com © 2024