ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی اہلیہ کے ساتھ ایک نشست
انٹرویو: محترمہ منزہ کریم
ایک نجی نشست میں ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی اہلیہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، وہ انتہائی شفیق، بُردبار اور حلیم الطبع خاتون ہیں۔ان کے چہرے پر مستقل مسکراہٹ رہتی ہے۔ وہ مجھ سے بہت ہی پیار اور اپنائیت سے ملیں اور کچھ معاملات میں رہنمائی بھی فرمائی۔ ان سے ملنے کے بعد مجھے اس بات کا پُختہ یقین ہوگیا کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے واقعی ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒنے اپنی ساری زندگی قرآن کی تبلیغ و تبیین میں صَرف کی اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے میڈیکل کے پیشے کو خیرباد کہہ کر ایک سادہ زندگی کو ترجیح دی ۔ یہ تب ہی ممکن تھا جب ڈاکٹر صاحبؒ کی اہلیہ ان کے اس فیصلے میں ان کی معاون و مددگار ہوتیں۔ اس ملاقات نے مجھ پر گہرے اثرات مرتب کیے اور مجھے محسوس ہوا کہ مادہ پرستی اور نمود و نمائش کے اس دور میں ہماری نو جوان نسل بالخصوص طالب علموں کو ایسی شخصیات کی زندگی اور تجربات سے استفادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ میں نے اپنا یہ خیال اُردو ڈیپارٹمنٹ کے ساتھی مسز نگہت لیاقت کے سامنے پیش کیا اور ہم طالبات کے ایک گروپ کو لےکر ان سے ملاقات کے لیے تیار ہوگئیں۔ معاونہ برائے رابطہ حلقہ خواتین ، تنظیم اسلامی نے اس نشست کا اہتمام کروانے کا بندوست کیا ۔
معروف اسلامی سکالر محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒکی اہلیہ سے حالات حاضرہ کے مسائل اور بچوں کی تربیت و رہنمائی کے حوالے سے ایک سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ملاقات کے لیے 9مئی2023ء کو سینئرانگلش ٹیچر مس منزہ کریم اور اُردو ٹیچر مسز نگہت لیاقت کی سربراہی میں گرلز سینئر ونگ ماڈل ٹاؤن جماعت نہم کی طالبات کا ایک گروپ ’’قرآن اکیڈمی‘‘ پہنچاجہاں ان کی بڑی صاحبزادی امۃ المعطی اوربڑی بہو مسزڈاکٹر عارف رشید بھی موجود تھیں۔ جنہوں نےبچیوں کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں قرآن کورس جوائن کرنے کی ترغیب دی۔
ڈاکٹر صاحب ؒنے 1972ء میں انجمن خدام القرآن قائم کی۔ 1975ءمیں تنظیم اسلامی کا قیام عمل میں آیا اور1976 میں قرآن اکیڈمی قائم کی گئی تاکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نسل قرآن پر تحقیق اور نشرو اشاعت کا بیڑا اُٹھالے۔ڈاکٹر صاحب ؒکی اہلیہ ایک دیندار خاتون ہیں ۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحبؒ کا دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ جب تنظیم اسلامی قائم کی گئی تو وہ حلقہ خواتین کی ناظمہ مقرر ہوئیں۔ آپ کی صاحب زادی امۃ المعطی اپنی والدہ کے بارے میں بیان کرتی ہیں:
’’امی کا دینی ذوق تو بہت زیادہ اور پہلے سے تھا بلکہ وہ بہت سے دینی معاملات میں والد محترم سےآگے تھیں۔‘‘
گفتگو کا آغاز’’سورۃزمر‘‘ کی آیات کی تلاوت سے کیا گیا۔ ڈاکٹرصاحبؒ کی اہلیہ نے آیات کا ترجمہ اور تفسیر بیان کی۔ پھر نہم جماعت کی طالبات معصومہ نصر اور فیز ا ایمان نے سوالات کیے:
سوال: ڈاکٹر صاحب ؒکی شریک حیات ہونا یقیناًآپ کے لیے اعزا زکی بات ہےآپ ہمیں اپنی گھریلو زندگی کے حوالے سے کچھ بتائیے؟
جواب :ڈاکٹر صاحبؒ کی اہلیہ محترمہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یقینا ًیہ میرے لیے اعزازکی بات تھی۔ ڈاکٹرصاحبؒ کی والدہ نے ان کی شریک حیات کا انتخاب کرتے ہوئے دینداری کو ترجیح دی اور شادی کے بعد ہم نے سادہ زندگی کو ترجیح دی ۔ہمارے روز مرہ کے معمولات قرآن کے گرد گھومتے تھے۔ڈاکٹر صاحبؒ کا زیادہ وقت مطالعہ اور تبلیغ دین میں گزر تا جبکہ گھر کی تمام ذمہ داری مجھ پر تھی۔ بچوں کی تعلیم اور شادی بیاہ جیسے اہم معاملات ڈاکٹر صاحبؒ مجھ سے مشورہ کے بعدہی طے کرتے ۔ حتمی فیصلہ ڈاکٹر صاحبؒ کا ہی ہوتا تھا مگر میری بھر پور مشاورت کے ساتھ۔
سوال: آپ نے اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق انتہائی سادگی سے بسر کی۔ آج کل کی نمودونمائش والی زندگی سے بچنے کے لیے کوئی ہدایت فرما دیجئے؟
جواب:اگر ہمارا مطمح نظر آخرت رہے تو دنیا کی زندگی بے وقعت لگتی ہےجیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے :
’’اگر اللہ کے ہاںدنیا کی زندگی کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کافر کو اس سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔‘‘
اس لیے اگر اپنا نصب العین آخرت میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا رکھیں گے تو یہ ساری چیزیں بے معنی محسوس ہوں گی۔
سوال: آج کل کے دور میں اچھا مسلمان بننے کے لیے قرآن پاک کو سمجھنا ضروری ہے اس سلسلے میں ہم انفرادی طور پر کیا کر سکتے ہیں؟
جواب: قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھ کر پڑھنے کی عادت بنا لینی چاہیے۔ گھروں میں والدین ایک وقت مقرر کر لیںجس میں ایک یا دو رکوع کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں۔ چھوٹے بچوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔ انہیں سورتیں یاد کرائی جائیں یا ان سے ناظرہ سنا جائے۔ جب قرآن کے ساتھ رشتہ مضبوط ہو گا تو ان شاءا للہ اچھا مسلمان بننے کے لیے راہ ہموار ہوگی۔
سوال : طلبہ و طالبات کو اسلامی اقدار پر عمل پیرا ہونے کے لیے کیساطر ز زندگی اختیار کرنا چاہیے؟
جواب:اسلامی کتابوں کا مطالعہ کرنا ہوگا، دین کا علم حاصل کرنا ہوگا اور پھر اصلاح احوال کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنی ہوگی۔ کیونکہ دعا بندہ مومن کا ہتھیار ہے۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ جوا یک بالشت میرے قریب ہوتا ہے میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے میں دو ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دو ڑکر آتی ہے۔‘‘
بچوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا مقصدِ حیات کیا ہے وہ اپنےایمان کو مضبوط کریں۔ اللہ پر توکل کریں اور ہر معاملے میں اللہ کی رضاکو مطلوب ہو۔
سوال:والدین اپنے بچوں کی کیسے تربیت کریں کہ وہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں؟
جواب:والدین گھروں میں دینی ماحول فراہم کریں چھوٹی عمر سے ہی قرآن کی تعلیم کا آغاز کریں۔ ڈاکٹرصاحبؒ نے اپنی مصروف زندگی کے باوجود بچوں کی تربیت پر بہت توجہ دی۔ میرے خیال میں اولاد کی تربیت میں ماں کا کردار زیادہ اہم ہوتاہے۔ وہ ہی بچے کی اولین درس گاہ ہے۔ اولاد کے سلسلے میں اللہ کے ہاں والدین سے پوچھ ہوگی۔
سوال: بچیوں میں حیا کی اہمیت کو کیسے اُجاگر کیا جا سکتا ہے۔ اور اس میں اساتذہ اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟
جواب: اس سلسلے میں بھی بنیادی طور پر ماں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اس کے بعد اساتذہ کو بھی حیا کا مجسمہ ہونا چاہیے۔ مائیں بچپن سے ہی بچیوں کے لباس کے حوالے سے محتاط رویہ اپنائیں اور ان کی اساتذ ہ بھی ان کے لیے رول ماڈل ہیں تو انھیں بھی اس سلسلے میں خیال رکھنا ہوگا۔ یہاں میں دو احادیث کا حوالہ دوں گی۔
’’آپ ﷺنے فرمایا ’’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔‘‘(ابن ماجہ)
اور’’بے شک حیا اور ایمان آپس میںملے ہوئے ہیں ، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔‘‘
(مستدرک الحاکم)
سوال: خواتین کے دینی فرائض اور اسلام میں عورت کے مقام پر بھی روشنی ڈالیے نیز موجودہ دور میں بچیوں کو کس طرح کی تعلیم اور ملازمت اختیار کرنی چاہیے؟
جواب: ۔عورت کی بنیادی ذمہ داری تو اس کا گھر ہے اسے اپنی ذات سے آغاز کر کے پھر گھر والوں کو اور اہل خانہ کے بعد اقرباء کو سمجھانا اور سکھانا ہے۔ وقت اور موقع کے مطابق دینی احکامات کو خود بھی سیکھنا ہے اور ان کو پھیلانا بھی ہے۔ اس حوالے سے آپ ڈاکٹر صاحبؒ کی کتاب ’’مسلمان خواتین کے دینی فرائض‘‘سے مزید رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔جہاں تک ملازمت اور مضامین کا تعلق ہے تو طب اور تعلیمی شعبے سے متعلقہ مضامین پڑھنے چاہیں اور اگر ملازمت کی ضرورت درپیش ہو تو انھی پیشوں کو اپنایا جائے اور مخلوط ماحول سے اجتناب کیا جائے۔
سوال: فرقہ و اریت سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
جواب: تمام مسالک قرآن و سنت کے دائرے کےاندر رہیں۔ اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے ہر فرد کو اپنے دینی فرائض پر توجہ دینی چاہیے۔ دینی موضوعات پر بحث مباحثہ کرنے سے اجتناب کریں۔ فرقہ واریت مسلمانوں کی ترقی و اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس سے دشمن قوتیں فائدہ اُٹھاتی ہیں۔
سوال: آج کے دُور میں دوسروں پر انگلی اُٹھانا ،تہمت و بہتان لگانا بہت عام ہو گیا ہے ان قبیح افعال کا تدارک کس طرح ممکن بنایا جائے؟
اس سوال کا جواب انہوں نے ایک خوبصورت شعر پڑھ کر یوں دیا:؎
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیبُ و ہنر
پڑی اپنی بُرائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
سوال: ڈاکٹرصاحبؒ طب کے پیشے سے منسلک تھے۔ انہوں نے جب اپنے پیشے کو چھوڑ کر اقامت ِدین کے لیے اپنے آپ کووقف کیا اور سادہ زندگی کو ترجیح دی تو آپ کی رضا اس میں شامل تھی؟
جواب: ڈاکٹر صاحبؒ کی اہلیہ نے بڑی حکمت سے اس کا جواب دیا جس کا لب لباب یہ ہے کہ جب ڈاکٹر صاحب ؒ نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا تو انھوں نے بھر پور ساتھ کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ رُوکھی سُوکھی کھا لیں گے مگر میں آپ کا ساتھ ضرور دوں گی۔ اس لیے کہ دنیا کو ڈاکٹرتو بہت سے مل جائیں گے مگر آپ جیسا مبلغ دین اور قرآن کا داعی نہیں ملے گا۔
سوال: آج ہمارے دلوں پر حسد ، تکبر ، کینہ اور تعصب کے جو پردے پڑے ہوئے ہیں ان کو کیسے ہٹایا جائے؟
جواب: حدیث مبارکہ ہے کہ:
’’ دلوں پر زنگ آجاتا ہے۔ صحابہ کرام j نے پوچھا کہ ہم اس زنگ کو کیسے دور کریں۔ تو آپ ﷺنے فرمایا ’’موت کو کثرت سے یاد رکھو اور قرآن مجید کی تلاوت کرو۔‘‘
(شعب الایمان)
قرآن و سنت کے ساتھ تعلق مضبوط کر کے اور قرآن کے حقوق ادا کر کے ہم ان پردوں کو ہٹا سکتے ہیں۔
سوال: قرآن کے حقوق کی وضاحت فرمادیجئے؟
جواب: ہر مسلمان پر قرآن مجید کے پانچ حقو ق ہیں۔
1: ایمان و تعظیم 2: تلاوت و ترتیل
3: تذکر و تدبر 4: حکم و اقامت 5: تبلیغ و تبیین
سوال : بچوں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رحجان کی کیا وجہ ہے اور اس کا تدارک کیسے کریں؟
جواب: ۔اگر والدین کے درمیان ناچاقی ہو جائے تو گھر کا ماحول خراب ہوگا اس خراب ماحول کا اثر اولادپر ضرور ہوگا۔پھر بچے راہ فرار تلاش کریں گے۔ اس لیے بچے بچیوں کو قرآن و سنت سے جوڑنے کی کوشش کریں۔ جتنا آپ کا تعلق قرآن و سنت سے مضبوط ہوگا اتنا ہی آپ معاشرتی برائیوں سے دور رہیں گے۔
سوال: عام طور پر نوجوان والدین کی جائز سختی کو بھی برداشت نہیں کرتے اس کے لیے کیا خاص رویہ اختیار کیا جائے؟
جواب:اس سلسلے میں والدین اور گھر کے بزرگ مثلاً داد ا دادی وغیرہ بھی خاص کردار ادا کر سکتے ہیں اگر اوائل عمر میں ہی اسلامی شعار اور دینی ماحول نظر آئے گا تو بچوں میں بھی اچھی عادات پختہ ہو جائیں گی لیکن اگر آپ تیرہ چودہ سال کی عمر میں ایک دم سے ان پر پابندیاں لگائیں گے تو وہ ان کو عجیب لگیں گی کیونکہ وہ بچپن سے ان کے عادی نہیں ہوں گے تو ان پر عمل کرنا بھی ان کے لیے مشکل ہو جائے گا۔
اس گفتگو کے دوران ڈاکٹر صاحبؒ کی بڑی صاحبزادی امۃ المعطی بھی وہاں موجود تھیں کچھ سوالات ان سے بھی کیے گئے:۔
سوال: ڈاکٹر صاحبؒ کا اپنی بیٹیوں کے ساتھ کسی طرح کا تعلق تھا؟
جواب: ڈاکٹر صاحبؒ اپنے دروس قرآن میں ہمیشہ ہمیں اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔گھر میں رُعب کے ساتھ ساتھ مشفقانہ رویہ تھا۔ اگر ان کی طرف سے کوئی ہدایت ملتی تواس پر عمل درآمد والدہ صاحبہ کراتی تھیں۔ تفریحی دوروں پر بھی ہمیں ساتھ لے کر جاتے۔ سیر کے لیے مری اور ایوبیہ بھی لے کر جاتے ۔ گھر کی تقریبات میں بچیوں کو بھر پور طریقے سے محظوظ ہونے کی اجازت ہوتی تھی۔ لیکن مخلوط تقاریب کی اور تصاویر بنانے کی بالکل اجازت نہ تھی۔
سوال: تربیت کے حوالے سے بحیثیت ایک ماں کے آپ نےاپنی والدہ کو کیسا پایا؟
جواب: ہماری تربیت میں والد سے زیادہ والدہ کا کردار اہم ہے۔ دین کے قریب لانے اور اسلامی شعار کی پابندی کرانے میں دادی مرحومہ اور والدہ نے بچپن سے بہت توجہ دی۔ پر دے کی عادت اپنا نے اور قرآن سے جوڑنے میں کوشاں رہیں۔ دینی اور دنیوی تعلیم و تربیت میں والدہ کا زیادہ حصہ ہے۔
سوال: اقامت ِدین میں خواتین اپنا کردار کس طرح ادا کر سکتی ہیں؟
جواب:خواتین کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ اقامت ِدین کا کام سب سے پہلے اپنی ذات، اپنے گھر اور اپنے اردگرد محرم رشتے داروں سے کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں وہ مُستنددینی مدارس اور اداروں میں ہونے والے کورسز میں داخلہ لے سکتی ہیں، جن کے لیے تعطیلات کا وقت بے حد موزوں رہتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی نشست کا اختتام چائے سے تواضع کے ساتھ ہوا۔ ہم نے ان کا شکر یہ ادا کیا۔ ڈاکٹر صاحب ؒکی اہلیہ نےطالبات کو اچھے مستقبل کے حوالے سے دعائیں دیں اور ہم وہاں سے پند ونصائح کے قیمتی موتی سمیٹ کر روانہ ہوئے۔ خ خ خ
tanzeemdigitallibrary.com © 2024