(گوشۂ تربیت) حقیقت صلوٰۃ - ادارہ

9 /

حقیقت صلوٰۃمرکزی شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی

 

توحید اور رسالت کی شہادت کے بعد نماز ، روزہ ، ز کوٰۃ اور حج اسلام کے چار ارکان ہیں اور ا ن چار میں سے بھی نماز اور روزہ کی اہمیت زیادہ ہے۔ اس لیے کہ زکوٰۃ تو صرف صاحب نصاب پر اور حج صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ جبکہ نماز اور روزہ تو ہر مسلمان پر فرض ہیں۔ پھر نماز اور روزہ میں سےبھی نماز کو خاص اہمیت حاصل ہے چونکہ روزانہ پانچ نمازوں کی ادائیگی ہر عاقل و بالغ پر فرض ہے جبکہ روزے سال میں ایک ماہ کے فرض ہیں۔
نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں نماز قائم کرنے کا حکم تقریباًستر بار آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ نبوی ﷺ میں کسی مسلمان کے بے نمازی ہونے کا گمان تک نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ یہاں تک کہ منافقین کو بھی اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کرنے کے لیے جماعت میں پہلی صف میں کھڑا ہونا پڑتا تھا ۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ بے نمازی ہیں اور نماز جیسی عظیم اہمیت کی حامل عبادت سے محروم ہیں۔
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے راویت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے دیدہ دانستہ جان بوجھ کر فرض نماز چھوڑدی تو وہ ہماری ملت سے خارج ہوگیا۔( رواہ الطبرانی)
جلیل القدر تا بعی عبد اللہ بن شفیق ؒنے صحابہ کرام ؓ کے بارے میں فرمایا ہے: ’’رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نماز کے سوا کسی عمل کے ترک کرنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔ ‘‘
ان احادیث کی بنیاد پر امام احمد بن حنبلؒ اور بعض دوسرے اکابر ِ امت کا مؤقف ہے کہ نماز چھوڑ دینے سے آدمی کافر اور مرتد ہوجاتا ہے اور اسلا م سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا حتیٰ کہ اگر وہ ا سی حال میں مرجائے تو اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی۔ اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کی بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن امام ابو حنیفہؒ اور بعض دوسرے اَ ئمہ کی رائے یہ ہے کہ ترکِ نماز اگر چہ اسلام کے منافی ایک عمل ہے۔ لیکن اگر کسی بد بخت نے صرف غفلت سے نماز چھوڑدی تو اگر چہ وہ آخرت میں سخت سے سخت سزا کا مستحق ہے مگر اس پر کافر اور مرتد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو بے حدوحساب نعمتوں سے نوازا ہے تو اس کو بھی چاہئے کہ اپنے پروردگار کو پہچانے کہ یہ تمام نعمتیں مجھے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے عطا فرمائیں ہیں ۔ لہٰذا مجھے شکر بھی اُسی کا ادا کرنا چاہئے ۔جیسا کہ سورۃ لقمان آیت نمبر 12 میں ارشاد گرامی ہے:
{وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلہِ ط} ’’اور یقیناً ہم نے ہی لقمان کو حکمت عطا کی تھی تا کہ وہ شکر ادا کرے اللہ تعالیٰ کا۔‘‘
انسان اللہ تعالیٰ کا شکر بھی اسی وقت اداکر سکتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرلے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا عمل بھی درست ہوگا۔ اس میں افراط و تفریط نہیں ہوگا۔نہ تو انسان اپنے نفس سے مغلوب ہوگا ، نہ جذبات کی رو میں بہہ کر اندھا ہوجائے گا اور نہ ہی مخالف ماحول سے متاثر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ایک نتیجہ یہ بھی برآمد ہوگا کہ اس کا تعلق مع اللہ گہر ا ہوتا چلا جائے گا۔ عمل بھی بہتر ہوتا چلا جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ روحانی ترقی بھی ہوگی جو اصل حاصل اور اصل مقصود ہے۔
غور کیجئے ان تینوں چیزوں یعنی معرفتِ رب ، عمل کی درستگی اور روحانی ترقی کا نماز کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ لہٰذا حکم دیا گیا کہ اپنے چوبیس گھنٹوں کے معمولات میں سے کم از کم پانچ مرتبہ لازماً نکلو اور اپنی باطنی کیفیات کو تازہ کرو۔
جس اصطلاحِ قرآنی کا ترجمہ اردو میں نماز کیا گیا ہے۔ وہ صلوٰۃ ہے۔ صلوٰۃ کے لغوی معنیٰ کسی کی طرف رخ کرنے، بڑھنے اور قریب ہوجانے کے ہیں۔ لہٰذا شریعت کی اصطلاح میں اس کا مفہوم یہ ہوگا ، اس اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح متوجہ ہونا اور بڑھ کر اس کے قریب ہوجانا جو تنہا معبود اور اکیلا مقصودہے۔
صلوٰۃ کے اس مفہوم کو سامنے رکھ کر جائزہ لے کر دیکھتے ہیں ہم نماز میں کیا کرتے ہیں اور کیا پڑھتے ہیں؟ سب سے پہلے اس خانہ کعبہ کی سمت رخ کرتے ہیں جو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کا سب سے پہلا مرکز اور اس کی رضا جوئی کا سب سے بڑا نشان ہے۔ پھر کانوں تک ہاتھ لے جاتے ہیں ، جو اس بات کا اعلان ہے کہ ہم دنیا و مافیہا سے کٹ کر اپنے آقا کے دربار میں حاضر ہورہے ہیں پھر دونوں ہاتھ باندھ کر، نظریں جھکا کر ، اپنے ظاہر و باطن پر عاجزی طاری کر کے، مؤدب کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد پیٹھ خم ہوجاتی ہے اور سرجھک جاتا ہے پھر ہاتھ، گھٹنے، ناک اور پیشانی سب زمیں بوس ہوجاتےہیں۔ ادب اور عاجزی کی یہ برابر ترقی کرتی ہوئی کیفیات بتارہی ہیں کہ بندہ اپنی ہر ممکن ادا سے کسی بہت ہی عظیم ، غیر محدود اور صاحبِ جمال و جلال ہستی کی بے پناہ خوبیوں کا اقرار کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے آتے ہی دست بستہ خاموش اور مؤدب کھڑا ہوگیا۔ مگر دل نے کہایہ ناکافی ہے لہٰذا اس نے پیٹھ جھکادی۔ اندر سے پھر آواز آئی کہ ابھی حق ادا نہیں ہوا ۔ تو غلام نے اپنی پیشانی خاک پرڈال دی۔ مگر پھر بھی زبان ِ حال سے یہی کہتا رہا کہ ابھی حق ادا نہیں ہوا۔ اس لیے کاش اظہار ِ تعظیم و محبت کے لیے ان تین شکلوں کے علاوہ بھی کوئی اور شکل میرے علم اور بس میں ہوتی تو میں اسے بھی اختیار کرتا ۔ پڑھتے ہم یہ ہیں کہ’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے:{اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَـآ اَنَا مِنَ الْمُشْرکِیْنَ(79)} (سورۃ الانعام) ’’ میں نے ہر طرف کٹ کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیا جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے اور میں شرک سے یکسر بے تعلق ہوں۔ ‘‘
{اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ}( شکر کا مستحق وہ اللہ تعالیٰ ہے جو ساری کائنات کا پرورگار ہے۔)
اور اس طرح بہت سی چیزیں ہیں جو نماز میں پڑھی جاتی ہے۔
چنانچہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: (( اِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا صَلَّى يُنَاجِي رَبَّهُ)) ( صحیح بخاری) ’’ تم میں سے کوئی جب نماز پڑھتا ہے تو اپنے رب سے سرگوشی کررہا ہوتا ہے۔ ‘‘
اور قرآن مجید کہتا ہے۔
{کَلَّاط لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ(19)} (سورۃ العلق)
(اللہ تعالیٰ کو ) سجدہ کر اور قریب ہوجا۔
نماز کی اہمیت:
قرآن مجید کے اندر نماز کے حکم کو نہ صرف بار بار دہرایا گیا ہے بلکہ اس کے ذکر وبیان کے مواقع بھی مختلف نوعیت کے ہیں۔ اسلوب کے یہ مختلف رنگ محض اتفاقی نہیں بلکہ نماز کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہیں ۔ آئیے نماز کے بارے میں چند منتخب آیات کا ذرا گہری نظر کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں۔ تاکہ واضح ہو جائے کہ نماز کا مقام دین کے پورے نظام میں کیا ہے؟
1۔نماز دین کی عملی بنیادہے:
سورۃ طہ آیت نمبر 14 میں ارشادِ گرامی ہے: {فَاعْبُدْنِیْ لا وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ(14)} ’’میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کے لیے نماز پڑھا کرو۔‘‘
یعنی اگر اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ہے تو نماز پڑھنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی یاد ہی دین کا اصل جوہر ہے۔ لہٰذا اس کا مطلب ہوا کہ نماز دین کی اصل بنیاد ہے۔
2۔نماز ایمان کا پہلا لازمی مظہرہے اور اس کی صداقت کا سب سے بنیادی ضروری ثبوت ہے۔
قرآن مجید کے پہلے ہی صفحہ پر ہمیں یہ الفاظ ملتے ہیں۔
{الٓـمّٓ (1) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(2) الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰــھُمْ یُنْفِقُوْنَ(3)}(سورۃ البقرۃ) ’’الف- لام -میم ، یہ وہی کتاب ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہدایت ( بن کر آئی) ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
اسی بات کی منفی پہلو سے بھی اچھی طرح پردہ کشائی کردی گئی ہے۔
{مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ(42) قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ(43)}( سورۃالمدثر)’’( فرشتےاہل دوزخ سے پوچھیں گے) تمہیں دوزخ میں کیا چیز لے آئی ، وہ جو اب دیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے۔ ‘‘
ظاہر ہے کہ کفارکا وہ بنیادی جرم جو انہیں دوزخ کا ایندھن بنوائے گا، وہ ان کا کفر ہوگا۔ مگر جو اب وہ یہ دیں گے کہ : ’’ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘‘ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان اور اقامت صلوٰۃ لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
3۔نماز کی محافظت ہی پر پوری شریعت کی محافظت منحصر ہے:
سورۃ المومنون کے آغاز میں فرمایا گیا:
{قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَAالَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ(2)} ( سورۃ المومنون )’’ کام نکال لے گئے اہل ِایمان۔ وہ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔‘‘
اور مومنوں کی کچھ خصوصیات بیان کرنے کے بعد دوبارہ فرمایاگیا:{وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ(9)} (سورۃ المومنون’’ اور وہ جو اپنی نمازوں کی پوری محافظت کرتے ہیں۔‘‘
یہ ترتیبِ آیات اس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ نماز کی حیثیت ایک دائرے کی سی ہے جس کے اندر تمام احکامِ شریعت محفوظ ہیں ۔ نماز شریعت کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور نقطۂ اختتام بھی ۔
4۔نماز سے اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے:
{قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللہِ وَاصْبِرُوْاج} (سورۃ الاعراف:128)’’ موسیٰ ؑنے اپنی قوم (اہل ایمان) سے کہا کہ اب تم لوگ اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو ‘‘
{وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط}( البقرہ :45)
’’اور مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے۔‘‘
غور کریں کہ دونوں آیات میں ایک بات کہی گئی ہے۔ اور مقصد بھی ایک ہی ہے۔ مگر پہلی آیت میں صبر کے ساتھ’’ اللہ‘‘ کا لفظ آیا ہے اور دوسری آیت میں صلوٰۃ کا ۔ معلوم ہوا کہ نماز اور قربِ الٰہی ایک ہی شے کے دونام ہیں اور نماز ہی قرب الٰہی حاصل کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔
5۔ نماز ہی سے راہِ حق کی مشکلات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے
درج بالا آیات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں ان مصائب و آلام کا مقابلہ ، جن سے مومنوں کا دوچار ہونا لازمی ہے، صرف صبر اور نماز ہی سے کیا جاسکتا ہے۔
بلکہ دین پر استقامت کا دارومدار بھی نماز ہی پر ہے۔ یعنی صبر کرنے کی طاقت بھی نماز ہی سےحاصل ہوتی ہے۔
6۔شہادتِ حق کی ادائیگی نماز پر ہی موقوف ہے۔
{لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَـکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ ج فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللہِ ط} (سورۃالحج؛78)’’ تا کہ پیغمبر تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔‘‘ ’پس نماز قائم کرواور زکوٰۃ ادا کرو‘ اور اللہ کے ساتھ چمٹ جاؤ ۔ ‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین حق کی وہ شہادت جس کے لیے امتِ مسلمہ بر پا کی گئی ہے، اسی وقت انجام پاسکتی ہے جب کہ نماز اور زکوٰۃ کی ٹھیک ٹھیک ادائی ہوتی رہے۔ نماز کی اہمیت کے صرف چند پہلو آپ کے سامنے پیش کیے گئے ہیں ورنہ اگر آپ پورے قرآن مجید اور سارے ذخیرۂ احادیث کا نماز کی ضرورت ، اہمیت، افادیت اور تاثیر کے حوالہ سے مطالعہ کریں تو تمام پہلوؤں کا اندازہ کرتے کرتے آپ کا ذہن تھک جائے گا۔
نماز کا معیارِ مطلوب:
نماز کو قائم کرنا اور شے ہے جب کہ نماز کا پڑھنا اور چیز ۔ نماز کی اقامت کا قرآن و سنت کی رُو سے ایک خاص مفہوم ہے۔ کچھ ظاہری اور باطنی شرطیں ہیں جن کا پورا ہونا نماز کے ’’قائم ‘‘ ہو نے کے لیے ضروری ہے۔ جب تک یہ تمام شرائط پوری نہ ہوجائیں اور ان میں سے ہر ایک کی پابندی نہ کرلی جائے، یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ نماز کا ’’ قیام‘‘ عمل میں آگیا ۔ ہاں اسے نماز کا پڑھ لیا جانا ضرور کہہ سکتے ہیں ۔ ایک فرض تھا جو ہم نے سر سے اتار دیا لیکن اس ’’بے قیام‘‘ نماز سے وہ برکات ، فوائد اور فضائل حاصل نہیں ہوسکتے جو’’ نماز ‘‘ کا حاصل ہیں۔ ان میں سے چند شرائط درج ذیل ہیں۔
1۔وقت کی پابندی:
سورۃ النساء کی آیت نمبر 103 میں اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے:
{فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَج اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰــبًا مَّوْقُوْتًا(103)} ’’ تو پھر نماز کوقائم کر و(تمام آداب و شرائط کے ساتھ)۔ یقیناًنماز اہل ِایمان پر فرض کی گئی ہے وقت کی پابندی کے ساتھ۔‘‘
آیات کا نظم اور سیاق و سباق صاف بتارہا ہے کہ وقت کی پابندی نماز کی اقامت کے لیے شرطِ لازم ہے:
2۔جماعت کی پابندی:
حضرت عبد اللہ بن عمر i سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ باجماعت نماز پڑھنااکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔‘‘ ( صحیح بخاری)
نماز صرف ایک فریضہ ہی نہیں بلکہ ایمان کی نشانی اور اسلام کا شِعار بھی ہے۔ اس کا قائم کرنا مسلمان ہونے کا ثبوت اور ترک کردینا دین سے لا پروائی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ سے بےتعلقی کی علامت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نماز کی ادائیگی کا کوئی ایسا بندوبست ہو کہ ہر شخص اس فریضہ کو اعلانیہ سب کے سامنے ادا کرے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر رسول اللہ ﷺ نے نماز باجماعت کا نظام قائم فرمایا اور ہر مسلمان کے لیے، اگر اسے کوئی شرعی عذر لاحق نہ ہو ،جماعت سے نماز ادا کرنا لازمی قرار دیا ۔
سورۃ النساء آیت نمبر 102 میں ارشاد الٰہی ہے:
’’ اور (اے نبیؐ !)جب آپ ؐ ان کے درمیان موجود ہوں اور (حالت ِ جنگ میں) انہیں نماز پڑھانے کھڑے ہوں تو ان میں سے ایک گروہ کو کھڑے ہونا چاہیے آپﷺ کے ساتھ‘ اوروہ اپنا اسلحہ لیے ہوئے ہوں۔ پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو تمہارے پیچھے ہوجائیں اور آئے دوسرا گروہ جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی اوروہ آپؐ کے ساتھ نماز پڑھیں اور ان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی حفاظت کا سامان اور اپنا اسلحہ اپنے ساتھ رکھیں۔ یہ کافر لوگ تو اسی تاک میں رہتے ہیں کہ تم جیسے ہی اپنے اسلحہ اور سازو سامان سے ذرا غافل ہو،تو وہ تم پر ایک دم ٹوٹ پڑیں۔ اور تم پرکوئی گناہ نہیں ہے کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف ہو بارش کی وجہ سے یا تم بیمار ہوجاؤاور(ایسی صورتوں میں) تم اپنا اسلحہ اتار کررکھ دو۔البتہ اپنا بچاؤ ضرور کر لیا کرو۔یقیناً اللہ نے کافروں کے لیے بہت ذلت آمیز عذاب تیارکر رکھا ہے۔‘‘

اس ارشادِ الٰہی سے معلوم ہوا کہ باجماعت نماز کا اہتمام کس قدر ضروری ہے؟ میدان جنگ میں بھی اگر یہ حکم ہے کہ مسلمان دو گروہوں میں بٹ کر باری باری اپنی آدھی نماز امام کے پیچھے ہی ادا کریں تو پھرجماعت کی اہمیت کے لیے اس سے بڑا اور کیا ثبوت چاہیے۔
3۔ارکان نمازکی تعدیل اور بدن کے اعضاء کا سکون اورجھکاؤ
نمازکی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے قرآن مجید کہتا ہے:
{حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰیق وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِیْنَ(238)}( البقرۃ) ’’ نگہداشت کرو اپنی نمازوں کی اور بیچ کی نماز کی اور کھڑے رہو اللہ تعالیٰ کے حضور ادب و نیاز کے ساتھ ۔‘‘
نماز در اصل اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے قلب، قول اور عمل سے ایک خاص طریقے پر انتہائی نیاز مندی اور عاجزی کا مظاہرہ ہے۔ قیام، تشہد میں بیٹھنا اور رکوع و سجود کی روح یہی ہے ۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں ان کو صحیح طریقے پر ادا کرنے کی بہت تاکید آئی ہے۔
حضرت طلق بن علی حنفی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ اس بندہ کی نماز کی طرف دیکھتا بھی نہیں جو رکوع اور سجدہ میں اپنی پشت کو سیدھا برابر نہیں کرتا۔ (مسند احمد)
4۔خشوع:
ہر چیز کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک باطنی حقیقت۔ نماز کی بھی ایک صورت ہے اور ایک حقیقت ۔ قرآن اور حدیث کی زبان میں اس ’’حقیقت‘‘ کا نام ’’خشوع‘‘ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور باطن کا جھک جانااور قلب کا بچھ جانا۔ سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات میں جہاں ایک با مراد اور مثالی مومن کی بڑی بڑی صفات بیان ہوئی ہیں۔ ان میں پہلی بنیادی صفت ہی خشوع والی نماز ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
{قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(1)الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ(2)}(سورۃ المومنون )’’مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں ۔ ‘‘
اسی بات کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ جس نماز میں خشوع نہ ہو وہ ایک بامراد اور کامیاب مومن کی نماز نہیں ہو سکتی۔
5۔ ( تدبر قرآن) نماز میں آیاتِ قرآنی کا مطلب سمجھتے ہوئے اور غور و فکر کرتے ہوئے تلاوت کرنا:
نماز میں سب سے اہم چیز قرآن کی تلاوت ہے ۔ ساتھ ہی ہم یہ بھی معلوم کر چکے کہ نماز کی روح خشوع ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرأتِ قرآن ہی وہ سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہے جس سے دل میں خشوع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کو غور و فکر کے ساتھ پڑھنے کی یہی اہمیت تو تھی جس کی خاطر نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا تھا۔
{وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا(4)} (المزمل)’’اور ( اس نماز میں) قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔‘‘
اور جس کے پیشِ نظر آپ ﷺ ایک ایک آیت کو الگ الگ نمایاں کر کے پڑھتے تھے۔
اور اسی وجہ سے سب سے افضل نماز اسے قرار دیا گیا جو لمبے قیام یا دوسرے الفاظ میں لمبی قراءت والی ہو ۔
حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے
((أَفْضَلُ الصَّلاَةِ طُولُ الْقُنُوتِ)) (صحیح مسلم)
’’ سب سے بہتر نمازوہ ہے جس میں لمبا قیام کیا جائے۔ ‘‘
یہ ہیں وہ چند اہم شرائط جن کا پورا کیا جانا ’’اقامت صلوۃ‘‘کو معیاری بنانے کے لیے ہرحال میں ضروری ہے۔
آئیے باجماعت نماز کے اجر کو بڑھانے کے لیے حضور اکرم ﷺ کے چند مزید ارشادات پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
1۔صف ِاول کی فضیلت:
’’حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے دعائےرحمت کرتے ہیں پہلی صف کے لیے ، بعض صحابہ کرام jنے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! دوسری کے لیے بھی؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے دعائے رحمت کرتے ہیں پہلی صف کے لیے ۔ پھر عرض کیا گیا ، یا رسول اللہ ﷺ! اور دوسری صف کے لیے بھی؟ آپ ﷺ نے پھر پہلی بات دہرادی۔ چوتھی مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا اور دوسری صف کے لیے بھی ‘‘
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور فرشتوں کی دعارحمت کے خصوصی مستحق تو پہلی صف والے ہی ہوتے ہیں۔ دوسری صف والے اس سعادت میں بہت پیچھے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طالب کو چاہیے کہ وہ حتیٰ الوسع پہلی ہی صف میں جگہ حاصل کرنے کی کوشش کرے جس کا ذریعہ یہی ہو سکتا ہے کہ مسجد میں اوّل وقت پہنچا جائے اور مسجد میں آکر پیچھے بیٹھنے کے بجائے پہلی صف ہی میں بیٹھا جائے۔ (مسند احمد)
2۔تکبیر اولیٰ کی اہمیت:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص چالیس دن تک ہر نماز جماعت کے ساتھ اس طرح پڑھے کہ اس کی تکبیرِ اولیٰ بھی فوت نہ ہو تو اس کے لیے دو برأتیں لکھ دی جاتی ہیں ۔ ایک دوزخ کی آگ سے برأت اور دوسری نفاق سے برأت‘‘ ( جامع ترمذی)
مطلب یہ کہ چالیس دن تک ایسی پابندی اور اہتمام کے ساتھ با جماعت نماز ادا کرنا کہ تکبیر اولیٰ بھی فوت نہ ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا مقبول اور محبوب عمل ہے کہ اس کے لیے فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ اس کا دل نفاق سے پاک ہے اور ایسا جنتی ہے کہ دوزخ کی آنچ سے وہ کبھی آشنا نہ ہوگا۔
عملی سوال:
نماز کے متعلق تقریباً تمام ضروری باتیں ہمارے سامنے آچکیں ۔ ہم سمجھ چکے کہ نماز کی حقیقت کیا ہے؟
اس کا معیار مطلوب کیا ہے؟ پھر ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کوئی شخص نماز قائم کئے بغیر اپنا فرض ِ بندگی پورا نہیں کرسکتا حتیٰ کہ دنیا کے سب سے اعلیٰ انسان نبی اکرم ﷺ اس سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ اب اس واقفیت کے بعد ہمارے سامنے لازماً عمل کا سوال آتا ہے۔ اب یہ نظری واقفیت ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہماری نمازوں کا کیا حال ہے ۔ کیا وہ صرف پڑھ لی جاتی ہیں یا واقعتاً قائم بھی کی جاتی ہیں ہمیں اپنا جائزہ لینا چایئے کہ ان کے ظاہر میں کیا کیا کوتاہیاں ہیں اور باطن میں کون کون سی خامیاں ؟
اور پھر جہاں جہاں جو جو کوتاہیاں اور جو جو خامیاں نظر آئیں ۔ ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گاکہ اطاعتِ حق اور اقامتِ دین کی جدوجہد کے جس کام کے لیے نبی اکرم ﷺ اور اصحاب نبی ﷺ نے اپنی راتوں کی میٹھی نیند بھی قربان کردی، وہ ہم صرف قانونی انداز کی نمازیں پڑھ کر قیامت تک سرانجام نہیں دے سکتے۔ اب ضرورت صرف اپنے عزم کی اورعملی جدوجہد کی ہے: { لَّــیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (39)} نماز کا اصل مقصود وہی ہے جو علامہ اقبال نے یوںکہا ہے؎
یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو روح کو گرما دے اور قلب کو تڑپادے
نماز کا یہ پہلو آج ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔ کاش ہماری نماز بھی ایسی ہوجائے جو ہماری روح کو گرما دے اور ہمارے قلوب میں تڑپ پیدا کردے۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں وہ دل وہ آرزو باقی نہیں
نماز و روزۂ و حج سب باقی ہیں تو باقی نہیں