اقامت ِ دین کا کام اکیلے اکیلے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے جماعت
اور جماعتی زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسلام انفرادی معاملات کی ہدایت بھی دیتا ہے۔ عقائد، عبادات، معاملات
بھی دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کا سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام بھی دیتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابی راستے سے پاکستان میں اسلامی نظام ہرگز نہیں آسکتا،
بلکہ اس کے لیے انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے البتہ وہ پُرامن اورمنظم جدوجہد ہوگی۔
ایک پاکستانی اسلام پر عمل پیرا ہوکر بیک وقت اپنی قومی ، ملی اور دینی ذمہ داری پوری کر سکتا ہے ۔
ہماری دینی جماعتوں کی ترجیحات میں شاید اقامت دین کی جدوجہد شامل ہی نہیں ہےیہی وجہ ہے کہ
انہوں نے ہر مسئلہ پر تحریک چلائی ،
دھرنے دیے لیکن اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے انہوں نے کوئی تحریک چلائی اورنہ ہی دھرنے دیے ۔
ہمیں خود کو بھی جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرنی ہے اور دوسروں کو بھی
خیر خواہی کے جذبہ کے ساتھ اس سے بچانے کی کوشش کرنی ہے۔
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات
میز بان :آصف حمید
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: اگر تنظیم اسلامی میں کسی سرکاری ملازم نے شامل ہوناہوتواس کے لیے کیا ضوابط ہوں گے ۔مثال کے طور پر جب کبھی اس باطل نظام کے خلاف جدوجہد کاموقع آیا تو سرکاری ملازمین بالخصوص پولیس اہلکار کیسے تنظیم میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں گے ؟ (رضاء الحق،لاہور)
امیر تنظیم اسلامی:پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ ہم جس دین کو ماننے والے ہیں وہ کامل دین ہے ۔ ختم نبوت کے بعد اس دین پرعمل کرنا، اس کی دعوت دینا اور اس کے نظام کوقائم کرنے کی جدوجہد میں حصہ لینا ہرمسلمان کا فرض ہے اور اُخروی نجات کے لیے ان فرائض کو انجام دینا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے ۔ اقامت دین کا کام ہم اکیلے نہیں کرسکتے ۔ اس کے لیے اجتماعیت اختیار کرناضروری ہے۔چاہے سرکاری ملازمین ہوں ، نیم سرکاری ہوں یا وہ نوجوان ہوں جو ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں دینی ذمہ داریاں ہر ایک پر ہیں اور ہم تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے یہ دعوت ہر ایک کو دیتے ہیں الحمد للہ ۔ جب کوئی سرکاری ملازم تنظیم اسلامی میں شامل ہونا چاہے تو دیکھا یہ جائے گا کہ اُس کے ادارے کے قواعد و ضوابط ایسے تو نہیں ہیں کہ وہ کسی دینی جماعت میں شامل ہونے سے منع کرتے ہوں ۔ اگر ایسے قواعد ہیں تو اس صورت میں دو پہلو ہیں ۔ ایک فقہی پہلوہے کہ وہ ہمارے پروگرامز میں آتے ہیں لیکن اس کا اظہار نہیں کرتے ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ان کو کوئی حلف دینا پڑتا ہے تو اس صورت میں ہم اس حق میں نہیں ہیں کہ وہ کوئی غلط بیانی یا جھوٹ کا سہارا لیں ۔ ہاں البتہ اگر ان کے ادارے کی طرف سے ایسا کوئی پابندی والا حلف نامہ نہیں ہے تو پھر انہیں ضرور شامل ہوناچاہیے ۔ ہم ان کو خوش آمدید کہیں گے۔ جہاںتک اس نظام باطل کے خلاف تنظیم کی جدوجہد کا حصہ بننے کا تعلق ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابی راستے سے پاکستان میں اسلامی نظام ہرگز نہیں آسکتا، بلکہ اس کے لیے انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے البتہ وہ پُرامن اورمنظم جدوجہد ہوگی۔ اس سب کے باوجود کوئی موقع آسکتا ہے کہ ہم نظام کو چیلنج کرنے کی بات کریں، تب اس نوعیت کے افراد کے سامنے راستہ ہوگا ۔ ہمارے کچھ ایسے بھی رفقاء ہیں جنہوں نے جب یہ محسوس کیاکہ ادارے کے ساتھ یاتوغلط بیانی کرناپڑے گی،یاکڑھن رکھناپڑے گی جس کی وجہ سے ہم کام نہیں کرسکیں گے تو انہوں نے وہ ادارے ہی چھوڑ دیےاور اُن اداروں یا شعبوں میں چلے گئے جہاں کام کرتے ہوئے اُن کے لیے اقامت دین کی جدوجہد میں بھی حصہ لینا ممکن تھا ۔ اسی طرح یہ بھی ایک پہلو ہے کہ آپ فارملی شامل نہ ہوں لیکن بطور حبیب آپ تعاون کرسکتے ہیں،پروگرامز کے اندر آسکتے ہیں ،دعا کرسکتے ہیں ۔ یہ مختلف امکانات ہیں۔
خوش قسمتی سے ہم پاکستان کے شہری ہیں، یہ ملک اسلام کی بنیاد پر بنا ہے۔ یہاں مختلف زبانیںبولنے والوں کواسلام نے ہی جوڑ کر ایک پاکستانی قوم بنایا ہے ۔ لہٰذا یہاںاگر اسلام مضبوط ہوگا تو ملک بھی مضبوط ہوگااور قوم بھی مضبوط ہوگی۔ اسلام پرعمل ہوتاہے تودنیابھی سنورے گی اور آخرت بھی سنور جائے گی۔بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ فرماتے تھے کہ ہم پاکستانی اسلام پر عمل کرکےبیک وقت ایک تیر سے تین شکارکر سکتے ہیں ۔ یعنی ایک پاکستانی اگر اسلام پر عمل کرتاہے تو گویا وہ قومی کردار بھی ادا کر رہا ہے ، ملک کی مضبوطی کے لیے بھی کردار ادا کر رہا ہے اور پھر اپنی آخرت بھی سنوار رہا ہے ۔ تنظیم اسلامی کا ہدف بھی وہی ہے جو اسلام کا تقاضا ہے۔ ہمارے آئین میں لکھاہے کہ اس ریاست کامذہب اسلام ہے۔ پھرآئین کاآرٹیکل 31کہتاہے کہ ریاست کے چلانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ یہاں کے رہنے والوں کواسلامی ماحول فراہم کریں تاکہ وہ قرآن وسنت کی تعلیم کو سیکھ بھی سکیں اوراس پرعمل بھی کر سکیں۔یعنی یہ ہمارا دینی فریضہ توہے ہی ہماراآئینی حق بھی ہے کہ اس مملکت خداداد میں اللہ کا دین قائم ہو۔یہ کوئی اس ملک کی سالمیت کے خلاف بات نہیں ہے ۔ جن اداروں کی میں نے اشارتاً بات کی وہ بھی پاکستان کی سالمیت کے لیے لگے ہوئے ہیں ۔ یعنی تقویٰ،ایمان اورجہاد فی سبیل اللہ ہی ان کاماٹو ہے۔اگر ان اداروں نے پاکستان کی جغرافیائی حدود کی حفاظت کی کوشش کرنی ہے تواس کی نظریاتی حفاظت کی کوشش بھی کرنی ہے جودین اسلام کی دعوت اوراس پرعمل کی صورت میں ممکن ہے ۔
سوال:تنظیم اسلامی افغانستان کی ترقی کے لیے کیوں کام نہیں کرتی جیساکہ وہ اسلامی ریاست ہونے کادعویٰ کرتے ہیں ۔(محمدابراہیم)
امیر تنظیم اسلامی:بہت اچھاسوال ہے۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ کے دورمیں جب ملاعمرمجاہد موجود تھے ( اللہ دونوں کے درجات بلند فرمائے )تو اللہ تعالیٰ نے جو بھی ہمیں توفیق عطا فرمائی ہم نے اخلاقی اور سیاسی طورپر ان کی مدد کرنے کی کوشش کی ۔ الحمدللہ!البتہ یہ یاد رہے کہ تنظیم اسلامی کے لٹریچر(کتب وغیرہ) بیک ٹائٹل پرایک عبارت لکھی ہوتی ہے جس کے آخر میں لکھا ہے کہ ہم اولاًپاکستان اوربالآخرپوری زمین پر اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ عادلانہ نظام کوقائم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں ۔چونکہ ہم یہاں پیدا ہوئے، یہاں پلے بڑھے اوریہاں رہتے ہیں ، یہاں کی زبان بولتے ہیں توحق بھی اس مقام کااولاً ہے کہ ہم یہاں پریہ جدوجہد کریں۔پھریہ ملک اسلام کے نام پر لیا تو اس کاحق بھی بنتاہے کہ اس میں اسلام کے نفاذ کامعاملہ ہوناچاہیے ۔پھریہ انبیاء ورسلf کی سنت بھی ہے ۔ جب تک کوئی نافرمان قوم کسی نبی یارسولd کی جان کےدرپے نہ ہوگئی تو پیغمبرؑ نے اپنے علاقے کونہیں چھوڑا۔ البتہ جب قوم جان کے درپے ہوجاتی اوراللہ کا واضح حکم آ جاتا توپیغمبرdاپنے علاقے کو چھوڑا کرتے تھے ۔ ان دلائل کو سامنے رکھیں توہمارااصل میدان پاکستان ہے اوراللہ کرے کہ یہاںپرنظام خلافت قائم ہواورپھراُدھر بھی ہو اور اسی طرح کشمیر،فلسطین اور پوری دنیا میں قائم ہو۔ہماری حکومت نے ابھی آفیشلی طورپرافغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ۔ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے ہم اپنی حکومت کو غیرت اور توجہ دلانے کی مستقل کوشش کرتے رہتے ہیں اورکرتے رہیں گے کہ امارت اسلامیہ افغانستان کو تسلیم کیا جائے ۔ اسی طرح ہم موجودہ افغان حکومت کے لیے دعا بھی کرتے ہیں ، شریعت کے حوالے سے ان کے اقدامات کی تحسین بھی کرتے ہیں ، اخلاقی تائید بھی کرتے ہیں اور جواللہ تعالیٰ نے ہمیں وسائل عطا کیے ہیں ان کو برئوے کار لاکراپنی بساط کے مطابق ان کی مدد بھی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ان شاء اللہ ۔
سوال:تنظیم اسلامی موٹیویشنل سپیکرز کے ساتھ کیوں تعاون نہیں کررہی جواقامت دین کے لیے کام کررہے ہیں ؟
امیر تنظیم اسلامی:جو کوئی بھی اقامت دین یا دین کے غلبے کی بات کرتا ہے توہمیں اس کو appreciate کرناچاہیے کیونکہ یہ نبوی مشن ہے۔ البتہ ان سے یہ بھی گزارش کریں گے کہ اقامت دین کا کام اکیلے اکیلے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے جماعت اور جماعتی زندگی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ حضرت موسیٰ d کے ساتھ ہارون d بھی نبی کی حیثیت سے موجود تھے لیکن اقامت دین کا کام تکمیل کو نہیں پہنچا کیونکہ جماعت میسر نہیں آئی ۔ آپ ؑ کی قوم نے یہ کہہ کر ساتھ دینےسے صاف انکار کردیاتھا :
{فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ہٰہُنَا قٰـعِدُوْنَ(24)} (المائدہ:) ’’بس تم اور تمہارا رب دونوں جائو اور جا کر قتال کرو‘ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘
لہٰذا اقامت دین کی جدوجہد کے لیے جماعت کا میسر ہونا ضروری ہے کیونکہ اللہ کا دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے انفرادی اوراجتماعی دونوں گوشوں پر دین کے نفاذ کا تقاضا کرتا ہے ۔یعنی انفرادی سطح پر اللہ اور اس رسول ﷺ کی اطاعت ہو اور اجتماعی سطح پر بھی ۔ ہماری سیاست ، عدالت ، معاشرت ، معیشت سمیت تمام شعبوں میں اللہ کا دین غالب ہو ۔ اقامت دین کامطلب یہ ہے کہ جوبس میں ہے وہاں فوراًعمل ہو اورجوبس میں نہیں ہے اس کے لیے جدوجہد کی جائے تاکہ کل نظام زندگی پراللہ کی حاکمیت قائم ہو۔ جس کا ذکرسورۃالصف میں ہے :
{لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ} (آیت:9) ’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
یہ رسول اللہﷺ کامشن تھا۔اس کے مطابق ہم سے بھی اقامت دین کی جدوجہد کرنے کاتقاضا ہے ۔ارشاد ہوتاہے :
{اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط} (الشوریٰ:13) ’’کہ قائم کرو دین کو۔اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
یعنی ہم دین کو سامنے رکھ کر اُس کو قائم کرنے کی جدوجہدکرنے کےمکلف اورذمہ دار ہیں البتہ نتیجے کے ہم مکلف اورذمہ دار نہیں ہیں۔ اس کے لیے جماعت میں آنالازم ہے۔جس جماعت کے متعلق آپ کا گمان ہے کہ وہ بہتر ہے اور دین کے غلبے کے لیے کام کر رہی ہے تو اس میں شامل ہو جائیں اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسی کوئی جماعت نہیں ہے تو پھر ہماری گزارش ہے آپ اپنی جماعت بنائیے کیونکہ یہ کام اکیلے نہیںہو سکتا ۔
سوال:فرض کریں ہمیں ایسے افراد مل جاتے ہیں جو پوری طرح سے اقامت دین کی بات کر رہے ہیں تو کیا تنظیم اسلامی ان سے رابطہ اور بات چیت کرے گی کہ آئیں ہم مل کر کام کریں تاکہ اس مشن کو زیادہ تقویت پہنچے؟
امیر تنظیم اسلامی: تنظیم اسلامی کی دعوت ہر ایک کے لیے ہے اور ہم ہر ایک کو دعوت دیتے ہیں ۔ قبول کرنا نہ کرنا الگ بات ہے، شامل ہونا نہ ہوناالگ بات ہے لیکن اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقصد اقامت دین کی جدوجہد ہے تو پھر اگلا قدم ہر ایک کو دعوت دینا ہے ۔ جب عمومی دعوت ہوگی تو ایسے لوگوں سے بھی رابطہ ہونا چاہیے جو انفرادی سطح پر اقامت دین کی بات کرتے ہیں ۔ یہ تو ہے افراد کا معاملہ ۔ اسی طرح بعض دینی جماعتیں بھی ہیں جو اس مقصد کے لیے کوشاں ہیں کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم ہو ۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان کا طریقہ کار مختلف ہو ۔ یعنی بعض انتخابی سیاست میں ہیں اور بعض دعوت میں ہیں۔ ان کے حوالے سے بھی قرآن ہمیں ایک اصول دیتا ہے ۔ ارشاد ہے :
{وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص}(المائدہ:2) ’’اور تم نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو ‘‘
جہاں کہیں بھی اجتماعی طور پر اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جدوجہد ہو رہی ہو،اُن کے لیے ہمارے دلوں میں وسعت اور خیرخواہی کا جذبہ ہونا چاہیے۔ خیر کے انداز میں ان کا ذکر بھی کریں ، ان کے لیے دعا بھی کریں اور جہاں تک ممکن ہو سکے خیر کے کام میں ان کے ساتھ تعاون بھی کریں اور ان سے اس ضمن میں جو تعاون حاصل ہو سکتا ہے وہ بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ ان سے طریقہ کار کے حوالے سے بات بھی ہو سکتی ہے ۔ جیسا کہ بعض جماعتوں کا خیال ہے کہ صرف دعوت کا کام کریں ،بعض صرف تلوار کے زور پر دین نافذ کرنے کی بات کرتی ہیں جبکہ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ صرف دعوت سے دین قائم نہیں ہوگا البتہ مسلمانوں کے معاشرے میں مسلمانوں کے مقابلے میں تلوار اُٹھانا بھی تناسب نہیں ہے لہٰذا دعوت کےساتھ تحریک کا راستہ اپنانا ہوگا ۔ بعض اس کے لیے انتخابی راستے کے قائل ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ 75برس کی تاریخ بتا رہی ہے کہ الیکشن کے ذریعے اسلام نہیں آسکتا لہٰذا واحد راستہ تحریک کا راستہ ہے ۔ یہ طریقہ کار کا اختلاف تو رہے گا مگر جذبات اچھےرکھنا اور جو مشترکات ہیں ان میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا بھی ضروری ہے ۔ جیسا کہ انسداد سود کے حوالے سے تنظیم اسلامی اور جماعت اسلامی نے مل کر کام کیا ، اس کے علاوہ کچھ دیگر جماعتوں کے افراد نے انفرادی طور پر بھی انسداد سود کی مہم میں حصہ لیا ۔ اس طرح ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف بھی تنظیم اسلامی ، جماعت اسلامی اور بعض دیگر جماعتوں کے افراد نے مل کر کام کیا۔ اسی انداز میں ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا یہ بھی موقف تھا کہ جب تصادم کے مرحلے میں ہم جائیں گے تو کسی نہ کسی منکر کے خلاف تحریک برپا کریں گے جو باقی دینی جماعتوں کے نزدیک بھی منکر ہوگا اور اس بنیاد پر ہم تحریک چلائیں گے ۔ ان شاء اللہ ۔ اسی طرح تنظیم اسلامی کی یہ بھی پالیسی رہی ہے کہ کسی بھی دینی جماعت یا انفرادی سطح پر کسی فورم پر اسلام کی بات کی جائے گی اور وہاں تنظیم کو دعوت دی جائے گی تو ہم وہاں جاکر دین کی بات ضرور کریں گے ۔ ان شاء اللہ
سوال: جیسا کہ آپ نے سود کے خلاف کیس کے سلسلہ میں تنظیم اسلامی اور جماعت اسلامی کا نام لیا ، ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف ان دو کے علاوہ ایک تیسری جماعت کا بھی آپ نے ذکر کیا ۔ پاکستان میں بہت ساری دینی جماعتیں اور تنظیمیں دین کے لیے کام کر رہی ہیں ۔ آپ کیا سمجھتے ہیںکہ باقی جماعتوں کی priority نہیں ہے کہ وہ سود ، فحاشی اور بے حیائی جیسے بڑے منکراتے کے خلاف کھل کر سامنے آئیں ؟
امیر تنظیم اسلامی:2022ء میں جب سود کے خلاف فیصلہ آیا تھا تو اس کے بعد میری ملاقات مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب سے ہوئی تھی ۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اوّل تو اس فیصلہ کے بعد ہمارے دینی طبقات کی طرف سے جو آواز بلند ہونی چاہیے تھی وہ بلند نہیں ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ اسی طرح فیصلے سے قبل دینی جماعتوں کی طرف سے جو محنت ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ شاید ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں ۔ ہماری بڑی دینی سیاسی جماعتوں نے سیاست اور اقتدار کے لیے دوتین بڑے پرامن دھرنے دے کر ہمیں دکھا دیا اور اس بات کا بھی اظہار ہوا کہ گملا بھی نہیں ٹوٹا مگر کیا آج تک کسی منکر کے خلاف انہوں نے دھرنا دیا؟یہ الفاظ مفتی تقی عثمانی صاحب کےہیں ۔ 2018ء میں ایک ریاست کا بیانیہ آیا تھاجس کے بعد صوبوں کی سطح پر علماء کے اجلاس منعقد ہوئے تھے۔سندھ کی سطح پر ہونے والے علماء کے اجلاس میں مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ میں آپ علماء سےپوچھتا ہوں آج تک آپ نے کسی منکر کے خلاف کوئی تحریک چلائی؟یہی بات بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ1980ءسے کہتے آئےتھے کہ کسی متفق علیہ منکر کے خلاف تمام دینی جماعتیں مل کر تحریک چلائیں ۔ مگر دکھتے دل کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شاید دینی جماعتوں کی یہ ترجیح ہی نہیں ہے ۔ آج ہمارے ہاں فقہی مباحث میں اور مسلکی اختلافات میں آپ کو دس دس دن کے مناظرے ملیں گے جبکہ منکرات کو پھلتے پھولتے دیکھ کر ان کے چہرے کا رنگ بھی نہیں بدلتا ۔
سوال: پاکستانی ٹی وی چینلز پر جس طرح کے ڈرامے آ رہے ہیں اور وہ گھر گھر جا رہے ہیں ، اسی طرح عریانی و فحاشی کا سیلاب ہماری نسلوں کو تباہ کر رہا ہے ، اس کے خلاف بھی کبھی کوئی آواز کسی نے بلند کی؟
امیر تنظیم اسلامی:مرحوم قاضی حسین احمد صاحب نے ایک پٹیشن دائر کی تھی اس پر ہمارے بعض فاضل ججز نے کہا تھا کہ پہلے بے حیائی کی تعریف طے ہو جائے پھر ہم بات کریں گے ۔لیکن پھر وہ بات آئی گئی ہوگئی ۔ جماعت اسلامی کے بعض حضرات سمیت تنظیم اسلامی نے بھی اس کیس کو آگے بڑھانے کی کوشش کی مگر وفاقی شرعی عدالت کے بنچ ہی بدل دیے جاتے ہیں۔ یعنی اگر ہم قانون کے ذریعے اسلام کی طرف بڑھنے کی کوشش کریں تو اس میں بھی رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں ۔
سوال: بعض نام نہاد دانشوروں کی طرف سے یہ بات آئی ہےکہ دین اور مذہب ایک ہی چیز ہیں یعنی دین صرف عبادت کا نام ہے ، آپ یہ بتائیے کہ یہ دین اور عبادات کیسے ایک ہی چیز ہوگئیں ؟
امیر تنظیم اسلامی:اصل میں یہ لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے ۔ سات آٹھ سال پرانی بات ہے کہ ایک سیٹلائٹ چینل پر احادیث کے موضوع پر ایک سلسلہ وار پروگرام شروع کیا گیا تھا ۔ اینکر پکا لبرل تھا اور جو چار مہمان بلائے جاتے تھے ان میں دو حضرات پروفیسر تھے ، تیسرے کا تعلق تاجر برادری سے تھا اور چوتھا برائے نام عالم ہوتا تھا ۔ 25 منٹ کے پروگرام میں سے 10 منٹ تو اینکر لے لیتا تھا باقی چار مہمانوں میں سے ہر ایک کے حصہ میں تین چار منٹ آتے تھے ۔ پروگرام کا نتیجہ بہرحال یہ نکلا کہ میں نے ایک پروفیسر صاحب جو ایک اچھی یونیورسٹی سے ایم اے عربی کیے ہوئے ہیں سے پوچھا کہ چینل کے اس پروگرام کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں تو اس نے جوا ب دیا کہ احادیث سے اعتماد اُٹھ گیا ۔ یہ اس لیے ہوا کہ پروگرام میں اُن علماء کو بلایا ہی نہیں گیا جو احادیث کے موضوع پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں ۔ اگر آپ نے کسی چینل پر میڈیکل کے متعلق پروگرام کرنا ہے اور موضوع کینسر ہے تو آپ کینسر کے ماہر ڈاکٹروں کو بلائیں گے دل کے ڈاکٹر کو تو نہیں بلائیں گے ۔ لیکن اسلام کے ساتھ یہ کھلواڑ ہورہا ہے کہ جس کو چاہتے ہیں اس کو بٹھا کر عوام کے سامنے اسلام کی اپنی مرضی کی تصویر پیش کرتے ہیں ۔ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دین کے حوالے سے شبہات پیدا کیے جارہے اور اس ضمن میں جھوٹ کا بھی سہارا لیا جارہا ہے ۔ کئی مرتبہ جن احادیث کا حوالہ دیا جارہا ہوتا ہے جب آپ تلاش کرتے ہیں تو وہ احادیث اس حوالہ پر نہیں ملتی۔ اسی طرح بعض لوگ یہ غلط فہمی بھی پھیلاتے ہیں کہ دین اور عبادات ایک ہی چیز ہیں ۔ یہ حضرات قرآن کی چند آیات سے نتیجہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جیسا کہ سورۃ الکافرون میں ہے :
{قُلْ یٰٓــاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ(1)} ’’(اے نبیﷺ ) آپ کہہ دیجیے کہ اے کافرو!‘‘
{لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ(2)}’’مَیں اُن کو ہرگز نہیں پوجتا جن کو تم پوجتے ہو۔‘‘
یہاں سے بات شروع کرتے ہیں اورنتیجہ اس آیت سے نکالتے ہیں:
{لَـکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ(6)}’’اب تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔‘‘
اس سے وہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عبادات اور دین دونوں مترادف ہیں ۔ ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ دیکھئے جب ہم سیکولرازم پر بات کریں تو اس اصطلاح کا اوریجن ہمیں انگلش ڈکشنریز میں تلاش کرنا پڑے گانہ کہ عربی لغات میں۔ اسی طرح جب ہم اسلام کے کسی موضوع پر بات کریں گے تو ہمارے لیے دلیل قرآن و سنت ہوگی اور اس کی اصل زبان عربی ہے۔ لہٰذا ہمیں عربی لغات میں ہی اصل کو تلاش کرنا پڑے گا نہ کہ آکسفورڈ ڈکشنری میں ۔ اب اگر ہم لفظ عبادت اور لفظ دین کے معنی اور مفہوم عربی زبان میں تلاش کریں تو فرق بالکل واضح ہو جائے گا عبادت لفظ عبدسے بنا۔ اللہ کا کلام تو کہتا ہے:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (56)} (الذاریات) ’’اور مَیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
عبادت کا لغوی مفہوم ہے: بچھ جانا، جھک جانا، موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا وہ کہتا ہے :
{وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ(47)} (المومنون) ’’جبکہ ان کی قوم ہماری محکوم ہے!‘‘
اب یہاں عابدون کا ترجمہ عبادت گزار کرنا تو مشکل ہو جائے گا کیونکہ حقیقی مفہوم یہ ہے کہ ان کی قوم تو ہماری غلام ہے ، ہمارے آڈر کی ماتحت ہے ۔ لہٰذا لفظ عبد کو اگر ہم عربی میں سمجھیں تو اس کا مطلب غلام ہوتاہے ۔ غلام اپنے مالک کے حکم کے طابع ہوتاہے ۔ جب اللہ کہہ رہا ہے کہ تمہیں پیدا ہی فقط عبادت کے لیے کیا گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ہر وقت اس کے غلام ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج کرلیے اور اُس کے بعد اب چھٹی ہے نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہروقت بندگی مطلوب ہے ۔ صرف ان ارکان کو پورا کرنا کل اسلام نہیں ہے ۔ یعنی ہماری انفرادی زندگی کے تمام گوشوں سے لے کر اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں میں بندگی مطلوب ہے۔ اب لفظ دین کے معنی اگر عربی میں دیکھیں تو وہ بدلہ ہے ۔ جیسے سورہ فاتحہ میں ہم پڑھتے ہیں :
{ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ0}’’جزا و سزا کے دن کا مالک و مختار ہے۔‘‘
البتہ عربی زبان میں بھی دیگر زبانوں کی طرح ایک لفظ کے معنی و مفہوم دوسری جگہ بدل جاتے ہیں ۔ جیسے دین کا لفظ قانون کے معنوں میں بھی آتا ہے جیسے فرمایا :
{مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللہُ ط} (یوسف:76)’’آپؑ کے لیے ممکن نہیں تھا کہ اپنے بھائی کو روکتے بادشاہ کے قانون کے مطابق سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔‘‘
یہاں لفظ دین قانون کے معنوں میںآیا ہے۔ پھر قرآن میں لفظ دین نظام کے معنوں میں بھی آتاہے : {وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلہِ ج} (الانفال:39) ’’اور (اے مسلمانو!)ان سے جنگ کرتے رہویہاں تک کہ فتنہ (کفر) باقی نہ رہے اور دین کل کا کل اللہ ہی کا ہو جائے۔‘‘
اسی طرح انفرادی سطح پر ٹھیک ہے یہ آیت بھی quote ہو گی کہ:{ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف} (البقرۃ:256)’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘
دین قبول کرانےمیں جبر نہیں ہے لیکن قبول کرنے والے سے پابندی کرائی جائے گی البتہ اجتماعی سطح پر اللہ کہتا ہے :
{ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ ط}(یوسف:40) ’’اختیارِ مطلق تو صرف اللہ ہی کاہے۔‘‘
ایک اور مقام پر قرآن دین کو اطاعت کے معنی میں بھی لاتا ہے :
{اَلَا لِلہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط} (الزمر:3) ’’آگاہ ہو جائو کہ اطاعت ِخالص اللہ ہی کا حق ہے۔‘‘
دیکھئے! دین بدلے ،قانون ، نظام اور اطاعت کے معنی میں استعمال ہورہا ہے ۔ ان سب میں ایک ربط بھی ہے ۔ جب بدلہ(جزا یا سزا) دیا جائے گا تو کسی قانون کے تحت دیا جائے گا ۔ قانون اپنا نفاذ بھی چاہتاہے اور نفاذ کے لیے ایک نظام چاہیے ۔ نظام وہی کہلائے گا جس کو follow کیا جا رہا ہو ۔ اس طرح آپ لفظ عبادت کی وضاحت میں جائیں گے تو اس سے مراد 24 گھنٹے کی بندگی ، اطاعت ہے ، اسی طرح لفظ دین کی وضاحت میں جائیں گے تو اس سے مراد زندگی کے ہر شعبے یعنی پورے نظام سمیت اللہ کے سامنے جھکنااور اطاعت کرنا ہے ۔ لہٰذا دین صرف عبادت کے چند طریقوں کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ۔ ایک اور غلطی بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ اسلام کو religion کہہ دیتے ہیں ۔ اب ظاہر ہے اس کے معنی عربی میں تو نہیں ملیں گے بلکہ انگریزی میں ملیں گے ۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں تلاش کریں تو اس کے معنی یہ ملیں گے :
A set of dogmas or a set of beliefsیا تھوڑا آگے جائیں گےلکھا ہوا ملے گا :
Aset of instructions for personal affairs of life ۔ معلوم ہوا مغرب جسے religion کہتا ہے اس سے مراد صرف انفرادی زندگی کی چند رسومات ، عقائد یا معاملات ہیں ۔ لیکن اسلام تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ۔ بقول بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ اسلام مذہب نہیںہے بلکہ اسلام دین ہے۔ اسلام انفرادی معاملات کی ہدایات بھی دیتا ہے ، عقائد ، عبادات ، رسومات بھی دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کا سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام بھی دیتاہے ۔ بہرحال اسلام کو قرآن و حدیث اور عربی میں سمجھا جائے تو بہتر ہوگا، انگریزی اصطلاحات کو اسلام پر چسپاں کریں گے تو گمراہی کے راستے کھلیں گے ۔
سوال:تنظیم اسلامی اللہ کے حکم کا مذاق بنانے والے، اپنی مرضی سے کسی حکم کو ماننے اور کسی حکم کا انکار کرنے والے نافرمان مسلمانوں کی راہ میں سختی سے رکاوٹ بننے کی بجائےدعوت دینے کی جس سنت پر عمل پیرا ہے وہ کہاں سے اخذکی گئی ہے ؟( دختر امت)
امیر تنظیم اسلامی:تنظیم اسلامی منہج انقلاب نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہونے کی کوشش میں ہے ۔ منہج انقلاب نبوی ﷺاور رسول انقلاب کا طریقہ انقلاب اس حوالے سے ہماری دو اہم کتب ہیں ان کا مطالعہ کیجئے ۔
منہج انقلاب نبویﷺ کو جب ہم مدنظر رکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ کے 13 برس میں خانہ کعبہ میں 360 بت رکھے ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں توڑنے کی بجائے صرف دعوت کے ذریعے لوگوں کو شرک سے منع کیا ، اس کی مذمت کی اوراس کے خلاف دلائل پیش کیے لیکن بہت حکمت کے ساتھ جیسے کہ قرآن میں اللہ نے فرمایا :
’’ اور مت گالیاں دو ( یا مت برا بھلا کہو) ان کو جنہیں یہ پکارتے ہیں اللہ کے سوا ‘ تو وہ اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے زیادتی کرتے ہوئے بغیر سوچے سمجھے۔اسی طرح ہم نے ہرقوم کے لیے اس کے عمل کو مزین کردیاہے‘پھراپنے ربّ ہی کی طرف ان سب کو لوٹنا ہے تو وہ ان کو جتلا دے گا جو کچھ وہ کرتے رہے تھے۔‘‘(الانعام:108)
آج ہمارے معاشرے میں بہت سے منکرات ہیں ۔ یقیناً جذبات تو کہتے ہیں کہ ان کے خلاف کھڑا ہوا جائے لیکن حکمت اللہ کے رسول ﷺ نے یہ سکھائی ہے کہ اگر تم میں برائی کو روکنے کی طاقت ہے تو ہاتھ سے روکو ،اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے روکو ، اس کی بھی طاقت نہیں ہے تو دل میں بُرا جانو ، یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔ تنظیم اسلامی کے پاس چونکہ ابھی ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں ہے لہٰذا ہم زبان کے ذریعے دعوت دے رہے ہیں ، یہ دعوت ، ایمان ، عبادات ، اخلاقیات کی دعوت ہے ، اپنے رویے اور معاملات کو ٹھیک کرنےاور حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اداکرنے کی دعوت ہے ۔ جیسے فرمایا :
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا}(التحریم:6)’’اے اہل ِایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے‘‘
ہم اس بات کی بھی دعوت دیں گے کہ یہ زمین اللہ کی ہے ، اس پر حکم اور نظام بھی اللہ کا ہونا چاہیے ۔ پھر جو لوگ ہماری دعوت کو قبول کریں ان کو منظم کرکے ایک جماعت کی شکل میں تربیت کا اہتمام کرنا ، یہ سب منہج انقلاب نبوی کے مطابق ہے ۔ منکرات کو دیکھ کر دل میں کڑھن پیدا ہوتی ہے مگر ہم نے کرنا وہی ہے جو منہج انقلاب نبوی کے مطابق ہو ۔ یعنی جب تک ہاتھ سے روکنے کی پوزیشن میں نہیں آجاتے ہم زبان سے روکنے کی کوشش کریں گے ۔ البتہ انفرادی زندگی میں ، اپنے گھر میں ، اپنے حلقہ احباب و روزگار میں جہاں ہمارا اختیار ہے وہاں فی الفور اسلام کو نافذ کرنے کی کوشش کریں گے ۔ جہاں اختیار نہیں ہے وہاں حکومت اورصاحب اختیار لوگوں کو متوجہ کریں گے ۔ جیسے ہم سود ، بے حیائی اور مختلف منکرات کے خلاف مہمات بھی چلاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ حکمرانوں ، سیاستدانوں، ممبران پارلیمنٹ ، ججز ، علماء ، وکلاء اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ذمہ داران کو خطوط لکھ کر بھی متوجہ کرتے ہیں کہ بھائی خدارا آپ اپنے دائرہ کار میں اپنے اختیار کو استعمال کر کے ان برائیوں کو روکنے اور ختم کرنے کی کوشش کریں۔اس کے ساتھ ساتھ ہماری کوشش ہے کہ خود اپنی بھی تربیت اور اصلاح کی کوشش جاری رکھیں ۔ کوئی بھی انسان ہم میں سے پرفیکٹ نہیں ہے ۔ لہٰذا خود کو بھی جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرنی ہے اور دوسروں کو بھی خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ اس سے بچانے کی کوشش کرنی ہے ۔ جب ہم یہ کوشش جاری رکھیں گے تو اس کے اثرات بہرحال معاشرے پر ضرور پڑیں گے ۔ چند سال پہلے تک ویلنٹائن ڈے پاکستان میں بڑی شدت کے ساتھ منایا جاتا تھا ۔ پھر جب دینی حلقوں کی جانب سے اس کے خلاف ایک مہم شروع ہوئی تو رفتہ رفتہ یونیورسٹیز کے طلبہ ، سکالرز ، یہاں تک کہ شوبزنس کے لوگوں نے بھی آواز اُٹھائی کہ یہ تو ہماری معاشرتی اقدار کو تباہ کرنے والی رسوم ہیں ۔ چنانچہ گزشتہ ایک دوسال سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ دن بڑے پیمانے پر منانے کا رواج ختم ہو تا جارہا ہے ۔ پھر یہ کہ برائی کے خلاف آواز بلند کرنا صرف دینی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ہمارا آئینی حق بھی ہے اور قومی اور ملکی ذمہ داری بھی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ دیگر منکرات کے خلاف بھی آواز بلند ہونی چاہیے ۔ ہر شعبہ کے لوگ اپنے فورمز کو اس مقصد کے لیے استعمال کریں تو ان شاء اللہ بہتر نتائج برآمد ہوں گے ۔
سوال:جب کبھی اسلامی حکومت قائم ہو گی تو فوری طور پر ہر سطح کے ٹیکنوکریٹ، بیوروکریٹ، سیاستدان، جج، فوج کےجرنیل وہاں درکار ہوں گے ۔اسلامی حکومت میں بڑے عہدوں کے لیے جس اعلیٰ درجے کا ایمان اور کردارضروری ہوگا کیوں نہ اُس کے لیے ابھی سے تیاری شروع کی جائے ۔ یعنی سکول کالجز میں بہترین صلاحیت کے طلبہ کی اس حوالے سے کردار سازی کی جائے ، پھر ان تربیت یافتہ نوجوانوں کو ہر شعبہ میں آگے بڑھایا جائے ۔ حکومت ملنے سے پہلے ہی جب ہر شعبے میں ایسے اہل ایمان کی تعداد بڑھنے لگے گی تو اس کے اثرات معاشرے پر ظاہرہونے لگیں گے ۔ (سرفرازصاحب)
امیر تنظیم اسلامی: ایک اندازے کے مطابق اس وقت 5.5کروڑ بچہ سکولوں میں پڑھ رہا ہے اور تقریباً ڈیڑھ سے دو کروڑ بچہ سکولوں سے باہر ہے ۔ اگر ہم آج سکول بنانا شروع کریں گے تو ایک محدود تعداد میں ہی کام کر سکیں گے ۔ بجائے اس کے اگر جو سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز چل رہی ہیں ان کے اساتذہ اور مالکان کی ذہن سازی کی جائے تو لامحدود اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ یعنی اگر 10 ہزار ٹیچر ز منہج انقلاب نبوی کو سمجھ جائیں تو وہ 10 لاکھ بچوں کی ذہن سازی کر سکیں گے ۔ دعوت دینے کا مطلب کسی کو لاکر درس قرآن میں بٹھانا ہی نہیں ہوتا بلکہ one to one دعوت ملاقات کرکے مستقل رابطے کی شکل میں دعوتی فکر کو پہنچانا بھی ایک دعوتی ذمہ داری ہے ۔ اس طور پر سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز کے اساتذہ اور پروفیسرز کو ہم اپنی دعوت پہنچا سکتے ہیں اوراگر دیگر دینی جماعتیں بھی مل کرپورے دین کی دعوت کے عمل کو تیز کریں تو آج جن بچوں تک ہم انقلابی فکر پہنچائیں گے وہی کل ٹیکنوکریٹ بھی ہوں گے ، بیوروکریٹ ،ججز ، جرنیل بھی ہوں گے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ ، حضرت خالدؓ بن ولیدؓ جیسے لوگ کسی خاص play group یا nursery سے تو تیار ہو کر نہیں آئے تھے بلکہ وہ پہلے سے اسی سوسائٹی میں موجود تھے اور اپنے اپنے شعبوں میں ماہر تھے ، ان پر محنت ہوئی تو بعد ازاں وہ اسلامی نظام کے بہترین ذمہ دار ثابت ہوئے ۔ لہٰذا دعوتی عمل ہر طبقے اور ہر شعبہ کے لوگوں میں جاری رہنا چاہیے ۔ ممکن ہے آج جو بیوروکریٹس ، ٹیکنوکریٹس ، ججز ، جرنیل باطل نظام کو چلا رہے ہیں وہی کل اسلامی نظام کو چلانے والے بن جائیں ۔
آصف حمید:کچھ سال پہلے ڈاکٹر ذاکر نائیک سے میری ملائشیامیں ملاقات ہوئی تو انہوں نےایک بہت اچھی بات کی کہ ممبئی میں اُن کا اسکول تھا جو بہت اچھا چل رہا تھا ، لیکن انہوں نے کہا کہ سکول سے زیادہ ضروری یونیورسٹی بنانا ہے،کیونکہ جب ہم اسکول میں سب کچھ پڑھا دیتے ہیں، اس کے بعد جب بچے کالج میں جاتے ہیں تو وہاں ان کو ایک ایسا تبدیل شدہ ماحول ملتا ہے جس میں رہ کر بچے کی پہلی ساری تربیت زائل ہو جاتی ہے ۔ ذاکر نائیک صاحب نے بتایا کہ وہ اب ایک یونیورسٹی بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی یہ تجویز بہت اہم ہے ۔ تاہم اصل بات یہ ہے کہ منہج انقلاب نبوی کے مطابق دعوت ہر طبقہ اور ہرشعبہ کے لوگوں کو دینی چاہیے ۔
امیر تنظیم اسلامی: ہمارے ایک سابق نیول چیف نے اپنے ہاں باجماعت نماز کا سلسلہ شروع کیا تھا ، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ۔ انہوں نے آڈر جاری کیا ہوا تھا کہ ظہر کی نماز کے وقت کوئی آفیشل میٹنگ نہیں ہوگی لیکن اگر مجبوراً کوئی ایسی میٹنگ ناگزیر ہو تو میٹنگ کے دوران اعلان کیا جائے گا کہ ظہر کی باجماعت نماز اتنے بجے ہوگی ۔ انہوں نے اپنے دور میںنیول یونٹس میں باقاعدہ قرآن سینٹرز بنائے جو آج بھی چل رہے ہیں ماشاءاللہ اور وہاں آفیسرز کی فیملیز اور سٹاف کے لیے باقاعدہ قرآن کی تعلیم کا انتظام ہے ۔ ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل کی تقریر بہت مقبول ہوئی۔ اس تقریر میں انہوں نے پورے دین کے تقاضوں کو اُجاگر کیا تھا ۔ اب وہ بھی اسی معاشرے کے ایک فرد تھے ، اعلیٰ عہدے پر پہنچے ، قرآن سے محبت پیدا ہوئی اور اللہ نے ان سے جو کام لینا تھا وہ لیا۔ اسی لیے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ اگر ہم نظام کی تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ہمیں ہر عمر اور ہرشعبہ کے افراد تک دین کی دعوت کو پہنچانا ہوگا ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024