(اداریہ) وہ جو جستجوئے رزق میں … - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزاوہ جو جستجوئے رزق میں ……

وسائل اُس وقت بھی انسان کو کسی نہ کسی صورت میں تقویت دیتے تھے جب اجتماعت کا کوئی تصور بھی نہ تھا، لیکن پھر جوں جوں انسان اجتماعیت کے مراحل طے کرتا رہا وسائل نہیں اب اقتصادیات کہنا چاہیے، اُس کا رول نجی اور اجتماعی سطح پر بڑی تیزی سے بڑھتا چلا گیا اور آج منظم اجتماعیت جس بلند سطح پر پہنچ چکی ہے اور ظاہری طور پر تو اس کا اگلا مرحلہ یا بلندی نظر ہی نہیں آتی۔ بالفاظ دیگر ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اجتماعیت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے واللہ اعلم! اس صورتِ حال یا اس پس منظر میں اب جبکہ انفرادیت اپنا وقت پورا کرکے بڑی بڑی ریاستوں میں ڈھل چکی ہے اقتصادی قوت کو اس دنیا میں (جسے گلوبل ویلیج کہا جاتا ہے) وہی حیثیت حاصل ہے جو انسان کی فزیک میں ریڑھ کی ہڈی کو حاصل ہوتی ہے یا کسی بھی کام کو سر انجام دینے میں جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا رول ہوتا ہے گویا جس طرح ان صلاحیتوں سے محروم انسان ایک معذور انسان کہلاتا ہے اسی طرح اقتصادی طور پر بہت زیادہ کمزور ریاست معذور ہوتی ہے اور جس طرح معذور انسان زندگی نہیں گزار رہا ہوتا بلکہ زندگی اُس کو گزار رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح معاشی لحاظ سے کمزور ریاست چل نہیں رہی ہوتی بلکہ دوسری طاقتیں اپنے مفاد کے مطابق اُس کا چل چلاؤ کر رہی ہوتی ہیں۔ جہاں اور جب چاہا سہارا دے دیا اور جب چاہا بے سہارا کر دیا۔ اس لیے کہ معاشی اور اقتصادی طور پر مضبوط ہوئے بغیر عسکری اور دفاعی لحاظ سے مضبوط ہونے کا تصور ہی احمقانہ ہے۔
کون اتنا کُند ذہن ہوگا کہ یہ نہ سمجھے کہ بات پاکستان کی ہو رہی ہے۔ لیکن پاکستان کی معاشی معذوری اور اُس کے نتائج پر بات کرنے سے پہلے ہم نے جو عرض کیا ہے کہ معاشی اور اقتصادی طور پر مضبوط ہوئے بغیر عسکری اور دفاعی مضبوطی کا تصور ہی احمقانہ ہوگا۔ اُس کی تاریخ سے مثال دینا واجب ہے۔ ایک وقت تھا جب سوویت یونین کی عسکری قوت سے امریکہ اور مغربی یورپ لرزہ بر اندام تھے۔ نیٹو کو تو وجود میں ہی اس لیے لایا گیا تھا کہ مل جُل کر سوویت یونین کی قوت کا مقابلہ کیا جا سکے لیکن کمیونسٹوں کی غلط معاشی پالیسیوں اور غلط سیاسی فیصلوں نے اس سپر پاور کی اقتصادی کمر توڑ دی۔ اس اقتصادی زلزلے نے سوویت یونین کو پاش پاش کر دیا اور وہ شکست و ریخت کا شکار ہوگیا اور سکڑ کر روس تک محدود ہوگیا۔ حالانکہ سوویت یونین کے پاس اس قدر ایٹمی قوت تھی کہ وہ پوری دنیا کو سینکڑوں مرتبہ ملیامیٹ کر سکتا تھا لیکن اقتصادی کمزوری نے اُسے مفلوج کر دیا۔ یعنی عسکری قوت اُسے معاشی قوت نہ بناسکی، ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ کھڑی نہ رہ سکی اور دھڑام سے زمین پر آگری۔
اب تاریخ ہی سے اس کے برعکس ایک مثال لے لیں۔ چین ماؤزے تنگ کے انقلاب سے پہلے افیونیوں کا ملک کہلاتا تھا۔ رقبہ اُس وقت بھی بڑا تھا اور بڑا گنجان آباد تھا۔ لیکن دنیا میں اُس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ انقلاب کے بعد بعض اصلاحات ہوئیں۔ لیکن چین جلد ٹیک آف نہ کر سکا۔ اس لیے کہ ماؤزے تنگ کوئی انقلابی معاشی پالیسی نہ دے سکے۔ لیکن جب ڈینگ ژیاؤ پنگ نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو حکومت نے ایسی انقلابی معاشی پالیسیاں دیں کہ چینیوں کی تو َہیئت ہی بدل گئی۔ اب وہ ایک محنتی قوم تھی اور کم از کم موجودہ تاریخ تو ایسی کوئی مثال دینے سے قاصر ہے کہ کسی قوم نے اتنے گھمبیر زوال سے اتنے عروج کی طرف سُبک رفتاری سے منازل طے کرنا شروع کر دی ہوں۔ اس عروج میں چین کی سیاسی پالیسیوں نے بھی بڑا اہم رول ادا کیا مثلاً تائیوان کے وجود کو اور ’’ون چائنا‘‘ مؤقف کو چین نے زندگی اور موت کا مسئلہ تو قرار دیا۔ لیکن یہ مسئلہ اپنی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے لیے کسی صورت جنگ کو آپشن قرار نہ دیا۔ حالانکہ امریکہ اس حوالے سے اشتعال دلاتا رہاکیونکہ وہ جانتا تھا کہ جنگ چین کی معاشی ترقی پر بُری طرح اثر انداز ہوگی چین نے تائیوان کا مسئلہ سفارتی سطح پر زندہ رکھا لیکن اپنی جغرافیائی سرحدوں کے گرد ‘آئرن کرٹن‘ تان لی اور معاشی اور اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن رہا۔ اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تجارت اور صنعت و حرفت کی ترقی سے چین کے پاؤں زمین پر جم گئے۔ اگرچہ اسلحہ سازی اور دفاعی ساز و سامان کی تیاری بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی لیکن دولت کی فراوانی سے اب جنگی سازو سامان پر خصوصی توجہ دی گئی۔ نئی اور جدید ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کیا گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے چین اقتصادی جن بن کر سامنے آیا اور پھر ایک زبردست عسکری قوت بن گیا۔ آج چین اقتصادی اور دفاعی دونوں محاذوں پر مخالف دنیا کے لیے چیلنج بن گیا ہے، خاص طور پر امریکہ جو سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ پر سپریم پاور آف دی ورلڈ یعنی دنیا کی واحد اور غالب سپر پاور بن کر عالمی حکمران کی حیثیت اختیار کر گیا تھا اُسے اپنی سپر پاور کی حیثیت بچانی مشکل ہو رہی ہے۔
اب تک ہماری تمام تر گزارشات کی حیثیت اصل بات کے ابتدائیہ کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری توجہ کا مرکز اور ہمارا اصل موضوع تو پاکستان ہے۔ یوں تو پاکستان کبھی بھی معاشی اور اقتصادی لحاظ سے ایک مضبوط اور مستحکم ملک نہ کہلا سکا۔ اگرچہ گزشتہ پون صدی میں کچھ ایسے مختصر دورانیے آئے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری اقتصادی صورتِ حال تسلی بخش تھی لیکن آج جو ہماری معاشی حالت ہے ایسی کمزور، لاغر اور ناتواں حالت نہ تو قیام پاکستان کے وقت یعنی 1947ء میں تھی اور نہ 1971ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے پر تھی۔ ہر طرف سے ڈیفالٹ ڈیفالٹ کی پکار پڑی ہے اگرچہ ہمارے وزیراعظم صاحب اور وزیر خزانہ صاحب گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم ڈیفالٹ نہیں ہونے جا رہے۔ چلیے ہم اُن کی بات مان لیتے کہ ہم قانونی طور پر ڈیفالٹ ابھی تک نہیں ہوئے۔ لیکن خدارا بتائیے کہ جس ریاست کا یہ حال ہو کہ درآمدی مال بندرگاہوں پر پڑا ہو اور اُسے چھڑانے کے لیے اُس کے پاس زرمبادلہ نہ ہو جہاں اوسط افراطِ زر 38% تک پہنچ چکی ہو اور فوڈ آئٹمز پر 48% تک افراطِ زر ہو۔ جس ملک میں شرح نمو 0.2 فیصد ہو جس ریاست کے زرمبادلہ کے ذخائر زمین بوس ہو چکے ہیں، 3-4 ارب ڈالر کے درمیان ہوں اور معیشت کی یہ ساری تباہی و بربادی ایک سال میں آئی ہے وگرنہ 22-2021ء کی شرح نمو 6.1% تھی اور اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر 17 سے 18 ارب ڈالر تھے۔ معیشت کی تباہی کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ بدترین معاشی پالیسی کی وجہ سے شرح سود 22% ہو چکی ہے گویا ریاست اعلانیہ طور پر کہہ رہی ہے کہ کوئی صنعت نہ لگاؤ، بنکوں میں پیسہ جمع کراؤ اور ڈٹ کر گھر بیٹھ کر حرام کھاؤ۔ اس طرح نہ کسی محنت کی ضرورت نہ لیبر کے پیدا کردہ مسائل کا سامنا نہ کوئی ٹیکس کا اور مختلف محکموں کے چھاپوں کا مسئلہ۔ ایسی پالیسیوں کا بالآخر انجام کیا ہوگا سوچ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی پہلے بھی روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر جاتے تھے قانونی طور پر بھی اور غیر قانونی طریقوں سے بھی، لیکن گزشتہ ایک سال میں جتنے پاکستانی بیرونِ ملک رزق کی جستجو میں گئے ہیں شاید گزشتہ دس سالوں میں نہ گئے ہوں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری نے زندگی کو پاکستانیوں پر بوجھ بنا دیا ہے۔ پھر یہ کہ سیاسی عدم استحکام اور اُس کے نتیجہ میں پکڑ دھکڑ سے شہری بدترین گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔ لہٰذا جستجو ئے رزق میں اور کھلی فضا میں سانس لینے کے لیے ایک ہی کشتی کے ڈوبنے سے تین سو پاکستانیوں کا جان سے جانا چھوٹا سانحہ نہیں ہے۔ یہ لوگ جستجوئے رزق میں غرقِ آب ہوگئے۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشی لحاظ سے ہماری clinical death ہو چکی ہے، اعلان نہ بھی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ صورتِ حال کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارا قانونی طور پر بھی ڈیفالٹ کر جانا بہتر نظر آتا ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی ملک ہے اور دشمن اس تاک میں ہے کہ کس طرح ایٹمی قوت سے پاکستان کو محروم کر دیا جائے۔ اگرچہ اس سے پہلے دنیا کے کئی ملک ڈیفالٹ کر چکے ہیں، اُن کا ایسا کچھ نہیں بگڑا۔ لیکن اُن میں سے نہ کوئی ایٹمی ملک تھا نہ اسلامی۔ ہم اگر قانوناً ڈیفالٹ کریں گے تو دشمنوں کو ہمارے ہاتھ پاؤں باندھنے کا موقع مل جائے گا۔ پھر ہم جو چاہیں چیخ و پکار کرتے رہیں امریکہ اور مغرب کو ہمارے ایٹمی اثاثہ جات کی طرف بڑھنے کا موقع مل جائے گا۔ وہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے کوئی راستہ نکال لیں گے۔ عالمی قوانین اُن کی مٹھی میں ہیں جس قانون کا جو چاہیں مطلب نکال لیں۔ کیا ماضی قریب میں یہ نظیر قائم نہیں ہوئی کہ عراق میں WMD کی موجودگی کی جھوٹی دُہائی دو اور حملہ کردو۔ مغرب اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے بڑی آسانی سے کوّے کو سفید ثابت کر سکتا ہے۔ ہمیں ہوش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سنبھلنے کی ضرورت ہے ملک میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور کچلنے کی بجائے خدارا بیرونی دشمنوں سے ملک بچانے کی کوشش کریں اور یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم مانگ کر کھاتے رہیں گے۔ اس ساری صورتِ حال سے بچنے کا ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ ہم انفرادی طور پر حقیقی مسلمان بن جائیں اور پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنا دیں، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ ظظظ