(زمانہ گواہ ہے) آئی ایم ایف کے شکنجے سے کیسے نکلیں؟ - محمد رفیق چودھری

10 /

ہماری پوری معیشت IMF کے ماتحت جا چکی ہے ۔ حتیٰ کہ

سیاسی معاملات میں بھی ان کا عمل دخل بڑھ چکا ہے ۔ آئی ایم ایف کے

گرداب سے نکلنے کے لیے اب ہمارے پاس جو آؤٹ آف دی باکس حل رہ گئے ہیں

انہیں میں سے کسی ایک میں خیر ہو سکتی ہے :حافظ عاطف وحید

سود وہ بڑی لعنت ہے جس کوختم کرکے ہم معاشی ترقی کی

طرف بڑھ سکتے ہیں : رضاء الحق

 

آئی ایم ایف کے شکنجے سے کیسے نکلیں؟ کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:آئی ایم ایف نے پاکستان سے کیے گئے تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی معاہدے کی تفصیلات جاری کردی ہیں۔اس کی سمری کیاہے ؟
رضاء الحق:بنیادی طورپریہ تین ارب ڈالر کامعاہدہ ہے جس میں سے 1.2ارب فوری طورپرجاری کردیا جائے گااور باقی دو قسطیں نومبر 2023ء اور فروری 2024ء میں جاری کی جائیں گی ۔ IMFیا ورلڈ بینک کا بظاہر دعویٰ ہے کہ ہم دوسرے ممالک میں سٹرکچرل اصلاحات کرتے ہیں اور ان کے بیلنس آف پیمنٹس کو سہارا دے کر مستحکم کرتے ہیں لیکن جب ہم ان دونوں اداروں کی شرائط کو دیکھتے ہیں توصورت حال بالکل مختلف نظرآتی ہے اور صاف دکھائی دیتا کہ وہ مقروض ممالک کے پورے نظام کو ڈکٹیٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ موجودہ سٹینڈ بائی معاہدہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا 23واں معاہدہ ہے اور یہ 2019ء کے معاہدے کا ہی تسلسل دکھائی دیتا ہے ۔ اس میں معاشی شرائط کے ساتھ ساتھ سیاسی شرائط بھی شامل ہیں۔ (1)۔سال میں بجلی کے نرخوں میں 16بار اور گیس کے نرخوں میں 2بار اضافہ کیا جائے ۔ (2)۔زراعت اورتعمیرات کے شعبہ جات میں ٹیکسز کو بڑھایا جائے ۔(3)۔تنخوائوں اورپنشنز میں کمی کی جائے۔ (4)۔ڈالر کا انٹربینک اوراوپن مارکیٹ میںفرق 1.5فیصد سے زیادہ نہ ہو۔ (5)۔سخت مانیٹری پالیسی اپنائے رکھنا۔ابھی بھی یہ پالیسی سخت چل رہی ہے اورانٹرسٹ ریٹ 22فیصد ہے ۔(6)۔توانائی کے شعبہ میں سبسٹڈیز کوبتدریج کم کرنااورآخر میںاس کو ختم کرنا۔ (7)۔ایکسپورٹ ری فائننسنگ کی سکیموں کوختم کرنا۔ ساتھ ملٹی کرنسی ایگریمنٹس کوختم کرنا۔(8)۔سٹیٹ انٹرپرائزز کوپرائیویٹائز کردیاجائے جن میں دو LNG پلانٹس، فرسٹ وومن بینک ، HBFCاور چند دیگر ادارے شامل ہیں ، امپورٹس پر پابندی کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ (9)۔ پاکستان کم ازکم دوبلین ڈالر کے یورو بانڈ جاری کرے جو سودی معیشت کا بنیادی element ہے۔ (10)۔پالیسی کے حوالے سے پارلیمنٹ اوروزارت خزانہ کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلےIMF سے اجازت لے گی۔سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ IMF خود کرے گا۔سٹیٹ بینک گزشتہ حکومت میں IMF کے کنٹرول میں چلا گیا ، اب FBRکو بھی کنٹرول میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ (11)۔نیشنل اکائونٹس کمیٹی اپنی سہ ماہی رپورٹ اوراس کا ڈیٹا مرتب کرکےIMF کو پیش کرے گی اور IMF اس کا جائزہ لے گا کہ کس حد تک شرائط پر عمل درآمد ہو رہا ہے ، اس کی بنیاد پر آئندہ پروگرام آگے بڑھانے کے حوالے سے بات ہوگی ۔
حافظ عاطف وحید:ایک مشہور شعرہے :
وصال یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
ہماراIMF کے ساتھ ایک وصل کاتعلق ہے اوریہ ادارہ ایسا ہے کہ جوبظاہر ہمارے ساتھ بہی خواہی کااظہار کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ جتنا ہم نے اپناتعلق بڑھایاہے اتنا ہی ہم ان کے چنگل میں پھنسے ہیں اور اب تو کلی طور پر ان پر انحصار کی نوبت آن پہنچی ہے ۔ اس سے پہلے جب ہم ان کے پاس جاتے تھے توان کادبائوسوشل انجینئرنگ پروگرام اور کچھ ہمارے مذہبی اعتقادات کے حوالے سے ہوتا تھا لیکن اب معاملہ اس حدتک بڑھ چکا ہے کہ ہماری پوری معیشت ان کے ماتحت جا چکی ہے۔ حتیٰ کہ سیاسی معاملات میں بھی ان کا عمل دخل بڑھ چکا ہے ۔ حالانکہ اگر دیکھاجائے توIMF کی شرح سودمقامی بینکوں کی نسبت بہت کم ہوتی ہے بلکہ اگر IMF کی شرائط پر عمل درآمد کر لیا جائے تو وہ آپ کو واپس بھی مل سکتا ہے ۔یعنی مالیاتی اعتبار سے IMF سے ڈیل اتنی زیادہ مشکل نہیں ہوتی لیکن اگر اس کی طرف سے معاشی اور سیاسی شرائط آجائیں تو پھر دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ شرائط ہمارے معاشرے کے فیبرک کے ساتھ مطابقت بھی رکھتی ہیں یانہیں۔ جیسے سخت مانیٹری پالیسی ہے جس کامطلب ہی یہ ہے کہ آپ پیسے کی سرکولیشن کوکم کرناچاہ رہے ہیں ،شرح سود بڑھا دی ہے اورآپ سمجھتے ہیںکہ لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ کم ہوگاتولوگ چیزوںکی ڈیمانڈ کم کریں گے ، انویسٹمنٹ بھی کم ہوگی تو اس کے نتیجے میں انفیلیشن کنٹرول کر لیںگے ۔لیکن یہ سخت مانیٹری پالیسی اس صورت میں موثر ہوسکتی ہے کہ اگر ہمارے ہاں excessive demand for money ہو تب تویہ پالیسی صحیح رہے گی لیکن ہم پہلے ہی cost push infilation کا شدت سے شکار ہیں ۔ ہمارے پیداوار کے وسائل مہنگے ہیں، اگر شرح سود بڑھے گی تو اس کا مطلب ہوگا کہ جس انڈسٹری نے بھی بینکنگ سیکٹر سے کوئی سہولت لینی ہے تو اسے اپنی پیداوار کی قیمتوں کو بھی بڑھانا پڑے گا۔ جبکہ یہاں کاسٹ آف پروڈکشن پہلے ہی زیادہ ہے اس کے بعد عوام مزید بُری طرح متاثر ہوں گے۔ اس دفعہ IMFنے جتنے بھی اقدامات تجویز کیے ہیں جن پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے گا ، ان کی مانیٹرنگ کی جائے گی ، عمل درآمد سے متعلق رپورٹس کا جائزہ لے کر ہی اگلی قسط جاری کی جائے گی ، وہ سارے اقدامات یہاں مہنگائی کو مزید بڑھاوا دینے کا ذریعہ بنیں گے ۔ چنانچہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہماری حکومت معیشت کو پیروں پرکھڑا کرنے کی خواہش کااظہاربھی کرتی ہے اور وہ اقدامات بھی اُٹھا رہی ہے جس سے معیشت مزید تباہی کی طرف جائے گی ۔ حالیہ پیکج سے عارضی بہار توآجائے گی، سٹاک مارکیٹ اور money market میں بھی کچھ استحکام آجائے گا، اس کے نتیجے میںکچھ انویسٹمنٹ بھی آ جائے گی جس سے ہمیںکچھ اعداد دکھانے کاموقع مل سکے گا لیکن یہ سب جس قیمت پر ہورہا ہے اس سے کوئی خیر برآمد نہیں ہوگی بلکہ حالیہ شرائط لانگ ٹرم میں پاکستان کے لیے بہت مہلک ہیں۔
سوال:حکومتی سطح پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس قرضے کی وجہ سے معاشی میدان میں ہمیں بڑی کامیابی ملی ہے اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے ۔ فارن ریزرو بڑھ گئے ہیں ، سٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی آگئی ہے ۔ کیااس عارضی بہار سے پاکستان کے عام آدمی کی زندگی میںکچھ بہتری آنے کا امکان ہے ؟
حافظ عاطف وحید:اس عارضی بہار میں ایک خیر کا پہلو یہ ہے کہ جب IMF کاایساپیکج منظور ہوتاہے توجن ممالک کے ساتھ آپ کے بائی لیٹرل اور ملٹی لیٹرل معاہدات ہوتے ہیں اُن کو بھی موقع مل جاتا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ تجارت کریں ، کچھ نفع دے سکیں یا ریزرو کی سہولت دے سکیں ۔ جیساکہ سعودی عرب اوریواے ای نے ہمارے خزانے میں کچھ پیسہ ڈال دیاہے جوکہ اسی معاہدے سے مشروط تھا۔اسی طرح چین بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ اس طرح کے پارٹنرز کے ساتھ جب ہمارے معاملات بہتر ہوں گے تو یہ ایک عام آدمی کے لیے breathing spaceکا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ لیکن بالآخر اس معاہدے نے نوماہ کے اندر مکمل ہوناہے اوراس دوران آپ IMFکی شرائط پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے تو اس کے نتیجہ میں پارٹنرز کی طرف سے دیا جانے والاریلیف عملی طورپرموثر نہیںہوسکے گا۔ مختصراً عام آدمی کی زندگی میں کوئی ریلیف آتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا بلکہ اس کی مشکلات میں مزید بڑھیں گی ۔
سوال:سٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ جون2023ء کے مطابق پاکستان کاکل واجب الادا قرضہ72.5کھرب روپے ہے۔ سودی قرضوں سے نجات کیسے ممکن ہوسکے گی ؟
رضاء الحق:سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پر کل واجب الادا قرض 72.5کھرب روپے ہے۔ ہمارے بجٹ میں جو پیسہ مختص کیا جاتا ہے وہ قرض کی اصل زرکی واپسی کے لیے نہیں سودکی واپسی کے لیے کیا جاتاہے ۔آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ہمارا مالیاتی خسارہ 7.5فیصد ہے اورپرائمری سرپلس 0.4فیصد ہے ۔ اس سے دوچیزیں بڑی واضح ہوجاتی ہیں۔ نمبرایک سودکی ادائیگی کے لیے جو رقم ہے اس کوعلیحدہ کرکے بھی آمدن اخراجات سے تقریباً نہ ہونے کے برابر زیادہ ہے۔ اس کامطلب ہے کہ ہماری معاشی سرگرمی نہ ہونے کے برابر ہے اورسود ہی وہ بڑی لعنت ہے جس کواگر ختم کیاجائے توہم اپنی معاشی سرگرمی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ سود کوختم کرکے باقی وسائل کو استعمال کرکے ہم اپنی پروڈکشن بھی بڑھاسکتے ہیں۔ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے بھی کام کرسکتے ہیں اورملک کے معاشی اشاریہ کوبھی بڑھا سکتے ہیں۔ مگر سود سے نجات کیسے ممکن ہے ؟ اس کے لیے مختلف آراء ہیں ۔ کچھ کہتے ہیں کہ آپ ساورن ڈیفالٹ کی طرف چلے جائیں کیونکہ بہت سارے ممالک نے ڈیفالٹ کیا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد سے149ممالک ساورن ڈیفالٹ کرچکے ہیں ۔
سوال:کیاساورن ڈیفالٹ کی وجہ سے پاکستان کے قرضے وائپ آئوٹ ہوجائیں گے ؟
رضاء الحق:ساورن ڈیفالٹ کی وجہ سے کوئی چیز وائپ آئوٹ نہیں ہوا کرتی لیکن آپ کواتناوقت مل جائے گاکہ آپ اپنی معیشت کو دوبارہ کھڑا کرسکیں اور یہ مختلف ممالک نے کرکے دیکھاہے ۔ لیکن پاکستان میں معاشی مسئلہ کے علاوہ تین مزید مسائل ڈیفالٹ کی صورت میں خطرے کی علامت بن سکتے ہیں۔ (1)۔ ہمارے ایٹمی اثاثہ جات پر سخت پابندیاں لگ سکتی ہیں ۔ (2) ملک کے اندر انتشار پھیل سکتا ہے ۔(3) ہمارے اسلامی تشخص پر حملہ ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا ڈیفالٹ کے لیے ایسے حکمران چاہئیں جن پر عوام اعتماد کرتے ہوں تب وہ اس مشکل میں حکومتی پالیسی کا ساتھ دیں گے ۔ اگر ہم نے آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلناہے تواس کے لیے will چاہیے ۔ دوسرا ہمیں متبادل پلان چاہیے ہوگا۔
سوال:کیاحالیہ قرضے سے ہماری معیشت پرکوئی مثبت اثرات مرتب ہوں گے ؟
حافظ عاطف وحید:یہ بات طے شدہ ہے کہ شارٹ ٹرم اورلانگ ٹرم دوعلیحدہ نقطہ ہائے نظر ہیں۔ شارٹ ٹرم میں ایسے ہی ہے کہ ہماری جان آکرحلق میں پھنسی ہوئی تھی تو اس قرضے سے عارضی طور پر اس کیفیت سے نکلنے کا موقع ملے گا ۔ لیکن لانگ ٹرم میں اس قرضے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ یہ ریلیف بہت ہائی کاسٹ پر ہے اور ہماری آئندہ نسلیں جکڑی جائیں گی ۔ مجھے یاد ہے کہ جب IMF کے ساتھ ڈیل چل رہی تھی اورIMF لیت ولعل سے کام لے رہا تھا تو اس دوران پاکستان میں یہ بات چلی کہ اب ہمیں مختلف ممالک کے ساتھ بارٹر ایکسچینج کا معاملہ کرناچاہیے ۔یعنی اگر ہمارے پاس ڈالر نہیں ہیں توہم اس کے بغیر بھی سروائیو کرنے کاسلیقہ سیکھ لیں لیکن جیسے ہی بارٹر ایکسچینج کی طرف سوچ بڑھی تو IMF نے دوبارہ آواز دے دی کہ آو ٔ قرضہ لے جاؤ، بس آپ نے یہ یہ شرائط پوری کرنی ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو متبادل حل کی طرف بھی نہیں بڑھنے دیا جارہا ہے ۔ اس کے لیے ایسے طریقے اختیار کیے گئے ہیں کہ ہمارے حکمران بھی کوئی آزادانہ قدم نہیں اُٹھا سکتے کیونکہ اس کرپٹ سسٹم میں اُن کے بھی کچھ مفادات ہوتے ہیں ۔
بہرحال میرے خیال میں پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے ہمارے پاس آئوٹ آف دی باکس جو حل ہیں انہی میں خیر ہے اور ان میں سے پہلا حل یہ تھا کہ سود کا خاتمہ کیا جائے ۔ وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا ہوا ہے اس پرحکومت عمل درآمد کرواسکتی تھی لیکن اب معاملہ حکومت کے ہاتھ سے بھی نکل چکا ہے کیونکہ ایسی قانون سازی کی گئی ہے جس کے بعد سٹیٹ بینک سود کی شرح کا تعین کرنے میں آزاد ہے ۔ گویاانہوں نے اب ہمارے لیے کوئی آسرا چھوڑا ہی نہیں۔اب آپ سٹیٹ بینک کے خلاف عدالت میں بھی نہیں جا سکتے ۔ لہٰذا اب جو بھی کوئی خیر مل سکتاہے وہ کسی بڑی عوامی تحریک یا کسی ساورن ڈیفالٹ کے ذریعے سے ہی مل سکتا ہے جس کے لیے قوم پوری طرح تیار ہو ۔ یاپھرایک طریقہ یہ ہے کہ بنکوں کو نیشنلائز کرلیں۔جتنی بنکوں کو ادائیگیاں ہونی ہیں وہ ظاہرہے سرکاری خزانے میں آئیں گی اوراس کے حساب سے ہی پھرخرچ ہوں گی۔ اس طرح کاکوئی بڑا حل ہی ہمیںنکالے گاورنہ ہم مزید اس گرداب میں پھنسیں گے۔
سوال:IMFسے قرضے دیگر ممالک بھی لیتے رہے ہیں۔بھارت نے 1993ء میں IMF سے قرضہ لیا تھا ، لیکن اس کے بعد اس کو قرضے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ اب جبکہ پاکستان تین ارب ڈالرلینے کے لیےIMF کی منتیں کررہاہے اس وقت بھارت چاند پہ اپناخلائی مشن بھجوا رہاہے ۔ اس تضاد کی وجہ کیاہے ؟
حافظ عاطف وحید:انڈیا نے آج سے کوئی ستر سال پہلے ایک ڈویلپمنٹ ماڈل وضع کیاکہ consumption goodsکی پروڈکشن اورانکم کو محدود پیمانے پررکھاجائے اورکیپٹل گڈز (جن کاتعلق انڈسٹری اورپروڈکشن سے ہے)میں زیادہ سے زیادہ انویسٹمنٹ کی جائے۔ ایک تخمینہ تھاکہ اس پلان پر عمل کرکے بیس سال بعد فلاں سٹیج پر پہنچ جائیں گے ، تیس سال بعد فلاں پر اور اس کے بعد آپ اس سٹیج پرآجائیں گے کہ جہاںبڑے پیمانے پر کھپت حاصل کرسکیں۔ انڈیا والوں نے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے ہوتے ہوئے بھی اپنے اس گروتھ پیٹرن کو نہیں چھوڑا بلکہ اس کے مطابق چلے اور آج بھارت ایک انڈسٹریل ملک بن چکا ہے اور دنیا کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ممالک میں سے ایک ہے۔ وہ آئی ٹی میں بہت آگے جاچکا ہے۔مقامی انڈسٹری اور انفراسٹریکچر سے بہت کچھ حاصل کررہا ہے ۔ اصل میں معیشت کی ترقی ایک تسلسل مانگتی ہے ۔لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ اکھاڑ بچھاڑ ہی رہی ہے ، جو بھی نئی حکومت آتی ہے تو نئی پالیسی بناتی ہے ۔حالانکہ پالیسیوں کے تسلسل سے ہی انوسٹر کو اعتماد ملتا ہے اور فارن انوسٹمنٹ کے دروازے کھلتے ہیں ۔ لیکن ہماری حکومتیں اس میں ناکام ہوئیں جس کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹس کے مقابلے میں امپورٹس بڑھ گئیں لہٰذا بیلنس آف پیمنٹ کے لیے IMF کے پاس جانا پڑا۔ جبکہ بھارت نے پالیسی کے تسلسل کے ذریعے انوسٹمنٹ کو بڑھایا ، نتیجہ میں ایکسپورٹس بڑھیں اور امپورٹس کم ہوئیں جس کے بعد انہیں IMF کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ۔
سوال: پاکستان نے چین سے سب سے زیادہ قرضہ لیاہے ۔ یہ صورت حال مستقبل میں پاکستان کے لیے خطرناک توثابت نہیںہوگی ؟
رضاء الحق:خطرناک تواب بھی یہ صورتحال ثابت ہونا شروع ہوچکی ہے۔اس وقت چین کے تقریباً17 ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔اس کے بعد ملٹی لیٹرل قرضے تقریباً33ارب روپے ہیں۔یوایس انسٹیٹیوٹ فارپیس کی جون کی سٹڈ ی کے مطابق اپریل2023ء سے جون 2026ء تک پاکستان نے 75.5بلین ڈالرز کاقرضہ ادا کرناہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ کہاںسے جنریٹ ہو گا؟ چین کے حوالے سے ایسا دکھائی دیتاہے کہ وہ ابھی ہمارے اوپرزیادہ پریشر نہیںڈال رہاکیونکہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے چین کے سٹریٹیجک مفادات ہیں۔ امریکہ کواڈ اوردوسری معاشی پابندیوں کے ذریعے چین کے گھیرائو کی کوشش میںلگاہوا ہے ۔اس کے سی پیک اور بی آر آئی منصوبوںکو ناکام بنانے کی کوشش میں ہے ۔ ان حالات میں چین کو پاکستان کی ضرورت ہے ۔ اسی لیے وہ پاکستان کی مکمل کلینیکل ڈیتھ نہیں ہونے دیتا۔البتہ مستقبل میں ہمیں یہی دکھائی دیتاہے کہ ہم اپنی اکانومی کا بہت بڑا حصہ چین کے حوالے کرچکے ہوں گے توپھر وہ بھی زبردست دباؤ ڈالے گا ۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم کوئی لانگ ٹرم پالیسی بنائیں اور پھر اس پر عمل درآمد کو ہر صورت یقینی بنائیں ۔ تبھی ان حالات سے نکل سکتے ہیں ورنہ مشکل ہے۔
سوال: کہاجاتاہے کہ سیاسی اورمعاشی استحکام دونوں لازم ملزوم ہیں لیکن اس وقت پاکستان دونوں کرائسز کا شکار ہے۔ موجودہ یاآنے والی حکومت کیااقدامات اٹھائے تاکہ پاکستان میں معاشی اورسیاسی استحکام آسکے ؟
رضاء الحق: سب سے پہلے نظریاتی طورپرواپس اپنی بنیادوں پر آنا ضروری ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے سٹیٹ بنک (پشاور برانچ) کاافتتاح کرتے ہوئے کہاتھاکہ :’’میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی مجلسِ تحقیق بینکاری کے ایسے طریقے کیونکر وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔‘‘مگر پون صدی گزر چکی ہے، ابھی تک قائداعظم کے فرمان پر کوئی عمل نہیں ہوا بلکہ اُلٹا سٹیٹ بنک کے گورنرکہہ رہے ہیںکہ ہم بینکوں اور معیشت پر شرعی اصولوں کو زبردستی لاگو نہیں کر سکتے ۔
حافظ عاطف وحید:اس وقت ہمیں اپنی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے ، استحکام تو بعد کی بات ہے لیکن بقاء پہلے ہے ، ظاہراًناامیدی بھی اچھی شے نہیں ہے ،ہمیںامید بھی رکھنی چاہیے اوراللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا بھی کرنی چاہیے۔ ہمارے عوام کوایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارے سیاسی یامقتدر طبقات کی باتوں کوان کی فیس ویلیو پرکبھی نہ لیںاس لیے کہ اب ہمارے ہاں سچ کا رواج نہیںہے ۔ان کی اکثر باتوں میں ملاوٹ ہوتی ہے، جزوی بات کہی جاتی ہے ،کلی بات نہیںبتائی جاتی ۔اگر یہ لوگ عوا م کے سامنے سچ بولنا شروع کردیں توعوام کواپنے برے بھلے کااندازہ ہوجائے گا۔ کوئی ایسی رجیم آجائے جوسچ کوعام کرنا شروع کردے اور اصل صورت حال واضح کرنا شروع کردے توپھرعوام کے اندر بھی ایک جذبہ پیدا ہوجائے گااورحکومتوں کی ساکھ عوام کی نظر میں بحال ہوگی ۔دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت سرمایہ کاری کے لیے بالکل نامناسب ماحول ہے اورلوگ یہاںانویسمنٹ نہیں کریں گے اورآئی ایم ایف کی شرائط نے اسے مزید مشکل بنادیاہے۔ اب ایسی راہیں تلاش کرنی پڑیںگی جس میں لوگ ملک کے اندر کاروبار کریں، سرمایہ کاری کریں ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ بہت سے سپیشل انڈسٹریل زون بنائے جائیں ۔ اس کے بعد فارن انوسٹمنٹ کے لیے راستے بنائیں ، جب یہاں انڈسٹریل شعبہ بحال ہوگا تو لوگوں کو روزگار ملے گا ، ایکسپورٹس بڑھیں گی اور معاشی ترقی کا آغاز ہو گا ۔ تیسری بات یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کے حوالے سے اسمبلی میں ایک نئی ترمیم پاس کرکے اس کی خود مختاری کو ختم کیا جائے تاکہ سود کی شرح کے تعین کا اختیارواپس حکومت کو ملے ۔ یقیناً اس سے عالمی قوتیں سیخ پا ہوں گے لیکن جب ہماری بقاء کا مسئلہ درپیش ہے تو پھر ایسے بولڈ قدم اُٹھانے پڑیں گے ۔ تب ہی ہم اس مشکل سے نکل سکیں گے ۔