(قابلِ غور) وقت کی قدر کیجیے……! - ادارہ

10 /

وقت کی قدر کیجیے……!سجاد سعدی

وقت ا ﷲ رب العزت کی ایک ایسی عام نعمت ہے جو انسانی معاشرے میں یکساں طور پر امیر، غریب، عالم، جاہل، صغیر، کبیر سب کو ملی ہے۔ وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سِل سے دی جاتی ہے کہ جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھلتی ہی جاتی ہے۔
اس وقت مسلم معاشرہ عام طور سے ضیاعِ وقت کی آفت کا شکار ہے، یورپی معاشرہ اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود وقت کا قدر داں ہے اور زندگی کو باقاعدہ ایک نظام کے تحت گزار نے کا پابند بنا ہوا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ان کی روز افزوں ترقی کا ایک بڑا سبب وقت کی قدر دانی ہی ہے۔
جو قومیں وقت کی قدر کر نا جانتی ہیں وہ صحراؤں کو گلشن بنا دیتی ہیں، وہ فضاؤں پر قبضہ کر سکتی ہیں، وہ عناصر کو مسخر کر سکتی ہیں، وہ پہاڑوں کے جگر پاش پاش کر سکتی ہیں، وہ زمانہ کی زمامِ قیادت سنبھال سکتی ہیں لیکن جو قومیں وقت کو ضائع کر دیتی ہیں تو وقت بھی انہیں ضائع کر دیتا ہے۔ ایسی قومیں غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ وہ دین اور دنیا دونوں اعتبار سے خسارے میں رہتی ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز اگر ہے تو وہ وقت ہے، اس کی قدر و قیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیں، یہی وجہ ہے کہ وقت کے لمحات کی قدر نہ کر نے سے منٹوں کا، منٹوں کی قدر نہ کر نے سے گھنٹوں کا، گھنٹوں کی قدر نہ کرنے سے ہفتوں کا، ہفتوں کی قدر نہ کر نے سے مہینوں کا اور مہینوں کی قدر نہ کر نے سے برسوں اور عمروں کا ضائع کر نا ہمارے لیے بہت آسان بن گیا ہے۔ ہم لو گ بیٹھکو، ہوٹلوں اور نجی مجلسوں میں وقت گزاری کر تے ہیں اور ہمارا کتنا ہی قیمتی وقت نکتہ چینی، غیبت، بہتان اور بے تحاشا سونے میں ضائع ہو جاتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہو تا۔
سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت سمجھو، زندگی کو مر نے سے پہلے۔ صحت کو بیماری سے پہلے۔ فراغت کو مشغولیت سے پہلے۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ اور مال داری کو فقر سے پہلے۔‘‘ (مستدرک حاکم)
اس حدیث پاک میں ہر صاحب ِ ایمان کے لیے یہ تعلیم ہے کہ آدمی کی فہم و دانش کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس فانی زندگی کے اوقات و اَدوار کو بہت دھیان اور توجہ کے ساتھ گزارے، زندگی کو مرنے سے پہلے غنیمت سمجھے اور اس بات کا استحضار رکھے کہ کل روزِ قیامت میں اس کی ہر چیز کا حساب ہوگا، اس سے ہر چیز کے بارے میں باز پرس ہوگی اور اسے اپنے ہر قول و فعل کا جواب دینا ہے، کراماً کاتبین اس کے قول و فعل کو رقم کر رہے ہیں، قیامت کے دن اس کے اعمال نامے کو تمام اوّلین و آخرین کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ یہ وقت بڑی قیمتی دولت ہے۔
اس سے جو فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے وہ کر لیا جائے، آج صحت و تندر ستی ہے کل نامعلوم کس بیماری کا شکار ہو نا پڑجائے، آج زندگی ہے کل منوں مٹی کے نیچے مد فون ہونا ہے، آج فرصت ہے کل نامعلوم کتنی مشغولیت درپیش ہو جائیں۔ آج جوانی کا سنہرا دور ملا ہوا ہے۔کل بڑھا پے میں ناجانے کن احوال سے سابقہ پڑے اور کیا امراض و عوارض لگ جائیں۔ آج صاحب ِحیثیت ہیں، کل ناجانے کیا حالت ہو جائے؟ اس لیے جو کر نا ہے کرلیا جائے، جو کمانا ہے کما لیا جائے، جو فائدہ اٹھا نا ہے اٹھالیا جائے ورنہ وقت دو دھاری تلوار ہے، اگر تم نے اسے نہ کاٹا تو وہ تمہیں کاٹ ڈالے گی۔سب سے بڑی بات ہے کہ اس وقت کو آخرت کمانے اور سنوارنے میں لگا دو یہی وقت کا بہترین استعمال ہے۔
ارشاد نبویﷺ کا مفہوم ہے کہ صحت اور فراغت دو ایسی عظیم نعمتیں ہیں کہ جن کے سلسلے میں بے شمار لوگ خسارے میں رہتے ہیں اس لیے بعد میں پچھتانے سے یہ بہتر ہے کہ انسان آج ہی اس کی قدر کرلے۔
عمو ماً جن صالح بندوں کے مزاج میں دینداری اور نیکی ہو تی ہے وہ وقت کے قدر دان ہوتے ہیں اور اپنی آخرت بنانے اور دنیا بھی سنوارنے کی فکر انہیں دامن گیر ہو تی ہے، وہ بے کاری، آوارگی، لہو و لعب اور فضولیات میں اپنا وقت ضائع نہیں کر تے، کسی کا برائی سے تذکرہ کر نے، عیب جوئی کر نے اور بہتان تراشی اور بے کار و لایعنی گفتگو کی انہیں فرصت نہیں ملتی۔
ان کی عملی زندگی اس حدیث نبوی ﷺ کی عملی تصویر ہو تی ہے : ’’بے شک! انسان کے اچھا مسلمان ہو نے کی خو بی یہ ہے کہ وہ بے کار اور فضول چیزوں کو چھو ڑ دے۔‘‘ (ترمذی)
وقت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر کامیاب انسان بھی کہتا ہے وقت کی قدر کرو اور ناکام انسان بھی کہتا ہے وقت کی قدر کرو۔ کامیاب انسان وقت کا صحیح استعمال کر کے کہتا ہے جب کہ ناکام انسان وقت ضائع کرکے یہ بات کہتا ہے۔
ضیاع وقت کا ایک بڑا سبب
ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کے قیمتی اوقات کے ضیاع کا ایک بڑا سبب سوشل میڈیا اور موبائل فون بنا ہُوا ہے، اس کے ذریعے لایعنی پیغامات بھیجنے اور اس کے پروگراموں میں وقت گزاری کر نے کا ایک عام مزاج بن گیا۔ گھنٹوں اس میں ضائع کر دینا، راتوں کو خراب کر نا ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ کبھی اس طرف خیال نہیں جاتا کہ اس کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے، سچی بات یہ ہے کہ آج کا نو جوان موبائل کو لے کر ایک مجنونانہ کیفیت کا شکار ہوچکا ہے۔
اگر ہم اپنی زندگی کے شب و روز درج بالا سطور کے تناظر میں دیکھیں تو کیا ہم خود کو مطمئن پائیں گے…؟ یقیناً نہیں! ہم تو اپنی زندگی کا بیش تر حصہ اور لمحات کھانے پینے، گھومنے پھرنے، فضول گپ شپ کرنے، ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے دل دُکھانے میں صرف کر دیتے ہیں۔ یوں گزرنے والے دن، رات اور ماہ و سال ماضی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ گزرا ’’وقت‘‘ واپس نہیں آتا مگر آنے والا ہر لمحہ اور ہر صبح، طلوع ہونے والے سورج کی کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی ’’امید‘‘ کا پیغام ضرور دیتی ہے۔ یہی ایک امید ہی تو ہے کہ جس پر یہ دنیا قائم ہے۔ ’’مایوسی‘‘ کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔
ربِ قدوس کے ہاں دیر تو ہے مگر اندھیر نہیں۔ وقت کی قدر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر دن کو آخری دن سمجھے اور ہر لمحہ جواب دہی کے احساس کے ساتھ گزارے تو ناصرف بہت سارے کام اس احساس کے باعث قوت عمل پیدا ہونے کی وجہ سے پورے ہو جائیں گے بلکہ معاشرے میں بھی ایک مثبت تبدیلی پیدا ہوگی۔
آج ہماری نوجوان نسل میں بالخصوص وقت کی ناقدری کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ دن بھر موبائل فون پر لگے رہنا، موقع ملتے ہی ٹی وی اور کمپیوٹر پر بیٹھ کر فضول کاموں میں وقت برباد کر نا عام ہے۔
ایسا کر کے ناصرف وہ اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں بلکہ اپنی صحت کو بھی اپنے ہاتھوں برباد کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل جو قوم کی معمار ہے وقت کی قدر کرے اور اسے بر روئے کار لائے۔
اﷲ پاک ہمیں وقت جیسے انمول تحفے کی قدر کرنے اور اس کا درست استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


ربِ قدوس کے ہاں دیر تو ہے مگر اندھیر نہیں۔ وقت کی قدر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر دن کو آخری دن سمجھے اور ہر لمحہ جواب دہی کے احساس کے ساتھ گزارے تو ناصرف بہت سارے کام اس احساس کے باعث قوت عمل پیدا ہونے کی وجہ سے پورے ہو جائیں گے بلکہ معاشرے میں بھی ایک مثبت تبدیلی پیدا ہوگی۔
آج ہماری نوجوان نسل میں بالخصوص وقت کی ناقدری کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ دن بھر موبائل فون پر لگے رہنا، موقع ملتے ہی ٹی وی اور کمپیوٹر پر بیٹھ کر فضول کاموں میں وقت برباد کر نا عام ہے۔
ایسا کر کے ناصرف وہ اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں بلکہ اپنی صحت کو بھی اپنے ہاتھوں برباد کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل جو قوم کی معمار ہے وقت کی قدر کرے اور اسے بر روئے کار لائے۔
اﷲ پاک ہمیں وقت جیسے انمول تحفے کی قدر کرنے اور اس کا درست استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
ززز