جو چاہے کر…عامرہ احسان
ہماری حکومت تاریخ میں مذکور اس ماں سے مشابہت رکھتی ہے جو بھوکے بچوں کو بہلارہی تھی۔ چولہے پر ہانڈی چڑھائے، پانی میں کنکر ابل رہے تھے ( اور ظاہر ہے گل کر نہیں دے رہے تھے ) بچے کھانا پکنے کے انتظار میں سسکتے، ٹک روتے روتے سوگئے۔ تاہم ہماری کہانی میںیہ شاطر ماں ہے۔ بچوںکو سوتا دیکھ کر وہ چھپائے تھیلے سے نکال کر خود مزے لے لے کر مہنگی چاکلٹیں، برگر کھا اور بدیسی مشروب پی پی لہکتی ہے۔ یقین نہ آئے تو دیکھیں، حکومت مسکین غریب قوم کو سکھ کی روٹی دینے کی بجائے اشرافیہ ( عیاشیہ ) میں دھڑا دھڑ گاڑیوں کی ریوڑیاں بانٹ رہی ہے۔ 2 ارب 33 کروڑ اس مد میں۔ کارکردگی ڈھونڈیں ان افسران بالا کی تو انہیں گدھے پر بٹھانا زیادہ مناسب قرار پائے۔ سیدنا عمر ؓ نے جیسے کسی کو کمبل اوڑھاکر لاٹھی تھماکر ریوڑ دے کر جنگل میں بھیج دیا تھا کہ انسانوں پر حکومت کے لائق نہیں ہو۔ ( باوجود یکہ ان افسران کے مقابل تو وہ افسر گریڈ 30 کے اہل تھے!) اسے میرٹ کہتے ہیں۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ ووٹ لینے کو نوجوانوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے میں نکال دی، مالِ مفت دلِ بے رحم۔ حالانکہ یہ نوجوان بڑے بڑے موبائل لیے دن رات اس پر ایک کیے دیتے ہیں۔ لیپ ٹاپ بھی بیچ کر نیا موبائل ہی خرید لیں گے۔ہماری ترجیحات ملاخطہ ہوں!
آئی ایم ایف عوام دشمنی میں طاق ہے۔ حکومت پر اشیاء خورونوش پر سے سبسڈی ختم کرکے مہنگائی کا طوفان لانے کے لیے تمام تر دبائو تھا۔ گاڑیوں کی تقسیم، حکومتی اللوں تللوں، عیاشیہ کے پروٹوکول( جج، جرنیل، بیوروکریٹ) پر بہتا پیسہ، ان سب کو کبھی میلی آنکھ سے نہ دیکھا۔ بجلی کی مہنگائی نے ہر شے میں کرنٹ دوڑادیا۔ جس چیز کو ہاتھ لگائو قیمت کا جھٹکا لازم ہے۔ جو ملک چھوڑ سکتا ہے وہ نکل کر بھاگاجارہا ہے۔ ’بچے کم خوشحال پاکستان‘ فارمولا یوں چل رہا ہے۔سنجی گلیوں میں صرف اشرافیہ ہی ریسنگ گاڑیاں دوڑائے گی پھر! کمال تو یہ ہے کہ جس طبقے کو نوازا جارہا ہے وہ پہلے ہی عیش و عشرت میں ڈوبا ہوا ہے۔جوع البقر، جوع الکلب اور جوع الارض جیسی بیماریوں کا مریض ضرور ہے جس کے علاج کے لیے مسلسل انہی کو بھرا جاتا ہے۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، عوام کو اسی بنا پر سوکھے کا مریض بناڈالا۔
پاکستان میں سب سے محنتی محکمہ وائلڈ لائف (جنگلی حیات ) والوں کا ہے۔انہی کو عوام بھی سونپ دیے جائیں ، وہ بے چارے بھی تو اسی طبقے جیسے ہورہے ہیں بلکہ جانوروں کا کھانا پینا شاید بہتر اور فراواں ہی ہے ۔ 14 بندر بچے آم کی پیٹیوں میں چھپاکر لے جائے جاتے پکڑے گئے! عدالت میں بندر ( اور انسان ) پیش کردیے گئے، ایک بندر بچہ عدالت سے بھاگ لیا درخت پر جا چڑھا۔ ( پی ٹی آئی سے متاثر ہوگا شاید ) یہ عالمی خبر بن گئی! بندروں کی عدالت میں پیشی۔اسمگلروں کو ایک لاکھ جرمانہ ہوا ( انسانی اسمگلروں کو نجانے کوئی جرمانہ ہوا یا نہیں؟) بندر بچے کراچی چڑیا گھر کے حوالے ہوگئے۔ سو یوں بندر بانٹ کی یہ کہانی مکمل ہوئی۔
مغرب سے آنے والی کہانیوں کے نتیجے میں ان کی دیوانگی، جہالت، اجڈپن اور گنوار ہونے میں ہمیں کبھی بھی شبہ نہیں رہا۔ مگر گزشتہ 22 سالوں میں تو یہ سب پایۂ ثبوت کو پہنچا اور بار بار پہنچا۔ عالمی جنگوں میں قتل و غارتگری، عورت رگید نے کی ناپاک طویل جنگی تاریخ، ایٹم بموں کی سفاکی۔ اب توہین رسالت، توہین قرآن اور اسلامو فوبیا کا لامنتہا تسلسل۔ اخلاقی تہذیبی گراوٹ کی کوئی حد تو ہو۔ سویڈن نے پوری دنیا سے نفرت کمائی مگر باز نہ آیا۔ یورپ نے ردعمل کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ اس کے باوجود ڈنمارک نے یہی حرکت اب پھر دہرا ڈالی۔ یہی عین دجالیت ہے۔ اس کا سرچشمہ بے حیائی ہے۔ نبیﷺ کا فرمان: اگلی نبوت کی باتوں میں سے لوگوں نے جو کچھ پایا ہے اس میں سے ایک یہ ( قول ) بھی ہے کہ جب تجھ میں شرم و حیا نہ ہو تو پھر جو جی چاہے کر۔ ( بخاری) حیا بریک اور رکاوٹ ہے جو انسان میں جھجک، لحاظ، روک پیدا کرتی ہے۔ ہر گناہ کے آڑے آتی ہے۔ بدزبانی، جھوٹ، بدلحاظی، بے مروتی، بدکاری تک سے روکتی ہے۔ یہ نہ ہوتو گھنائونے گناہوں کا ارتکاب آسان ہوجاتا ہے۔ یہی مغرب کا المیہ ہے۔ خدا، رسولوں کے انکار نے حیا تار تار کردی۔ گھر خاندان ٹوٹے، نکاح ختم ہوا۔ لباس سے ہاتھ دھوبیٹھے، رشتوں کی پہچان( بالخصوص والدین ) کیا کھوئی، معاشرہ تباہی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اولاد کی طلب، محبت جاتی رہی۔ انسان تہی دامن، بدکردار، بداخلاق بیہودگی کا مرقع بن گئے۔ صرف پیسے کی خدائی، حرص و ہوس، نفسانیت، شیطانیت کی بدترین تہذیب پروان چڑھی۔ LGBTQ سے لے کر ارتکاب توہین اور عدم برداشت و اسلاموفوبیا تک سب اسی کا نتیجہ ہیں۔جھوٹ، دجل، فریب کی انتہایہ ہے کہ مسلمانوں کو رواداری، برداشت کے اسباق پڑھائے جاتے ہیں اور ہمارے والے ایسے فدوی غلام، احساس کمتری کے مارے، کچلے،پچھڑے پڑے ہیں کہ ان کی بدترین بداخلاقیوں کے باوجود گھگھیائے چلے جاتے ہیں۔ مغرب کی خدائی پر ایمان بڑا پختہ ہے۔ {اُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ ط} (الانبیاء:67) ’’تف ہے تم پر بھی اور ان پر بھی جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو۔ ‘‘
توہین قرآن و رسالت کے تسلسل پر اپنے معذرت خواہوں سے اور کیا کہیں!
ان حالات میں بھی ( غامدیت کے تحت) ہم مغرب/ کفر کے آگے اسلام ( کامل پاکیزہ دین ) بارے صفائیاں پیش کرنے پر جتے رہتے ہیں۔ ان کی سفاکیت آخری حدوں کو چھورہی ہے۔ فلسطین کشمیر کو تو 75 سال ہوگئے، گزشتہ بیس برسوں میں افغانستان، عراق، شام، یمن، لیبیا ، مالی، روہنگیا غرض کیا کیا نہ اجاڑا۔ اس پربھی ہماری نت نئی معذرت خواہی چل پڑتی ہے۔ اب 72 حوروں پر شرمساری طاری ہو گئی! ہالی ووڈ سے شروع ہوکر مشرق تا مغرب دنیا ئے کفر کی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتی، می ٹو (MeToo) کی متعفن غلاظت کے بعد بھی ؟ LGBTQ پلس کے خللِ دماغ والی پاگل دنیا کے سامنے؟ پاکیزگی کی حسین خوبصورت انعاماتِ الہیہ کی ہمہ نوع صورتوں میں سے ایک پر سٹپٹانا؟ ا سے زیادہ نشانہ تضحیک بنانے والے تو وہ ہوتے ہیں جن کا معاملہ یہ منہ اور مسور کی دال والا ہوتا ہے! سوجانے بھی دیجئے۔ فتنہ دجال بھرے ان سالوں میں آتش نمرود و قہر فراعنہ کے مقابل دنیا بھر میں جانیں لڑا دینے والے، گوانتامو، ابوغریب، باگرام کی قیامتیں جھیلنے والے، برما میں اسلام کی بھاری قیمت چکانے، شام میں چالیس صحابہؓ کا اجر سمیٹنے کو جان کی بازی لگانے والے! اللہ انہیں 72 سے نوازے تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ یہ پیچھے بیٹھے رہنے والے دانشوروں کے علمی مشغلے ہیں۔ سر سے کفن باندھ کر نکلنے والے، عذرات ثمانیہ ( سورۃ التوبۃ) سے نمٹ کر سرخرو ہونے والے، رب کی رضا اور دین کی سربلندی کے سوا کچھ نہیں چاہتے۔ امت کی کس مپرسی پر نمناک سجدوں میں تڑپنے والے، حوروں کے فراق کا شکار نہ تھے۔ آپ کو حوریں آفر ہوئیں تو دو پر اکتفا کیجئے گا۔ ان شیر کے بچوں کو جتنی بھی ملیں! {ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُـؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط} (الجمعۃ:4) ’’یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے ۔‘‘
( آپ دو والی حدیث سنادیجئے گا)۔ایسی بحثوں میں وقت نہ گنوائیں۔ جوانوں کی خبرلیں۔ دعوت کے میدان میں تن من دھن لگائیں۔ دکان پر کھڑا یہ ایک نوجوان دیکھیں۔ سبھی اسی غفلت میں پڑے ہیں۔یہ لڑکا اسمارٹ موبائل پر یکے بعد دیگرے فاحشہ حسینائوں کی قطار اندر قطار تصاویر میںمگن تھا۔کسی بڑے نے سمجھایا تو شرمسار ہوا۔یہاں بہتر ہزار کے عدد میں الجھی جوانیوں کو بچائیں۔ آخرت پر ایمان ہی بحال ہوجائے تو غنیمت۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے اساتذہ، ٹریژار، سیکورٹی انچارج کا ایک گروہ منشیات پھیلانے، رقص و سرود اور ناپاک بدکاری پارٹیوں کے اہتمام میں ملوث پکڑا گیا ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی ہولی گویا کافی نہ تھی۔ بدی کا سیلاب نوجوان بہائے لے جارہا ہے۔ نان ایشوز پر نہ الجھیئے! اہل دین یک جان یک زبان ہوکر ملکی اخلاقیات بچائیں! ان پے درپے واقعات میں شدید خطرے کا الارم ہے ملک کو بے حیائی کی دلدل میں دھنسانے کی اعلیٰ سطحی کوششوں کا ۔ ؎
انگریز جاچکے ہیں مگر پھر بھی ہم سے دور
تہذیبِ مغربی کی نجاست نہ ہوسکی
tanzeemdigitallibrary.com © 2024