اسلامی نظام کی نظریاتی اساس: ایمان(3)
(بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے 1988ء کے ایک خطاب کی تلخیص)
(گزشتہ سے پیوستہ)
اولوالالباب کی تلاش و جستجو
ان تمام مسائل اور سوالوں پر اصحابِ عقل سوچ بچار کرتے ہیں‘ اگرچہ ایسے لوگ انسانی معاشروں میں خوردبینی اقلیت (microscopic minority) ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے اس قسم کے سوالوں کی تلاش میں عمریں کھپا دیتے ہیں۔ ان لوگوں کو دنیا کی کسی شے سے دلچسپی نہیں رہتی‘ جب تک کہ وہ ان سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب حاصل نہ کرلیں۔ گہرے غورو فکر اور تلاش و جستجو کے بعد انہیں جو جواب ملتا ہے وہ انہیں اتنا عزیز ہوتا ہے کہ اس کے لیے اپنی جان تک قربان کردیتے ہیں۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی زندگیوں میں خواہ ان کی باتوں کو رد کیا گیا ہو‘ چاہے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو‘ چاہے ان کو جاہل‘پاگل اور مجنون کہاگیا ہو‘ لیکن ان کے مرنے کے بعد عامۃ الناس اُن کے نظریے کو قبول کرلیتے ہیں اور کروڑوں لوگ ان کے پیرو کار بن جاتے ہیں۔
گوتم بدھ کی مثال لے لیجیے ۔ ان کے پاس کیا کچھ نہیں تھا؟ جوان بیوی موجود تھی‘ شیر خوار بچہ تھا‘ عالی شان گھر تھا‘ شان و شوکت تھی۔ الغرض زندگی میں جتنی بھی چیزوں سے انسان کو دلچسپی ہوسکتی ہے وہ ساری کی ساری چیزیں اُن کے پاس موجود تھیں۔ لیکن اُن کے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوئے‘ مثلاً دنیا میں دکھ کیوں پائے جاتے ہیں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک شخص ٹھوکر کھا کر گرتا ہے اور اُس کا سر پھٹ جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شیرخوار بچہ والدین کی نگاہوں کے سامنے دم توڑ رہا ہوتا ہے اور والدین بے بسی کی تصویر بنے کچھ نہیں کرسکتے اور اُن پر صدمے کا پہاڑ ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر یہ کہ انسان کے لیے ان دکھوں سے نجات کاکوئی راستہ ہے بھی یا نہیں؟ اس قسم کے سوالوں نے گوتم بدھ کو کرب میںمبتلا کردیا۔ چنانچہ جوان بیوی‘شیر خوار بچہ اور گھر بار چھوڑ کر تلاشِ حقیقت کے لیے جگہ جگہ پھرتے رہے‘ کبھی ایک رِشی کے پاس پہنچے تو کبھی دوسرے کے پاس ۔اس تلاش و جستجو کے نتیجے میں انہوں نے جو کچھ پایا‘ اس سے قطع نظر کہ وہ کتنا صحیح ہے‘ یہ حقیقت ہے کہ آج کروڑوں لوگ اُن کے نام لیوا اور پیروکار ہیں۔ دوسری مثال سقراط کی ہے۔ سقراط نے غور و فکر سے کچھ نتائج اخذ کیے اور پھر انہیں عام کرنا شروع کیا۔ چونکہ اُس کے افکار معاشرے کی فکر سے مختلف تھے‘ لہٰذا قوم نے اس کے سامنے دو اختیار (options) رکھے‘ یا تو خاموش رہو اور اپنے نظریات کی تبلیغ نہ کرو‘ یا پھر زہر کا پیالہ پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلو۔ سقراط نے اسی مجلس میں زہر کا پیالہ پی لیا‘ مگر اپنے نظریات کی تبلیغ سے باز رہنا گوارا نہ کیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غور وفکر کے نتیجے میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے اس کی قدر و قیمت اس کی نگاہ میں کیا ہوتی ہے۔ سقراط کی زندگی میں تو اُس کے ساتھ یہ سلوک ہوا‘ لیکن بعد میں اس کے فلسفے کو پذیرائی ملی۔ آج پوری دنیا میں مغربی فلسفے کی جو دو شاخیں چلی آتی ہیں یعنی حقیقت پسندی (Realism)اور تصوّریت (Idealism) اُن کے امام کی حیثیت سقراط کو حاصل ہے۔
تیسری مثال حضرت سلمان فارسی ؓ کی ہے۔ وہ ایران میں پیدا ہوئے‘ جہاں کے لوگ آتش پرستی میں مبتلا تھے۔ اُن کی طبیعت کو یہ چیز گوارا نہ ہوئی۔ انہوں نے سوچا عجیب بات ہے کہ ہم خود آگ جلائیں اور خود ہی اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوجائیں۔ تلاشِ حقیقت کی جستجو نے انہیں مضطرب کردیا۔ چنانچہ اپنا گھر بار اور اپنا ملک چھوڑ کر شام پہنچے۔ وہاں کچھ عیسائی راہبوں کی خدمت میں رہے۔ اس سے اُن کے علم کی پیاس کو کچھ تسکین حاصل ہوئی۔ اس کے بعد آپؓ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے شخص کے پاس گئے۔ جس طرح گوتم بدھ ہندوستان کے رِشی مونی (جوگیوں کا خاموش رہنے والا گروہ) میں سے کبھی ایک کے پاس اور کبھی دوسرے کے پاس گئے‘ ایسے ہی سلمان فارسی ؓ کئی لوگوں کے پاس گئے۔ آخری عالم شخص جس کے پاس آپؓ گئے تھے‘ جب اس کے انتقال کا وقت آیا تو آپؓ نے اس سے کہا کہ آپ کا آخری وقت آگیا‘ لیکن ابھی میری پیاس نہیں بجھی‘ اب مجھے بتائیے کہ آپ کے بعد مَیں کہاں جائوں؟ اس عالم نے کہا کہ میری نظر میں اس وقت کوئی ایسا عالم نہیں جو صحیح راستہ پر ہو اور مَیں تمہیں اس کا پتابتا سکوں۔البتہ ایک نبی کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے جو دین ِابراہیمی پر ہوگا۔ عرب کی سرزمین پر اُس کا ظہور ہوگااور ایک نخلستانی زمین کی طرف وہ ہجرت کریں گے۔ اگر تمہارا وہاں پہنچنا ممکن ہو تو ضرور پہنچنا۔ اُن کی علامت یہ ہوگی کہ صدقہ کا مال نہیں کھائیں گے‘ البتہ ہدیہ قبول کریں گے۔ ان کے دونوں شانوں کے قریب مہر ِنبوت ہوگی۔ جائو قسمت آزمائی کرو‘ شاید اللہ تمہیں ان کے قدموں تک پہنچا دے۔ چنانچہ آپؓایک قافلے کے ساتھ عرب کی طرف چل نکلے۔ راستے میں قافلے پر ڈاکہ پڑا تو انہیں غلام بنا کر فروخت کردیا گیا۔ آپؓکو خریدنے والا مدینہ کا ایک یہودی تھا‘ چنانچہ آپؓمدینہ پہنچ گئے۔ آپؓکی حیثیت چونکہ غلام کی تھی‘ لہٰذا یہ سننے اور جاننے کے باوجود کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے‘ پابند ہونے کی بنا پر وہاں جانہیں سکتے تھے۔ مَیں یہ کہا کرتا ہوں حضرت سلمان فارسی ؓ کے حوالے سے شاید یہ بات غلط نہ ہو کہ ان کی حقیقت یا طلب ِہدایت کی پیاس کا ثمرہ ہے کہ عام محاورے کے برعکس کنواں پیاسے کے پاس چل کر پہنچا۔ یعنی رسولِ خدا حضرت محمدﷺ مکّہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور حضرت سلمان فارسی ؓ کی آپؐ تک رسائی ہوئی اور آپؐ کی خدمت میں طویل عرصہ رہے۔
انبیاء کرام ؑ نے بھی غور و فکر کے مراحل طے کیے
مَیں نے مشرق‘ مغرب اور شرقِ اوسط سے تین مثالیں دیں‘ اب مَیں آپ کو تصویر کا دوسرا رُخ دکھادینا چاہتا ہوں۔ انبیاء کرامf کے حوالے سے بھی یہ بات اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ انہوں نے بھی غور و فکر کے مراحل طے کیے۔ سورۃالشوریٰ (آیت 52) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ سے فرمایا:
{مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْـکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰــکِنْ جَعَلْنٰـہُ نُـوْرًا نَّـہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَا ط } ’’(اے نبیﷺ!) آپ کو معلوم نہیں تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ‘لیکن ہم نے اس (قرآن ) کو نُور بنایا ہے‘ اس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔‘‘
اگرچہ مفسرین نے اس ’ایمان‘ کے ضمن میں یہی کچھ کہا ہے کہ اس سے مراد تفصیلی ایمان ہے‘ کیونکہ اجمالاً ایمان تو ہرنبی کے دل میں موجود ہوتا ہے۔ مَیں اس کی تعبیر یوں کرتا ہوں کہ نبی کے دل میں بالقو ۃ ایمان موجود ہوتا ہے‘ ہاں اس کا بالفعل ظہور آغازِ وحی کے ساتھ ہوتا ہے۔ درحقیقت جو بات یہاں کہی گئی ہے اسی کی طرف اشارہ سورۃالضحیٰ میں ہے۔ وہاں فرمایا : {وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی(7)} ’’(اے نبیﷺ!) آپ کو اللہ نے تلاشِ حقیقت میں سرگرداں (حقیقت کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے) پایا تو راہ دکھائی۔‘‘ بہر حال یہ نہیں سمجھناچاہیے کہ انبیاء کرام ؑ غور و فکر کے دور سے نہیں گزرے۔ سوچ بچار کا دور اُن پر بھی آتا رہا اور وہ بھی ان تمام مراحل سے گزارے گئے۔ یہاں تک کہ جب وہ عقل و فطرت کے راستے پر چلتے اور غورو فکر کی منازل طے کرتے ہوئے حقیقت کے دروازے پر جاکھڑے ہوئے اور دستک دی تب اُن پر دروازہ کھلا۔
حضورﷺ کے بارے میں تو صراحت موجود ہے کہ آپؐ غارِ حرا میں غورو فکر کیا کرتے تھے۔ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہﷺ پر اُترنی شروع ہوئی وہ سچے خواب تھے‘ جو آپ ؐبحالت ِنیند دیکھتے تھے‘ چنانچہ جب بھی آپؐ خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہو جاتا۔پھر آپؐ کوتنہائی سے محبت ہونے لگی اور آپؐ غارِ حرا میںکئی کئی روز تک تنہا رہنے لگے۔ وہاں آپؐ تحنّث کیا کرتے۔ شارحینِ حدیث نے اس کے لیے الفاظ استعمال کیے ہیں : کَانَ صفۃ تعبّدہٖ فی غارِ حراءِ التفکر والاعتبار’’غارِ حرا میں آپؐ کی عبادت کی کیفیت یہ تھی کہ آپؐ غور و فکر اور سوچ بچار کیا کرتے تھے‘‘۔ معلوم ہوا کہ غورو فکر کے مراحل سے حضرت محمد رسول اللہﷺ بھی گزرے ہیں۔ وحی کے ذریعے ایمان کی گہرائی اور اس کے خاکے میں تفصیلات کا رنگ بھرا گیا۔
یہی معاملہ حضرت ابراہیم ؑ کا ہے۔ ان کے غورو فکر کے مراحل کا بیان سورۃ الانعام میں آیا ہے۔ فرمایا:
’’اور ہم اس طرح ابراہیم ؑ کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے‘ تاکہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہو جائیں۔ (یعنی) جب رات نے ان کو (پردئہ تاریکی سے) ڈھانپ لیا تو (آسمان میں) ایک ستارے پر نظر پڑی‘ کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے! پھرجب وہ غائب ہوگیا تو کہنے لگے کہ مجھے غائب ہوجانے والے پسند نہیں۔ پھر جب چاند کو دیکھا کہ چمک رہا ہے‘ کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے! لیکن جب وہ چھپ گیا تو بول اٹھے کہ اگر میرا پروردگار مجھے سیدھا راستہ نہیں دکھائے گا تو مَیں ان لوگوں میں ہوجائوں گا جو بھٹک رہے ہیں۔ پھر جب سورج کو دیکھا کہ جگمگا رہا ہے تو کہنے لگے میرا پروردگار یہ ہے‘ یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہنے لگے: لوگو جن چیزوں کو تم (اللہ کے) شریک بناتے ہو‘ مَیں ان سے بے زار ہوں۔مَیں نے سب سے یکسو ہو کر اپنے آپ کو اسی ذات کی طرف متوجّہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور مَیں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘(آیات:75تا79)
اگرچہ ان آیات کی ایک تعبیر اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ حضرت ابراہیم ؑ کا مظاہر فطرت سے مکالمہ اپنی قوم پر اتمامِ حُجّت کے لیے تھا۔ لیکن بعض مفسرین کی رائے یہ بھی ہے کہ یہ خود حضرت ابراہیم ؑ کے فکر کے ارتقاء کے مراحل ہیں جن کا ذکر یہاں ہوا ہے۔
انبیاء کرامؑ کی دعوت اور فلاسفہ کے نظریات کا اصل فرق
تلاشِ حقیقت سے متعلقہ سوالوں کے جوابات کے حوالے سے ہمیں انسانی تاریخ میں دو گروہ ملتے ہیں۔ ایک وہ لوگ جن کو ہم فلسفی اورحکماء کہتے ہیں‘ جنہوں نے اپنے غوروفکر‘ سوچ بچار‘ اپنی منطق اور عقل کے گھوڑے دوڑا کر حقیقت کی پردہ کشائی کی کوشش کی ہے۔ اس غور و فکر کے نتیجے میں انہیں جو محسوس ہوا‘ اُسے انہوں نے مرتّب کیا۔ اُن کے ان افکار کو ہم فلسفہ کہتے ہیں کہ فلاں حکیم کا یہ فلسفہ ہے‘ فلاں فلسفی کا یہ نظامِ فکر ہے۔ فلسفی اور حکماء کے جوابات کا واحد ذریعہ غور و فکر ہے۔ انہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اُن کے پاس غوروفکرکے علاوہ کوئی اور ذریعہ بھی ہے جس سے انہیں یہ حقائق معلوم ہوئے۔ انہوں نے ہمیشہ یہی دعویٰ کیا کہ یہ فکر جو ہم پیش کررہے ہیں ‘ ہمارے اپنے غورو فکر اور سوچ کا نتیجہ ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک کسی فلسفی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ غورو فکر سے جو نتائج اُس نے اخذ کیے ہیں وہ صد فی صد حق ہیں۔ خود علّامہ اقبال نے اپنے خطبات کے دیباچے میں یہ الفاظ لکھ دیے ہیں کہ مَیں ہرگز دعویٰ نہیں کرتا کہ جو کچھ مَیں نے ان خطبات میں کہا ہے وہ حرفِ آخر ہے‘ بلکہ ہمارا کام یہ ہے کہ طالب علمانہ انداز میں غورو فکر جاری رکھیں۔ ہوسکتا ہے جیسے جیسے وقت گزرے اس سے صحیح ترباتیں سامنے آجائیں۔
دوسرا گروہ انبیائے کرام ؑ کا ہے۔ فلاسفہ کے مقابلے میں انبیاء کرام ؑ جو دعوت پیش کرتے رہے‘ اُس کے بارے میں انہوں نے یہ نہیں کہاکہ جو کچھ ہم پیش کررہے ہیں وہ ہماری سوچ اور ہمارے غور و فکر کا نتیجہ ہے‘ بلکہ دو ٹوک انداز میں یہ کہا کہ اس کا ذریعہ وحی ربّانی ہے‘ وحی کے ذریعے ہمیں ان حقائق تک رسائی ہوئی ہے۔ پھر یہ کہ انہوں نے صاف اعلان کیا کہ یہ دعوت صد فی صد حق ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کے آغاز ہی میں لوگوں پر واضح کر دیا گیا: {ذٰلِکَ الْـکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ }(البقرۃ:2) ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں( یہ کل کا کل حق ہے)۔‘‘ اسی طرح سورئہ مریم میں حضرت ابراہیمdکا قول نقل ہوا ہے۔ وہ اپنے والد سے کہتے ہیں: ’’ابّاجان! آپ کو میری پیروی کرنی ہوگی۔‘‘
{یٰٓــاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَـآءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَـمْ یَاْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْٓ اَہْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا(43)} ’’ابّا جان! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا‘ پس میری پیروی کریں‘مَیں آپ کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کروں گا۔‘‘
بظاہر یہ بات غیر منطقی اور غیر معقول دکھائی دیتی ہے کہ بیٹا باپ سے پیروی کا تقاضا کرے۔ اس لیے کہ دنیا میں باپ زندگی کے مختلف مراحل سے گزرا ہوا ہوتا ہے‘ اس کا تجربہ زیادہ ہوتا ہے اور بیٹے کا تجربہ کم ہوتا ہے۔ لہٰذا بیٹے کا باپ سے اپنی پیروی کا مطالبہ کرنا بظاہر عجیب لگتا ہے‘ لیکن حضرت ابراہیمd علم وحی کی بنیا د پر والد سے پیروی کا مطالبہ کررہے تھے‘ اوروہ انہی کے پاس تھا ‘باپ کو حاصل نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ انبیاء کرام ؑ جو دعوت پیش کرتے ہیں وہ وحی کی بنیاد پر کرتے ہیں اور پھر اس دعوے کے ساتھ کرتے ہیں کہ یہ حق ہے۔ اصطلاحاً ان کی دعوت کو برحق ماننے کا نام ایمان ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام عقل و فطرت کے منافی بات منوانا چاہتا ہے اور ایمانی حقائق کے پیچھے کوئی عقلی اور منطقی بنیاد نہیں ہے۔ بلکہ وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ تو تمہاری فطرت کی آواز ہے‘ یہ تمام حقائق تمہارے اندر موجود ہیں ‘لیکن خوابیدہ (dormant) ہیں‘ وحی نے آکر صرف ان کو جگایا ہے‘ وحی کے ذریعے ان میں یقین کی گہرائی اور گیرائی پیدا ہوئی ہے۔ (جاری ہے)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024