محرم الحرام کی فضیلت
(قرآن و حدیث کی روشنی میں )
مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 21 جولائی 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اورتلاوت آیات کے بعد!
قرآن حکیم میں سورۃالتوبہ کی آیت نمبر36 میں حرمت والے مہینوں کا ذکر آیا ہے جس کے ذیل میں کچھ باتوں کی یاددہانی مقصود ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ قمری کیلنڈر کے اعتبار سے سال کا پہلا مہینہ محرم ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ جو شمسی کیلنڈر ہم استعمال کرتے ہیں وہ غیر اسلامی ہے ۔ سورج اور چاند دونوں اللہ نے بنائے ہوئے ہیں اور دونوں کیلنڈرز ہم استعمال کرتے ہیں۔ البتہ قمری کیلنڈر کی اپنی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ہم شریعت کے بعض احکامات پر عمل کے لیے قمری کیلنڈر پر انحصار کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر رمضان کے روزے ہم رمضان کا چاند دیکھ کر رکھتے ہیں ، شوال کا چاند دیکھ کر عیدالفطر مناتے ہیں ، ذو الحجہ کی آٹھ تاریخ سے بارہ ذو الحجہ تک صاحب استطاعت مسلمان حج کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔9ذو الحجہ کو رسول اللہ ﷺ نے نفلی روزہ رکھنے کی تلقین کی ۔ 10ذو الحجہ کو عیدالاضحی منائی جاتی ہے۔ 13ذوالحجہ تک منیٰ میں قیام کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اسی طرح سالانہ بنیادوں پر صاحب نصاب مسلمانوں کو زکوٰۃ ادا کرنی ہوتی ہے تو اس اعتبارسے سال کا تعین بھی قمری کیلنڈر کے مطابق ہوگا ۔ اسی طرح کسی بیوہ کی عدت کی مدت کا تعین قمری کیلنڈر کے مطابق چار مہینے دس دن ہوگا ۔ یعنی کئی لحاظ سے قمری کیلنڈر کی اہمیت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے قمری تاریخ کو یاد رکھنا فرض کفایہ قرار دیا ہے ۔
قمری کیلنڈر یا قمری تاریخ کی اہمیت ایک اور وجہ سے بھی ہے ۔ذرا تصور کیجئے کہ اگر ہر سال حج دسمبر کی سردی میں یا جون کی گرمی میں کرنا پڑتا تو اُمت کی تربیت اُس طرح نہ ہوپاتی کہ جو مطلوب ہے کہ خزاںہو کے بہار لا الٰہ الا اللہ۔ اسی طرح رمضان کے روزے اگرہر سال دسمبر میں رکھنے پڑتے تو شمالی کرۂ ارض والوں کے لیے تو (سرد موسم اور چھوٹے دنوں کی بدولت)بڑی آسانی رہتی لیکن جنوبی کرہ ارض والوں کو(شدید گرمی اور طویل دنوں کی وجہ سے ) شکایت ہوتی کہ یارب یہ کیسی تقسیم ہے ۔ اسی طرح اگر جون میں رکھنے پڑتے تو جنوبی کرۂ ارض والوں کے لیے توبڑی آسانی رہتی لیکن شمالی کرۂ ارض والوں کو شکایت ہوتی ۔ لیکن اللہ نے پورے کرہ ارض کے مسلمانوں کے لیے معاملہ برابر تقسیم کر دیا کہ روزے اور حج کے موسم بدلتے رہیں گے، لیکن قمری تاریخ ایک جیسی ہی رہے گی ۔ یعنی اگر اس سال حج گرمیوں میں ہوا ہے تو کچھ عرصہ بعد یہ سردیوں میں ہوگا لیکن تاریخ 10تا 13ذوالحجہ ہی رہے گی ۔ اسی طرح رمضان کچھ عرصہ پہلے گرمیوں میں آیا تھا تو اب رفتہ رفتہ سردیوں کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اس طرح پورے کرۂ ارض کے مسلمانوں کے لیے اللہ نے ان عبادات کو آسان کر دیا ۔ اس میں حکمت یہ بھی تھی کہ ہر موسم میں بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا خوگر رہے اور اس کی مجاہدانہ تربیت ہوتی رہے۔
یہ تو تھی قمری کیلنڈر یا قمری تاریخ کی اہمیت اور افادیت ۔اب ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ نئے سال یا ماہ کے آغاز میں اُسوۂ رسول ﷺ کیا تھا اور آج ہم مسلمان کیا کر رہے ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا اُسوہ تو یہ تھا کہ آپ ﷺ ہر ماہ کے آغاز میں جب چاند دیکھتے تھے تو اللہ کے حضور یہ دعا کرتے تھے :
((اَللّٰہُمَّ أَہِلَّہ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِیمَانِ))’’اے اللہ اس چاند کو مطلوع فرما امن اور ایمان کے ساتھ‘‘۔
امن اور ایمان دونوں بہت بڑی نعمت ہیں ۔ اسی لیے حضرت ابراہیم ؑ نے بھی یہ دعا کی تھی :
{وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ(35)} ’’اور یادکرو جب کہا ابراہیم ؑنے کہ اے میرے رب اس شہر (مکہ) کو بنا دے امن کی جگہ اور بچائے رکھ مجھے اور میری اولاد کو اس سے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔‘‘(ابراہیم:35)
حضور ﷺ نے بھی یہی دعا ہر ماہ کے آغاز میں چاند دیکھتے ہوئے کی ۔ دعا کے اگلے الفاظ ہوتے تھے :
(( وَالسَّلَامَۃِ وَالْإِسْلَامِ))’’اور سلامتی اور اسلام کی روش کے ساتھ ‘‘۔
سلامتی اور اسلام بھی بہت بڑی نعمت ہیں ۔ سلامتی اس قدر مطلوب ہے کہ ہم جب بھی کسی سے ملتے ہیں تو سلام کرتے ہیں جس میں ہم ایک دوسرے کے لیے سلامتی کا اعلان بھی کرتے ہیں اور سلامتی کی دعا بھی کرتے ہیں ۔ اسی طرح اسلام کی روش یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور تابعدار بن جائیں ۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو تب ہی سلامتی بھی میسر آئے گی ۔ آگے فرمایا :
(( وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی))’’ اے اللہ! اس توفیق کے ساتھ جس کو تو پسند فرمائے اور جس سے تو راضی ہو جائے ‘‘۔
یہاں نیک اعمال کی توفیق مانگی جارہی ہے ، خیر کی توفیق مانگی جارہی ہے ، گناہ سے بچنے کی توفیق مانگی جارہی ہے کہ اے اللہ جس بات کو تو پسند نہیں کرتا اس سے ہمیں بچائے رکھ اور جو تجھے پسند ہے اس کی توفیق عطا فرما ۔ پھر چاند کومخاطب کرکے اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرما رہے ہیں:
(( رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ))’’اے چاند !میرا رب بھی اللہ ہے، تیرا رب بھی اللہ ہے ۔‘‘
یہاں شرک کی نفی کی جارہی ہے۔ سورج ، چاند ، ستاروں کی پرستش ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اور اور آج بھی ہورہی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ اس دعا کے ذریعے اس طرزعمل کی نفی فرما رہے ہیں اور اُمت کے لیے تعلیم کا اہتمام بھی فرمارہے ہیں کہ سورج ، چاند ، ستاروں کا بنانے والا بھی اللہ ہے اور وہ سب بھی اللہ ہی کے حکم کے پابند ہیں ۔
یہ دعا اللہ کے نبی نے ہمیں سکھائی ہے کہ ہر ماہ کا چاند دیکھو یا اعلان سنو تو اس دعا کا اہتمام کرو ۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب بدعات آتی ہیں تو سنتیں رخصت ہو جاتی ہیں۔ اس وقت مسلمان سوشل میڈیا پر ہیپی نیو ایئر ، ہیپی اسلامک نیو ایئر جیسے ٹرینڈ چلا رہے ہیں۔ لیکن کتنے لوگوں نے اس دعا کا اہتمام کیا ہوگا؟کتنے لوگوں کو یہ دعا یاد ہوگی یا اس کا ترجمہ آتا ہوگا ؟اسی طرح دس محرم کو شورشرابہ ہلہ گلہ سب کچھ ملے گا مگر رسول اللہ ﷺ کی جو سنت تھی کہ آپ ﷺ دس محرم کو روزہ رکھتے تھے وہ آج مسلمانوں میں ناپید ہے ۔ سلف کی بات درست ثابت ہوئی کہ بدعات آئیں گی اور سنت رخصت ہوجائے گی ۔ اصل جو دین تھا وہ رخصت ہوگیا اور پیچھے من چاہی رسمیں رہ گئیں ۔
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین سے محبت رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ ان مواقع پر سنت کو زندہ کریں ، ہر ماہ کے چاند کو جب دیکھیں یا اعلان سنیں تو سنت کے مطابق دعا کا اہتمام کریں۔ا پنے بچوں کو بھی دعا سکھائیں اور اس کا ترجمہ اور مفہوم بھی انہیں بتائیں تاکہ اسلام آئندہ نسلوں میں زندہ رہے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنے ۔
ہر سال جب رمضان یا عیدالفطر کا چاند دیکھنے کا موقع آتا ہے تو سارا میڈیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے ۔ بحث اور تکرار کا ایک بازار گرم ہو جاتاہے ، الزامات کی بارش ہوتی ہے،ٹاک شوز میں مرچ مصالحہ لگا کر پورا دن ایک ٹینشن create کرنے میں صرف کیا جاتاہے ۔ لیکن جو اصل کرنے کا کام تھا وہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت تھی کہ چاند دیکھ کر دعا کی جائے۔ اپنے اللہ سے خیر و برکت ، سلامتی و ایمان کی دعا کی جائے۔اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں رہتا ۔
قمری کیلنڈر کے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ جیسا کہ سورۃ توبہ کی آیت 36میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط} ’’بے شک اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ‘اللہ کے قانون میں‘جس دن سے اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ان میں سے چار مہینے محترم ہیں۔‘‘
دنیا کی کوئی بھی قوم ہو اس کے کیلنڈر میں مہینوں کی تعداد بارہ ہی ہے ۔ یہ تقسیم اللہ نے شروع دن سے رکھی ہے۔ ان بارہ میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں یعنی رجب ، ذو القعدہ ، ذو الحجہ اور محرم ۔ شریعت محمدی ﷺ میں بھی ان مہینوں کی حرمت اور ادب کو برقرار رکھا گیا ہے۔ان میں سے تین مہینے یعنی ذو القعدہ ، ذو الحجہ اور محرم تو حج کے اعتبار سے محترم ہیں کیونکہ اس زمانہ میں حج کے لیے دوردراز کا سفر کرکے آنا پڑتا تھا اور واپسی میں بھی دوردراز کا سفر ہوتا تھا ۔ لہٰذا ذو القعدہ حج کے لیے آنے کے اعتبار سے ، ذو الحجہ حج اور اس کے مناسک کی ادائیگی اور کچھ قیام کے لیے اور محرم کا مہینہ حج والوں کی واپسی کے اعتبار سے اہم تھے ۔آج کے دور میں بھی یہ اتنا ہی اہم ہے کیونکہ لاکھوں لوگوں کو دو چار دن میں لانا ممکن نہیں ہے ۔ لہٰذا ذو القعدہ کے مہینے میں فلائٹس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پھر محرم کے آخر تک جاکر واپسی کا سلسلہ ختم ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ حج کے لیے جو جاتاہے وہ عمرہ بھی کرتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی عمرے کے لیے رجب کا مہینہ معروف تھا ۔ عربوں کے ہاں قبل از اسلام بھی ان چار مہینوںکی حرمت تھی اور وہ ان کا احترام کرتے تھے ۔ ان مہینوں میں وہ ceasefire کر لیا کرتے تھے ، آپس کی جنگیں روک لیا کرتے تھے ، لوٹ مار کا سلسلہ بند کردیتے تھے۔ شریعت محمدیﷺ میںبھی ان چار مہینوں کی حرمت کو برقرار رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جب ایران عراق کی جنگ چلتی تھی تو ان مہینوں کی آمد پر کہا جاتا تھاکہ خدا کے بندو! ان مہینوں کی حرمت تو مشرکین عرب میں بھی تھی ،وہ بھی سیزفائر کرتے تھے ، لوٹ مار نہیں کیا کرتے تھے، آپ تو مسلمان ہو ، یہ جنگ کا سلسلہ روک دو ۔ اب بھی بعض علاقوں میں یہ روایت برقرار ہے ۔ ماضی قریب میں یمن اور شام میں جنگ چل رہی تھی تو ان سے کہا جاتا تھا کہ مسلمان کا خون بہانہ تو ویسے ہی منع ہے لیکن حرمت والے مہینوں میں حرمت مزید بڑھ جاتی ہے ، لہٰذا خدا کا خوف کرنا چاہیے ۔
مفسرین نے اس سے بڑھ کر بات لکھی ہے کہ حرمت والے مہینوں کی چونکہ حرمت ہے ،ان کا ایک تقدس ہے لہٰذا ان میں اعمال کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ، بعض مفسرین نے لکھا اجر بھی بڑھ جاتاہے اور جب حرمت کے اعتبار سے ، ادب کے اعتبار سے اعمال کی فضیلت بڑھ جاتی ہے تو اگلا پہلو بھی ہمارے سامنے رہنا چاہیے کہ ان میں گناہ کی شدت بھی بڑھ جاتی ہے۔ویسے تو گناہوں سے بچنا ہروقت ضروری ہے لیکن ان حرمت والے مہینوں میں بطور خاص اللہ سے ڈرنا چاہیے ۔ لیکن ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے؟ یہاں تو پورا سال سود خوری بھی چلے گی، لوٹ مار بھی چلے گی، حاجیوں کو بھی لوٹا جائے گا، عمرہ کرنے والوں کو بھی لوٹا جائے گا اور اس کے علاوہ بھی لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری طرح طرح سے رہے گی۔ حرمتیں پامال کی جائیں گی ،دوسروں کے حقوق ، دوسروں کی وراثت ہڑپ کر کے ، جائیدادوں پر قبضہ کرکے ، قوم کے پیسوں پر جاکر غول کے غول عمرہ بھی کررہے ہوں گے۔ قوم پہلے ہی سسک سسک کر مررہی ہے اس پر ٹیکسز مزید بڑھا دیے جائیں گے اور دوسری طرف کچھ لوگوں کے اثاثے، جائیدادیں اور منافع بڑھتے چلے جائیں گے۔ اپنی پوزیشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال نہ حرمت والے مہینوںمیں رکے گا اور نہ ہی سال بھر میں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!اس زمانے کے مشرک حرمت والے مہینوں کی حرمت کا لحاظ رکھتے تھے، قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ نہیں کرتے تھے ۔ لیکن یہاں مسلمان ہوکر بھی کوئی لحاظ نہیں رکھا جارہا ۔ حرمت والے مہینے اور کیا غیر حرمت والے مہینے سب میں چوری بھی چلتی ہے، ڈاکہ بھی چلتا ہے ، قوم کو لوٹا بھی جاتا ہے، قوم کو بیچا بھی جاتا ہے ، اللہ کے دشمنوں سے تعلقات استوار کیے جاتے ہیں اور اللہ کے دشمنوں کو موقع دیا جاتا ہے کہ اللہ کے مومن بندوں کو مارو، شہید کرو،ہم سب ان حرکتوں کے گواہ ہیں ۔
محرم کا مہینہ حرمت کے اعتبار سے بھی اور تاریخی اعتبار سے بھی اہم ہے ۔ چنانچہ بعض بڑی مستند روایات کے ساتھ تاریخی واقعات کا ذکر اس ماہ کی مناسبت سے ملتا ہے ۔ مثلاً سیدنا آدم ؑ نے اللہ کے حضور استغفار کا اہتمام اسی ماہ محرم میں کیا ، بعض روایت کے مطابق قبولیت دس محرم کو ہوئی ۔ ان کو اعزاز دے کر زمین پر بھیجے جانے کا معاملہ بھی اسی ماہ محرم میں ہوا ۔ اسی طرح نوح ؑ کی کشتی کا جودی پہاڑ پر ٹھہرنا ، مچھلی کے پیٹ سے یونس ؑ کو نجات ملنا بھی اسی ماہ محرم میں ہوا ۔ مستند روایات میں ہے کہ بنی اسرائیل کو فرعون اور آل فرعون سے نجات بھی دس محرم کو ملی تھی ۔ اسی وجہ سے یہود دس محرم کا روزہ رکھتے تھے ۔ عربوں کے ہاں بھی اس کی اہمیت تھی، روایات میں ذکر موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں دس محرم کو روزے کا اہتمام فرماتے تھے ۔ پھر جب ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہود بھی دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں ۔ پوچھنے پر یہود نے بتایا کہ بنی اسرائیل کو اس دن فرعون سے نجات دی گئی تھی اس لیے ہم شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم سے زیادہ ہم موسیٰ ؑ کے قریب ہیں لہٰذا ہم بھی اس دن روزے کا اہتمام کریں گے ۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ اس دن یہود بھی روزہ رکھیں اور ہم بھی رکھیں گے تو یہ مشابہت کا معاملہ نہیں ہوگا ؟فرمایا :تم مشابہت کے برعکس معاملہ کرو ۔ اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال نو یا گیارہ محرم کا روزہ بھی اس کے ساتھ ملا لوں گا ۔ یہ سنت تھی ۔ لیکن آج کیا ہورہا ہے ؟ چھٹی منائی جاتی ہے اور پیٹ بھر بھر کر کھانا کھایا جاتا ہے ، سنت میں تو چھٹی نہیں تھی اور نہ ہی پیٹ بھر بھر کر کھانے ملتے تھے۔ سنت میں تو اس دن روزہ تھا ۔
اسلامی تاریخ میں شہادت حسین رضی اللہ عنہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے وہ بھی دس محرم کو پیش آیا ۔ آپ ؓ نے یہ عظیم شہادت اس دین کے لیے پیش کی جو آپ ؓ کے ناناجان ﷺ پر مکمل ہو گیا تھا ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر اس دین کی تکمیل کا اعلان ہو گیا تھا ۔ اس مکمل دین کی حفاظت ، اس کی عظمت اور اس کی شان کے لیے سیدنا حسین ؓ نے کربلا میں عظیم قربانی پیش کی اور اُمت مسلمہ کے لیے یہ عظیم درس چھوڑا کہ دین پر کوئی آنچ نہ آنے پائے چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جائے ۔ لیکن اس دن کی مناسبت سے آج اُمت میں کیا ہورہا ہے ۔ چھٹیاں منائی جاتی ہیں اور ایسا ایک جنگ کا ماحول پیدا کر دیا جاتاہے کہ عوام کے لیے کئی مشکلات کھڑی ہوجاتی ہیں ۔ مارکیٹیں تو سات محرم کو ہی بند ہوجاتی ہیں ۔ حضرت حسین ؓ جان دیں حق کی خاطر ، حضرت حسین ؓ کے گھر والے جان دیں ، حضرت حسین ؓ کے والد سمیت تین خلفاء راشد جان دیں حق کی خاطر ، 23 برس کی جدوجہد میں 250سے زائد صحابہؓ جان دیں حق کی خاطر ، دین کی سربلندی کی خاطر اور اُمت چھٹیاں منائے،لانگ ویک اینڈ مل جائے تو پکنک پروگرام بنائے ، کھانا پینا اور عیش اڑنا ، کیا یہی اُمتی ہونے کے تقاضے ہیں ؟ اللہ کے رسول ﷺ اور اُن کے صحابہ ؓ نے تو یہ سب قربانیاں غلبہ دین کے لیے دی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اسی جدوجہد کو اُمت کے لیے اُسوہ حسنہ بنایا تھا اور فرمایا تھا : {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:21)’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘
آج اُمت کیا کررہی ہے؟ اللہ ہمیں ہدایت دے اور محمد مصطفیٰﷺ کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ وہاں تو جانیں چلی گئی ہیں اور یہاں اُمت آپ ﷺ کے مشن کے لیے پسینہ بھی دینے کو تیار نہیں ۔ دین کے لیے وقت نہیں لیکن دنیا کے حصول کے لیے سارا وقت ہے۔ بس سادہ سادہ اور میٹھا میٹھا دین چاہیے ۔ جبکہ حالات یہ ہیں کہ دشمن سر پر کھڑا ہے، سلامتی داؤ پر لگی ہے اور دشمنوں کی طرف سے پریشر بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ،ا یک سے بڑھ کر ایک شرائط ہم پر مسلط کی جارہی ہیں اور ہم مانتے چلے جارہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے اور پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024