(اداریہ) آئی ایم ایف اور پاکستان (2) - ایوب بیگ مرزا

10 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

آئی ایم ایف اور پاکستان (2)

(گزشتہ سے پیوستہ)
پاکستان کے ساتھ 9 ماہ کے سٹینڈ بائی معاہدہ کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ اہداف پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوگا۔ پاکستان کے لیے بجٹ میں مقرر کردہ اہداف پر عمل درآمد لازم ہوگا۔ بجلی، گیس کی قیمت میں اضافہ جبکہ زراعت، تعمیرات پر ٹیکس بڑھانا ہوگا، کوئی نئی ٹیکس چھوٹ نہیں دی جائے گی۔ تنخواہیں، پنشن کے اخراجات کم کرنا ہوں گے۔ ڈالر کا اوپن اور انٹر بینک ریٹ میں 1.25 فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہوگا۔ حکومت سٹیٹ بینک سے نیا قرض نہیں لے گی۔ پاکستان کو مہنگائی کم کرنے کے لیے مانیٹری پالیسی مزید سخت کرنا ہوگی۔ یاد رہے کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے مقرر پالیسی ریٹ (شرح سود) اس وقت 22% ہے۔ توانائی کے شعبے کی سبسڈی بتدریج کم کی جائے گی، اس سلسلے میں سبسڈی کے خاتمے کا تیسرا مرحلہ شروع کرنے کی شرط عائد کی گئی ہے۔ بجلی کے سرکلر ڈیٹ کے خاتمے اور پوری پیداواری لاگت کی وصولی کے لیے نئے مالی سال 24-2023ء میں بجلی کی قیمت میں 16 بار اضافہ کیا جائے گا گیس 2 بار مہنگی کی جائے گی جس سے کاروباری اور گھریلو صارف دونوں بُری طرح متاثر ہوں گے۔ ایکسپورٹ ری فنانس سکیمو ں کو بند کرنے کے لیے ایک مرحلہ وار پلان پر عمل درآمد کی شرط بھی عائد کی گئی ہے دیگر کرنسیوں میں کاروبار کرنے (ملٹی کرنسی) کے نظام کو بھی ختم کرنے کی شرط عائد کی ہے۔ خسارے کا سبب بننے والی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کے بارے میں ایک واضح آنر شپ پالیسی بنانے کا کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں دو ایل این جی پاور پلانٹس، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، فرسٹ ویمن بینک، چھوٹے سرکاری بینکوں کی نجکاری کرنے اور بڑے اداروں کے حصص کی فروخت سے ان کی بحالی کے لیے اقدامات کا آغاز کرنے کا کہا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے کم از کم 2 ارب ڈالر کے یورو بانڈ جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔ معاہدے کے مطابق نئے اقدامات کرنے اور پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے آئی ایم ایف سے مشاورت کی جائے گی۔
پاکستان آئی ایم ایف کو بروقت مستند ڈیٹا فراہم کرے گا، پروگرام میں رہتے ہوئے پاکستان انٹرنیشنل ادائیگیاں نہیں روکے گا۔ محصولات بڑھانے کے لیے سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ایف بی آر کیش کی صورت میں ریفنڈ کی ادائیگیاں کرنے سے گریز کرے گا۔ آئی ایم ایف بنفس نفیس سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ کرے گا۔ پاکستان کی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی سہ ماہی رپورٹ آئی ایم ایف کو منظوری کے لیے دی جائے گی۔ گویا پاکستان ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کو قبول کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 25.9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ پاکستان کی معیشت سست شرح نمو کا شکار رہے گی۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ مالی سال 2024ء میں بےروزگاری کی شرح 8 فیصد ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف نے مزید کہا کہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ معیشت کا 7.5 فیصد رہنے کا امکان ہے، معیشت میں قرضوں کا حجم 74.9 فیصد رہے گا۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ برائے جون 2023ء کے مطابق پاکستان کا کل واجب الادا قرض بمعہ سود 72.4 کھرب روپے ہے جو ہمارے GDP کا تقریباً 90% ہے۔ بیرونی قرض 140 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔
یاد رہے کہ اپریل 2023ء تا جون 2026ء کے درمیان پاکستان کو عالمی اداروں اور ممالک کا تقریباً 75.5 ارب ڈالر قرض بمعہ سودادا کرنا ہے۔ گزشتہ 15 برس کے دوران واجب الادا قرض کی تاریخ یہ ہے کہ 2008ء میں کل 6.4 کھرب روپے تھا۔ 2013ء میں کل 15 کھرب روپے (135% اضافہ) جس میں بیرونی قرضہ میں اضافہ 22 فیصد رہا جو 42.8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 52.4 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ 2017ء میں کل 22 کھرب روپے جس میں بیرونی قرضہ 52.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 75.5 ارب ڈالر ہوگیا۔ 2022ء میں کل 39 کھرب روپے جس میں بیرونی قرضہ 75.5 ارب ڈالر بڑھ کر 110.6 ارب ڈالر ہوگیا۔ 2023ء کے مارچ تک کل واجب الادا قرضہ 60 کھرب تک جا پہنچا جس میں بیرونی قرضہ 140 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ جس میں سے 35 کھرب روپے اندرونی قرضہ ہے۔ جبکہ 22 کھرب روپے بیرونی قرضہ ہے۔ اس میں چین 17 ارب ڈالر، 11 ارب ڈالر پیرس کلب، 33 ارب ڈالر ملٹی لیٹری ڈونرز اور 10 ارب ڈالر آئی ایم ایف کو واجب الادا شامل ہیں۔پاکستان امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر کا بھی قرض دار ہے۔ علاوہ ازیں 12 ارب ڈالر کے قریب سکوک اور یورو بانڈز کی مد میں واجب الادا ہے۔
وفاقی بجٹ برائے 24-2023ء میں آئی ایم ایف کی ہدایات کو بھرپور انداز میں ملحوظِ خاطر رکھا گیا۔ 14.5 کھرب روپے کے کل بجٹ میں 7.4کھرب روپے تو قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں خرچ ہوگا۔ یہ بجٹ کے کل حجم کے 50% سے بھی زائد ہے۔ پھر یہ کہ ٹیکسوں کا ابتدائی تخمینہ 9.4کھرب روپے تھا جس میں 24 جون 2023ء کو 415 ارب روپے کا اضافہ کر دیا گیا ٹیکس میں اضافے کے بغیر بجٹ کے پتلے میں سے ہوا نکل گئی۔ بجٹ خسارہ کو پورا کرنے کے لیے 7.5 کھرب روپے تک کا مزید قرضہ درکار ہو سکتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023ء کے دوران بیرون ملک پاکستان سے حاصل ترسیلات میں 4ارب ڈالر جبکہ برآمدات میں بھی 4 ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔ گویا 3 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف معاہدے کے لیے جو سخت شرائط پوری کی گئیں اُن کے نتیجہ میں 8.2 ارب ڈالر کا تو یہی نقصان ہوگیا۔
آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو 2ارب ڈالر قرض فراہم کیا ہے اور متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو ایک ارب ڈالر کا قرض دیا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے پاکستان کو نہ صرف مختلف اشیاء کی قیمتیں بڑھانی ہوں گی بلکہ ریونیو بڑھانے کے لیے سخت اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔ آئی ایم ایف معاہدہ کے بعد پاکستان توانائی کے شعبے کی لاگت وصول کرنے کے لیے ٹیرف بڑھائے گا، پاکستان کو صارف نرخ ریکارڈ مہنگائی کے باوجود بڑھانا ہوں گے۔ اسٹیٹ بینک کو درآمدی پابندیاں ختم کرنا ہوں گی، درآمدات پر پابندی سے معاشی نمو متاثر ہوئی ہے، قرض کا ڈالر آئے گا تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھ جائیں گے۔معاہدے سے 3.5 ارب ڈالر کے ذخائر بڑھ کر 7 سے 8 ارب ڈالر تک جا پہنچیں گے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ مزید قرض لے کر اگست کے وسط تک زرمبادلہ کے ذخائر 15-16 ارب ڈالر تک پہنچا دیئے جائیں گے۔ حکومت کو پرائیویٹائزیشن کے لیے مختص 15ارب روپے کئی گنا بڑھانے پڑ سکتے ہیں۔ ملکی اثاثہ جات کو گروی رکھوانا یا لیز پر دینا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ سودی قرضہ دینے والے ملک چین سے مزید سودی قرضہ حاصل کیے جانے کاامکان ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے پاکستان کو 9 ارب ڈالر قرض فراہمی کے وعدے ہوئے ہیں تاہم پاکستان کو عالمی قرضوں کی ادائیگی سمیت 22 ارب ڈالر درکار ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک وقت تھا کہ ہم کہا کرتے تھے کہ اگر پاکستان اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کو کنٹرول کرلے، اگر اشرافیہ خزانے کی جو لوٹ مار کرتا ہے وہ ختم ہو جائے، وزراء اور سول ملٹری افسران کی مراعات ختم کر دی جائیں، بچت کو قومی سطح پر اور عوامی سطح پر سختی سے لاگو کیا جائے وغیرہ وغیرہ تو پاکستان IMF کے چُنگل سے نکل سکتا ہے لیکن آج جس معاشی تباہی سے ہم دو چار ہوئے ہیں اب صرف اور محض یہ اقدامات ہمیں IMF کے شکنجہ سے نجات نہیں دلا سکیں گے اب ہمیں ایک ایسے مردِ قلندر کی ضرورت ہے جو ہرچہ بادا باد کا نعرہ لگا کر میدان میں اترے اور تمام ملکی اور غیر ملکی سود کی ادائیگی یہ کہہ کر بند کر دے کہ ہمارا دین، ہماری شریعت سودی لین دین کی اجازت نہیں دیتے۔ لہٰذا ہم حاضر یا ماضی کا کوئی سود ادا نہیں کریں گے البتہ اصل زر واپس کرنے کے ہم پابند ہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ نے ایف 16 طیاروں کی پوری رقم پاکستان سے ایڈوانس وصول کرکے ہمیں طیارے دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ پریسلر ترمیم اب ہمیں پاکستان کو طیارے دینے میں رکاوٹ ہے تو ہم کیوں نہیں کہہ سکتے کہ ہماری شرعی عدالت نے سود کو حرام مطلق قرار دیا ہے لہٰذا ہم سود ادا نہیں کریں گے۔ پھر حکمران اور عوام ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں چاہے پیٹ پر پتھر ہی کیوں نہ باندھنے پڑیں۔
آخر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف ایسے ممالک جو پہلے ہی قرض کے بوجھ تلے بُری طرح دبے ہوتے ہیں اور یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ وہ کبھی اس قرض کو ادا نہیں کر سکیں گے اُن کو مزید قرض کیوں دیے جاتا ہے۔ جواب معروف معیشت دان اور آئی ایم ایف کے سابق اعلیٰ عہدیدار جان پرکنز نے اپنی کتاب "Confession of an Economic Hitman" میں دیا ہے کہ آئی ایم ایف سرمایہ دارانہ نظام کا وہ آلہ ہے جس کے ذریعہ ترقی پذیر ممالک کو مقروض بلکہ غلام بنایا جاتا ہے۔ ہماری پون صدی کی تاریخ بھی معاشی اعتبار سے اس غلامی کی کہانی سناتی ہے۔ اب غلامی کا قلادہ صرف اس صورت میں اتار پھینکا جا سکتا ہے کہ ہم شریعت محمدی ﷺ پر سختی سے عمل کرتے ہوئے سودی معیشت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیں۔