(زمانہ گواہ ہے) پاکستان کی سیاسی ومعاشی بدحالی کاذمہ دار کون؟ - وسیم احمد

9 /

پاکستان کے حالات نے ثابت کردیا ہے کہ اب آخری حل وہی ہے جس کی نشاندہی ڈاکٹرا سراراحمد ؒ نے

کی تھی کہ قرآنی تربیت کی روشنی میں ایسے افراد تیار ہوں جو اس باطل نظام کو اس کی جڑوں سے

اُکھاڑ پھینکیں اور اس کی جگہ اسلامی اصولوں کے مطابق نیا نظام قائم کریں : ایوب بیگ مرزا

اگر افغان طالبان بھی امریکی دباؤ قبول کر لیتے اور اشرافیہ کو حکومت میں شامل کر تے تو آج

افغانستان کا حال بھی شاید ہم سے مختلف نہ ہوتا: رضاء الحق

پاکستان کی سیاسی ومعاشی بدحالی کاذمہ دار کون؟ کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: پاکستان اس وقت مشکل ترین حالات سےگزر رہا ہے اور مختلف قسم کے بحران اس کودرپیش ہیں۔ پاکستان کو اس حال تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟
رضاء الحق: کچھ معیارات ایسے ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے کہ کوئی ریاست قائم ہونے کے بعد کامیابی کی طرف جارہی ہے یا نہیں ۔ سب سے اہم کسی ریاست کا اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہوتا ہے ۔ ہم بدقسمتی سے آدھا ملک 1971ء میں کھو چکے ہیں اور باقی ماندہ ملک کی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں ۔ ایک طرف ہمارا ازلی دشمن بھارت ہے جو دراندازی کر رہا ہے ، دوسری طرف دہشت گردی کا بھی خطرہ ہے ۔ پھر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کوئی ریاست اپنے قیام کے بعد کس حد تک اپنا آئینی اور اخلاقی جواز برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظردوڑائی جائے تو اخلاقی سطح پہ بھی ہم پسپا ہی ہو رہےہیں اور آئینی حوالے سےبھی ریاست اپنا اعتماد کھو رہی ہے ۔ ہم اپنے آئینی تقاضوں اور اصولوں کو خود ہی پاؤں تلے روندتے رہے ہیں۔ اسی طرح ریاست اپنے اندر سیاسی ، معاشی اور معاشرتی سطح پر عدل و انصاف قائم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن اس دائرے میںبھی ہم عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں ، پھر یہ کہ ہمارے آئین میں طے کر دیا گیا تھا کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالیٰ کی ہوگی اور کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہیں ہو گی لیکن اس سطح پر بھی ہم نے آئین کی پاسداری نہیں کی۔ جہاں تک بحیثیت مسلمان قوم ہمارا تعلق ہے تو ایک اسلامی معاشرے کا قیام ہماری ذمہ داری تھی ۔ ہمارے معاملات باہمی مشاورت سے حل ہوتے ، جیسا کہ فرمایا گیا :
{وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ص}(الشوریٰ:38) ’’اور ان کا کام آپس میں مشورے سے ہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح سورہ الحج میں ارشاد ہوتاہے :
’’وہ لوگ کہ اگر انہیں ہم زمین میں تمکّن عطا کر دیں تو‘وہ نماز قائم کریں گے‘اور زکوٰۃ ادا کریں گے‘اور وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔ اور تمام امور کا انجام تو اللہ ہی کے قبضہ ٔقدرت میں ہے۔‘‘ (آیت:41)
ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا لہٰذا ہماری یہ ذمہ داری تھی کہ ہم یہاں نماز ، زکوٰۃ و عشر ، عدل و انصاف کا نظام قائم کرتے ۔یعنی مختصراً یہ کہ اپنی سیاست ، معیشت اور معاشرت کو اسلامی اصولوں کے مطابق قائم کرتے ۔ اسی طرح بحیثیت اُمتی ہمارے اوپر ایک اور انتہائی اہم ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے ۔ سورہ آل عمران میں فرمایا:
’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘تم حکم کرتے ہو نیکی کا‘اور تم روکتے ہو بدی سے‘اور تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر۔‘‘ (آیت:110)
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ۔ اس پر غور کیا جائے تو اسلام کا پورا نظام عدل اجتماعی سمجھ آجاتاہے اور اس کا عوام کی فلاح اور بہبود سے گہرا تعلق ہے ۔ ریاست کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہوتا کہ حکومت کون کرے بلکہ بنیادی مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کے حقو ق کس طرح فراہم کیے جائیں ، ان کی فلاح اور بہبود کا خیال کس طرح رکھا جائے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی اُخروی فلاح کا سامان کرے ۔ یہ بحیثیت مسلمان قوم ہماری ذمہ داریاں تھیں ۔ لیکن بدقسمتی سے ہوا یہ کہ کالونیل دور میں انگریز سامراج اور اس کی پالی ہوئی سیکولر اشرافیہ نے جو نظام ترتیب دیا تھا وہی آزادی کے بعد جوں کا توں برقرار رہا اور وہی اشرافیہ اس پر قابض رہی۔ جس طرح کالونیل دور میں عوام کا استحصال کرکے اس اشرافیہ نے مفادات حاصل کیے اسی طرح آزادی کے بعد بھی اس نے عوام کے حقوق سلب کرکے ذاتی فوائد اُٹھائے ۔ اس اشرافیہ میں سول اور ملٹری بیوروکریسی بھی شامل ہے ، جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار بھی شامل ہیں ، عدلیہ اور سیاست کے کردار بھی شامل ہیں ۔ یہ سب پاکستان کو موجودہ حالت تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں ۔
سوال: پاکستان میں آئندہ انتخابات چاہے اس سال کے آخر میں ہوجائیں یا نئے سال کے آغاز میں ہوجائیں ، آپ کیا کہتے ہیں، ان انتخابات کے انعقاد سے پاکستان کے حالات میں کچھ بہتری کی توقع ہے؟
ایوب بیگ مرزا: دنیا میں جوحقیقی جمہوری ممالک ہیں وہاں تو یہ سوال عجیب لگتا ہے کہ کیا انتخابات وقت پر ہوں گے ۔ یعنی وہاں پر یہ تصور ہی نہیں ہے کہ انتخابات وقت پر نہیں ہوں گے ۔ امریکہ میں الیکشن کا دن تک مقرر ہے ، اس سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتا ۔ اس کے بعد انتقال اقتدار کا دن بھی مقررہے ، انہوں نے اپنا ہر کام وقت پر کرنا ہوتاہے ۔ اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی جمہوریت کا بنیادی تقاضا ہے ۔ پاکستان کے آئین میں بھی انتخابات کا وقت مقرر ہے ۔ اگر اسمبلی وقت سے قبل ٹوٹ جائے تو تین ماہ کے اندر الیکشن ہوں گے ۔ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرلے تو دو ماہ میں الیکشن ہوں گے۔ لیکن ہمارے ہاں آئین کی خلاف ورزی پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور اب تو سرعام ہورہی ہے ۔ اس سے پہلے جمہوری دور میں ہمیشہ الیکشن وقت پر ہوئے ہیں یا وقت سے قبل ہوئے ہیں ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ جمہوری حکومت نے انتخابات وقت پر نہ کرا کر آئین کی خلاف ورزی کی ہو ۔ ایسا بھی پہلے نہیں ہوا کہ الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی رد کر دیا گیا ہو ۔ یہ پہلی دفعہ ہواہے۔جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا انتخابات کے انعقاد سے پاکستان کے حالات میں بہتری آئے گی تو بہتری آئے نہ آئے لیکن آئین کی رٹ قائم ہو جائے گی ۔ دیکھیں ! پاکستان ایک فیڈریشن ہے جو پانچ صوبوں ، وفاق ، آزاد کشمیر اور فاٹا پر مشتمل ہے ۔ آئین بحال ہوگا ، الیکشن ہوں گے تو یہ فیڈریشن قائم رہے گی ۔ پاکستان اسلام کے نام پر جمہوریت کے ذریعے قائم ہوا تھا ۔ اگر 1946ء کے الیکشن میں مسلم لیگ سویپ نہ کرتی تو پاکستان کبھی نہ بنتا ۔ اسی طرح پاکستان جمہوریت کے ذریعے ہی قائم رہ سکتاہے ۔ پاکستان کی سلامتی اور انتخابات آپس میں جڑے ہوئے ہیں ۔ میں  نے ندائے خلافت کے اداریے میں بھی یہ بات لکھی ہے کہ ہم نے انتخابات میں جس قدر دیر کر دی ہے اس کے بہت بُرے نتائج سامنے آئیں گے اور اگر اب بھی جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ نگران سیٹ اپ طویل مدتی ہوگا تو یہ انتہائی سنگین نتائج کا حامل ہوگا ۔ میری رائے ہے کسی کو اس سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے کہ اگر اب بھی انتخابات کروا دیے جائیں تو پچاس فیصد چانسز ہیں کہ پاکستان کسی بڑے حادثے سے بچ جائے گا لیکن اگر انتخابات وقت پر نہ ہوئے تو خدانخواستہ کوئی بڑا حادثہ رونما ہو سکتاہے ۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ کسی ملک کی تعمیرو ترقی میں نظام عدل کا بہت اہم رول ہوتا ہے ۔ ہم اپنی عدلیہ کو اگر دیکھیں تو 52 ہزار کیسزصرف سپریم کورٹ میں زیر التواء ہیں ۔ زیریں عدالتوں میںتو یہ تعداد لاکھوں میں ہوگی ۔ اگر کسی دوسرے ملک میں اتنے کیسز pendingہوں تو وہاں عدلیہ کی نیندیں حرام ہو جائیں ۔ یہاںعدالتوں میں گرمیوں کی چھٹیاں بھی چل رہی ہیں اور اگر کسی کو کھانسی بھی آجائے تو سماعت ملتوی ہو جاتی ہے ۔ صرف مخصوص کیسز پر سماعت ہو رہی ہے باقی عوام کو انصاف کی فراہمی معما بنی ہوئی ہے، آپ ہماری عدلیہ کی پون صدی کی تاریخ پر کیا کہیں گے ؟ 
رضاء الحق:عدل اجتماعی کا تصور تو ہر ریاست میں رہا ہے موجودہ دور کی نیشن سٹیٹس میںinstitutionalized ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز میں بھی ہے ۔ دور خلافت میں تو باقاعدہ عدل اجتماعی کا نظام قائم تھا ، بعد ازاں ملکوکیت آگئی تو تب بھی زیریں سطح پر عدل اجتماعی کا نظام قائم رہا ہے ۔ کسی بھی ریاست میں پالیسیاں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بنتی ہیں ۔ خاص طور پر اسلامی ریاست کا آئین اس بات کا ضامن ہوتاہے کہ وہاں قرآن و سنت کی بالادستی ہوگی ۔ اس صورت میں عدل و انصاف کو لوگوں کے دروازوں تک پہنچانا بنیادی طور پر عدلیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی وزیراعظم کا بڑا مشہور قول ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس سے پوچھا تھا کہ کیا برطانیہ میںلوگوں کو انصاف مل رہا ہے ، چیف جسٹس نے کہا مل رہا ہے تو وزیراعظم نے کہا تھا کہ پھر ہم جنگ جیت جائیں گے ۔ عدل کی غیر مسلموں کے ہاں بھی اتنی اہمیت ہے ، جہاں تک اسلام کی بات ہے تو خلافت راشدہ میں عدل کو اولین ترجیح دی جاتی رہی ہے ۔ یہاں تک کہ خلیفہ وقت خطاب کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کو ٹوک دیا گیا کہ جو کپڑے آپ نے پہنے ہوئے ہیں ان کا حساب دیں کہ  کہاں سے آئے ۔ خلیفہ نے اس کاباقاعدہ جواب دیا۔ اسی طرح خلیفہ چہارم کے خلاف ایک غیر مسلم مقدمہ دائر کرتاہے اور خلیفہ عدالت میں حاضر ہوتے ہیں اور فریق ثانی کے مساوی کھڑے ہو جاتے ہیں ، یہاں تک کہ گواہی میسر نہ آنے کی وجہ سے فیصلہ ان کے خلاف آجاتا ہے اور وہ قبول کرتے ہیں ۔ ایسی مثال تو کسی بھی دوسرے معاشرے میں نہیں ملتی۔ لیکن پاکستان میں عدلیہ کے نظام پر بھی اشرافیہ کا کنٹرول ہے اور وہی اشرافیہ پورے نظام کو یرغمال بنائے ہوئے ہے ۔ ایسے نظام کوkleptocracy کہا جاتاہے جس میں بظاہر عوام کو جمہوریت کے خواب دکھلائے جارہے ہوں لیکن حقیقت میں عوام کے حقوق پامال کیے جارہے ہوں اور بار بار عوام کو الیکشن کے نام پر دھوکہ دیا جارہا ہو لیکن حقیقت میں وہی اشرافیہ با ربار حکومت میں آرہی ہو ۔ لیکن جیسا کہ ایک مشہور کہاوت ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو سارا وقت بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ سارے لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن سب لوگوں کو ہر وقت بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ اب پاکستان کے عوام میں شعور آتا جا رہا ہے اور وہ اس اشرافیہ کو پہچان چکے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے عدالتی نظام پر سے بھی عوام کا اعتماد اُٹھ چکا ہے ۔ یہی عدالتیں ہیں جنہوںنے مارشل لاء کو بھی سپورٹ کیا ہے ، نظریہ ضرورت کو ایجاد کیا ہے ۔
سوال: کہا یہ جاتا ہے کہ justice delayed is justice denied ۔پاکستان کی عدلیہ کی 76 سالہ تاریخ آپ کے سامنے ہے ، اس پر آپ کیا کہیں گے ؟
ایوب بیگ مرزا:پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی ہماری عدلیہ نے نظریہ ضرورت ایجاد کر لیا تھا جب خود ساختہ گورنر جنرل ملک غلام محمدنے خواجہ ناظم الدین کی قانونی حکومت کو ختم کیا تھا ، ہائی کورٹ نے ناظم الدین کے حق میں فیصلہ دیا لیکن اس فیصلے کے خلاف جب خود ساختہ گورنر جنرل سپریم کورٹ میں گئے تو وہاں بیٹھے جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کرکے پاکستان کی عدلیہ کے چہرے پر وہ داغ لگا یا جو کبھی نہیں دھل سکے گا ۔ وہاں سے ہماری عدلیہ میں بگاڑ پیدا ہوا اور پھر یہ بگاڑ بڑھتا ہی چلا گیا ، یہاں تک کہ اسی عدلیہ نے مارشل لاز کو بھی تحفظ فراہم کیا ۔ کبھی PCO کے تحت حلف اُٹھائے ۔ آج عالمی رینکنگ میں پاکستانی عدلیہ 140 نمبر پر ہے ۔ عدلیہ کا حال یہ ہے کہ جنرل ضیاء نے جب مارشل لاء لگایا تو اگلے دن اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنا تھا۔ رات کو ضیاء الحق اور چیف جسٹس انوارالحق ایک ہی ہوٹل میںذرا فاصلے پر کھانا کھارہے تھے ، جنرل ضیاء نے اپنے ایلچی کو بھیجا کہ چیف جسٹس سے پوچھو کل آپ کیا فیصلہ کرنے والے ہیں ؟ جواب ملا فیصلہ مارشل لاء کے حق میں ہوگا ۔ جنرل ضیاء نے ایلچی سے کہا وہ تو مجھے پتا ہے مگر مجھے یہ پوچھ کر بتاؤ کہ کیا مجھے بحیثیت چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر آئین میں ترمیم کرنے کا حق دیں گے یا نہیں۔ اس کا فوری اثر یہ ہوا کہ چیف جسٹس رات کو گھر جانے کی بجائے سیدھے آفس گئے ، فائلیں  نکالیں اور راتوں رات جنرل ضیاء الحق کو آئین میں ترمیم کا حق دینے کا فیصلہ تیار کرلیا ۔ اندازہ کریں ایک فرد واحد کو یہ حق دے دیا کہ وہ آئین کو روندتے ہوئے کروڑوں عوام پر جو مرضی ہے قانون نافذ کرے ۔ جنرل ضیاء نے ہی کہا تھا کہ یہ آئین سولہ صفحات کا کاغذ کاپرزہ ہے۔البتہ پھر بھی جنرل ضیاء نے آئین کے ساتھ اس قدر کھلواڑ نہیں کیا جس طرح آج آئین واقعی کاغذ کا پرزہ بن چکا ہے ۔ عوام کا قصور یہ ہے کہ اس نے کبھی آئین کے تحفظ کے لیے احتجاج نہیں کیا، کبھی اس کے لیے سڑکوں پر نہیں نکلے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس نے چاہا آئین کو روندا۔ عدلیہ نے اسی طرح  مشرف کو آئین کے ساتھ کھلواڑ کا حق دے دیا اور بیس کروڑ عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ لیا گیا ۔
سوال: سیاسی جماعتیںانیس بیس کے فرق کے ساتھ ساری ایک جیسی ہیں۔ جس پارٹی کو حکومت میں لانا ہوتا ہے اس میں ایک مخصوص گروپ ( الیکٹ ایبلز ) کو شامل کر دیا جاتاہے ۔ وہ نئے دعوؤں اور نعروں کے ساتھ حکومت میں آتے ہیں ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان اس حالت کو پہنچا ہے ۔ کیا ہماری سیاسی جماعتوں میں سے کوئی عوام کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے ؟
رضاء الحق: اپنی strengthکے لحاظ سے اس وقت پاکستان میں دو ہی بڑی جماعتیں ہیں ۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ۔ البتہ پیپلز پارٹی سمیت ان کو تین شمار کر سکتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کو حالیہ توڑ پھوڑ سے پہلے یہ برتری حاصل تھی کہ اس کاووٹ بینک چاروں صوبوں میں موجود تھا ، تین صوبوں اور مرکز میں اس کی حکومت تھی ۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کا نمبر آتاہے ، پنجاب میں اس کے ووٹرز ہیں لیکن سندھ میں اس کا کوئی نشان نہیں ہے ۔ پیپلز پارٹی سندھ میں وڈیروں ، جاگیرداروں اور گدی نشینوں کی وجہ سے زندہ ہے۔ JUIکا زیادہ تر ووٹ بینک خیبر پختونخوا میں تھا لیکن پچھلے الیکشن میں اس کو بہت کم سیٹیں ملی ہیں ۔ پاکستان کی انتخابی سیاسی میں چند چیزیں بہت اہم ہیں ۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن خود ان کے اندر جمہوریت نہیں ہے ۔ یا تو موروثیت کا غلبہ ہے یا پھر الیکٹ ایبلز کی بھر مار ہے ۔ جب مخصوص قوتیں چاہتی ہیں تو فاروڈ بلاک بناکر کسی پارٹی کا تیاپانچہ کرکے ان کسی دوسری پارٹی میں شامل کر دیا جاتاہے اور جب اگلی حکومت بنتی ہے تو اس میں بھی وہی چہرے نظر آتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے چاروں صوبوں میں جو چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ہیں ان کو بھی استعمال کیا جاتاہے ۔ ہماری ایک مذہبی جماعت ہر جیتنے والی پارٹی کے ساتھ شامل ہوتی ہے ۔ الغرض کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی میں جمہوریت نہیں ہے اور نہ ہی حکومت میں آنے کے بعد وہ جمہوریت کی پاسدارہوتی ہیں۔ اسی طرح جن کے ہاتھ میں طاقت ہے ان کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو دو تہائی اکثریت نہ مل سکے ۔ 1997ء میں جب نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملی تھی تو ان کا تخت الٹ دیا گیا ۔ اس کے بعد کنٹرولڈ پارلیمنٹ ہی وجود میں لائی جاتی رہی تاکہ وہ دھڑلے کے ساتھ فیصلے نہ کرسکے ۔ ان حالات میں سیاسی پارٹیاں اپنی پالیسیوں میں تسلسل بھی نہیں رکھ پاتیں ۔ سیاست کےمیدان میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی عدلیہ کی مداخلت ہو تاکہ عوام خود کسی پارٹی کو منتخب کریں اور کسی کو rejectکریں ۔ لیکن یہاں   گنگا اُلٹی بہتی ہے جس کی وجہ سے عوام کا اعتماد اُٹھ چکا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آخرکار ملک میں انتشار اور فساد پیدا ہوگا ۔
ایوب بیگ مرزا:انتخابات کا جاری رہنا ہمیشہ فائدہ مند ہوتاہے ۔ آپ دیکھیں کہ پہلے الیکٹ ایبلز کا سیاست اور حکومت میں بڑا رول ہوتا تھا اور وہ کسی بھی پارٹی کا پانسہ پلٹ دیتے تھے لیکن پچھلے دس پندرہ سال سے جو الیکشن ہو رہے ہیں ان کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب الیکٹ ایبلز کی زیادہ حیثیت نہیں رہی ۔ اب عوام الیکٹ ایبلز کی بجائے عوامی نمائندوں کو ترجیح دے رہے ہیں ۔کے پی کے کے بلدیاتی انتخابات میں بھی یہ چیز سامنے آئی ہے ۔ اگر پاکستان میں انتخابات ہوتے رہے تو آپ دیکھیں گے کہ الیکٹ ایبلز کا سیاست میں کوئی رول نہیں رہے گا ۔ لیکن اگر انتخابات کا سلسلہ روک دیا گیا جیسا کہ خبریں آرہی ہیں تو پھریہ سب پرانی خرابیاں واپس آجائیں گی ۔
سوال: پاکستان میںجو سیاسی اور معاشی حالات پیدا ہو چکے ہیں ان حالات میں عوام کے پاس سوائے سڑکوں پر نکلنے کے اور کوئی راستہ نہیں بچا ۔کیا پاکستان کو مستقبل میں اندرونی سطح پر بھی چیلنجز درپیش ہوں گے ؟ 
ایوب بیگ مرزا: میں سمجھتا ہوں کسی بھی ملک میں اگر سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو معاشی استحکام بڑا مشکل ہوجائے گا۔پاکستان میں اس وقت سیاسی عدم استحکام غیر یقینی کی صورت حال پیدا کر رہا ہے ، ایسی صورتحال میں معاشی استحکام نہیں آسکتا ۔ اکثر مارشل لاء کے دور میں کچھ معاشی استحکام آجاتاہے جیسے جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے مارشل لاز میں تھوڑ امعاشی استحکام آیا لیکن یہ بھی عارضی ثابت ہوا ۔ مارشل لاء کا نقصان زیادہ ہوتاہے ۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو آج سیاسی عدم استحکام نے یہ صورتحال پیدا کر دی ہے کہ کھلم کھلا کہا جارہا ہے ہم پہلے IMFسے پوچھیں گے پھر فلاں فلاں کام کریں گے ۔ IMFسے پوچھنا پڑے گا کہ بجلی کے صارفین کو کچھ رعایت دیں یا نہ دیں ۔ یہ صورتحال اندرونی سطح پر بھی پاکستان کو چیلنجز سے دوچار کر سکتی ہے ۔
سوال: افغانستان طویل عرصہ تک جنگ میں رہنے والا تباہ حال ملک تھا مگر ورلڈ بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان کے معاشی حالات پاکستان سے کہیں زیادہ بہتر ہو رہے ہیں ۔ وہاں ایک ڈالر 73 افغانی کا ہے اور پاکستان میں اس وقت 300 کا ہے ۔ وہاں سیاسی استحکام بھی ہے، ان کی پالیسیوں میں ایک تسلسل ہے ، اس کی کیا وجہ ہے ؟  کیا پاکستان اس طرز پر اپنی معیشت کو استحکام نہیں دے سکتا ؟ 
رضاء الحق: یقیناً ہمارے لئے تو انتہائی خوشی کی بات ہے کہ ایک برادر اسلامی ملک کی معیشت دن بدن ترقی کرتی جا رہی ہے ۔جہاں تک نظام کا تعلق ہےتو ایک جگہ کا نظام شایدسوفیصد دوسری جگہ replicate تو نہ ہو سکے لیکن ان کے اچھے اصولوں کو اپنایا جا سکتاہے۔ افغان حکومت نے بے انتہا مشکلات اورسازشوں کے باوجود اپنی معیشت کو ترقی دی ہے ، وہاں بے روزگاری بھی کم ہورہی ہے اور حال میں افغان حکومت نے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے معاہدے کیے ہیںجن میں تیل ، گیس اور معدنیات کی نکاسی بھی شامل ہے ۔ پاکستان میں بھی بے شمار معدنی وسائل موجود ہیں ۔ حکومتی اور دیگر رپورٹس کے مطابق 70 کھرب ڈالر کے معدنی وسائل پاکستان میں موجود ہیں ۔ تیل بھی ہے ، گیس بھی ہے ۔مگر یہاں کرپٹ اشرافیہ سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ افغانستان میں بھی الیکشن ڈراما کے تحت اشرف غنی اورحامد کرزئی جیسے لوگوں کو بار بار امریکہ لے آتا تھا ۔ لیکن افغان طالبان نے ان سب کو نکال باہر کیا۔ ہمارے ہاں بھی جتنے مرضی الیکشن کروا لیں وہی اشرافیہ بار بار حکومت میں آئے گی جس نے ملک کا بیڑا غرق کیا ہے ۔ لہٰذا پہلے اشرافیہ کے قبضہ کو ختم کرنا ہو گا۔افغان طالبان کو بھی یہی کہا گیا تھا کہ آپinclusive حکومت بنائیںاور سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ لیکن انہوں  نے کہا کہ ہم اپنے بنیادی اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت کریں گے ۔ اگر افغان طالبان بھی امریکی دباؤ قبول کر لیتے اوراشرافیہ کو حکومت میں شامل کر تے تو آج افغانستان کا حال بھی شاید ہمارے جیسا ہوتا۔ لیکن انہوںنے اپنے زمینی حقا ئق اور قومی مفاد کو ترجیح دی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام بھی اب ان کے ساتھ ہے ۔ وہاں کا سوشل میڈیا دکھا رہا ہے کہ اُن کا چیف جسٹس زمین پر بیٹھ کر دال روٹی کھا رہا ہے ۔ اشرافیہ اگر ہوتی تو اس کی مراعات اور پروٹول ہی اتنا زیادہ ہوتا کہ قومی خزانہ بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہوتا ۔ پاکستان کو بھی انہی اصولوں کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔
سوال: اپنے سیاسی، معاشی اور آئینی معاملات میں کچھ بہتری لا کر پاکستان میں ایک سوفٹ انقلاب نہیں آ سکتا؟ آپ کیا سمجھتے ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا:پاکستان کے موجودہ حالات نے ظاہر کر دیا ہے کہ اب آخری حل وہی ہے جس کی نشاندہی بانی ٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹرا سراراحمد ؒ نے کی تھی کہ منہج انقلاب نبویﷺ کی روشنی میں ایک انقلاب برپا کیا جائے ۔ آپ کو یاد ہوگا جنرل حمید گل نے ڈاکٹر صاحبؒ سے ملاقات کر کے ایک سوفٹ انقلاب کا آئیڈیا دیا تھا ۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے اس آئیڈیا کو قبول بھی کر لیا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایسا کوئی سوفٹ انقلاب آجائے تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ ہمیں صرف اسلامی نظام سے غرض ہے چاہے جو بھی لے آئے اور جس طرح بھی لے آئے ۔ لیکن اب حالات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس طرح سے انقلاب نہیں آئے گا اور اگر کوئی انقلاب آسکتاہے تو وہ منہج انقلاب نبویﷺ کی روشنی میں ہی آسکتاہے کہ قرآنی تربیت کی روشنی میں ایسے افراد تیار ہوں جو وقت آنے پر اس باطل نظام اور اس کے ہر جز کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں اور نئے سرے سے اسلامی اصولوں  کے مطابق ایک نظام قائم کریں ۔ یہ ایک سخت آپریشن ہے مگر اس کے بغیر چارا نہیں کیونکہ اگر یہ آپریشن نہ کیا گیا تو مریض کی جان بھی جا سکتی ہے ۔