(سیرت طیبہ) رسولِ اکرم ﷺ کے مقاصد ِبعثت اور ہماری ذمہ داری - مفتی محمد صادق حسین قاسمی

9 /

رسولِ اکرم ﷺ کے مقاصد ِبعثت اور ہماری ذمہ داری

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

رسولِ اکرم ﷺ جس وقت دنیا میں مبعوث ہوئے اور نبوت سے سرفراز کیے گئے وہ دور دنیا کا نہایت عجیب اور تاریک ترین دور تھا، ظلم وستم، ناانصافی و حق تلفی، جبر وتشدد، خدافراموشی و توحید بے زاری عام تھی، اخلاق وشرافت کا بحران تھا، اور انسان ایک دوسرے کے دشمن بن کر زندگی گزارہے تھے، ہمدردی اور محبت کے جذبات، اخوت و مودت کے احساسات ختم ہوچکے تھے، معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑااور سالہاسال تک جنگ وجدال کا سلسلہ چلتا تھا، ایسے دور میں آپ ﷺتشریف لائے، اور پھر قرآنی تعلیمات ونبوی ہدایات کے ذریعہ دنیا کو بدلا،عرب وعجم میں انقلاب برپاکیا، عدل وانصاف کو پروان چڑھایا،حقوق کی ادائیگی کے جذبوں کو ابھارا، احترامِ انسانیت کی تعلیم دی، قتل وغارت گری سے انسانوں کو روکا، عورتوں کومقام ومرتبہ عطاکیا، غلاموں کو عزت سے نوازا،یتیموں پر دستِ شفقت رکھا،ایثاروقربانی، خلوص ووفاداری کا مزاج بنایا،احساناتِ خداوندی سے آگاہ کیا، مقصدِ حیات سے باخبر کیا،رب سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑا،جبینِ عبدیت کو اللہ تعالیٰ کے سامنے ٹیکنے کا سبق پڑھا یااور توحید کی تعلیمات سے دنیا کو ایک نئی صبح عطا کی، تاریکیوں کے دور کا خاتمہ فرمایا،اسلام کی ضیاپاش کرنوں سے کائنات ِ ارضی کو روشن ومنور کردیا۔ آپ ﷺ نے فرد کی اصلاح کی، معاشرہ کو سدھاراکہ بجا طور پر کہا جاگیاکہ :
جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
اور بقول الطاف حسین حالی ؔ
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
ا ور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
نبی اکرم ﷺ کا یقیناً انسانیت پر سب سے بڑا احسان یہ بھی ہے کہ آپ نے بھولی بھٹکی انسانیت کو پھر سے خدا کے در پر پہنچایا اور احساسِ بندگی کوتازہ فرمایا۔آپ ﷺ نے یہ حیرت انگیز کارنامہ صرف 23 سالہ مختصر مدت میں انجام دیا۔ 23سالہ دور میں آپؐ نے ساری انسانیت کی فلاح وصلاح اور کامیابی کا ایک ایسا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیاکہ ا س کی روشنی میں ہر دور میں انقلاب برپا کیاجاسکتا ہے اور اصلاح وتربیت کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جن عظیم مقاصد کودے کر دنیا میں بھیجا، آپﷺ نے ان مقاصد کو بروئے کارلاکر اپنی حیاتِ مبارکہ میں جدو جہد فرمائی وہ ہمارے لیے ایک رہنمایانہ اصول ہیں ۔قرآن کریم میں بنیادی طورپرچار مقاصد ِبعثت کوبیان کیا گیا ہے۔ آئیے ایک مختصر روشنی ان مقاصد پر ڈالتے ہیں :
قرآن میں مقاصد ِ بعثت کا تذکرہ
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے تین مقامات پر آپﷺ کے مقاصد ِبعثت کو بیان فرمایاہے، پہلا مقام وہ ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ کی زبان سے اس کا ذکر ہوا، اُن کی یہ تمنا تھی کہ نبی آخر الزمان سید الرسل حضرت محمد ﷺ آپؑ ہی کے خاندان اور نسل سے ہوں: چنا نچہ اس کے لیے آپؑ نے جب بیت اللہ کی تعمیر فرمائی، یہ وقت چونکہ بڑی اہمیت کا حامل تھا، اس کائنات میںاللہ کا پہلا گھر اس کی بندگی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا، اس حسا س اور اہم موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اور کریم پروردگار کی الطاف وعنایات کو سامنے رکھ کر آپؑ نے دعاکی:
{رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (129)} (البقرۃ) ’’ہمارے پروردگار !ان میں ایک ایسا رسول بھی بھیجنا جو انہی میں سے ہو،جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کو پاکیزہ بنائے، بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، جس کی حکمت بھی کامل۔ ‘‘
جس نبی کی آپؑ نے تمنا کی تھی اس سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔ (تفسیر ابن کثیر:2/92) نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے باپ ابراہیمd کی دعا کا نتیجہ ہوں ۔ (مسند ابو داؤدطیالسی:۱۲۲۴) حضرت ابراہیمdنے کائنات کی سب سے عظیم ترین ہستی کو اپنے خاندان میں مانگ لیا اورہمیشہ کے لیے سعادت کو حاصل کرلیا۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے بھیجے جانے کو احسان قراردیتے ہوئے فرمایا:
{لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَـبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (104)} (آل عمران) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تلاوت کرے،انہیں پاک وصاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے؛ جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا ًکھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔‘‘
تیسری جگہ اللہ تعالیٰ نے مقاصد ِ بعثت کو بیا ن کرتے ہوئے فرمایا:{ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَـبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (2)}( الجمعۃ )’’وہی ہے جس نے اُمی لوگوں میں انھیں میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیں ؛ جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘
حضرت مولانا عبد الماجد دریابادی ؒمقاصدِبعثت کو مختصر لیکن جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ذرا سا غور کرنے پرنظر آجائے گا کہ رسول اعظمﷺ کے جملہ فرائض کمالِ ایجاز کے ساتھ چندفقروں میں آگئے ہیں ۔ ’’یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ‘‘رسول کا پہلا کام اپنی امت کے سامنے تلاوتِ آیات ہوتا ہے، یعنی اللہ کا کلام پہنچانا،گویا رسول کی پہلی حیثیت مبلغِ اعظم کی ہوتی ہے۔ ’’یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ‘‘رسول کاکام محض تبلیغ وپیام رسانی پر ختم نہیں ہوجاتا،اس کاکام کتاب ِ الٰہی کی تبلیغ کے بعد اس کی تعلیم کا بھی ہے،اس تعلیم کے اندر کتاب کی شرح، ترجمانی، تعمیم میں تخصیص، تخصیص میں تعمیم سب کچھ آگئی اور یہیں سے ان کج فہموں کی بھی تردید ہوگئی جو رسول کا منصب ( معاذ اللہ ) صرف ڈاکیہ یا قاصد کی طرح سمجھتے ہیں ، گویا رسول کی دوسری حیثیت معلمِ اعظم کی ہوئی۔’’وَالْحِکْمَۃَ‘‘پھر رسول تعلیم محض کتا ب ہی کی نہ دیں گے؛ بلکہ حکمت و دانائی کی تلقین بھی امت کو کریں گے۔احکام ومسائل، دین کے قاعدے اور آداب، عوام وخواص سب کو سکھائیں گے اور خواص کی رہنمائی اسرارو رموزمیں بھی کریں گے،گویا رسول کی تیسری حیثیت مرشد ِ اعظم کی ہوئی۔ ’’یُزَکِّیْھِمْ ‘‘تزکیہ سے مراد دلوں کی صفائی ہے۔ رسول کا کام محض الفاظ اور احکام ِ ظاہری کی تشریح تک محدود نہیں رہے گا؛ بلکہ وہ اخلاق کی پاکیزگی اور نیتوں کے اخلاص کے بھی فرائض انجام دیں گے،گویا رسول کی یہ چوتھی حیثیت مصلحِ اعظم کی ہوئی۔(تفسیر ِ ماجد ی:1/251)
پہلا مقصد:تلاوتِ قرآن
رسول اللہﷺ نے امت میں تلاوتِ قرآن کی عظمت واہمیت کو عام فرمایا اور اس کے فوائد وبرکات سے آگاہ کیا اورانسانوں کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم کلام سونپا جس کی وجہ سے انسانیت قعر ِ مذلت سے نکلی اور تلاوتِ قرآن کا ایسا ذوق ان کو عطا کیا کہ اس سے کسی لمحہ صحابۂ کرامj کو سیری حاصل نہیں ہوتی تھی اور خود آپﷺ جب قرآن کریم کی تلاوت فرماتے کتنے ہی پتھر دل موم ہوجاتے اور کیسے کیسے سخت مزاج انسان نرم پڑجاتے اور قرآن کی حقانیت و عظمت کا اقرار کیے بغیر نہیں رہتے اور بہت سے لوگ اسی قرآن کی سماعت سے دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے۔دنیا میں جو کچھ انقلاب نظر آرہا ہے بلاشبہ یہ اس عظیم کتاب کی بدولت ہے جو صاحب کتاب سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے بطور امانت انسانوں تک پہنچایا اور اس کے تقاضوں کو عملی طور پر پورا کرکے دکھایا۔قرآن کا نزول عرب کی سرزمین پر ہوا؛ لیکن وہ پوری دنیا کے لیے اور ہمیشہ ہمیش کے لیے معجزہ بن کر آیا اور اس کی کرنیں سارے عالم میں پھیل گئیں اور جہاں قرآن کا نور پہنچا وہاں اندھیریوں کا خاتمہ ہوا اور کفر و شرک نے دم توڑدیا۔ حضرات صحابۂ کرام ؓ کی زندگیوں میں انقلابی اثرات اسی کلام نے پیدا کیے اور وہ انسانوں کو رہبر اور رہنما بنے بھی تو اسی قرآن کی تعلیمات پر عمل کرکے بنے۔قرآن نے ہر شعبۂ زندگی میں مثالی انقلاب بر پا کیا۔ تلاوتِ قرآن کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا: جو قرآن کریم پڑھنے میں اس قدر مستغرق ہو کہ اس سے دعا مانگنے کا موقع نہ ملے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مانگنے والوں سے زیادہ ایسے بندے کو عطاکروں گا۔(ترمذی) آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں مجتمع ہوکر تلاوت کرتی ہے تو ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے، ملائکۂ رحمت ان کو گھیر لیتے ہیں اور حق تعالیٰ اس کا ذکر ملائکہ کی مجلس میں فرماتے ہیں ۔‘‘ (مسلم) حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :’’جس گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے اس میں فرشتے آتے اورشیاطین دور ہوجاتے ہیں ، وہ اپنے صاحب خانہ کے لیے کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں بھلائی کی بہتات اور شر کی قلت ہوجاتی ہے، اور جس گھر میں قرآن کی تلاوت نہ ہو اس میں شیاطین آجاتے ہیں ، فرشتے نکل جاتے ہیں اور وہ گھر اپنے باسیوں پر تنگ ہوجا تا ہے، خیرکم اور شر بہت بڑھ جاتا ہے۔‘‘ ( فضائل حفظ القرآن:131)
دوسرا مقصد: تعلیم ِ قرآن
قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے ساتھ اس کے معانی ومطالب انسانوں کو سمجھانا یہ بھی نبی ﷺ کی عظیم ذمہ داری رہی اور آپ ﷺ نے الفاظ ِ قرآنی کے ساتھ معانی ٔ قرآن بھی بتلائے۔نبی ﷺ نے مرادِ خداوندی کو سمجھایا اور آیات ِ قرآنی کی تشریح کرکے امت کو اس کے مقصد سے آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کیا چاہتے ہیں ؛اس لیے صحابۂ کرام ؓ جہاں الفاظِ قرآنی کے یاد کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے، وہیں معانی ومطالب کو بھی سمجھنے میں مصروف رہا کرتے تھے۔ قرآن مجید کوپڑھنے کے ساتھ اس کے معانی اور مضامین میں تدبر کرنا، اس کے مفہوم میں غور و فکر کرنا، تفاسیر قرآن کی روشنی، نبی کریم ﷺ کی تشریحات اور صحابۂ کرام ؓ کے عمل سے قرآن مجید کے مقصود تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے: کیونکہ جب تک مطلوب قرآن کو نہیں سمجھا جائے گا تو یقینی طور پر عمل آوری کا جذبہ بھی نہیں ابھرے گا اور اللہ تعالیٰ کیا فرمارہاہے اس سے آگہی بھی حاصل نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے نہایت چونکادینے والے انداز میں فرمایا:{اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا(24)} (محمد)’’یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پرقفل پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
اس لیے قرآن کریم کو سمجھنا اس کا حق ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا بھی اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے۔ قرآن صرف پڑھ کر یا سمجھ کر رکھ دینے کی کتاب نہیں ہے؛ بلکہ اس کے مطابق زندگیوں کو بنانے اور سنوارنے کی ضرور ت ہے۔ قرآن نے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے لیے اصول بتائے اور اس کی تشریح نبی کریم ﷺ نے فرمائی۔ قرآن کریم میں حکم دیتے ہوئےفرمایا:{وَہٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰـہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ}( الانعام :155)’’ یہ (قرآن )مبارک کتاب جو ہم نے نازل کی اس کی اتباع کرو۔‘‘اور ایک جگہ فرمایا کہ :{اِتَّبِعُوْا مَـآ اُنْزِلَ اِلَـیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ} (الاعراف:3) ’’جو کچھ تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے، اس کی اتباع کرو۔‘‘
تیسرا مقصد: تزکیۂ نفس
نبی اکرمﷺ کا تیسرا مقصد دنیا میں بھیجے جانے کا یہ ہے کہ آپ ﷺ انسانوں کے دلوں کوپاک صاف کریں ، ان کے دلوں میں کفر وشرک کی جو گندگیاں اور اخلاق واعمال کی خرابیاں ہیں ان کو نکال باہر کریں اور دلوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ یاد ِ الٰہی کا مسکن اور محبت ِرسول ﷺ کا مرکز بن سکے: چنانچہ آپﷺ نے جہاں معاشرہ کی اجتماعی اصلاحی کوششیں کی، وہیں انفرادی طور پر بھی دلوں کی اصلاح کا اہتمام فرمایا۔اللہ تعالیٰ کی حضوری کا احساس پیداکیا،روزِ قیامت کی بازپرس کی فکر پیدا کی، اللہ تعالیٰ کے حاضر وناظر ہونے کا خیال دلوں میں راسخ کروایا۔ یہی نتیجہ تھا کہ معمولی درجہ کا گناہ بھی سرزد ہوجاتا یا تنہائیوں میں کسی جرم کا ارتکاب کرلیتے تو فوری رسالت مآب ﷺ کے حضور حاضر ہوکر اس کی تلافی کروالیتے؛ تاکہ آخرت کے سخت ترین عذاب سے حفاظت ہوجائے۔انسانی معاشرہ کو آلائشوں اور گندگیوں سے عمومی طو رپر بچانا ہو تو فرداً فرداًانسانوں کی اصلاح ضروری ہے، اور یہ ہر انسان کے دل کی اصلاح پر موقوف ہے ؛ اسی لیے سب سے پہلے دل کو درست کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ دل ہی تمام جسم کا سردار اور سارے اعضا ء میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جسم ِ انسانی میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو تو سارا جسم صحیح ہوگا اور اگر وہ خراب ہو جائے تو جسم سارا فسا د میں مبتلا ہوجائے گا، غور سے سنو ! وہ دل ہے۔ ( رواہ البخاری)اس کے لیے آپ ﷺ نے امت کو اس بات کی تعلیم دی کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے دل کو برائیوں سے پاک کرنا ضرور ی و لازم ہے؛ تاکہ اچھی طرح قلب میں محسنات جا گزیں ہوں ۔ جوچیزیں انسان کو ہلاک کرنے والی اور دین ودنیا میں نقصان کا باعث ہوتی ہیں جیسے : حسد،کینہ، کذب، غیبت، بغض، عناد،طمع اوربخل ان تمام سے بہت اہتمام کے ساتھ بچنے کی تعلیم دی۔ دل کی اصلاح یقیناً سارے اعمال میں انقلابی روح پیدا کرنے والی ہے؛ ا سی لیے اس کی بڑی اہمیت اور تاکید بھی احادیث و آیات میں آئی ہیں ۔
چوتھا مقصد: تعلیم حکمت
چوتھا کام آپ ﷺکا امت کو حکمت کی تعلیم دینا ہے۔حکمت سے مراد رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر:3/251)آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی میں انسانوں کے لیے ہر اعتبار سے نمونہ موجود ہے۔ آپﷺ کی تمام تر تعلیمات انسانیت کے لیے سعادت وکامیابی کی علامت ہیں ۔آپ ﷺنے جو کچھ فرمایااس پر عمل پیرا ہونے میں ہی فلاح دارین پوشیدہ ہے؛اس لیے آپ ﷺ نے اپنی امت کو سنت کی تعلیمات سے نوازااور طریقۂ زندگی کے اصول وآداب بتلائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اتباع پر اپنی محبت کو موقوف رکھا ہے:چنا نچہ ا رشاد ہے :
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَیَغْفِرْ لَـکُمْ ذُنُـوْبَکُمْ ط} ( آل عمران :31) ’’( اے پیغمبر ! لوگوں سے ) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے بھی محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔‘‘مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ و رسول ﷺ کی محبت کی علامت یہ ہے کہ دونوں کی اطاعت کی جائے۔ اور لکھا ہے کہ :نبی کریمﷺ سے محبت کی علامت آپ ﷺ کی سنتوں سے محبت کرنا ہے۔ (تفسیر قرطبی :5/92) نبی کریمﷺ کا ارشا ہے :’’ جو شخص میری سنت سے محبت رکھتا ہے در حقیقت وہی مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھ سے محبت کرے گا وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔‘‘(مشکوۃ :1/383)
خلاصہ ٔ کلام
آپ ﷺ نے ان چار بنیادی مقاصد کے تحت انسانیت کی تعمیر و ترقی کا کام انجام دیا اور ایک بگڑے ہوئے معاشرہ اور تباہی کے دہانے پر جاچکی دنیا کو سنوارا اور بہتر سے بہتر انداز میں ان کی تربیت فرمائی۔تلاوتِ قرآن کا شوق پیدا کیا،تعلیماتِ قرآنی پر عمل پیرا ہونے کا مزاج بنایا،دلوں میں موجود خرابیوں کی اصلاح، نفرت وعداوت، حسد وبغض، اور بہت ساری بیماریوں سے نجات پانے کی فکر بیدار کی اوردلوں میں اطاعت وفرماں برداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا کہ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیاب وکامران فرمایا۔قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے یہ چار چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں کہ اس کی روشنی میں خود کو سنوارنے اور معاشرہ کو سدھارنے کی کوشش کی جائے۔امت میں تلاوتِ قرآن کا مزاج
پیدا کیاجائے جو برکتوں اور رحمتوں کا ذریعہ ہے، معانی قرآن کو سمجھتے ہوئے مطالباتِ قرآن کو پوراکرنے کی دعوت دی جائے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ مردہ دلوں کو زندہ کرنے، اور روح کی بیماریوں کا علاج کروانے کے لیے اہل اللہ سے رجوع ہونے اور اللہ کے نیک بندوں کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کی تلقین بھی ضروری ہے،جس سے ذات کی بھی اصلاح ہوگی اور معاشرہ کی بھی اور سنتوں سے زندگیوں کو روشن کرنے، گھر اور ماحول میں سنت کی تعلیمات کو عام کرنے کی محنت کو عام کیا جائے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے ، زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کرنے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین!