(دعوت و تحریک) عدل و اِعتدال - ڈاکٹر اسرار احمد

9 /

اَخلاقیات کے میدان میں نبی اکرمﷺ کی اِتمامی اور تکمیلی شان کا اصل مظہرعدل و اِعتدالڈاکٹر اسرار احمد ؒ

یہ مقالہ حکومت ِپاکستان کی وزارت مذہبی اُمور کے زیر اہتمام منعقدہ

نیشنل سیرت کانفرنس (ربیع الاوّل 1402ھ/ 1982ء)میں پڑھا گیا

یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ نبی اکرمﷺ صرف ایک نبی ہی نہیں خاتم النّبیین ہیں اور آپؐ پر نبوت ختم ہی نہیں مکمل بھی ہوئی ہے… اور آپﷺ صرف ایک رسول ہی نہیں آخرالمرسلین ہیں اور آپؐ کی رسالت آخری ہی نہیں دائمی بھی ہے … اور ہر پہلو اور ہر جہت سے اِکمال و تکمیل اور اتمام و تتمیم ہی آپﷺ کی نبوت و رسالت کی امتیازی شان ہے۔ چنانچہ سورۃ المائدۃ کی آیت3میں بھی ’’اَکْمَلْتُ‘‘ اور ’’اَتْمَمْتُ‘‘ ہی کے الفاظ استعمال ہوئے ‘ یعنی:
{اَلْـیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْنَـکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَـیْـکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَــکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْـنًاط } ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کا بھی ’اکمال‘ کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کا بھی ’اتمام‘ کر دیا اور تمہارے لیے (ابد الآباد تک کے لیے) ’اسلام‘ کو بطورِ دین پسندکرلیا۔‘‘
اور سورۃ التوبۃ کی آیات32،33 اور سورۃ الصف کی آیات8،9 میں بھی’’اظہارُ دینِ الحَقِّ علی الدِّین کُلِّہٖ‘‘ کے ضمن میں متصلاً ذکر فرمایا گیا ’اتمامِ نور‘ کا۔ سورۃ التوبۃ میں {وَیَاْبَی اللہُ اِلَّا اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ}کے الفاظ میں اور سورۃ الصف میں{وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ}کے الفاظ میں۔ دونوں مقامات پر{وَلَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ0} کے تہدید آمیز الفاظ کے اضافہ کے ساتھ !
اور یہی شان ظاہر ہوتی ہےآنحضورﷺ کے ان اقوالِ مبارکہ میں کہ:((اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ))اور((اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ حُسْنَ الْاَخْلَاقِ))یعنی میں تو مبعوث ہی اسی لیے ہوا ہوں کہ ’مکارمِ اخلاق‘ اور ’محاسن ِ اخلاق‘ کی تکمیل وتتمیم کر دوں۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آپﷺ سے پہلے کے جلیل القدر انبیاء اور اُولوالعزم رسل ؑ اَخلاقِ حسنہ کی جن بلندیوںاور رفعتوں پر نظر آتے ہیں ان میں آنحضورﷺکی بعثت سے کون سا تکمیلی یا تتمیمی اضافہ ہوا ہے؟ ـ… کیا یہ واقعہ نہیں کہ دعوت و تبلیغ کےضمن میں لوگوں کی جانب سے ایذاء و مخالفت پر صبرمیں حضرت نوح ؑ بلند ترین مقام پر ہیں جنہوں نے ساڑھے نو سو برس تک صبر و مصابرت پر مداومت کی۔ اسی طرح جان و مال کے ضمن میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے ابتلاء و آزمائش پر صبر کی چوٹی پر فائز ہیں حضرت ایوب ؑ جن کا صبر ضرب المثل ہے۔حسنِ خلق اور تواضع میں بلند ترین مقام پر ہیں سیدنا ابراہیم علیٰ نبیّنا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام ۔ مقامِ شکر پر بتمام و کمال متمکن نظر آتے ہیں حضرت دائود و سلیمان ؑ ۔ مخاطبہ ومکالمہ ٔ الٰہی میں ممتاز اور غیرت و حمیت ِدینی سے سرشار نظر آتے ہیں  حضرت موسیٰؑ‘ تو تائید ِروح القدس کے اعتبار سے نمایاں ترین اور زہد و ورع کی بلند ترین چوٹیوں پر متمکن نظر آتے ہیں حضرت عیسیٰؑ۔ اسی طرح حِلم ختم ہے حضرت اسماعیل ؑ پر‘ تو تبتّل کی انتہا نظر آتی ہے حضرت یحییٰؑ میں ـ… چنانچہ سوال یہ ہے کہ اخلاقیاتِ انسانی کے میدان میں نبی اکرمﷺ کی امتیازی شان کیا ہے ـ… اور بالخصوص آپؐ کا وہ کارنامہ کون سا ہے جسے محاسن و مکارمِ اخلاق کی تکمیل و تتمیم کا مظہر قرار دیا جا سکے؟
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضورﷺ کی سیرت و شخصیت مبارکہ کا نمایاں ترین وصف ـ…اور آپ ﷺکی لائی ہوئی تعلیمات کا نقطۂ ماسکہ‘ اور آپﷺ کے قائم کردہ نظامِ اجتماعی کی امتیازی شان ہے :عدل و اعتدال!!
اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسماء ِحسنیٰ کی تفصیل پر مشتمل جو حدیث امام ترمذیؒ اور امام بیہقیؒ نے حضرت ابوہریرہ ؑ سے روایت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا ایک نام نامی اوراسم گرامی ’’العَدل‘‘بھی ہے‘ یعنی سراپا عدل و مجسم انصاف ۔قرآن حکیم میںاگرچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ نام وارد نہیں ہوا‘تاہم متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کی اس شان کا ذکر موجود ہے‘ مثلاً:
(1) {وَاللہُ یَقْضِیْ بِالْحَقِّ ط } (المؤمن:20)
’’اللہ تعالیٰ فیصلے صادر فرماتا ہے بالکل حق کے ساتھ۔‘‘
(2)’’تیرے رب کی (ہر) بات صدق و عدل کے(جملہ معیارات کے )مطابق پوری ہو چکی ہے۔‘‘ (الانعام:115)
(3)’’خود اللہ بھی گواہ ہے کہ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور فرشتے اور تمام اہل ِعلم بھی گواہ ہیں ‘وہی عدل و انصاف کو لے کر کھڑا ہے!‘‘ (آل عمران:18)
صوفیائے کرامؒ کے حلقے میں ایک ’حدیث ِنبویؐ ’’تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہِ‘‘ کثرت سے بیان ہوتی ہے‘ اور اگرچہ بعض محدثین کرام کو اس کی سند پر کلام ہےتاہم اس کا مضمون بھی قرآن مجیدکے متعددمقامات سے ثابت ہے ‘مثلاً سورۃ التغابن میں ارشاد ہوتا ہے:
’’اگر تم معاف کر دیا کرو اور درگزر سے کام لیا کرو اور لوگوں کی خطائوں کو بخش دیا کرو تو اللہ بھی غفور اور رحیم ہے۔‘‘(آیت:14)
ظاہر ہے کہ یہ الفاظِ مبارکہ لوگوں کوترغیب دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ غفوری اور رحیمی کا ایک عکس اپنے اندر بھی پیدا کرو۔ اب اگر یہ بات اصولاً درست ہے تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ جملہ صفات و شئونِ باری تعالیٰ کا کامل واکمل اور جامع ترین عکس ہے ذاتِ محمدیﷺ ـ… اور چونکہ صفاتِ باری تعالیٰ میں بعض بظاہر ایک دوسرے سے متضاد بھی ہیں‘ جیسےیہ کہ وہ ’’الْمُعِزّ‘‘ بھی ہے اور ’’الْمُذِلّ‘‘ بھی‘ ’’الرَّافِع‘‘ بھی ہے اور ’’الْخَافِض‘‘ بھی ‘ ’’الْقَابِض‘‘ بھی ہے اور ’’الْبَاسِط‘‘ بھی … اسی طرح ’’الظَّاھِر‘‘ بھی ہے اور ’’الْبَاطِن‘‘ بھی اور ’’الْغَفُوْر‘‘ بھی ہے اور ’’الْمُنْتَقِم‘‘ بھی ‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا اہم ترین وصف ہوگا’’عدل‘‘ جو نہ صرف جملہ مخلوقات کے مابین عدل و انصاف کی صورت میں جلوہ گر ہو گا بلکہ خود اُس کی جملہ صفات و شئون میں توازن و اعتدال کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ شاید یہی رمز ہوا س میں کہ جبکہ اللہ تعالیٰ کے دوسرے اَسماء ِحسنیٰ یا اسم فاعل کی صورت میں ہیں یا صفت ِمُشَبّہ (فعیل) کے وزن پر یا اسم مبالغہ (فَعّال یا فَعُول) کے اوزان پر وہاں اسم احسن ’’العَدل‘‘ مصدر پر مبنی ہے … بہرحال اسی اسم احسن ’العدل‘ کا عکس کامل ہیں نبی اکرمﷺ … گویا آپؐ ’العادل‘ ہیں یعنی ’عادل کامل‘ـ…!!چنانچہ ایک جانب خود آپ ﷺ کی اپنی سیرتِ مطہرہ عظیم ترین مظہر ہے عدل و اعتدال کا اور آپﷺ کی شخصیت مبارکہ حسین ترین امتزاج ہے جلال و جمال اور بشریت و ملکیت کا۔ بقول علّامہ اقبال مرحوم ؎
شوکت ِسنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنید و بایزید تیرا جمالِ بے نقاب!
واقعہ یہ ہے کہ دُنیا پرستی یا حب ِعاجلہ اور ترک ِدُنیا یا رہبانیت کی دوانتہائوں کے مابین صحیح ترین نقطۂ عدل تلاش کرنا ہو تو وہ ملے گا محمدرسول اللہﷺ کی سیرتِ مطہرہ میں۔ اسی طرح عورت کو بھیڑ بکری کی طرح کی ملکیت اور جوتی کی نوک سمجھنے اور اختیارات و معاملات کو اُس کے حوالےکر کے خود تابع مہمل بن جانے کی اِفراط و تفریط کے مابین اعتدال کی روش دیکھنی ہو تو وہ بھی ملے گی محمدرسول اللہﷺ کی حیاتِ طیّبہ میں۔اسی طرح اِسراف و تبذیر اور بخل و شح کی انتہائوں کے مابین اعتدال کا رویّہ دیکھنا ہو تو وہ بھی نظر آئے گا آنحضورﷺ کی ذاتِ مقدّسہ میں۔ اسی طرح ایک طرف ذاتی معاملات میں خون کے پیاسوں تک کومعاف کر دینے میں {وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط} (آلِ عمران:134) کی مکمل تصویر اور دوسری طرف اللہ کے دین کے قیام اور اس کی حدود کے اجراء و نفاذ کے ضمن میں {وَلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ}(النور:2) کا کامل مرقع اگر بیک وقت دیکھنا ہو تو وہ بھی میسّر آئے گا صرف سیرتِ محمدی cمیں۔ وَقِس علٰی ذلکٰ:
دوسری طرف جو تعلیم آپ ﷺلے کر آئے اس میں بنیادی اہمیت ہے عدل وانصاف اور قیامِ نظام عدل و قسط کو۔بفحوائے آیاتِ قرآنی:
(1)’’اورجب تم لوگوں کے مابین فیصلہ کرو تو عدل سے کام لو۔‘‘ (النساء:58)
(2)’’اور اگر آپ ان کے مابین فیصلہ کرنا قبول ہی کر لیں تو فیصلہ انصاف کے ساتھ کریں۔‘‘ (المائدۃ:42)
(3){قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ قف} (الاعراف:29)
’’کہہ دیجیے کہ میرے رب نے تو عدل و انصاف کا حکم دیا ہے ‘‘
(4)’’یقیناً اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے عدل کا‘‘ (النحل:90)
(5)’’اور جب بھی بات کرو تو انصاف کے مطابق کرو خواہ معاملہ کسی قرابت دار ہی کاہو‘‘(الانعام:152)
(6)’’اے ایمان والو! عدل و انصاف کے علمبردار بن کر کھڑے ہو جائو اور اللہ کے حق میں گواہی دو خواہ وہ تمہارے اپنے خلاف پڑ رہی ہو‘ خواہ تمہارے والدین اور اقرباءکے خلاف جا رہی ہو۔‘‘ (النساء:135)
(7)’’اے ایمان والو! اللہ کے علمبردار اور عدل و انصاف کے گواہ بن کر کھڑے ہوجائو‘ اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس پر آمادہ نہ کر دے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو‘ یہی تقویٰ کے قریب تر ہے۔‘‘(المائدۃ:8)
(8) {لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج } (الحدید:25)
’’ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو بینات دے کر اور نازل کی اُن کے ساتھ کتاب اور میزان تاکہ لوگ قائم ہوں عدل و انصاف پر‘‘
(9) ’’اور کہہ دیجیے مَیں ایمان رکھتا ہوں اُس کتاب پر جو اللہ نے نازل فرمائی ہے‘ اور مجھے حکم ہوا ہے کہ تمہارے مابین عدل قائم کروں۔‘‘ (الشوریٰ:15)
(10) {اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ0} (المائدۃ‘الحجرات‘الممتحنۃ)’’یقینا ًاللہ محبّت فرماتا ہے انصاف کرنے والوں سے۔‘‘
چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک جانب تو فصل ِ خصومات اور رفع نزاعات کے لیے وہ سنہری اصول متعین فرمائے جن کو آج عالم ِانسانی میں قبولِ عام حاصل ہے۔ مثلاً یہ کہ کسی ایک فریق کی بات سن کر اور فریق ِ ثانی کو صفائی کا موقع دیے بغیر فیصلہ سنادینا غلط ہے‘ یا یہ کہ دلیل یا ثبوت مہیّا کرنے کی ذِمّہ داری مدّعی کی ہے نہ کہ مدّعا علیہ کی‘ اور اگر مدّعی ثبوت نہ دے سکے تو مدّعا علیہ کی جانب سے محض قسم یا حلف بھی دعوے کو باطل کرنے کے لیے کافی ہے ‘یا یہ کہ شک کا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے ـ… نتیجتاً خواہ ایک سو مجرم بَری ہو جائیں لیکن کوئی ایک بے گناہ بھی خواہ مخواہ سزا نہ پائے۔ اور آخری لیکن اہم ترین یہ کہ قانون کی نگاہ میں سب لوگ برابر ہیں۔ کسی بڑے سے بڑے انسان حتیٰ کہ سربراہِ مملکت کو بھی کوئی امتیازی مقام یا خصوصی تحفظ حاصل نہیں ہے… دوسری طرف آپﷺ نے وہ نظام عدلِ اجتماعی قائم فرمایا جس کی یاد تاحال نوعِ انسانی کی اجتماعی یادداشت میں ایک ’حسین خواب‘ کی مانند باقی ہے۔
بنظر غائر دیکھا جائے تو اس نظامِ عدلِ اجتماعی کا اصل وصف بھی عدل و اعتدال ہی ہے ‘چنانچہ اس میں نظامِ سیاست و حکومت کے ضمن میں ایک جانب انسانی حاکمیت اور لادینی جمہوریت اور دوسری جانب مذہبی طبقے کی حکومت و آمریت کے مابین حاکمیت ِالٰہی (Divine Sovereignty) اور عوامی حکومت(Popular Vicegerency)کا معتدل اور متوازن راستہ اختیار کیا گیا …اسی طرح نظامِ معیشت کے باب میں ایک جانب انفرادی ملکیت مطلقہ اور مادر پدر آزاد معیشت سے پیدا شدہHaves اور Have-nots کی شدید اونچ نیچ اور طبقاتی تقسیم اور دوسری جانب انفرادی ملکیت کی نفی ٔ مطلق اور جبری مساوات کے مابین تصوّرِ امانت پر مبنی محدود ذاتی تصرف اور حدودِ حلال و حرام کی پابند معیشت کی درمیانی راہ اختیار کر کے اجتماعیاتِ انسانیہ کی دو اعلیٰ ترین اَقدار یعنی آزادی اور مساوات کے مابین بھی عدل قائم کر دیا۔
مختصر یہ کہ عدل و انصاف اور توازن و اعتدال کے ضمن میں انسان کی جھولی میں فی الوقت اگر کچھ موجود ہے تو وہ لازماً محمد رسول اللہﷺ کاعطیہ ہے اور اگر نوعِ انسانی ان کے حصول کےلیے کوشاںہے تو گویا وہ ابھی نظامِ مصطفیٰﷺ کی تلاش میں سرگرم ہے۔ گویا بقول علامہ اقبال مرحوم ؎
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بُو
آن کہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نورِ مصطفیٰ ؐ او را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیٰ ؐ است