(منبرو محراب) عقیدہ ختم نبوت - ابو ابراہیم

9 /

عقیدہ ختم نبوت

تحفظ ، مظاہر اور تقاضے


مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی، کراچی میںامیرتنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخs کے8 ستمبر2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
7ستمبر1974 ء کوپاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک تاریخی فیصلہ میں قادیانیوں کوکافر قرار دیاتھا۔اسی مناسبت سے آج عقیدہ ختم نبوت کے مفاہیم،اس کے مظاہر اوراس حوالے سے بحیثیت مسلمان ہماری جو ذمہ داریاں ہیں ان پر کلام کرنا مقصود ہے ۔قرآن کریم میں ختم نبوت کے تعلق سے معروف آیت سورۃ الاحزاب میں ہے جہاںاللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمًا(40)} ’’(دیکھو!)محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں‘بلکہ آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں اور سب نبیوں پر مہر ہیں۔اور یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کواللہ تعالیٰ نے تین بیٹے عطا فرمائے مگر تینوں کاانتقال چھوٹی عمر میں ہوگیا تھا۔آپ ﷺکی چار بیٹیاں تھیں۔ایک منہ بولے بیٹے حضرت زید ؓتھے ، عرب منہ بولے بیٹے کو بھی حقیقی بیٹا سمجھتے تھے لیکن اس آیت کے ذریعے اس غلط تصور کا رد کردیا گیا اور واضح کردیا گیا کہ آپ ﷺ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں اور آپ ﷺ خاتم النبین ہیں ۔ یعنی آپ ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔
قرآن حکیم میں ختم نبوت کے تعلق سے صرف یہ ایک ہی آیت نہیںہے بلکہ علماء نے قرآن کریم کے کم سے کم سومقامات واضح کیے ہیںجہاں ختم نبوت کی طرف قرآن کریم میںاشارہ ملتاہے ۔ مثال کے طور پر ہم سورۃ البقرہ کے شروع ہی میں پڑھتے ہیں:
{وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَـیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج}(البقرۃ:4)’’اورجو ایمان رکھتے ہیں اُس پر بھی جو (اے نبیﷺ) آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے‘اور اُس پر بھی (ایمان رکھتے ہیں) جو آپؐ سے پہلے نازل کیا گیا۔‘‘
یعنی آپ ﷺپر جو نازل کیا گیا اور آپ ﷺ سے پہلے انبیاء پر جو نازل کیا گیا اس پر ان کا ایمان ہے ۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ آپ ﷺ کے بعد بھی کچھ نازل ہوگا ۔ لہٰذا یہ آیت صاف بتارہی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی وحی نہیں آئے گی۔ اسی طرح سورۃ النساء میں فرمایا :
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط} (آیت:136) ’’اے ایمان والو! ایمان لائو اللہ پر‘ اُس کے رسولؐ پر اور اُس کتاب پر جو اُس نے نازل فرمائی اپنے رسولؐ پر اور اُس کتاب پر جو اُس نے پہلے نازل فرمائی۔‘‘
ایسی تمام آیات میں یہ نہیں بتایاگیا کہ آپ ﷺ کے بعد بھی کچھ نازل ہوگا ۔ یہ اس بات کا واضح اعلان تھا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ آپ ﷺ سے پہلے جو صحائف نازل ہوئے ان کے متعلق خود اللہ تعالیٰ قرآن میں بتارہا ہے کہ ان میں لوگوں نے اپنے مفادات کے لیے تبدیلیاں کیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(9)} (الحجر) ’’یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور بلاشبہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
آپ ﷺ آخری نبی ہیں ، آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا تاکہ یہ قیامت تک محفوظ رہے اور جو لوگ ہدایت کے طالب ہوں ان کو ہدایت ملتی رہے ۔
پچھلے انبیاء آتے تھے وہ اپنی قوم کو پکارتے تھے ان کی رسالت خاص علاقے خاص وقت خاص قوم کے لیے ہوا کرتی تھی ۔ جیسا کہ وہ پکارتے تھے ـ:
{ یٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَـکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اَفَلَا تَتَّـقُوْنَ(65)}(الاعراف) ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو‘ تمہارا کوئی الٰہ اُس کے سوا نہیں ہے ‘ تو کیا تم لوگ ڈرتے نہیں؟‘‘
لیکن اللہ کے رسولﷺ کی دعوت تمام انسانوں کے لیے ہوتی تھی ۔ جیسا کہ فرمایا :
{یٰٓـاَیـُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّــکُمُ}(البقرۃ:21) ’’اے لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اُس ربّ(مالک) کی۔‘‘
اسی طرح اللہ کے رسول ﷺسے کہلوایا گیا:
{قُلْ یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَـیْکُمْ جَمِیْعًا}(الاعراف:158)’’ (اے نبی ﷺ!)کہہ دیجیے اے لوگو! مَیں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف‘‘
چونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے آپ ﷺ کی رسالت تمام انسانوں کے لیے ہے ۔ اسی طرح قرآن کریم میں فرمایا گیا:{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا(105)}(بنی اسرائیل) ’’اور (اے نبیﷺ!) نہیں بھیجا ہم نے آپؐ کو مگر بشارت دینے والا اور خبر دار کرنے والا۔‘‘
اسی طرح انجیل مقدس میں ایک جگہ حضرت عیسیٰ d فرماتے ہیں :
ـ"He will come and he will the mercy for all the worlds ."
یعنی میں تو چلا جائوں گا لیکن میرے بعد وہ (محمد رسول اللہ ﷺ ) آئیں گے جو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہوں گے ۔ آپ ﷺ کے لیے انجیل کے انگریزی ترجمہ میں "The most admired one" کے الفاظ بھی آتے ہیں ۔ قرآن کریم میں فرمایا :{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(107)}(الابنیاء)’’اور (اے نبیﷺ!) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر۔‘‘
قرآن کریم میںایسے کم و بیش سو کے قریب مقامات ہیں جہاں رسول اللہﷺ کی ختم نبوت کی طرف واضح اشارہ ہے ۔ اس کے بعد احادیث مبارکہ میں بھی تفصیل موجود ہے ۔ جیسا کہ اس صحیح حدیث میں واضح ارشاد ہے :
((اناخاتم النبیین لانبی بعدی))’’میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ‘‘
اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ تم آخری امت ہو تمہارے بعد کوئی امت نہیں اور میں آخری رسول ہوں میرے بعد کوئی رسول نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ اگر بالفرض آج موسی ؑ بھی آ جائیں تو مجھے مانے بغیر ان کو بھی کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔‘‘
1974ء میں جب اسمبلی میں فتنہ قادیانیت کے رد کے لیے قانون سازی کا مرحلہ آیا تھا تو ہر طرح کی بحث ہوئی تھی ۔ ایک نکتہ یہ بھی اُٹھایا گیا کہ حضرت عیسیٰ ؑ بھی تو آئیں گے ، احادیث موجود ہیں جن میں حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد کی پیشن گوئیاں موجود ہیں تو پھر آخری نبی تو حضرت عیسیٰd ہوئے ۔ا س کا بھی علماء نے جواب دیا کہ کوئی نیا نبی آپ ﷺ کی بعث کے بعد نہیں آئے گا ۔ حضرت عیسیٰ ؑ بھی جب آئیں گے تو وہ اب نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ آپ ﷺ کی شریعت کے پابند ہوں گے ۔
ختم نبوت کا عقیدہ اس قدر اہم ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے اس کے تحفظ کے لیے باقاعدہ جنگیں لڑی ہیں اور شہادتیں پیش کی ہیں ۔ آپ ﷺ کی زندگی میں غلبہ دین کے لیے 259صحابہ شہید ہوئے جبکہ آپ ﷺ کے بعد صرف جنگ یمامہ میں 1200کے لگ بھگ صحابہ کرامj نے شہادتیں پیش کیں ۔ یہ جنگ مسیلمہ کذاب کے خلاف تھی جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے بعد کی اسلامی تاریخ بھی گواہ ہے جب بھی کوئی جھوٹی نبوت کا دعویدار اُٹھا ہے اس کے خلاف مسلمانوں نے باقاعدہ اعلان جنگ کیا ہے ، قتال بھی کیا ہے اورتحفظ ختم نبوت کے لیے اپنی جانیں بھی پیش کی ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد بھی جب تحفظ ختم نبوت کی تحریک چلی تھی تو مسلمانوں نے اپنے جان و مال کی قربانیاں دی ہیں ۔ اس کے بعد جاکر 1974ء میں اسمبلی میں معاملہ اُٹھا ہے اور وہاں 13دن تک مسلسل بحث ہوئی ہے جس میں قادیانیوں کے دونوں گروپوں کو بھی اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا ، دوسری طرف علماء نے فتنہ قادیانیت کا رد کیا ۔ یہ ساری تفصیل آن دی ریکار ڈ موجود ہے ۔ ویب سائٹس پر بھی مل جائے گی ۔ خاص طور پر عالمی مجلس ختم نبوت نے اس پر بڑا کام کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔
بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے ختم نبوت پر کچھ عقلی توجیہات بھی پیش کی ہیں ۔ وہ فرماتے تھے کہ قدیم زمانوں میں دنیا کا رابطہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک مشکل تھا ۔ اس وجہ سے کسی ایک علاقے میں کوئی ایک نبی بھیجا گیا تو اس کے ساتھ کسی دوسرے علاقے میں بھی بھیجا گیا جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ ایک علاقے میں تھے اور حضرت لوط ؑ دوسرے علاقے میں تھے ۔ اسی طرح بنی اسرائیل میں ایک وقت میں کئی نبی ہوئے ہیں ۔ لیکن رسول اللہﷺ کے زمانے تک دنیا کے مختلف علاقوں کا رابطہ ایک دوسرے کے ساتھ ہو چکا تھا ۔ مکہ کے قریب جو جدہ کا ساحل تھا وہاں روم اور چین کے بحری جہاز لنگرانداز ہوتے تھے ۔ یعنی مختلف ممالک کے درمیان تجارت اور آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کوآخری نبی کے طور پر کامل دین دے کر بھیجا اور آپ ﷺ پر جو قرآن نازل ہوا اس کو اور آپ ﷺ کی سنت کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ۔ لہٰذا اب کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے ۔
پتھر کے زمانے کی تہذیب کچھ اور تھی ، کانسی کے زمانے کی تہذیب کچھ اور تھی ، لوہے کے زمانے کی تہذیب کچھ اور تھی ۔ اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی ضروریات اور مسائل بدلتے گئے ۔ حالات کی تبدیلی سے نئ ہدایات کی ضرورت تھی ، چنانچہ اللہ نے ہر دور میں انبیاء کو بھیجا جنہوں اس دور کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کو اللہ کی طرف سے ہدایات پہنچائیں ۔ حضور ﷺ کے دور تک ریاستی نظام وجود میں آچکا تھا ۔ لہٰذا س سطح پر آکر اللہ تعالیٰ نے دین کو مکمل فرما دیا ۔ فرمایا: 
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْـنَـکُمْ}(المائدہ:3) ’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیاہے‘‘
آپ ﷺ سے پہلے کسی نبی پر یہ آیت نازل نہیں ہوئی ، صرف آپ ﷺپر ہوئی اور یہ ختم نبوت کی بڑی دلیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کی رسالت کو تمام انسانیت کے لیے قرار دیا ۔ لہٰذا اب کسی نئے نبی کی ضرورت پیش نہیں آسکتی ۔
بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی کتاب ’’نبی اکرم ﷺ کا مقصدبعثت‘‘ میں ان عقلی دلائل کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور قرآن و احادیث سے بھی حوالے دیے گئے ہیں ۔
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے واضح فرامین کے بعد جو شخص ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّـقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ(8)}(البقرۃ) ’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر بھی اور یومِ آخرت پر بھی‘ مگر وہ حقیقت میں مؤمن نہیں ہیں۔‘‘
پس منظر میں یہود کا تذکرہ ہے جو اللہ کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے، آخرت کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے مگر رسول اللہﷺ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے تھے۔ان کے بارے میں اللہ کہتا ہے کہ ان کا ایمان اللہ کو قبول نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے علمائے امت نے ایمان کی تکنیکی جہت بیان کی ہے کہ ہر وہ خبر جو محمد مصطفیٰ ﷺنے دی اس کی تصدیق کرنا ایمان ہے ۔
اللہ کے پیغمبر ؑ پر آکرنبوت ختم ہی نہیں ہو گئی بلکہ اس کی تکمیلی شان بھی سامنے آئی، انبیاء پہلے بھی آئے مگر محمد مصطفیٰ ﷺ امام الانبیاء کی حیثیت میں آئے، دین ، کتاب اللہ تعالیٰ پہلے بھی نازل فرماتا رہا مگر امتیازی شان محمد مصطفیٰﷺ کی بیان ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
23برس کی جدوجہد میں حضورﷺ کا اپنا خون اطہر طائف کی گلیوں میں، احد کے میدان میں بہا، اپنے پیارے صحابہؓ کی لاشیں حضورﷺ نے دیکھیں، ان کی جانوں کے نذرانے پیش کیے تب اللہ کا دین غالب ہوا۔ یہ ختم نبوت کا تکمیلی مظہراور اعلان ہے کیونکہ حضور ﷺ کے ہاتھوں اللہ کا دین بالفعل غالب ہو گیا ۔ سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا:
{وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا(81)} ’’اور آپؐ کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔یقیناً باطل ہے ہی بھاگ جانے والا ۔‘‘
سورۃ النصر میں ہے:{وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا(2)}’’اور آپؐ دیکھ لیں لوگوں کو داخل ہوتے ہوئے اللہ کے دین میں فوج در فوج۔‘‘
یہ دین کا تکمیلی مظہر ہے۔تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب آپ ﷺ کی قیادت اور رہنمائی میں رونما ہوا۔ اس انقلاب کے لیے نبی اکرمﷺ نے قرآن کے ذریعے لوگوں کی تربیت کی تھی ۔ دین کا یہ غلبہ اور بالفعل قیام ختم نبوت کا ایک تکمیلی مظہر تھا اور یہ محمد مصطفیٰ ﷺ کی امتیازی شان تھی ۔
حضور ﷺکی ایک امتیازی شان یہ بھی ہے کہ آپؐ کی رسالت universal ہے ، تمام انسانیت کے لیے ہے ۔ حدیث موجود ہے کہ پوری دنیا پر اسلام نافذ ہوگا ، دنیا کا کوئی گھر ایسا نہیں بچے گا جس میں اسلام داخل نہ ہو چاہے وہ پکی اینٹوں کا بنا ہو یا کچے گارے کا بنا ہو ، اسلام اس میں داخل ہو کر رہے گا ۔ یاتو گھر والے کو عزت ملے گی کہ وہ اسلام قبول کرے گااور اسے مسلمانوں کے برابر حقوق ملیں گے یا پھر اُسے ذلت ملے گی کہ ذمی بن کررہے گا اور اسلام کی بالادستی کو قبول کرنا پڑے گا ۔ قیامت سے پہلے یہ ہونا ہے ۔ اس کا آغاز حضور ﷺ کی زندگی میں ہوگیا تھا جب آپ ﷺ نے سلطنت روم کے خلاف لشکر بھیجا تھا ۔ آپ ﷺ کےبعد صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺمشن کو آگے بڑھایا اور سلطنت روما اور فارس کو فتح کر کے اسلام کا جھنڈا لہرایا ۔ اب یہ ذمہ داری امت مسلمہ کے کندھوں پر ہے ۔ محترم ڈاکٹر اسراراحمد ؒ  فرماتے تھے کہ ختم نبوت کے عقیدے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان آپ ﷺ کے اس مشن کو لے کر چلے اور دنیا میں اسلام کے غلبہ کی جدوجہد کرے ۔ بے شک ختم نبوت کے عقیدہ کا تحفظ ، مرتد لوگوں کے خلاف کارروائی ، جھوٹے مدعیان نبوت کا قلع قمع ، گستاخان رسول کے خلاف اقدام ، یہ سب بھی ختم نبوت کے عقیدے کا تقاضا ہے لیکن نبی اکرم ﷺکے مشن کو تھام کر اللہ کے دین کے قیام کی جدوجہد کرنا بھی تحفظ ختم نبوت کا تقاضا ہے اور یہ بھی ہر اُمتی کی ذمہ داری ہے ۔کیونکہ نبوت تو ختم ہو چکی لہٰذا اب یہ کام اُمت نے کرنا ہے ۔
وقت ِفرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
ہم نے 76 برس پہلے یہ مملکت حاصل کی تھی تو اس لیے کہ دین کا ایک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔ تحفظ ختم نبوت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم یہاں اللہ کا دین قائم و نافذ کریں ۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمن!