اداریہ
ایوب بیگ مرزا
بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
نوٹ: یہ اداریہ قبل ازیں2007ء میں ماہ ربیع الاوّل میں شائع ہو چکا ہے۔ اداریہ نویس کافی غور و خوص کرنے کے باوجود سولہ سال پہلے اپنے لکھے ہوئے اس اداریے میںکسی قسم کا حک و اضافہ نہ کر سکا لہٰذا اسی تحریر کو مِن و عَن قند ِ مکرر کے طور پر شائع کیا جارہا ہے۔
اللہ رب العزت کی تخلیق کا ذروۃ السنام کون ہے؟ حسن خلق کی انتہا کون ہے؟ بندگی کی معراج کون ہے؟ کائنات میں بے مثل کون ہے؟ حکمت اور دانائی کے بلند ترین مقام پر کون فائز ہے؟ کس کی رسائی وہاں تک ہوئی جہاں پہ فرشتوں کے بھی پرجلتے ہیں؟ آدم و حوا کی اولاد میں سے وہ واحد ہستی کون سی ہے جس کا اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، دیکھنا سننا، رہنا سہنا اور پہننا اتارنا تاریخ نے مقدس امانت کے طورپرمحفوظ کر لیا؟ وہ کون ہے جس کی تجارت دیانت کا سمبل تھی؟ وہ کون سی ہستی تھی جس کی امانت داری کی قسم اُس کی جان کے دشمن بھی کھاتے تھے؟ غریب کی پشت پناہی، یتیم کی سرپرستی ، بچوں سے شفقت ، بڑوں کی عزت واحترام ، بیمار کی تیمارداری میں کون انسانوں میں سرفہرست ہے؟ عورتوں کے حقوق اور غلاموں سے اچھے سلوک کا دنیا میں مبلغ اعظم کون ہے؟ عہد نبھانا، وعدہ وفا کرنا دنیا کو کس نے سکھایا؟ وہ کون سی ہستی ہے جس کی زبان پر صرف حق جاری ہوتا، جس سے صرف عدل کا صدور ہوتا ہے؟ ایک مسلمان کے لیے اس پرچہ ٔ سوالات کا جواب دینا دنیا کا آسان ترین کام ہے جس کے لیے ایک لمحہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں۔ یقیناً یہ وہی ہستی ہے جس پر کائنات کے خالق و مالک نے خود درود بھیجا، لیکن مقام ِ افسوس ہے کہ محبت کے تقریری اور تحریری دعووں کے باوجود اس مقدس ہستی کے فرمودات پر عمل اور اُس کی سنت کی پیروی مسلمان کے لیے مشکل ترین کام بن گیا ہے۔ کمال مہربانی سے ماہ ربیع الاوّل حضور ﷺ کو الاٹ کر دیا گیا ہے جب بھی نعت ہو گی، آپ ﷺ کے اوصاف حمیدہ کا چرچا ہو گا، لیکن فرد اور معاشرہ کی سطح پر کوئی عملی تبدیلی رونما نہیں ہو گی۔
12 ربیع الاوّل پہلے بارہ وفات کہلاتی تھی پھر عید میلاد النبی بن گئی۔ لیکن ہم اس بحث میں نہیں الجھتے کہ آپ ﷺ سرکار کی حقیقی تاریخ پیدائش یہی ہے یا نہیں، مؤرخین کی اکثریت ربیع الاوّل کی مختلف تاریخیں بتاتی ہے۔ بعض محققین ربیع الاوّل کے علاوہ دوسرے مہینوں کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ سید عبد القادر جیلانی ؒ آپؐ کی پیدائش 10 محرم بتاتے ہیں۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ روز قیامت مسلمان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ بتائو ہم نے کس ماہ اور کس دن اپنے محبوب کو دنیا میں بھیجا تھا اور تم نے اُس روز جشن منایا تھا یا نہیں۔ آپﷺ پر درود بھیجنا کہ یہ سنت اللہ ہے اور آپﷺ کے اوصاف اور محاسن کا ذکر کرنا یقیناً کارِ ثواب ہے لیکن اس کے باوجود آپﷺ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے سے گریز کرنا اور سنت نبوی ﷺ کو اپنانے سے فرار اختیار کرنا کھلی منافقت ہے اور اللہ رب العزت کو منافقت سے شدید نفرت ہے۔ اسی لیے اُس نے جہنم کی بد ترین وادی کو منافق کا ٹھکانا بنایا ہے۔ ہم غور کرنے کی تکلیف گوارا کریں تو بڑی آسانی سے اس نتیجہ پرپہنچ سکتے ہیں کہ امت ِ مسلمہ آج ذلت و رسوائی سے کیوں دو چار ہے؟ دشمن کا خوف ہمارے اذہان و قلوب پر کیوں مسلّط ہے؟ شکست اور ہزیمت ہمارا مقدر کیوں ٹھہر گیا ہے؟ اس لیے کہ محسن ِانسانیتؐ سے ہماری محبت، اطاعت کی آمیزش نہیں رکھتی۔ نبی اکرم ﷺ کا مقصد بعثت اللہ کی کبریائی کو دنیا میں کار فرما کرنا اور اُس نظام عدل وقسط کو قائم کرنا تھا جس کے بنیادی قواعد اللہ رب العزت نے اپنی آخری کتاب میں نازل کر دیے تھے۔ پھر یہ کہ امت ِ مسلمہ کو امت ِ وسط قرار دیا تھا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اس کا بنیادی فریضہ بنایا گیا تھا۔ لیکن یہ قوم دوسروں کو معروف کا حکم کیا دیتی اور منکر کے راستے کا پتھر کیا بنتی، اس کا اپنا حال یہ ہے کہ ستاون اسلامی ممالک میں سے ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے کہ اُسے صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست کہا جا سکے، جہاں ہر کام سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہو کہ اللہ کا حکم کیا ہے، پیارے نبی ﷺ کی سنت کیا ہے۔
آخرت میں سرخرو ہونے کے لیے اور دنیا میں عزت و وقار کا مقام حاصل کرنے کے لیے ہمیں سیرت نبوی ﷺ سے روشنی حاصل کرنی ہو گی اور صحابہ ؓ کے کردار کا جائزہ لینا ہو گا۔ صحابہ کرامj حضورﷺ کے یوم پیدائش پر جشن تو نہیں مناتے تھے لیکن جہاں آپ ﷺ کا پسینہ گرتا تھا وہاںان کاخون گرتا تھا۔ آپﷺ کے اشارئہ ابرو پر جان کی بازی لگانے سے گریز نہیںکرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مکہ کی بے آب و گیاہ زمین کے یہ مکین قیصر و کسریٰ پر حاوی ہو گئے۔ ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار پکڑ کر بحروبر کو وہ روندتے چلے گئے۔ صحرانہ جنگل نہ پہاڑ کوئی ان کے راستے میں حائل نہ ہو سکا، حالانکہ ہماری طرح اُن کے بھی دو ہاتھ دو پائوں تھے، لیکن اُن کے قلوب قرآن کی دولت سے مزین تھے۔ اُن کے سامنے نبی ﷺ کی سیرت تھی اورسنت ِ رسول ﷺ اُن کا ہتھیار تھا۔ آج بھی ہمارے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنے قول و فعل کا تضاد دور کریں۔ ہماری زبانیں اگر حضور ﷺ کی نعت سے تر ہوں تو ہمارے افعال ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق ہوں۔ ہم سنت ِ رسول ﷺ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں اور صرف ماہ ربیع الاوّل ہی نہیںہر دن ہر شب کی نسبت حضور ﷺ سے جوڑ دیں، کسی صورت اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو اور کبھی سنت رسول ﷺ کا دامن ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ ہماری زندگیاں اس بات کی گواہ ہوں کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024