بھارت کی دہشت گردی صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ تو عالمی دہشت گرد ہے،
کینیڈا میں ہونےوالے حالیہ واقعات ہمارے سامنے ہیں : ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف
پاکستان دشمن قوتیں کسی صورت نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن ہو ، یہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو،
اور مستقبل میں اس خطے میں کوئی اہم رول ادا کرنے کے قابل ہو سکے : رضاء الحق
دہشت گردی کا خاتمہ مگر کیسے؟ کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: 12 ربیع الاوّل کے دن مستونگ اور ہنگو میں ہونے والی دہشت گردی میں را اور بھارت ملوث بتائے جا رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوںنے یہ بیان دے کر اس مسئلے کا محرک تو بیان کر دیا ہے مگر اس سنگین مسئلے کا سدباب کب اور کیسے ہوگا، اس کا کوئی لائحہ عمل ہے ہمارےپاس؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف:بھارت کی دہشت گردی صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ تو عالمی دہشت گرد ہے ۔ کینیڈا میںہونےوالے حالیہ واقعات ہمارے سامنے ہیں ۔ 2006ء میں بھی 12 ربیع الاوّل ہی کو کراچی کے نشتر پارک میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا تھا۔اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں اور مسئلے کا محرک را اور بھارت بتائے جاتے ہیں۔اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ بھارت ہمیشہ سے اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے اور اس کا ثبوت کلبھوشن جادیو جیسے انڈین دہشت گردوں کا رنگے ہاتھوں پکڑے جانا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس دہشت گردی کا سدباب کیا ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام کرنا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے ۔چاہے اس میں را ملوث ہو ، موساد ہو ، دیگر انٹیلی جنس ایجنسیز ہوں ، ان سب کی مداخلت کو روکنا اور امن کو قائم کرنا حکومت کا ہی کام ہے اس کو یہ کرنا چاہیے ۔
سوال:پاکستان میں الیکشن کے انعقاد سے ذرا قبل دہشت گردی کے واقعات میں پے در پے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے فوجیوں اور سول لوگوں کی ہلاکتیں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔ دہشت گردی کی یہ لہر پاکستان کی اور جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے کس قدر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ؟
رضاء الحق:دراصل پاکستان کی دشمن قوتیں کسی صورت نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن ہو ، یہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور مستقبل میں اس خطے میں کوئی اہم رول ادا کرنے کے قابل ہو سکے ۔ ان دشمن قوتوں میں صف اول میں انڈیا ہے ، امریکہ اس کی پشت پر ہے اور دیگر بھی کئی قوتیں ہیں ، ان کی ایجنسیز پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہوتی ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری اپنی حکمران اشرافیہ اورمقتدر حلقوں نے شروع دن سے ملکی مفاد کو اہمیت نہیں دی۔ اکثر یہ کہا جاتاہے کہ پاکستان میں طالبانائزیشن کا خطرہ ہے۔ ماضی میں بھی یہ بات کہی جاتی رہی ہے ۔ اس کے جواب میں بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ کہا کرتے تھے کہ اگر آپ کو طالبانائزیشن کا خطرہ ہے تو آپ Islamization کی طرف آجائیں۔ اسلام کا نظام عدل اجتماعی قائم کریں ۔پھر یہ کہ ہماری رائے میں اس سے کم تر سطح پر کم ازکم جو اسلامی اقدار ہیں ان کو ہی نافذ کردیں ۔ جیسا کہ کوئی ایسی قانون سازی نہ کریں جو شریعت کے خلاف ہو ، میڈیا میں ایسی چیزیں پروموٹ نہ کریں جو دینی اقدار کے خلاف ہوں ۔ یعنی ایسے کام نہ کریں جس سے اسلام کی مخالفت کا تاثر ملے اور اس کو بنیاد بنا کر کوئی دہشت گردی کو ہوا دے ۔ اسی طرح ابھی چین نے افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیا ہے اور وہاں اپنا سفیر بھی تعینات کر دیا ہے ۔ ہم کس انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں؟ اگر ہم نے 1996ء میں افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا تو اب کیا حرج ہے ؟ حالانکہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انہوںنے غاصب قوتوں کو افغانستان سے نکال کر جائز طریقے سے حکومت قائم کی ہے لہٰذا عالمی قانون کے تحت ان کا یہ حق بنتا ہے کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے ۔ جہاں تک الیکشن کی بات ہے ، یہ ہوں یا نہ ہوں اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ وہاں دہشت گردی جیسے واقعات نہ ہوں ۔ اگر ایسے واقعات ہوں گے تو باہر سے انوسٹمنٹ نہیں آئے گی جو معاشی استحکام کا بنیادی جُز ہے ۔ اسی طرح دہشت گردی کی صورت میں اندرون ملک انڈسٹری اور تجارت کو بھی شدید نقصان پہنچتاہے ۔ لہٰذا جب اندرون ملک بھی آپ کی پیداوار نہیں ہوگی اور باہر سے بھی انوسٹمنٹ نہیں آئے گی تو ملک کیسے ترقی کرے گا اور معیشت کیسے مستحکم ہوگی ۔ یہی وجہ ہے اب چین نے بھی سی پیک اور دیگر منصوبوں کے حوالے سے ہاتھ کھینچنا شروع کردیا ہے ۔ جولائی 2022ء میں جو مشترکہ اجلاس ہوا تھا اس کی رپورٹس بعض اخبارات میں شائع ہوئی ہیں جن سے پتا چلتاہے کہ چین اب پاکستان میں مزید انوسٹمنٹ اور سی پیک میں پیش رفت کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ امن و امان کی صورتحال ہے ۔ سعودی عرب کی طرف سے بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ وہ ریکوڈیک پراجیکٹ میں انوسٹمنٹ کرنا چاہتا ہے مگر اس کے لیے امن و امان ضروری ہے ۔ امن و امان ہوگا تو معاشی ترقی بھی ممکن ہو گی ۔
سوال: ہماری حکومت اس وقت غیر قانونی تارکین وطن خاص طور پر افغان مہاجرین کے خلاف ایکشن میں ہے اور یکم نومبر تک ان کو ڈیڈ لائن دے دی گئی ہے ۔ اسی طرح افغان طالبان نے بھی TTPکے ان لوگوں کے خلاف ایکشن لینے کا عندیہ دیا ہے جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث پائے جائیں گے ۔ کیا ان دوطرفہ اقدامات سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی ممکن ہوگی ؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف:ہماری حکومت نے براہ راست جواعلان کیا ہے وہ غیر قانونی تارکین وطن کےحوالے سے ہے لیکن اخبارات میں جس طرح رپورٹ ہو رہا ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ یہ آپریشن افغانیوں کے خلا ف ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیںہے ۔ پاکستان میں اس وقت کل 40 لاکھ افغانی تارکین وطن ہیں جن میں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق 11 لاکھ غیر قانونی ہیں ۔ تنظیم اسلامی دینی اجتماعیت کی بات کرتی ہے ، افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی بات کرتی ہے لیکن جو غیر قانونی تارکین وطن ہیں جن میں صرف افغانی نہیں ہیں بلکہ تاجک ، منگول ، ہزارہ اور دیگر بھی ہیں، ان میں سے جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور حکومت ان کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو ہمیں حکومت کی حمایت کرنی چاہیے ۔ اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ ، اغواء برائے تاوان ، خود کش دھماکوں سمیت بیشتر جرائم میں وہی لوگ ملوث ہوتے ہیں جو غیر قانونی ہیں ۔ ان کے خلاف کارروائی عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہونی چاہیے ۔ البتہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی آڑ میں قانونی تارکین وطن کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے ۔ میری رائے میں صرف غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے سے دہشت گردی نہیں رکے گی ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے نظام کو بہتر بنانا ہوگا ۔ عدل و انصاف قائم کرنا ہوگا ۔ جہاں بھی دبے ہوئے اور پسے ہوئے لوگ ہیں چاہے وہ کے پی کے سے ہوں ، بلوچستان سے ہوں ، اندرون سندھ سے ہوں انہیں ان کے جائز حقوق دینا ہوں گے ۔ ریاست اور حکومت کو چاہیے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ملائے ۔ دہشت گردی خود بخود رُک جائے گی ۔ اگر ایران اور سعودی عرب آپس میں ہاتھ ملا سکتے ہیں تو ہم اپنے ہی شہریوں سے بات کیوں نہیں کر سکتے۔ اصل بات یہ ہے1973ء کے آئین کوبنے ہوئے پچاس سال ہو گئے ہیں مگر اس کی روح کے مطابق اس پر عمل نہیں ہوا جس کی وجہ سے شورش بڑھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا ، پھر اکبر بگٹی کا براہ راست قتل ہوا ، اسی طرح دیگر کئی ماورائے آئین کام ہوئے جس کی وجہ سے حالات خراب ہوئے ۔ اب وقت ہے کہ ناراض لوگوں سے ہاتھ ملایا جائے ۔
سوال: دہشت گردی کا پہلا واقعہ پشاور پولیس لائن کی مسجدمیں ہوا جس میں 60 سے زائد نمازی شہید ہوئے۔ دوسرا واقعہ بلوچستان میںامیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب پر خودکش حملہ کی صورت میں ہوا ۔ تیسرا واقعہ باجوڑ میں جے یو آئی کے ورکرزکنونشن میں ہوا۔ اس میں بھی 60 سے زائد شہادتیں ہوئیں ۔ چوتھاواقعہ سینیٹر حمداللہ پر قاتلانہ حملے کی صورت میں ہوا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے اور ابھی تک ہسپتال میں ہیں ۔ اسی طرح اب بھی دہشت گردی کے جو واقعات ہورہے ہیں ان سب میں ایک چیز مشترک ہے کہ اکثر دینی طبقہ اور دینی اکابرین ہی ٹارگٹ بن رہے ہیں ۔ دوسری طرف دینی طبقہ پر ہی یہ الزام بھی لگایا جاتاہے کہ اس کی برین واشنگ کی وجہ سے دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر یہ الزام درست ہے تو پھر ان دہشت گردوں کا ٹارگٹ یہی دینی اکابرین اور دینی طبقہ کیوں ہیں ؟
رضاء الحق:دہشت گرد اور جرائم پیشہ لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں ، یہ یورپ میں بھی ہیں ، یہودیوں میں بھی ہیں ، عیسائیوں میں بھی ہیں ، بدھسٹوں میں بھی ہیں ، ہندو انتہا پسند بھی ہیں لیکن بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد جب یورپ اور امریکہ میں کچھ خاص اصطلاحات کا آغاز ہوا تو ان کے ساتھ ان کا baggageبھی امپورٹ ہو کر ہمارے ہاں آگئے ۔ جیسا کہ یہ کہا جانے لگا کہ war on terror سے مراد یہ ہے کہ تمام مسلمان violent ہیں، extremist ہیں، radical ہیں،اس violence کو prevent کرنا ہے، اس کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر آپریشنز کی ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے ہم نے بھی یہی کام یہاں پر کیے اور اس کے نتائج بہرحال ہمارے سامنے ہیں ۔ ماضی میں کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ مارکیٹس کو ٹارگٹ کیا گیا ، یہ کہہ کر حجام کی دکانوںکو ٹارگٹ کیا گیا کہ داڑھی منڈانا اسلام میں ناقابل قبول ہے ، فلموں اور گانوں کی سی ڈیز کی دکانوں پر حملے کیے گئے ، ہوٹلز کو اڑایا گیا ، شاپنگ مالز ، سینماگھروں کو ٹارگٹ کیا گیا ۔ تاثر یہ دینا مقصود تھا کہ اس دہشت گردی کے پیچھے مذہبی عناصر ہیں ۔ لیکن اب جبکہ صرف دینی طبقے اور دینی اکابرین کو دہشت گردی کے واقعات میں ٹارگٹ کیا جارہا ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اس کے پیچھے باقاعدہ ایک منصوبہ بندی ہے اور اس کا مقصد امن و امان کو تباہ کرنا ہے ۔ اب دنیا کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ اس طرح کے violence کےخلاف ریاست ڈنڈے کا استعمال ضرور کرتی ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی دنیا کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ ریاست کو پولیس سٹیٹ بھی نہیں بننا چاہیے ۔ وہ لوگوں کو ان کے جائز حقوق دے ، عدل و انصاف قائم کرے ، جہاں حق تلفی ہو اس کا ازالہ کرے ۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بیرونی قوتوں کے کچھ ایجنٹ بھی حالیہ دہشت گردی میں ملوث ہیں اور یہ سب باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہورہا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس میں صرف مذہبی طبقہ ہی ملوث ہے ۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف:2010ء کے آس پاس دہشت گردی کے واقعات مزاروں پر بھی ہوتے تھے جیسے لاہور میں سید علی ہجویریؒ کے مزار پر ہوا ، بابا فریدؒ شکر گنج کے مزار پر ہوا ، سندھ میں لال شہباز قلندرؒ کے مزار پر ہوا ، کراچی میں عبداللہ شاہ غازی ؒکے مزار پر ہوا ۔ اس وقت کہا جارہا تھا کہ یہ فرقہ واریت کی وجہ سے ہورہا ہے ۔ میرے خیال میں ایسا نہیں تھا ، وجہ یہ تھی کہ ان مقامات کو ٹارگٹ کرنا آسان تھا ۔ اسی طرح 12 ربیع الاوّل کے جلوس کو ٹارگٹ کرنا آسان تھا کیونکہ ایسے مقامات اور جلوس میں عام لوگ زیادہ ہوتے ہیں ،وہاں سکیورٹی کا بھی کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا اور وہاں ایک دھماکہ بہت زیادہ نقصان کا باعث بنتاہے جس سے کہرام برپا ہوتا ہے اور دنیا کو یہ تاثر جاتاہے کہ پاکستان ایک غیر محفوظ ملک ہے۔ دشمن قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان میں کوئی انوسٹمنٹ نہ ہو اور پاکستان ترقی نہ کرسکے ۔
سوال:پاکستان میں دہشت گردی کے اکثر وبیشتر واقعات کی ذمہ داری TTPقبول کرتی ہے ۔ہماری حکومت کبھی ان سے سیز فائز کرتی ہے اور کبھی مذاکرات کرتی ہے ۔ پھر مذاکرات ختم کرکے ان کے خلاف آپریشن بھی شروع کر دیتی ہے ۔ کیا اس طرح کی ڈنگ ٹپاؤ پالیسیز سے دہشت گردی کو روکنا ممکن ہو گا ؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف: خرابی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہماری پالیسیوں میں استحکام نہیں ہے ۔ گزشتہ 50 برس میںسے 29 سال تین بڑی سیاسی جماعتوں کی حکومت رہی اور 12 وزیر اعظم تبدیل ہوئے ۔ 21 برس کے فوجی دور حکومت میں 5 وزیر اعظم رہے ۔ ہر دفعہ جب بھی حکومت تبدیل ہوئی تو پہلے سے جاری پالیسیوں میں یو ٹرن لیتے ہوئے نئی پالیسیاں بنائی گئیں ۔ نائن الیون کے بعد بھی ایک یوٹرن لیا گیا ۔ڈمہ ڈولا کے مقام پر فجر کے وقت مدرسے پر فضائی حملہ کرکے 80 حافظ قرآن بچوں کو شہید کر دیا گیا ۔ تب حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا لیکن جب امریکیوں کے ہاتھوں ہمارے فوجی جوان شہید ہوئے تو فوراً سپلائی لائن بند کر دی گئی ۔ پھر لال مسجد میں بے گناہ بچیوں کو شہید کیا گیا ، پھر قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں پورے پورے خاندان شہید کیے گئے ، اگر کوئی زندہ بچ گیا تو اس کے پاس جینے کا کیا جواز باقی رہ گیا ؟ پھر اس کا ردعمل بھی آیا ۔ حالانکہ یہ ردعمل غلط تھا لیکن یہ ہماری پالیسیوں میں عدم استحکام کا نتیجہ تھا کہ اس طرح کا ردعمل آیا ۔اب ہمیں اگر امن قائم کرنا ہے تو اس ردعمل کے جواز کو ختم کرنا ہوگا ۔ ان میں سے جو دینی طبقات ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں ، ناراض حلقوں کو انصاف اور حقوق دیے جائیں ۔ ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جائے ۔ اس طرح ان طبقات کو اپنے ساتھ ملا کر پھر دہشت گردوں کے خلاف اقدام کیا جائے تو تب امن قائم ہو گا ورنہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے کبھی امن قائم ہونے والا نہیں ہے ۔
سوال:ہمارے ہاں goodطالبان اور bad طالبان کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی ہے ۔ good طالبان یعنی افغان طالبان نے پاکستان سے وعدہ کیا تھا کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو گی لیکن افغانستان میں ان کی حکومت کو قائم ہوئے دوسال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے جتنے واقعات ہورہے ہیں وہ سب افغانستان سے ہی launch ہو رہے ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت TTPکو وہاں پرکیوں شیلٹر فراہم کر رہی ہے ؟
رضاء الحق: بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ’وعدہ‘ اور ’صلاحت‘ میں فرق ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان نے دوحہ معاہدے میں تسلیم کیا تھا کہ افغان سرزمین دہشت گردی کو ایکسپورٹ کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ ابھی چند ماہ پہلے امریکہ کے ساتھ دوبارہ مذاکرات ہوئے ہیں ان میں بھی اس شرط کو دہرایا گیا ہے ۔ اب ہمارے نگراں وزیر خارجہ نے بھی اس چیز کا تذکرہ کیا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات کی خرابی کی اصل وجہ TTPہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب افغان طالبان نے حکومت سنبھالی تو TTPپہلے سے وہاں موجود تھی اور امریکہ کے خلاف جنگ میں افغان طالبان کی مدد بھی کر رہی تھی ۔ اب جب افغان طالبان حکومت میں آئے ہیں تو اول تو ان کی تعداد کم تھی ۔ دوسرا یہ کہ وہاں ان کی نہ تو باقاعدہ فوج تھی ، نہ پولیس تھی ، نہ سکیورٹی کا کوئی نظام تھا ۔ انہوں نے جب نظام سنبھالا تو پورے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے میں وقت لگا ۔ اس دوران جب پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے اور پاکستان نے احتجاج کیا تو افغان طالبان کی حکومت نے بار بار یقین دہانی کروائی کہ ہم دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف ایکشن لیں گے اور واقعتاً انہوں نے کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا اور جیلوں میں بھی بھیجا ۔ یعنی اب انہوں نے ایکشن لینا شروع کر دیا ہے۔اس کے باوجود بھی اگر ہمیں ان کی نیت پر شک ہے تو بیٹھ کر ان سے بات کرنی چاہیے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ابھی بھی ان کو پورے ملک میں سکیورٹی کا نظام قائم کرنے میں وقت لگے گا کیونکہ ابھی بھی ان کے پاس فورسز کی کمی ہے ۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے بارڈرز پر سکیورٹی بڑھائے ، خاص طور پر غیر قانونی تارکین وطن کو روکا جائے ۔ پہلے ایران کی سرحد پر بھی بہت سارے واقعات ہوتے تھے ہم نے گفت و شنید کرکے بہت سارے معاملات حل کیے ۔ اسی طرح افغان حکومت کے ساتھ بھی بات چیت مفید ثابت ہو سکتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ چاہے ہماری دینی جماعتیں ہوں یا سیکولر ہوں ان سب تک یہی پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے کہ موجودہ نظام کے اندر جو خرابیاں ہیں ان کو دور کردیں تو کوئی شک نہیں جزوی طور پر حالات بہتر ہو سکتے ہیں مگر اصل اور پائیدار حل وہی ہے جو ڈاکٹر اسراراحمد ؒ بتایا کرتے تھے ۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ مبشر حسن اور حنیف رامے جو پیپلزپارٹی کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے پاس اس غرض سے تشریف لائے کہ ڈاکٹر صاحب ؒ کو مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے آن بورڈ لے سکیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کے سامنے’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ: کرنے کا اصل کام ‘‘ نامی کتابچہ رکھا اور بتایا کہ اس طریقے سے پاکستان کو صحیح راستے پر ڈالا جا سکتاہے ۔ آئیے آپ بھی ہمارے ساتھ اس کام میں شامل ہوجائیے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ نظام میںجو خرابیاں ہیں ان کو دور کر دیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی مفاد اور بنیادی استحکام اور بقاکے کچھ تقاضے ہم پورے کر سکتے ہیںلیکن long run میں جب تک ہم نظام عدل اجتماعی نافذ نہیں کریں گے تب تک پاکستان کے معاملات حل نہیں ہو سکتے ۔
سوال: ہمارے معاشرے کا جو کم علم اور کم فہم طبقہ ہے اس کو دہشت گردی سے بچانے کے لیےسب سے پہلا ادارہ والدین ہیں ۔ اس کے بعد اساتذہ کرام اور علمائے کرام ہیں ۔ یہ اس ضمن میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف:اصلاً ذمہ داری تو گھر اور والدین کی ہے ۔ قرآن مجیدمیں اللہ کا حکم ہے :
{قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا}(التحریم:6) ’’بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے‘‘
مان لیجیے کہ اس وقت ہم جس وار فیر کا حصہ ہیں ، چاہتے نہ چاہتے وہ ہم پر مسلط کر دی گئی ہے ، سوشل میڈیا کے ذریعے یا دیگر ذرائع سے یہ ہمارے گھروں میں داخل ہو چکی ہے لہٰذا اب والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دین سے جوڑیں ۔الحمدللہ تنظیم اسلامی اس حوالے سے گھریلو اسرہ کا اہتمام سکھاتی ہے جس کے تحت اپنے گھروں میں روزانہ کی بنیاد پر یا ہفتے میں ایک دن گھر کے تمام افراد بیٹھ کر دین کے حقیقی اور جامع تصور کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مصروفیات تو بے شمار ہوتی ہیں لیکن ان سب کے باوجود ضروری ہے کہ والدین کم ازکم ہفتے میں ایک بار گھر کے افراد کو دینی تعلیم سے روشناس کرانے کے لیے دینی محافل کا اہتمام کریں ، اپنے بچوں کو قرآن کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں ۔اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا ہے کہ جس گھر میں قرآن مجید پڑھا پڑھایا جائے تو فرشتے اس گھرکو گھیرلیتے ہیں اور اس کا ذکر اللہ تعالیٰ اپنی مجلس میں کرتا ہے۔ ایسی مجالس اگر گھر میںقائم ہوں تو اس کے اثرات اور برکات گھر میں آئیں گے ۔ معاشرے میں جو وارفیئر چل رہی ہے اس کے برے اثرات سے بھی گھر کے افراد بچیں گے ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے ہمیں سکھایا ہے کہ بچوں کے ساتھ سختی والا معاملہ نہیں رکھنا بلکہ ان کے ساتھ دوستی والا انداز رکھنا ہے تاکہ وہ ہر چیز والدین کے ساتھ شیئر کریں اور والدین ان کی بہتر رہنمائی کر سکیں ۔ اسی طرح اساتذہ کو بھی کردار ادا کرنا ہے ، انہیں بھی کلاس روم میں طلبہ کو دین سے روشناس کرانے کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ ان کا بھی مستقبل کی تعمیر میں بہت بڑا رول ہے ۔ الحمدللہ ہمارے کم سے کم دو صوبوں میں تو قرآن مجید کی تعلیم یونیورسٹی level پر آگئی ہے ۔ اللہ کرے کہ سندھ اور بلوچستان میں بھی قرآن کی تعلیم نصاب کا حصہ بن جائے ۔ اسی طرح علماء کے پاس منبر رسول اللہﷺ ہے جہاں سے وہ لوگوں کی تعلیم و تربیت کر سکتے ہیں۔ وہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کو تحمل ، رواداری ، برداشت اور بردباری سکھائیں۔ وہ طبقات جو سکول، کالج ، یونیورسٹی کی تعلیم سے محروم ہیں ان کے پاس کم ازکم مساجد تو موجود ہیں ۔ مساجد کو صرف نماز تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ان کو قوم کی تعلیم و تربیت کے مراکز بھی بنایا جائے ۔ لوگوں کو دین سکھایا جائے ۔ معروف حدیث ہے کہ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں ۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کوقرآنی تعلیمات کی روشنی میں درست کرنا ہے ۔اس کےبعد اس کی تعلیم دوسروں کو دینی ہے ۔ دینی طبقات خصوصاً علماء کو مل کر اس پر کام کرنا چاہیے ۔ان شاءاللہ دہشت گردی کو اس طرز پر روکنے میں بہت مدد ملے گی ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024