(خصوصی مضمون) جنریشن وارفئیر - ادارہ

8 /

جنریشن وارفئیر

ڈاکٹر انوار علی

 

جنریشن آف ماڈرن وارفئیر کی اصطلاح تقریباً 80 کی دہائی میں استعمال ہونا شروع ہوئی ۔ آج پوری دنیا وار فئیر کی اس تقسیم کو نہ صرف تسلیم کرچکی ہے بلکہ مملکتوں اور ریاستوں کا دفاع اب مکمل طور پر ماڈرن وارفئیر کے میدان میں زیادہ سے زیادہ ترقی کا مرہون منت ہے۔ جنریشن وارفیئر، ہائبرڈ وارفیئر اور گرے زون کنفلکٹ (تنازعہ) کی تھیوریاں اب ملکوں کی پالیسیاں بنتی جا رہی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب جنگیں تیروں اور تلواروں سے لڑی جاتی جاتی تھیں ۔ایسی جنگوں میں فتح کا دارومدار فوجیوں کی تعداد اور ان کے جذبے پر منحصر ہوا کرتا تھا۔وار فئیر کی اصطلاحی تقسیم کے تحت یہ جنگیں فرسٹ جنریشن وار کہلاتی ہیں ۔ اس کے بعد بندوقوں اور توپوں کا زمانہ آیا اور جنگی میدان میں جیت کا دارومدار انسانی قوت کے ساتھ ساتھ ان کے اسلحے کے مقدار ومعیار پر بھی ہوتا چلا گیا۔ ان جنگوں کو سیکنڈ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم اسی کی مثال ہے جو 1914 سے 1918 تک لڑی گئی۔
اس کے بعد جو ترقی انسان نے جنگی میدان میں کی اس کی مثال بھی تاریخ میں نہ ملتی تھی ۔ میزائل ایجاد ہوئے طرح طرح کے بم بنائے گئے۔ کم سے کم انسانی قوت کا استعمال کرکے جدید ٹیکنالوجی کو کام میں لایا گیا ۔ فضائیہ، نیوی اور اس طرح کی کئی ڈیویژنز وجود میں آئیں۔ ہواؤں میں جنگی طیارے اور سمندروں میں آبدوزوں کی تباہ کردینے والی نت نئی تکنیک مقابلے کا میدان بن گئیں۔ ان جنگوں کو تھرڈ جنریشن وار کا نام دیا گیا ۔ دوسری جنگ عظیم اس کی بڑی مثال ہے جو 1939 سے 1945 تک جاری رہی اور انسانوں نے تباہی اور ہلاکت خیزی کے نئے ریکارڈز قائم کئے۔ اب تک کی ذکرکردہ تمام وارفئیرز کی خاص بات یہ رہی کہ یہ جنگیں افواج کے درمیان لڑی جاتی رہیں اور میدان جنگ میں دوست اور دشمن کا فرق واضح رہا۔ نت نئے تجربات اور ٹیکنالوجی میں ترقی اس جنگ کو آگے سے آگے لے جاتی رہی اور اب بھی دنیا کے کچھ علاقے اسی جنگ سے گزررہے ہیں ۔ البتہ دنیا میں سیاسی نظام کے ارتقاء کے ساتھ انسانیت نے جو کچھ سیکھا اس میں اہم پہلو یہ تھا کہ دشمن کو زیر کرنے کے لیے میدان جنگ سے باہر بھی منصوبہ بندی کی جائے ۔ اور پھر زمانہ آیا فورتھ جنریشن وار فئیر کا۔جنگ لڑنے کے لیے ملکی افواج کے ساتھ ساتھ نان سٹیٹ ایکٹرز کا کردار بھی اہم ہو گیا۔ سفارت کاری، معیشت اور پروپیگنڈے کے ہتھیار بھی شامل ہوگئے۔ فورتھ جنریشن وار کی مثال سرد جنگ کی ہے۔ افغانستان، عراق اور شام وغیرہ کی جنگیں اب تک کی نمایاں مثالیں ہیں۔
ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح 2009 میں سامنے آئی ۔ ففتھ جنریشن وار ایک نظریاتی جنگ ہوتی ہے اس میں افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے نہیں ہوتیں ۔ اَن دیکھا دشمن اپنے ہارڈ پاور کی بجائے سافٹ پاورز کو استعمال کرتا ہے۔
اس جنگ کے لیے"War of Misinformation"
"Social engineering"یا"Non-kinetic war"جیسی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ اس جنگ کے بنیادی ہتھیار جہاز، ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ سفارت کاری، پراکسیز، ٹی وی، ریڈیو، اخبار، سوشل میڈیا اور فلم ہیں۔ اس لڑائی کا میدان زمین نہیں بلکہ انسانوں کے ذہن ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انسانوں کو نہیں بلکہ ان کے ذہنوں کو نشانہ یا ہدف بنایا جاتا ہے۔ دشمن ملک کے شہریوں کو اپنی ہی ریاست اور فوج کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ دشمن ملک کے عوام میں گمراہ کن پراپیگنڈا کر کے انہیں ذہنی طور مفلوج کرنا، انتشار پھیلانا، جھوٹی و من گھڑت خبریں پھیلانا، علاقائی تعصب اور مذہبی فرقہ واریت کوہوادے کر عوام کو آپس میں لڑانا اور انہیں اتنا کمزور کردینا کہ باوجود اس کے کہ ان کے پاس ہر شے ہوتے ہوئے وہ ذہنی شکست و ریخت اور پسپائی اختیار کر لیں، اب ایک عام سے بات ہوچکی ہے۔ اس جنگ میں دہشت گردی کا فروغ اور اس کے لیےاعلیٰ معیار کی ٹیکنالوجی کا استعمال، اینٹی سیٹلائٹ ہتھیار، سائبر وارفیئر کے تحت مالیاتی اہداف پر حملےبھی شامل ہیں۔
گزشتہ دو تین دہائیوں میں الیکٹرانک میڈیا ایک سیلاب کی ہئیت اختیار کرتا چلا گیا۔ نئے نئے نجی ٹیلی ویثرن چیینلز کا آغاز ہوا ۔ نیوز اور کرنٹ افئیرز کی دوڑ میں سچ اور جھوٹ میں تمیز مٹتی چلی گئی۔ اور پھر اس سیلاب نے تیز تر طوفان کی شکل اختیار کرلی جب انسان نے اپنے آپ کو ٹی وی کے سحر سے آزاد کروا کر پوری کائنات کو اپنی انگلیوں کی پوروں کے گرد گھمانے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا! انٹرنیٹ نے سوشل میڈیا کو جنم دیا جس نے معلومات کی پٹاری ہر بچے، جوان اور بوڑھے کے ہاتھ میں تھما دی اور یہیں سے ففتھ جنریشن وار فئیر میں تیزی آگئی۔ جہاں پہلے پراپیگنڈے کے لیے ٹی وی اور ریڈیو کا سہارا لیا جاتا تھا اب نظریات کی جنگیں سوشل میڈیا پر لڑی جاتی ہیں۔ یہ چومکھی لڑائی ہے۔ اس کا شکار ہونے والے اس کے ہاتھوں تباہی کے دہانے پر پہنچ کر بھی اس کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں بلکہ اس کے بغیر جینے کا تو اب کوئی تصور بھی نہیں ہے۔
ذرا سوچئے ! سوشل میڈیا پر ہمارے ہر کلک پر ہماری شناخت دوسرے تک پہنچ رہی ہوتی ہے۔ ہم کہاں ہیں، کیا کر رہے ہیں ،کس سے مل رہے ہیں، ہماری پسند و نا پسند کیا ہے؟ ہمارے رحجانات کیا ہیں، ہماری شخصیت کے راز کیا ہیں ، ہم کیا سوچ رہے ہیں؟ اتنا تو ہم اپنے بارے میں نہیں جانتے جتنا ہمارے دشمن ہمارے بارے میں جان سکتے ہیں۔ وہ جو چاہیں سوچ ہمارے ذہنوں میں اور جو چاہیں الفاظ ہمارے منہ میں ڈال سکتے ہیں۔
ففتھ جنریشن وار کے متعلق دو کہاوتیں بہت مشہور ہیں، ایک یہ کہ’’یہ وہ جنگ ہے جسے جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے لڑا ہی نہ جائے‘‘۔ اور دوسری یہ کہ’’انسانی دماغ اب جنگ کا میدان کارزار ہے جس نے اسے مسخر کر لیا وہ ہی ٹھہرا وقت کا بادشاہ‘‘۔اس جنگی حکمت عملی میں سب سے اہم کردار میڈیا کا ہے جو انسانی ذہنوں کو مسخر کرنے کے کام آتا ہے۔
ففتھ جنریشن وار کا شکار تو مسلم و غیر مسلم ممالک دونوں ہی رہے ہیں البتہ ایک حد تک دنیا پر قابض طاقتیں چونکہ اپنے اہداف حاصل کرچکی ہیں لہٰذہ اس وار فئیر کی اگلی شکل جس کو یا تو سکس جنریشن وار (6th generation war) کا نام دیا جائے یا ففتھ جنریشن وار کا ایڈوانسڈ فیز (Advanced phase) کہا جائے ، کا شکار بالخصوص اسلامی ممالک اور مسلمان ہیں ۔ پہلے جائزہ لیتے ہیں کہ ففتھ جنریشن وار فئیر کے استعمال سے اسلام مخالف طاقتیں اب تک کیا کچھ حاصل کرچکی ہیں ۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی نئی نسل اب اپنی تہذیب سے بے زار ہے وہ لباس ہو یا اپنی زبان ، اب ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں ۔رہن سہن ، طرز معاشرت اور یہاں تک کہ طرز معیشت بھی اب غیروں کا ہی بھلا لگتا ہے۔تمیز کا لفظ اب مذاق بن کر رہ گیا ۔ والدین اور اولاد کا رشتہ ہو یا شوہر اور بیوی کا، الغرض کہ فیملی لائف تقریباً مغرب زدہ ہوچکی ۔ ’’حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔‘‘ پابندی شریعت لوگوں کے ذہنوں میں ایک ڈراؤنے خواب کی حیثیت اختیار کرچکی (الا ماشاءاللہ) ۔ باصلاحیت نوجوان اپنا محفوظ مستقبل صرف اور صرف اسی صورت میں دیکھ رہے ہیں کہ وہ کسی ترقی یافتہ ملک میں جابسیں۔ سیاسی میدانوں میں عَلَم اب جہلا کے ہاتھوں میں ہے۔ تعلیمی نظام فرسودہ ترین ہوچکا ہے جس پر ایک مافیا قابض ہے اور لوگ اپنے بچوں کو اسی تعلیمی نظام سے گزارنے پر مجبور ہیں۔میڈیا کے ذریعے صحیح اور غلط اب غلط ملط کئے جاچکے ہیں۔ مسجد اور مہراب کو ناقابل اعتبار قرار دیا جاچکا ہے۔ اور سب سے برا یہ کہ علماء حق کی شخصیتوں کو علماء سوء کے ذریعے دبادیا گیا ہے۔
اب ہم آتے ہیں اس سے بھی زیادہ خطرناک پہلو کی طرف جیسا کہ عرض کیا گیا کہ بات اب ففتھ جنریشن وار تک نہیں رہی بلکہ یہ جنگ اس سے آگے جاچکی ہے ۔ اس ماڈرن وار فئیر کا ہدف اب تہذیب اور معاشرت سے بڑھ کر ایمان اور عقیدہ ہوچکے ہیں۔ میڈیا اور با لخصوص سوشل میڈیا پر تفریح کے نام پر جو بمباری ہے وہ نہ صرف نوجوانوں بلکہ بوڑھوں کو بھی اس سیلاب کے ساتھ بہا کر لے جارہی ہے۔ ایمان بالآخرہ اب ایک fantasy بنادیا گیا ہے۔ ایمان بالرسالت کی اہمیت اور اس کے تقاضوںکو جدید دور کے تقاضوں کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔انکار سنت کا فتنہ اب غیر محسوس طریقے سے مسلمان نوجوانوں کا نگل رہا ہے ۔ ذہن سازی کس حد تک کردی گئی ہے اس بات سے اندازہ لگائیے کہ بے نمازی اور سنت رسولﷺ سے عاری ایک مرد اپنے آپ کو سچا پکا مسلمان سمجھتا ہے۔ ایک بے پردہ عورت پورے یقین سےاپنے آپ کو خدا کی نیک بندی تصور کرتی ہے اور تو اور ایمان باللہ کی جزئیات ، جیسے کہ توکل علی اللہ ہو یا صبر اور شکر ، راضی با رضائے رب کی صدا ہو یا تقدیر پر ایمان ، دنیا کی بے ثباتی ہو یا جنت اور دوزخ کا تذکرہ ، اب لطیفہ گوئی کا ذریعہ بنائے جارہے ہیں۔مملکت خداداد پاکستان میں اب باقاعدہ ملحدوں اور دہریوں کی تناظیم وجود میں آچکی ہیں جن میں کثیر تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہورہے ہیں۔بے حیائی کے مدارج طے کرتے کرتے اب نری حیوانیت کی طرف شدومد سے سفر طے ہورہا ہے۔ ہم جنس پرستی اور محارم رشتوں کی پامالی کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہ گئی (الامان الحفیظ)۔
بدقسمتی یہ ہے کہ امت کے واعظین اس وار فئیر سے بالکل ناواقف ہیں ۔ ذرا سوچیے صبح شام دن رات جب ذہن سازی ہورہی ہو تو محض چند منٹ کے مواعظ کیا کرسکیں گے۔ المیہ تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کی قوت ارتکاز بھی تباہ کردی ہے ۔ اب سننے والا ایک گھنٹہ کی تقریر تو چھوڑیے 15 منٹ کا وعظ سننے کے قابل بھی نہیں بچا۔ ذہن سازی کس طور پر ہورہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جامعات سے طلبہ اوربالخصوص طالبات کو اسکالرشپس دے کر کسی ترقی یافتہ ملک بلوایا جاتا ہے اور وہاں تعلیم اور ریسرچ کے نام پر ان کی ذہن اس طرح ہائی جیک کئے جاتے ہیں کہ انہیں خبر تک نہیں ہوتی کہ وہ یرغمال بنالیے گئے ہیں ۔ ایسی ہی ایک طالبہ کو ایک مغربی ملک سے ایک سال کی انٹرنشپ کے بعد واپسی پر دیگر طلبہ کے سامنے اظہار خیال کا موقع دیا گیا تو اس نے پہلا جملہ ہی یہ کہا کہ’’ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہودی برے ہیں اورہمارے دشمن ہیں جبکہ یہ بات غلط ہے۔‘‘ غور فرمائیے آگے آنے والا دور تو آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) کا دور ہے، ہولو گرامز (Holograms) کا دور ہے اور یہ فتنے کیا نئی شکل اختیار کرنے جارہے ہیں سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ امت کو اب اس میدان جنگ کی حکمت عملی کو نہ صرف سمجھنا ہوگا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اپنی نسلوں کو اور ان کے ایمان کو بچانے کے لیے بھرپور منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ وہ وقت اب آگیا ہے کہ امت کے مذہبی اور سیاسی قائدین اپنے تمام تر مفادات سے بالاتر ہوکر دشمن کی اس چال کے خلاف ایک ہوجائیں ۔ امت اور اسلام کا درد رکھنے والے ذہین لوگ اپنی صلاحیتوں کو اس جنگ میں اپنوں کو بچانے کی خاطر لگانے اور کھپانے کا عزم کریں ۔ ورنہ قریب ہے کہ خدانخواستہ نام کے مسلمان تو شاید نظر آجائیں مگر اسلام کہیں نظر نہ آئے گا۔