رسوم و رواج کی بے جا پابندی
مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی
رسوم و رواج کا تعلق انسا ن کی خوشی اور غمی سے ہے۔ہر علاقہ اور قوم کی اپنی رسوم و رواج ہوتی ہیں ۔ اسلام نے قومی ، علاقائی اور خاندانی رسوم ورواج کو اکثر صورتوں میں برقرار رکھا ہے بشرطیکہ یہ شریعت کے کسی واضح حکم ،محکم عقیدہ یا دین کے ساتھ وابستگی کی کسی بھی صورت سے متصادم نہ ہوں یا ان رسوم و رواج کے کرنے سے دین کی روح مجروح نہ ہوتی ہو۔ ایسی رسوم و رواج انسانی معاشرت میں خوبصورتی اور دلکشی پیدا کرتی ہیں اور انسانوں کو ذہنی اور نفسیاتی گھٹن سے محفوظ رکھنے میں بہت کار گر ثابت ہوتی ہیں ۔
مثال کے طور پر ہمارے باپ دادا کے زمانے میں جب کسی گھر میں کوئی شادی کا موقع ہوتا تو مقامی رشتہ دار اور پڑوس کی عورتیں شادی والے گھر میں آکر کپڑے سیا کرتی تھیں۔ شادی کے موقع پر مہمانوں کے لیے پکنے والی دالیں اور چاول پہلے سے چھان پھٹک کر صاف کرتی تھیں۔ ساتھ ساتھ ہنسی مذاق بھی ہوتا رہتا تھا۔ یہی عورتیں کھانے پکانے اور برتن دھونے میں بھی مدد کردیا کرتی تھیں۔ اس طرح نہ تو شادی والے گھر پر کوئی اضافی مالی بوجھ پڑتا اور نہ ہی گھر سے باہر نکل کر میرج ہال میں مہندی اور ناچ گانے ہوا کرتے تھے۔
ان رسوم و رواج کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔ شادی بیاہ ، غمی، بیماری یا کسی عزیز کی وفات کے موقع پر دور و نزدیک کے رشتہ دار اور احباب کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت ہوتی ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہی ہونے سے لوگ ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔
خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم رسوم و رواج کو دین سے ٹکراؤ کی صورت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ ہم نے اکثر مباح رسومات کو بھی حرام یا کم از کم مکروہ تو ضرور ہی بنالیا ہے۔ سچی دینداری کا تقاضا تو یہ ہے کہ کم از کم ان رسومات سے تو فوری چھٹکا را حاصل کر لیا جائے جن میں ظاہر داری اور دکھاوا غالب ہے۔ اس کے بعد ان رسوم و رواج کی طرف بھی توجہ کر کے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے جو کسی نہ کسی دینی ضرر کا موجب بنتی ہیں۔
شادی کی بے جا رسومات:
شادی بیاہ کی رسومات میں سب سے پہلی خرابی تو منگنی کی رسم میں ہے۔علماء نے منگنی خفیہ رکھنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ کہیں فسادی اور حاسد لوگ منگنی کے تعلق کو خراب نہ کردیں۔ علماء کے اس مؤقف کی تائید رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے :’’ اپنے کام پورے کرانے کے لیے معاملات کو خفیہ رکھ کراللہ سے مدد چاہو۔‘‘(طبرانی)
لیکن ہمارے معاشرے میں منگنی کی رسم بھی خوب دھوم دھام سے منائی جاتی ہیں۔ شادی بیاہ کی تمام رسومات میں ایک اور خرابی دکھاوا اور ظاہرداری ہے۔ دولہا اور دلہن کا زرق برق بھڑکتا ہؤا لباس ،دلہا کی سہرا بندی ، گلے میں نوٹوں کے ہار، روپے پیسے کا وار پھرک اورفوٹو سیشن اس کے بعد بینڈ باجے کے ساتھ بارات روانہ ہوتی ہے۔ اکثر اوقات حیثیت نہ ہونے کے باوجود نئے ماڈل کی کار کرایہ پر منگائی جاتی ہے اور اسے سجایا جاتا ہے۔ یہ سب دکھاوا نہیں تو اور کیا ہے؟
دوسری خرابی بے پردگی اور بے شرمی کی رسومات ہیں۔ دولہا کی بھابیاں دولہا کی آنکھوں میں سرمہ لگاتی ہیں اور اس سےپیسے بٹورتی ہیں۔ مہندی اور ابٹن کی رسومات میں عورتیں کھلے بال اور بغیر چادر کے لباس میں ہی میں ہوتی ہیں اور لڑکیوں اور لڑکوں کے اکٹھےڈانس ہوتے ہیں اور اس نوع کی ہر ہر علاقے کی بے شمار رسومات ہیں
تیسری خرابی مہنگائی کے باوجود پیسے کا اسراف ہوتا ہے۔ دولہا اور دولہن کے والدین کے ساتھ ساتھ مہمانوں پر بھی شادی میں شرکت بوجھ بن جاتی ہے۔ انہیں بھی پیسوں کے لفافے دینے پڑتے ہیں۔ کھانا بہت بڑی مقدار میں ضائع ہوتا ہے۔ اکثر اوقات غریب رشتہ داروں کو تو بلایا ہی نہیں جاتا ۔
چوتھی خرابی یہ ہے کہ ان رسومات کو پورا کرنے کی وجہ سے شادیاں بڑی عمر میں ہوتی ہیں۔ یا لڑکیاں شادی کے اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے گھر بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ پانچویں خرابی یہ ہے کہ بچوں اور بچیوں کی بلوغت کے بعد دیر تک شادی نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں بے راہ روی بڑھتی ہے۔ بےحیائی عام ہوجاتی ہے۔ زنا بالجبر اور جنسی ہراسگی کے واقعات ہوتے ہیں یا پھر لڑکے اور لڑکیاں ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔
فوتید گی کی بے جا رسومات:
ہمارے معاشرے میں فوتیدگی کے موقع پر بھی بہت سی غیر مسنون رسومات رائج ہیں۔ میّت کو گھر کے صحن میں رکھ دیا جاتا ہے۔ رشتہ دار اور محلے کی خواتین رونے ، پیٹنے اور بَین کرنے ہی کو تعزیت سمجھتی ہیں۔ کفن پر ایک مخصوص چاک سے کلمہ طیبہ تحریر کیا جاتا ہے۔ دفن کرنے سے پہلے کفن میں’’عہد نامہ‘‘ یا ’’شجرہ‘‘ رکھا جاتا ہے۔ عام طور پر فوتیدگی کے تیسرے روز قل ، ہر جمعرات کو فاتحہ، دسواں، چہلم اور ہر سال برسی منائی جاتی ہے۔ اور ہر موقع پر میت کے گھر والے آنے والے رشتہ داروں اور احباب کی خاطر تواضع کرتے ہیں۔ عام طور پر نماز جنازہ میں بھی لوگ ایک دینی فریضہ سمجھ کر نہیں بلکہ رشتہ داری نبھانے کے لیے جانا ضروری سمجھتے ہیں۔
پیدائش کی رسومات:
پیدائش پربچے کے ننھیال والوں پر تو لازم ہے کہ وہ نہ صرف بچے کے کپڑے بلکہ ماں باپ اور دادا دادی وغیرہ کے لیے بھی جوڑے لے کر آئیں۔ نومولود اگر بچی ہے تو اس کے لیے کوئی چھوٹا موٹا زیور بھی ضروری ہے۔ بچے کے ختنہ کی بھی باقاعدہ تقریب منائی جاتی ہے۔ اور لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔
یہ تمام رسومات پورے معاشرے کے لیےبوجھ ہیں۔ ہر شخص ان کو بادلِ نخواستہ نبھاتا ہے۔ ان رسومات کو ناروا بھی سمجھتا ہے مگر خاندان اور برادری والوں سے کٹ جانے کے خوف سے مجبوراً نبھاتا ہے۔
سورۃ الاعراف آیت157 میں نبی اکرم ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’جو اتباع کریں گے رسولِ نبی اُمی (ﷺ) کاجسے پائیں گے وہ لکھا ہوااپنے پاس تورات اور انجیل میں وہ انہیں نیکی کا حکم دیں گے ‘تمام برائیوں سے روکیں گے اور ان کے لیے تمام پاک چیزیں حلال کر دیں گےاور حرام کر دیں گے ان پر نا پاک چیزوں کو اور ان سے اتارد یں گے ان کے بوجھ اور طوق جو ان (کی گردنوں) پر پڑے ہوں گے۔تو جو لوگ آپ (ﷺ) پر ایمان لائیں گےاور آپ (ﷺ) کی تعظیم کریں گے اور آپؐ کی مدد کریں گے اور پیروی کریں گے اُس نور کی جو آپؐ کے ساتھ نازل کیا جائے گاوہی لوگ ہوں گے فلاح پانے والے۔‘‘
گویا کہ لوگوں کے لیے ان کی زندگی گزارنا آسان بنادیں گے۔ یہ بوجھ اور طوق وہ بے جا اور خود ساختہ پابندیاں اور رسومات ہیں جو معاشرے کے اندر کسی خاص طبقہ کے مفادات یا نمودو نمائش کی خواہش کی وجہ سے رواج پاتی ہیں اور بعد میں غریب لوگوں کو بھی انہیں نبھانا پڑتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ان کی وجہ سے ایک عام آدمی کی زندگی انتہائی مشکل ہوجاتی ہے۔ اس آیت میں بشارت دی جارہی ہے کہ جب آخری نبی ﷺ آئیں گے تو وہ انسانیت کی غلط رسومات، خود ساختہ عقائد اور نظام ہائے باطلہ کے بوجھوں سے نجات دلا کر عدل اور قسط کا نظام قائم فرمائیں گے۔
لہٰذا اگر ہم دنیا کی پریشانیوں اور مصائب سے نجات اور اُخروی فلاح چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگی نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے قریب ترین رہ کر گزارنی ہوگی۔
سیرت کے درج ذیل واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک قبیح رسم کا خود حضور اکرم ﷺ کے ہاتھوں خاتمہ فرمایا۔
حضور اکرم ﷺ نے بعثت سے پہلے اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ ؓ کو آزاد کرکے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا قرار دے دیا تھا ۔ ہجرت کے بعد مدینہ آکر نبی اکرم ﷺ نے ان کی شادی اپنی پھو پھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش i سے کرادی مگر ان کا نباہ نہ ہو سکا۔ وہ بار بار آکر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور حضرت زینب i کو طلاق دینے کی اجازت طلب فرماتے مگر نبی اکرم ﷺ انہیں روک دیتے۔ اس دوران نبی اکر م ﷺ محسوس فرمارہے تھے کہ اگر زید ؓ نے طلاق دے دی تو تالیف ِ قلب کے لیے خود مجھے زینب ؓ سے نکاح کرنا پڑے گا لیکن ساتھ ہی آپ ﷺ کو منافقین و مخالفین کی طرف سے منفی پرپیگنڈے کا بھی اندیشہ تھا۔ اسی بناء پر سورۃ الاحزاب کی آیت 37 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور (اے نبیﷺ!) جب آپؐ کہتے تھے اُس شخص سے جس پر اللہ نے بھی انعام کیا تھا اور آپؐ نے بھی انعام کیا تھا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھو اور اللہ سے ڈرو‘‘ اور آپؐاپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے وہ بات جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا ‘‘ اور آپؐ لوگوں سے ڈر رہے تھے ‘حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ آپؐ اس سے ڈریں۔‘‘
پس جب زید ؓ نے اس سے اپنا تعلق منقطع کر لیا تو اسے ہم نے آپ ﷺکی زوجیت میں دے دیاتاکہ مؤمنوں کے لیے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنا تعلق بالکل کاٹ لیں۔اور اللہ کا فیصلہ تو پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔‘‘
درج بالا آیت سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ ہمیں بے جا رسوم و رواج کی ڈٹ کر مخالفت کرنی چاہئے۔ اس بارے میں ہمیں یہ خوف نہیں لاحق ہونا چاہئے کہ کوئی کیا کہے گا۔ خاندان یا برادری والے ناراض ہوتے ہوں تو ہوتے رہیں۔ ہم نے توہر حال میں رسول اللہ اور اس کے رسو لﷺ کی خوشنودی دیکھنی ہے۔ اسی طرح خیر وبھلائی کے کاموں ، دین کی طرف سے مشروع کاموں اور مثلاً شرعی پردہ اور شرعی لباس وغیرہ کو رواج دینے میں بھی ذرہ برابر مداہنت سے کام نہیں لینا چاہئے۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ پیدائش ، نکاح، فوتیدگی اور تدفین سے متعلق مواقع پر ہمیں نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطابق مسنون رسومات کو اپنائیں اور ہر قسم کی غیر مسنون رسومات سے اجتناب کریں۔
علاوہ ازیں ہمارے آباءو اجداد نے جن اچھی باتوں کو رواج دیا ہے ان کو ہم اپنائیں اور ہم بھی کوشش کریں کہ اچھی عادتوں اور خوبیوں کو رواج دیں۔ اسی طرح اگر آباو اجداد کی طرف سے کوئی غلط اور قبیح رسوم و رواج چلی آرہی ہیں تو ان کو ختم کرنے کی خود بھی کو شش کریں اور لوگوں کو بھی ان کو ختم کرنے کی تلقین کریں۔ یا درکھیں اگر آج ہم نے کسی نیکی کو رواج دے دیا تو قیامت تک جو لوگ اس پر عمل کریں تو ان سب کا ثواب ہمیں بھی ملے گا اور اگر کسی برائی کی بنیا د ڈال کر اس دنیا سے چلے گئے تو آخرت میں اس کا وبال ہمیں ہی بھگتنا پڑے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیکیوں کو رواج دینے اور برے رسوم و رواج کو ختم کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یارب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024