(منبرو محراب) منافقانہ اورمومنانہ طرزعمل اورہم - ابو ابراہیم

8 /

منافقانہ اورمومنانہ طرزعمل اورہم


مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی، لاہور  میں امیرتنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  حفظ اللہ کے06 اکتوبر2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
قرآن حکیم کتاب ہدایت ہے اور یہ ساری انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سےManual of the lifeہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جابجا قرآن حکیم میں اپنے محبوب بندوں کی صفات کو بیان کیا اور جا بجا ایسے لوگوں کا بھی تذکرہ فرمایا جن پر اللہ کا غضب ہوااور روز محشر جن سے اللہ کی رحمت دور ہوگی ۔ دونوں گروہوں کے طرزعمل کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ ہم غور کریں ، اگر مومنوں والے اوصاف ہمارے اندر موجود ہیں تو اللہ کا شکر ادا کریں، مزید کی توفیق مانگیں اور اگرہمارے اندر منافقین، مغضوبین اورضالین والا طرزعمل ہے تو اُس کو ترک کر دیں اور صراط مستقیم پر واپس آنے کی کوشش کریں تاکہ انعام یافتہ لوگوں میں ہمارا شمار ممکن ہو سکے ۔ آج ہم اسی موضوع پر سورۃ التوبہ کی آیات 67 اور 71 کا مطالعہ کریں گے جہاں ایک طرف منافقین کا طرزعمل اور ان کے انجام بد کا تذکرہ ہے اور دوسری طرف مومنین کی صفات اور ان کو ملنے والے انعامات کا بیان ہے ۔ دونوں کا موازنہ ہمیں جس غوروفکر کی دعوت دے رہا ہے اس پر بھی کلام ہوگا ۔ ان شاء اللہ ۔ فرمایا :
{اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْ م بَعْضٍ م } ’’ منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے میں سے ہیں۔‘‘
غور کیجیے جب ایمان والوں کا ذکرآتا ہے تو وہاں قرآن یہ الفاظ استعمال کرتا ہے : 
{ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ م}(التوبہ :71) ’’(مومن مرد اور مومن عورتیں )‘یہ سب ایک دوسرے کے اولیاء ہیں۔‘‘
یعنی مومنین آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور خیر خواہ ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں لیکن منافقین کے بارے میں اولیاء کا لفظ نہیں آیا۔کیونکہ یہ عارضی دنیا کے غلام اور بندے ہیں لہٰذا ان کا تعلق بھی عارضی اوروقتی نوعیت کا ہے ۔ فرمایا کہ یہ ایک دوسرے میں سےہی ہیں۔ یعنی ان کی حرکتیں ایک جیسی ہیں، ان کا منافقانہ طرز عمل ایک جیسا ہے۔ ان کی دنیا پرستی ایک جیسی ہے، دین سے ، خیر سے ، نیکی سے ، بھلائی سے روکنا اور برائی کی طرف بلانا ایک جیسا ہے ۔ بلکہ یہ ان کا مشترکہ mission ہے۔ اسی لیے آگے فرمایا : 
{یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ } ’’یہ بدی کا حکم دیتے ہیںاور نیکی سے روکتے ہیں۔‘‘
جبکہ اس اُمت کو کس لیے کھڑا کیا گیا تھا ؟ 
’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘تم حکم کرتے ہو نیکی کا‘اور تم روکتے ہو بدی سے۔‘‘ (آل عمران:110)
اُمت کا mission تو یہ ہے۔ جو سچے اہل ایمان ہیں وہ تو اس مشن میں اپنی زندگیاں لگائیں گے لیکن جو محض زبان سے ایمان کا دعویٰ کرنے والے ہیں ، ان کے دل میں ایمان نہیں ہے ۫ ۔ جیسا کہ جو منافقین دور نبوی ﷺ میں تھے، ان کے بارے میں قرآن یہ بھی کہتاہے:
{لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ ج} (المائدہ:41) ’’ ان کے دل ایمان نہیں لائے ہیں۔‘‘
یعنی وہ صرف زبان سے اقرار کرتے تھے جبکہ ان کے دل میں ایمان نہیں ہے ۔ایسے لوگوں کا طرز عمل منافقانہ ہوگا یعنی وہ خیر و بھلائی کی دعوت دینے کی بجائے لوگوں کو بدی اور برائی کی راہ پر لگاتے ہیں اور نیکی اور خیر کے کاموں سے روکتے ہیں۔اس تناظر میں آج ہم اپنا اور اپنے گرد و بیش کا جائزہ لیں کہ کیسی کیسی دعوتیں چلتی ہیں،کن کن منکرات کی طرف بلایا جاتاہے ۔ ایک سابق حکومت کے دور میں لاہور کی معروف مسجد میں گانے کی شوٹنگ کی گئی اور پوری دنیا کو دکھائی گئی ۔ سندھ حکومت نے قرآن کے سلیبس کو نصاب میں شامل نہیں کیا لیکن ڈانس سکھانے کے لیے سینکڑوں ٹیچرز کو بھرتی کرلیا گیا۔ اسی طرح دوست احباب کے درمیان شیئرنگ کا جائزہ لے لیں ، دن میں کتنی مرتبہ نیکی اور بھلائی کے کاموں پر ڈسکشن ہوتی ہے، جبکہ برائی اور بے حیائی کے کاموں کی کس قدر شیئرنگ ہوتی ہے ؟بے حیائی اور فحاشی پر مبنی ڈانس پارٹیز اور کنسرٹس کی دعوت دی جاتی ہے ، گھروں میں بیٹیاں اگر پردہ کرنے لگ جائیں تو ماں باپ ان کو روک دیتے ہیں ، کئی مرتبہ لڑکے اتباع سنت میں داڑھی رکھ لیتے ہیں تووالدین پریشر ڈال کر صاف کروا دیتے ہیں ۔
آج پوری قوم نے بچوں کے ہاتھ میں سمارٹ فون دے دیے ہیں جہاں دنیا جہاں کی بے حیائی ، فحاشی اور بدکاری کی دعوتیں موجود ہیں اور اس سے آگےبڑھ کر اخلاق کا بیڑہ غرق ہونے اور عقیدے تک ضائع ہو جانے کے معاملات آجاتے ہیں ،اس سارے تناظر میںآج ہم کہاں کھڑے ہیں،ذرا اپنا جائزہ لیں کہ کہیں ہمارا طرزعمل منافقین والا تو نہیں ہے؟ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے طرزعمل پر نظر ثانی کریں اور ہم میں سے ہر ایک شخص اور ہر ایک ادارہ اپنی جگہ پر اپنی ذمہ داری ادا کرے کیونکہ ہر ایک سے اس بارے میں پوچھا جائے گا ۔ اگر شوہر ہے تو بیوی کے بارے میں جوابدہ ہوگا ، باپ ہے تو اولاد کے بارے میں ، حکمران ہے تو رعایا کے بارے میں جوابدہ ہوگا کہ جہاں تمہارا اختیار تھا تم نے برائی سے روکا ؟ نیکی کا حکم دیا ؟ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا :’’ تم میں سے ہر شخص اپنی رعیت پر نگہبان ہے اور تم میں سے ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ ‘‘
وہ لوگ کہ جن کے سامنے دین کا جامع تصور واضح ہو جائے کہ دین صرف انفرادی زندگی کے معاملات کے حوالے سے رہنمائی نہیں دیتا بلکہ یہ زندگی کےتمام گوشوں کے لیے رہنمائی دیتا ہے اور یہ اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہےکہ وہ خود بھی اللہ کی بندگی کریں ، دوسروں کوبھی اللہ کی بندگی کی دعوت دیں اور بندگی والے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد بھی کریں۔ یہ بات جن کی سمجھ میں آجائے وہ بھی اگر دنیا کی محبت میں ڈوب کر اللہ کے دین کےتقاضوں سے فرار اختیار کرتے ہیںتو قرآن ان کے اس طرز عمل کو بھی مرض اور نفاق قرار دیتاہے ۔ یعنی اللہ کے دین کی دعوت اور اقامت دین کی جدوجہد سے راہ فرار اختیار کرنا بھی منافقانہ طرزعمل ہے ۔ احادیث میں منافقین کی کچھ علامات بھی بیان ہوئی ہیں جیسے جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا ، خیانت کرنا ، جھگڑا ہو جائے تو گالم گلوچ کرنا وغیرہ ۔ آگےفرمایا:
{وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْ ط}’’ اور اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں۔‘‘
منافقین پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بڑا بھاری گزرتاہے کیونکہ دل میں یقین نہیں ہوتا ۔ اسی طرح سورۃ النساء میں بیان ہوا ہے کہ منافقین پر اللہ کی راہ میں ہجرت کرنا اور قتال کرنا بھی بڑا بھاری گزرتاہے ۔ اُن کا مزاج اس پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ آج کتنے صاحب زکوٰۃ ہیں جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ،کتنے زمیندار ، جاگیردار ہیں جو عشر ادا نہیں کرتے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے:
((ان فی المال لحقًا سوی الزکاۃ))
آج کتنے لوگ ہیں جو یتیموں ، بیواؤں اور مستحقین پر خرچ نہیں کرتے بلکہ مستحقین کا حق کھاجاتے ہیں ، دنیا میں کتنا ہی خود کو بچا لیں چھپا لیں، لیکن روزقیامت خود ان کے ہاتھ ، پیر ، زبان اور ان کے دوسرے اعضاء اُن کے خلاف گواہی دیں گے ۔
{یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا(4)} (الزلزال) ’’اُس دن یہ اپنی خبریں کہہ سنائے گی۔‘‘
اور لکھا ہوا نامہ اعمال پیش کر دیا جائے گا :
{اِقْرَاْ کِتٰبَکَ ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا(14)} (بنی اسرائیل)’’پڑھ لو اپنا اعمال نامہ!آج تم خود ہی اپنا حساب کر لینے کے لیے کافی ہو۔‘‘
اپنے نامہ اعمال کوپڑھ کر انسان خود جان لے گا کہ وہ دنیا میں کیا کر کے آیا ہے ۔ آج ہمارا معاشرہ جبر کے تحت ہے ، لوگ بے چارے سسک سسک کر جی رہے ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی ہے وہ اپنی اخلاقی اور دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کچھ تو لوگوں کو contribute کرنے کی کوشش کریں۔ یہ اشرافیہ جو انگریز ہم پر مسلط کر گیا شروع دن سے ساری مراعات اس کے لیے ہیں اور سارا بوجھ غریب عوام پر ہے ۔ آج قوم مشکل میں ہے تو اس اشرافیہ میں سے کچھ تو آگے آئیں اور کہیں کہ ہم اضافی تنخواہ ، مراعات یا اتنا حصہ قوم کے لیے وقف کرتے ہیں ۔ کم ازکم اتنا حصہ جو ان کی عیاشیوں ، فضولیات اور بعض مرتبہ ناجائز کاموں پر خرچ ہوتاہے وہ تو مخلوق خدا کے حوالے کرنےکی ہمت پکڑیں۔
سورہ توبہ اس تناظر میں نازل ہوئی تھی کہ مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہو چکی تھی اور رومن ایمپائر کے ساتھ جنگ کا مرحلہ درپیش تھا ۔ اس موقع پر اللہ کی راہ میںاپنی جان اور مال خرچ کرنے کا بیان بھی آیا اور منافقین کا طرزعمل بھی بیان ہوا کہ وہ اللہ کی راہ میں جان اور مال خرچ کرنے سے گھبراتے ہیں ۔ آج دین مغلوبیت کے دور سے گزر رہا ہے لہٰذا آج بحیثیت اُمتی ہمارے مال ، ہماری صلاحیتوں ، ہماری اوقات ، ہماری مہارتوں کا بہترین استعمال اللہ کے رسول ﷺ کے مشن کے لیے ہونا چاہیے ۔ لہٰذا جن کے دل میں ایمان ہے ان کی اولین ترجیح اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہوگا جبکہ جو منافقین ہیں ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوگی ۔ ان کے بارے میں  آگے فرمایا:
{نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ ط اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(67)}’’ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے (بھی)انہیں نظر انداز کر دیا۔ یقیناً یہ منافق ہی نافرمان ہیں۔‘‘
ان کی ترجیحات میںدنیا کا مال ودولت ہے ، عیاشیاں ہیں ، اولاد کے روشن مستقبل کی فکر ہے ، کیرئیر کی فکر ہے لیکن اللہ ، اس کے رسول ﷺ اور اس کے دین کی کوئی فکر نہیں ہے ، ان کی ترجیحات میں ہی یہ شامل نہیں ہے ، گویا انہوں نے اللہ کو بھلا دیا ۔ لہٰذا روزقیامت خدا کی رحمت میں سے بھی ان کے لیے کچھ نہیں ہوگا ۔ سورہ طٰہ ٰمیں فرمایا:
’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو یقیناً اُس کے لیے ہو گی (دنیا کی)زندگی بہت تنگی والی‘اورہم اٹھائیں گے اسے قیامت کے دن اندھا (کرکے)۔وہ کہے گا :اے میرے پروردگار! تُو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ہے‘ جبکہ مَیں (دنیا میں) تو بینائی والا تھا۔اللہ فرمائے گا کہ اسی طرح ہماری آیات تمہارے پاس آئیں تو تم نے انہیں نظر انداز کر دیا‘ اور اسی طرح آج تمہیں بھی نظرانداز کر دیا جائے گا۔‘‘(آیات:124،126)
اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے۔ زیر مطالعہ آیات میں منافقین کے بیان کے بعد اب آگے آیت 71 میں مومنین کا بیان ہے ۔ فرمایا:
{وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ م} ’’اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں‘یہ سب ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔‘‘
منافقین کے لیے اولیاء کا لفظ نہیں آیا ۔ اس لیے کہ منافقین کا تعلق خودغرضی اور مفاد پرستی پر مبنی ہوتا ہے ، غرض ختم تو تعلق ختم ۔ انہیں ایک دوسرے کی بھلائی اور خیرخواہی سے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ جبکہ اولیاء کا معاملہ ایسا نہیں ہوتا ۔ اولیاء تو وہ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے خیر خواہ ، معاون و مددگار ہوتے ہیں ، ایک دوسرے کو برائی سے روکتے ہیں اور نیکی کی تلقین کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ ان کا تعلق دنیاپرستی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ وہ زندگی کا اصل مقصد جانتے ہیں ، ان کا ایک ultimate vision ہوتا ہے کہ انہوں نے آخرت کی طرف جانا ہے۔اس لیے ان کا تعلق بڑا پائیدار اور خیر خواہی پر مبنی ہوتاہے ۔ جیسا کہ سورہ یٰسین میں شہید کا ذکر آتا ہے:
’’کہہ دیا گیا کہ تم داخل ہو جائو جنّت میں!اس نے کہا :کاش میری قوم کو معلوم ہو جاتا۔وہ جو میرے رب نے میری مغفرت فرمائی ہے اور مجھے باعزّت لوگوں میں شامل کر لیا ہے۔‘‘(آیت26،27)
یعنی جنت میں پہنچ کر بھی وہ پیچھے والوں کی فکر کر رہا ہے ۔ یہ تعلق سچے ایمان کی بنیاد پر نصیب ہوتاہے ۔ اسی طرح  ایک معروف حدیث میں ہے کہ اہل ایمان ایک جسم کی مانند ہیں ، جیسے جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتاہے ۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اگراللہ کی خاطر محبت کرنے والا ایک مشرق میں ہوگا اور دوسرا مغرب میں ہوگا تو اللہ دونوں کوجنت میں ملا دے گا ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ روز محشر اللہ تعالیٰ سات قسم کے افراد کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا ۔ ان میں دو وہ افراد ہوں گے جو اللہ کی محبت کی وجہ سے ملے اور اللہ کی محبت کی خاطر جدا ہوئے ۔ لہٰذا سچے ایمان کی بنیاد پر جو تعلق قائم ہوتاہے وہ بڑا ہی پائیدار اور خیر خواہی پر مبنی ہوتا ہے ۔چاہیے وہ رشتہ میاں بیوی کی شکل میں ہو ، والدین اور اولاد کی شکل میں ہو
یا کسی دینی اجتماعیت کے ساتھ جُڑنے کے نتیجے میں ہو ، ایسے لوگ ایک دوسرے کے مددگار ، معاون اور خیر خواہ ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ انہیں آخرت کی فکر ہے ۔ وہ ایک دوسرے کے بامقصد ساتھی ہوتے ہیں ۔ اللہ کی رضا ان کا مقصد ہوتاہے اور اس کے لیے دنیا میں دینی تقاضوں کو پورا کرنا ، رسول اللہ کے مشن کو لے کر چلنا ان کی ترجیحات میں شامل ہوتاہے ۔ اسی لیے فرمایا : 
{یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ ط} ’’وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں‘بدی سے روکتے ہیں ‘نماز قائم کرتے ہیں ‘زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔‘‘
اسی تناظر میں ہم اپنا بھی جائزہ لیں کہ کیا ہم اپنے بالغ بچوں کو کم از کم فجر کی نماز کے لیے اٹھاتے ہیں؟ اگر شوہر ہے تو کیا بیوی کو اُٹھاتا ہے کہ نماز پڑھ لے ؟ اگر کسی نے جھوٹ بول دیا تو اس کی تھوڑی بہت تادیب ہوتی ہے کہ نہیں ؟ اپنی ذات سے شروع کریں اور پھر اپنے گھر ، حلقہ احباب ، آفس ، اداروں اور پھر معاشرے پر اپلائی کریں ۔ جہاں ہمارا اختیار ہے وہاں ہم نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ؟ اس آئینے میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارا طرزعمل مومنوں والا ہے ؟ قرآن پاک بارہا بتاتا ہےکہ ایمان والے ایمان کا دعویٰ کر کے بیٹھے نہیں رہتے۔ ان کی زندگی میں ایک متحرک انداز نظر آتا ہے۔ نیکی کا حکم دینا،برائی سے روکنا ، نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ ادا کرنا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت میں زندگی گزارنا ان کی اولین ترجیح ہوتاہے ۔ یعنی اُمت کا جو مشن ہے اس کے لیے ہمہ وقت آمادہ و سرگرداں رہتے ہیں۔ صرف جمعہ کی نماز یا پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ بحیثیت اُمتی ان کی پوری زندگی اطاعت الٰہی میں گزرتی ہے ۔ نماز بھی فرض ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :((من ترک صلوٰۃ متعمدا فقد کفر)) ’’جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کر دی وہ کفر کر چکا ۔‘‘یہ عملاً کفر کی بات ہے۔ اہل جہنم سے جنت والےپوچھیں گے:
{مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ(42)} ’’ تم لوگوں کو کس چیز نے جہنّم میں ڈالا؟‘‘پہلاجواب ہوگا:{ لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ(43)}(المدثر)’’ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیںتھے۔‘‘
قیامت کے دن پہلا سوال نماز کے متعلق ہوگا اور جس کی نماز درست اس کےباقی معاملات بھی درست ہوں گے ۔ جس کی نماز میں کمی کوتاہی ہوگی ، اُس کا آگے بھی معاملہ ناکام ہوگا ۔ اسی طرح زکوٰۃ بھی فرض ہے اور دین کا بہت اہم رکن ہے مگر دین فقد چند عبادات کانام نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول ﷺکے سامنے جھکا دینے کا نام اسلام ہے ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فرمان ہے:
{ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص} (البقرۃ:208) ’’ اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘
زندگی کے ہر گوشے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت درکار ہے ۔ جو لوگ اس معیار پر پورا اُتریں گے وہی کامیاب و کامران ہوں گے ۔ اسی لیے آگے فرمایا : 
{اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللہُ ط اِنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(71)} ’’یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحمت فرمائے گا۔یقیناً اللہ زبردست ‘حکمت والا ہے۔‘‘
ہم دعائیں کرتے ہیں :
{وَاعْفُ عَنَّاوقفۃوَاغْفِرْ لَـنَاوقفۃ وَارْحَمْنَــآوقفۃ} (البقرۃ:286) ’’اورہم سے درگزر فرماتا رہ! اور ہمیں بخشتا رہ! اور ہم پر رحم فرما۔‘‘
{رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ(118)} (المؤمنون)’’پروردگار!تُو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما‘ اور تُو تمام رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔‘‘
{رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاسکتۃ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(23)} (الاعراف) ’’ اے ہمارے رب! ہم نے ظلم کیا اپنی جانوں پر‘ اور اگر تُونے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم تباہ ہونے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘
دعا بھی کرنی چاہیے لیکن مومنین کی درجہ بالا صفات اپنے اندر پیدا کریں گے تو اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا ۔ ورنہ منافقین کے بارے میں فرمادیا کہ جیسے تم نے اللہ کو بھلا دیا ایسے اللہ روزقیامت تمہیں بھی نظر انداز کر دے گا ۔ یعنی اللہ کی رحمت ان کو نصیب نہیں ہوگی ۔ جبکہ ادھر مومنین کی صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ان پر اللہ رحمت فرمائے گا ۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت کا مستحق بننے کے لیے ایمان اور ایمان والی دوستی اور اس کے تقاضوں پر عمل ضروری ہے ۔ جس میں انفرادی سطح پر بھی اللہ کی بندگی اور اجتماعی سطح پر امربالمعروف اورنہی عن المنکر کےفریضے کو انجام دینا اور ہمہ وقت اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کی کوشش کرنا شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نفاق کے طرز عمل سے ہماری حفاظت فرمائے اور سچا ایمان اور اس کے تقاضوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین!