(اداریہ) فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ - ایوب بیگ مرزا

8 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ

یہودی ایک عجیب ٘مخلوق ہے، یہ قوم انتہائی محنتی اور ذہین وفطین ہے۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان کی یہ صفات اکثر منفی کاموں میں صرف ہوئیں۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خمیر میں شر اور فساد گُندھاہواہے۔تاریخ کو تو بھلایا اور جھٹلایا بھی جا سکتا ہے۔لیکن انسانوں پر نازل ہونے والی مقدس ترین کتاب میں جس کے مصدقہ ہونے اورہرلحاظ سے تحریف سے پاک ہونے کی گواہی اللہ تعالیٰ دیتا ہے، وہ یہودیوں کے فتنہ پرور اور شر انگیزہونے کی تصدیق کرتی ہے ۔انہوں نے انبیاءf کو ناحق قتل کیا۔ انبیاءf پر اور ان کے اہل خانہ پر شرمناک الزام لگائے۔اُردو میں ایک بڑا معنی خیز جملہ ہےوہ یہ کہ کسی کا فساد کی جڑ ہونا۔یہ ضرب المثل ان پرصد فی صد منطبق ہوتی ہے۔یہ حضرت موسیٰ d پر ایمان لائے، لیکن اُن کی عارضی عدم موجودگی میں بچھڑے کو معبود بنالیا۔اِنہوں نے جاگتی اورکھلی آنکھوں سےمعجزے دیکھے پھر بھی حضرت موسیٰ dکی نافرمانی کی اور جنگ لڑنے سے انکار کردیا۔بلکہ طعنہ دیا کہ جاؤتم اور تمہارااللہ جنگ کرو ہم اپنی جگہ سے جنبش کرنے والے نہیں ہیں۔یہ انسانی تاریخ کی واحد قوم ہے جس پر براہِ راست آسمان سے قابل خورد رزق کی بارش ہوئی جسے من وسلویٰ کہا جاتا ہے ۔کہا جاسکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی لاڈلی قوم تھی لیکن اِن کی نافرمانیاں بلکہ اللہ سے بغاوت ختم نہ ہوئی اوربالآخرراندۂ درگاہ ہو گئی۔اِس کے بعد صحیح معنوں میں ایک ایسے دہشت ناک گروہ کی صورت اختیار کر گئے جو دنیا بھر میں منتشر ہوگیا۔ جو دنیا میں جگہ جگہ خونریز جنگوں کا بازار گرم کرتا تھا۔قوموں کو ایک دوسرے سے لڑاتا تھا۔بہرحال انہوں نے دنیا ٘میں امن اور سکون کو تخت وتاراج کیا۔لیکن انہیں بھی آج تک سکون اور اطمینان نصیب نہیں ہوسکا۔اِن کی دیرینہ تاریخ میں عروج بھی ہیں اور زوال بھی لیکن ہم اِن کی تاریخ کاجائزہ صرف ماضی قریب سے لیتے ہیں ۔
1917ءمیں بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے پہلی باراِن کی فلسطین میں ایک ریاست کا تصور دیا گیا۔بالفور برطانیہ کا وزیر خارجہ تھا۔اُس نے اپنی پارلیمنٹ میں صہیونی ریاست کا تصور پیش کیا اورساتھ ہی یہودی لارڈ روتھ چائلڈ، جو ہاؤس آف لارڈز کا رکن تھا، اُ س کو باقاعدہ ایک خط لکھ کر اپنی کارستانی کی اطلاع بھی کی۔گویا جس طرح انگریز نے کشمیر کے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجرگھونپ کر اور کشمیریوں کوبھارت کا غلام بنا کر مسلمان دشمنی کا ثبوت دیاہے۔ اسی طرح اُس سے تین دہائیاں پہلے فلسطین میں صہیونی ریاست کا تصور دے کر فلسطینی مسلمانوں کے سینے میں بھی خنجر گھونپا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے انگریز انگلستان کی سرحدوں سے باہرنکلا ہے اُس نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا ہے۔ یہودی دنیا میں کیا کیا کھیل کھیلتا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اُس کا کردار اِسے بالکل واضح کردیتا ہے ۔ جنگ عظیم دوم میں دونوں متحارب فریقوں یعنی جرمنی اور برطانیہ کی پشت پر ایک ہی یہودی خاندان تھاجو لڑائی اور جنگ بڑھانےمیں دونوں کی پشت پناہی کررہاتھا۔ امریکہ اُس وقت اگرچہ ایک عالمی قوت بن چکا تھا، لیکن اس جنگ کو میدان سے باہررہ کر دیکھ رہا تھا۔یہودیوں نے پرل ہاربر کا واقعہ کرواکے امریکہ کو جنگ میں کودنے پر مجبور کر دیا۔ ہم قارئین کو صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دنیا میں جنگ و جدل اور خونریزی کرواتے رہنا یہودیوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔
در حقیقت وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا اگر جنگ و جدل میں رہے گی تو ان کو آگے بڑھنے کےمواقع ملتے رہیں گے۔ آج ہم اگر دنیا کا نقشہ اور اُس میں یہودیوں کی حیثیت کو جانچ لیں توہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ شیطانی قوت بڑی کامیابیاں سمیٹ رہی ہے۔ ایک اور حقیقت کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کروانابہت ضروری ہے۔ پاکستان اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیااور اسرائیلی ریاست مئی 1948ء میں ایک ناسور کی صورت میں ظاہر ہوئی۔گویا پاکستان اسرائیل سے 9ماہ پہلے قائم ہوا۔ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرمایا کرتے تھےکہ اللہ تعالیٰ ہر بیماری کا علاج بیماری سے پہلے ظہور میں لے آتا ہے۔ اسرائیل ایک بیماری ہے اور پاکستان اُس کا علاج ہے جو کچھ پہلے دریافت ہوگیا۔اللہ تعالیٰ مرحوم کے اس تصور بلکہ خواہش کی تکمیل کرےوگرنہ زمینی حقائق تویہ ہیں کہ خود پاکستان کو اِس وقت جتنی بیماریاں لاحق ہیں اور سب کی سب اپنوں کی پیدا کردہ ہیں۔پاکستان کا جانبر ہونا بھی معجزہ لگتا ہے۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو تاقیامت رکھے اور اسرائیل کو زمین کی پیٹھ سے زمین کے پیٹ میں  دھکیل دے۔آمین ثم آمین !
آگے بڑھنے سے پہلے ہم آپ کو ایک عبرت آموز حکایت سنانا چاہیں گے۔یہ کہانی یوں ہے کہ ایک شخص ایک درخت کی جڑوں پر کلہاڑا چلارہاتھا جس سے درخت آہستہ آہستہ کٹتا چلا جارہاتھا۔کسی نے درخت سے پوچھا کہ تم اتنے بڑے درخت ہو اور ایک چھوٹا سے کلہاڑا تمہیں کاٹتا چلا جارہاہے۔ایسا کیو ں ہورہا ہے؟ تو درخت نے جواب دیا تم دیکھوجو بلیڈمجھے کاٹ رہاہےاُس کی پُشت پر میراہی بھائی(کلہاڑے کے بلیڈ کے پیچھے لکڑ کا دستہ ہوتا ہے جس کے بغیر کلہاڑاکاٹ نہیں سکتا)ہے۔ ورنہ اِس بلیڈ کی کیا جرأت کہ مجھے کاٹ سکے ۔
آج مسلمان ریاستیںخاص طور پر اُن کے حکمران اسرائیل کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ہماری دوغلی پالیسیاں اس طرح کی ہیں کہ ایک طرف ’امت مسلمہ‘ ’امت مسلمہ‘ کی رٹ لگاتے ہوئے ہماری زبانیں سوکھ رہی ہیں اور دوسری طرف کہیں فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے میں اسرائیل کی مدد کرتے نظر آرہے ہیںاور کہیں پاکستان افغان بھائیوں کو ملک بدری کے نوٹس جاری کر رہا ہے اور پھر یہ کہ اِس کے لیے وقت اتنا کم دے رہا ہے کہ اتنے وقت میں توکوئی کرایہ دارمکان یادکان خالی نہیں کرتا۔ پھر یہ کہ یہ حکم صرف افغانیوں کے لیے ہے حالانکہ لاکھوں بنگالی کئی دوسرے ممالک کے لوگ ’غیرقانونی‘ طور پر پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ یہ اس لیے کہ ہمارا ’’چِٹا گورا‘‘ اصل حکمران پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی اس خطے میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیےضروری سمجھتا ہے ۔افغانیوں کو ضرور افغانستان بھیجیں لیکن ایسے احسن طریقے سے جوبھائی کو بھائی سے اختیار کرنا چاہیے۔بہرحال افغانیوں کا ذکر تو جملہ معترضہ کے طور پر آگیا تھااصل بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کی بڑی اکثریت کا ضمیر ابھی سویا نہیں ہے۔
7 اکتوبر کو صبح سویرے حماس کے رضا کار جانبازوں نے اسرائیل پر راکٹوں کی بوچھاڑکردی۔ کچھ سر فروشوں کو چھاتوں کے ذریعےاسرائیل کے اندر اتارا اور ایسا زبردست حملہ کیا کہ وقتی طور پر تو اسرائیل ہوش وحواس کھو بیٹھا۔ جگہ جگہ عمارتوں میں آگ لگ گئی اور وہ گرتی ہوئی نظر آئیں۔ یہودی اپنی آبادیوں سے اندھا دھند بھاگ رہے تھے۔ کئی اسرائیلی فوجی حماس نے یرغمال بنا لیے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوجی قوت اورہر قسم کے وسائل کے حوالے سے اسرائیل اور حماس کا کوئی مقابلہ نہیںہے ۔ فلسطینیوں کی تنظیم حماس نے جس منظم اور رازدارانہ انداز میں اسرائیل پر حملہ کیا ہے اور جس جرأت، دلیری اور بہادری سے وہ یہ جنگ لڑ رہے ہیں، اُسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر جب یہ علم ہو کہ دشمن کی قوت کس قدر زیادہ ہے اور اُسے عالمی قوتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ جانفروشی کا عظیم مظاہرہ ہے۔ ایسا جذبہ جو صرف اللہ تعالیٰ کی تائید سے ہی حاصل ہو سکتا۔ اُنہوں نے اُن مسلمان حکمرانوں کی غیرت کو ایک تازیانہ مارا ہے جو اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات قائم کرنے کے لیے مرے جا رہے تھے۔ اُنہوں نے خاص طور پر عربوں کو یہ سبق سکھایا ہے کہ گیڈر کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ آزادی کی کوئی قیمت نہیں ہے اور غلامی سے موت بہتر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کی دشمن قوتوں نے یوں تو پہلے ہی اسرائیل کو کم از کم ظاہری طور پرناقابل شکست قوت بنا دیاہوا ہے۔اس کے بعدبھی ایک بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ امریکہ اوریورپ جیسی اسلام دشمن قوتیں مسلمان حکمرانوں کی طرح ڈھکی چھپی ہوئی اور ڈری سہمی ہوئی باتیں نہیں کریں گی اور کسی جھوٹے سچے امن کی علمبردار نہیں بنیں گی بلکہ ہر دم اسرائیل کی حمایت میں فعال کردار ادا کریں گی۔امریکہ تو اپنابحری بیڑا قریبی سمندر کی طرف روانہ کرچکا ہے۔ امریکہ کا ماضی اور حال کا طرز عمل بتاتا ہےکہ وہ اسرائیل کے دفاع کو امریکہ کا دفاع گردانتے ہوئے کسی بھی قسم کا قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گا۔برطانیہ امریکہ کے نائب کا رول ادا کرتا ہے اور فرانس کو اسلام سے خدا واسطے کی دشمنی ہے ۔ایران دنیاکا واحد ملک ہے جو حماس کے حق میں کھل کربولا ہے ۔باقی سب اسلامی ممالک ہومیو پیتھک بیان بازی کررہے ہیں۔1973ء کی عرب اور اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اپنے پائلٹ بھیجے تھے جنہوں نے صد فی صد نتائج دیے تھے۔اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا وزیر اعظم تھا، جس نے بعد ازاں لاہور میں ملت اسلامیہ کا سرابراہی اجلاس بھی منعقد کروایاتھا۔لیکن سفید سامراج کب کسی مسلمان ملک کو آزادانہ خارجہ پالیسی کا حق دار سمجھتا ہے۔اُس کا انجام تختہ دار ہوتا ہے یا اپنے ہی ملک میں وہ پسِ زندان چلا جاتا ہے۔پھر یہ کہ دنیامیں امن قائم کرانے والی اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل جیسی تنظیمیں سفید سامراج کے گھر کی کنیزیں بن چکی ہیں۔ اِن تناظیم کی تاریخ یہ ہے کہ یہ اس وقت تک کوئی عملی کارروائی نہیں کرتیں جب تک طاغوتی قوتیں مسلمانوں پر حاوی نہ ہوجائیں۔بعد میں یہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے والی کارروائی کرتی ہیں۔قصہ کوتاہ حماس کا اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ امتِ مسلمہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے اوراللہ بھی اُس قوم کی حالت نہیں بدلتا، جسے اپنی حالت خود بدلنے کا خیال نہ ہو۔اُمت مسلمہ کا حال یہ ہے کہ اللہ کی نافرمانیاں اور من مانیاں کرتی ہے، پھر اللہ سے دعائیں بھی مانگتی ہے۔ اللہ اُن لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔بہرحال ہم مایوس تو ہر گز نہیں، لیکن آثاربتاتے ہیں کہ اسرائیل کا زمینی قبضہ بھی(اللہ نہ کرے)بڑھے گا اور قتل و غارت بھی بڑھے گی۔ ہم تو اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے دعا کریں گے کہ اے اللہ! تمام تر گناہوں،غفلتوں اور کوتاہیوں کے باوجود ہمارے مسلمان بھائیوں کی غیب سے مدد فرما۔
ہم سمجھتے ہیں اس جنگ سے یہ فائدہ تو لازماًپہنچے گا کہ جن مسلمان ممالک خاص طور پر عربوں کو امن اور اسرائیل دوستی کا بخارچڑھا ہوا تھا،انہیں کچھ افاقہ ہوگا۔شاید اُن کی آنکھیں کھل جائیں، شایدعوامی رد عمل اُن کی سوچ بدلنے میں معاون ثابت ہو۔اللہ مسلمانوں کوہدایت دے اور اپنے دشمن کو پہچاننے کی صلاحیت اور توفیق دے ۔آمین یا رب العالمین!