(کارِ ترقیاتی) تو سپرد ہے اسی ذات کے! - عامرہ احسان

9 /

تو سپرد ہے اسی ذات کے!

عامرہ احسان

 

اس کے ہاں گیارہویں بچے کی ولادت متوقع تھی۔‘ سعودی عرب میں مقیم لیڈی ڈاکٹر نے بتایا کہ اس پر جب ماں کو اس نے متوجہ کیا کہ ماشاء اللہ اتنے بچے؟ وہ فلسطینی ماں تھی، ناراض ہوکر بولی: تم مسلمان ہو؟ کیا تم نہیں جانتی کہ اقصیٰ کو بیٹوں کی ضرورت ہے! ’حماس‘ کے بانی شیخ احمد یاسین کے بھی گیارہ بچے تھے۔ ’العربیہ‘ کے مطابق مارچ 2017 ء میں غزہ کی مقدس ماں، آخری مرتبہ 5 بچوں کی پیدائش پر 69 بچوں کی ماں ہونے کا منفرد اعزاز لے کر شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئی۔ اللہ اسے اسی طرح بیک وقت کئی کئی بچوں سے نوازتا رہا اسرائیل کے سینے پر مونگ دلنے کو! اس وقت بھی غزہ میں 50 ہزار حاملہ مائیں ہیں! اللہ سلامتی سے نوازے۔ (آمین)
کئی سال پہلے سنا یہ جملہ باربار حقیقت بن کر سامنے آیا، اسرائیل کے مسلسل ہوتے رہنے والے حملوں پر۔ قدس میں مسجد اقصیٰ کو ڈھانے، گرانے کے ہر واقعے میں۔ وہ رات یاد آتی ہے جب مسجد اقصیٰ پر حملہ متوقع تھا۔ پوری رات اقصیٰ کے جوان، مضبوط، پرعزیمت بیٹوں نے اقصیٰ پر پہرہ دیا۔ امت نے تو صرف تصاویر دیکھنے پر اکتفا کیا۔ ان بیٹوں نے نسل در نسل اپنے خون سے سرزمین قدس کی آبیاری کی ہے۔ یہ ہر فلسطینی گھر کی کہانی ہے۔ ہر ماں بچے یوں پالتی ہے کہ: ترے دشمنوں کا زوال ہو، ترے دین میں نہ کمی رہے… اسی جوش میں اسی خوف سے، میں یہ ہڈیاں بھی گھلا چکی، میں لہو تک اپنا جلا چکی، تو چلا ہے راہِ جہاد میں، کہ ملیں گے اب کے معاد میں، … سبھی رنج اپنے بھلا چکی، مرے رب کی راہ میں تو چلا، ترے ساتھ ساتھ مری دعا، کہ ملے تجھے رب کی رضا، تو سپرد ہے اسی ذات کے! اور پھر وہ بیٹا، قدس رو چل پڑا۔ یہاں مقاصدِ زندگی کچھ اور ہیں۔ دنیا پرستی اور غلبۂ عقل اور تعلیم کے تیزاب سے موم کی گئی اٹھان اسے سمجھنے سے قاصر ہے! جواب بیٹے سے سن لیجیے۔ (بہت فرق ہے عازمِ یورپ امریکا ہونے والے بیٹوں اور آج فلسطین میں جانیں لٹانے والوں میں)۔ ’یہی سوچتا، میں نکل پڑا… ترے پاؤں میں ہیں جو جنتیں، تو انہی کے قفل کو کھولنے، میں شفاعتوں کی حرص لیے، ترے واسطے، اسی راستے پہ میں چل پڑا!‘ سو ماؤں کے گیارہ گیارہ بچے شفاعتوں کی حرص لیے کٹ مرنے اٹھ کھڑے ہوں تو وہ پوری دنیا ہلاکر رکھ دیتے ہیں۔
فلسطین کا ہر بچہ اس وقت پوری دنیا کو اپنے بے مثل جذبے، ماؤں کی حیران کن تربیت سے، یہ اسلام کا ایسا خوبصورت چہرہ دکھا رہا ہے کہ پیاسے لوگ قرآن اٹھا رہے ہیں۔ اسلام کی اس مبہوت کن دعوت پر لپک رہے ہیں۔ لبیک کہہ رہے ہیں۔ یہ ایک بمشکل 8 سال کا بچہ، اپنے سے کچھ بڑے شہادت کی دہلیز پر کھڑے بھائی کے سرہانے کلمہ پڑھے جا رہا ہے۔ اسے غم ہے تو صرف یہ کہ بھائی کلمہ پڑھتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو۔ وہ ننھی بچی جو اپنی حقیر سی جمع پونجی کی وصیت کر رہی ہے کہ اس ’وراثت‘ کو اس طرح تقسیم کر دینا۔احکامِ شریعت کا علم، رخصت ہونے سے پہلے اس پر عمل امت کے بڑے بڑے ڈگری یافتگان کو آئینہ دکھا رہا ہے۔ وہ زخم زخم بچہ جو جانے سے پہلے حدیث کی تصدیق کرتے ہوئے کہ شہادت کے وقت چیونٹی کاٹنے کے برابر تکلیف ہوتی ہے، کہہ رہا ہے مجھے درد نہیں ہو رہی! ہمیں زبانِ حال سے کہہ رہا ہے: یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے! گمانوں کے لشکروں کے مقابل یقیں کا ثبات درکار ہوتا ہے، جس سے ہم محروم ہیں اور فلسطین ساڑھے تین ہفتوں سے لمحہ لمحہ ہمیں صبر وثبات کے لازوال اسباق پڑھا رہا ہے۔ اقبال کی شاعری، (شہیدِ ’دہشت گردی کی جنگ!‘)، احسن عزیزؒ کی شاعری میں مشک کی خوشبو اپنے خون سے بھر رہے ہیں۔ ’یہ بازو کم نہیں ہوں گے، نئی آنکھوں کی خاطر راستے مبہم نہیں ہوں گے! کئی قسّامؒ، اور عزامؒ ورینستی، کئی یحییٰ عیاشؒ ایسے بطل، اس اپنی امت کو میسر آ ہی جائیں گے!‘ یہ وہ نام ہیں جو کاغذ پر لکھے جاتے ہیں تو کاغذ مہک اٹھتا ہے ان کے تذکرے سے!
دھول اور دھوئیں، گرتی بلڈنگوں کے ملبے کے بیچ غزہ مہک رہا ہے شہداء کی خوشبو سے۔ اس دور کی جنگوں کے شہداء پر یہ خاص انعام ہے جو قبل ازیں افغانستان میں حق کی گواہی عین اسی خوشبو سے ثبت کرتا رہا، جس کے مناظر اس وقت سب دیکھ رہے ہیں۔ شہید کے سرہانے بیٹھا نوجوان حیران ہوہوکر اس خوشبو کی گواہی دے رہا ہے۔ ’واللہ، شہداء سے مشک کی خوشبو پھوٹ رہی ہے۔ (مبارک ہو!) یا اھلِ فلسطین! کیا نفع بخش سودا کیا ہے!‘ جیسے عنوانات سے پوسٹ لگی ہے! قرآن اس سودے پر گواہ ہے (التوبہ) ’ربح البیع‘ نفع بخش سودے کی ندا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صہیب رومی رضی اللہ عنہ کو دی تھی جب ہجرت کی خاطر سارا مال کفار کو دے کر خالی ہاتھ مدینہ داخل ہوئے تھے! قطرے برابر زندگی اور اس کے مال ومتاع کو دنیا پرستوں کے منہ پر مار کر سمندروں سے وسیع تر لامنتہا جنت (آخرت) کا سودا ایمان والے ہی کر سکتے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ دنیا کے کونے کونے تک یہ خوشبو، کوہِ گراں سی عزیمتیں وائرل ہوکر ہر باضمیر انسان کو نگاہ خیرہ کن سیرت وکردار کے مسلمان اور دہشت گرد سفاک نیتن یاہو کا حقیقی چہرہ دکھا رہی ہیں۔ اپنی قربانیوں سے پوری دنیا تک قرآن کی دعوت انہوں نے پہنچا دی۔ قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن، والی سرزمین جو حفاظ کی اور قرآن ہی پر جینے مرنے والوں کی سرزمین ہے۔ ’تاکہ ہر اس شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پر حجت قائم ہو جائے۔‘ (یٰس: 70 )
کم عمر بچوں کی تلاوتیں اور برمحل خوبصورت دعائیں ایمان افروز ہیں۔ ہسپتال میں زخم کا تکلیف دہ منظر جس میں بچہ تلاوت کرتا صبر کر رہا ہے۔ غزہ میں ساری بمباریوں کے باوجود چہروں پر سکینت اور روشنی ہے خوف وہراس نہیں! آج قرآن اور غزہ پوری دنیا پر حجت تمام کر رہا ہے۔ اس کے ننھے ننھے بچے، ان پر توڑے جانے والے مظالم کے ذریعے پوری دنیا کے انسانوں کو نتن یاہو کے پشت پناہ سبھی ظالم مغربی اور خاموش مسلم حکمرانوں کی اصلیت بھی دکھا رہے ہیں۔ ایک تقریباً ڈھائی تین سال کا بچہ جو بمباریوں میں تنہا رہ گیا ہسپتال لایا گیا۔ نہیں سمجھ سکتا یہ سب کیا ہے۔ فطری خوف سے پھٹی پھٹی آنکھیں، کانپتے ہونٹ گنگ، لرزتا جسم، چہرہ وحشت سے ستا ہوا کس گود کا تھا۔ نہیں معلوم! ڈاکٹر اسے پیار سے تھپتھپا رہا ہے۔ محبت کا لمس اور گود پاکر پھوٹ پھوٹ کر رو دیتا ہے۔ ایسے بے شمار مناظر پوری دنیا میں مسلم وکافر کے فرق سے ماوراء ہر انسان کو اٹھاکر کھڑا کر رہے ہیں۔
میڈیا کے سحر، ہالی وڈ کی فلموں، میکڈونلڈ کے برگروں، زندگی کی راحتوں، عیش وطرب سے نکل کر وہ سب ایک نئی، عجب سحر انگیز دنیا دریافت کر بیٹھے ہیں! مغربیوں کے رنج والم میں ڈوبے، چھوٹے چھوٹے کلپ آپ کو حیران کر دیتے ہیں۔ سب ہری نیلی آنکھوں والے گورے مغربی مرد وزن! کوئی ہچکیوں کے بیچ ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے الفاظ میں درد میں ڈوبی محبت فلسطینیوں پر نچھاور کر رہا ہے۔ راتوں کی نیند ان کے لیے حرام ہو جانے کے تذکرے ہیں۔ بائیڈن، سوناک (برطانوی وزیراعظم)، سبھی پشت پناہوں پر غیظ وغضب کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ ایک برطانوی گورا، بی بی سی کے لتے لے رہا ہے۔ ’ہمارے ترجمان مت بنو۔ ہم ہرگز اس کی تایید نہیں کرتے جو اس وقت جاری ساری ہے‘۔ شدید لہجے میں ’اپنی بکواس بند کرو‘ کی پکار ہے۔ نیتن یاہو اور اسرائیل کو جنگی مجرم ٹھہرا رہے ہیں۔ ’اگر اس وقت بھی کوئی ان کا ساتھ دے رہا ہے تو وہ خود قتلِ عام کا مجرم، مخبوط الحواس، پاگل ہے۔‘
روتی ہوئی عورت کہتی ہے۔ ’اس وقت آپ کس طرح اپنے ’لنچ‘ (کھانے) کی تصویریں سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں؟ آپ نے غزہ کے قتلِ عام کے بارے کچھ بھی نہ کہا؟ شکر ہے ان مغربیوں نے پاکستان کے نوجوانوں کا کرکٹ میں انہماک اور ہارنے پر تلملاہٹ، بیزاری بھرا عظیم غم نہیں دیکھا۔ (یہ غزہ کے بچوں سے عین متضاد، کرکٹ کی گھٹی دے کر پالے گئے ہیں۔) آپ نے یہاں خونچکاں غزہ بھلاکر، شادی بیاہ برتھ ڈے ہلے گلے نہیں دیکھے! وہاں مرد رو رہا ہے۔ ’ہم کیا کریں اسے کیسے روکیں… یہ سب دیکھتے ہوئے میں کتنا شرمسار ہوں!‘ اور راقمہ کیا لکھے! کہ مسلمانوں کی بے حسی، بے اعتنائی، ’حماس‘ پر تنقید، اور خبریں دیکھنے سے منہ موڑنے کا رویہ! (ان کی راحت میں خلل اندازی ہوتی ہے!) اس پر ہم کتنے شرمسار ہیں!
ادھر آئر لینڈ کا ممبر پارلیمنٹ غضبناک ہوکر بائیڈن اور اس کی اسرائیل نوازی پر برس رہا ہے۔ اسرائیلی سفیر کو نکال باہر کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اور ایک لڑکی غزہ والوں کی حیران کن عزیمت سے متاثر ہوکر قرآن خریدکر پڑھنے اور اس کے حوالے دے دے کر دنیا کو اپنا نہایت مثبت تبصرہ سنا رہی ہے! ادھر ہم سودی قرضوں بھری معیشت سے اللہ کو ناراض کیے بیٹھے ہیں۔ آئرش پارلیمان آزاد ہے جو جی چاہے کہے۔ ہم کرسیاں سیٹ کرکے اپنے بڑوں، بن سلمان، بن زید، بکنگھم پیلس اور بائیڈن سے پوچھ کر اسے اسلامی چھینٹا دے کر مؤقف بیان کر دیں گے۔ 20سال افغانستان میں خون کی دھار دیکھتے رہے۔ اب ہم تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔ ہماری مجبوری ہے۔ خون کی سرخی سے دل گھبراتا ہے!
یہ سوال تو سبھی سے ہے: اس ذاتِ حق سے یہ بھلا کیسی محبت ہے، … نہ لہجوں میں سلگتی ہے، کلیجے منہ کو لاتی ہے نہ فاقوں ہی ستاتی ہے، نہ خاک آلود کرتی اور نہ کانٹوں پر چلاتی ہے، نہ یہ مجنوں بناتی ہے، حرا تک لے بھی جائے، قدس سے نظریں چراتی ہے… تو پھر آخر ہمیں، اس ذاتِ حق سے یہ بھلا کیسی محبت ہے!