’’دنیا میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے اور ہماری کم ہمتی اور
بزدلی کا عالم یہ ہے کہ ہم کھڑے ہو کریہ کہہ نہیں سکتے
کہ ’’Enough is Enough‘‘۔
’’یہود ہر صورت میں فلسطینیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں
کہ جب تک یہ باقی رہیں گے لڑتے رہیں گے ۔‘‘
آخری جنگ ( الملحمۃ العظمیٰ یا آرمیگاڈان ) مشرق وسطیٰ میںہی ہو گی اور
اس میں پاکستان نے کردار ادا کرنا ہے ۔ اُمت مسلمہ پر مایوسی کےد ور آئیں
گے لیکن آخر میں پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوگا ۔ ان شاء اللہ!
غزہ پر اسرائیلی سفاکیت اور دنیا کا مستقبل کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ مرحوم کی امت مسلمہ کے مستقبل کے بارے میں تذکرہ
میز بان :وسیم احمد
میزبان: حماس اور اسرائیل میں جاری حالیہ جنگ کے پس منظر کے طور پریہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے بنیادی اختلافات کی اگر کوئی حقیقت جاننا چاہتا ہے تو اسے یہودیوں کی تاریخ جاننا ہو گی کہ وہ پوری دنیا سے سمٹ کر اسرائیل میں کیوں آباد ہوئے ، مسلمانوں سے انہیں کیا خوف لاحق ہے اور یہود کے چار بڑے مشن یا اہداف کیا ہیں ؟ یہ جاننے کے لیے ہم آج عالم عرب کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنے والے عظیم سکالر ڈاکٹر اسرار احمدؒکےایک انتہائی اہم خطاب سے استفادہ کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب ؒ نے آج سے 30 سال قبل(1993ء )میں ایک کتاب بعنوان’’ سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی، حال اور مستقبل‘‘ لکھی تھی جو بہت مقبول ہوئی اور اس کے17 ایڈیشن اب تک شائع ہوچکے ہیں ۔آج بھی اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا قاری حیران ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبؒ کی مڈل ایسٹ کے حوالے سے تیس سال قبل بیان کی گئی باتیں آج کیسے حیرت انگیز طور پر حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبؒ کوئی نجومی یا astrologist نہیں تھے بلکہ قرآن و حدیث کے گہرے مطالعے کی روشنی میں ملکی اور بین الاقوامی معاملات اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرتے تھے اور حل تجویز کرتے تھے ۔ وہ یہودیوں کی سازشی ذہنیت ، مڈل ایسٹ میں ان کے مقاصد ، ان کی چالاکی اور عیاری اور امریکہ جیسی سپر پاور کو اپنے شکنجے میں قابو کرکے گریٹر اسرائیل کے قیام کی جدوجہد جیسے ناپاک یہودی منصوبوں پر گہری نظر رکھتےتھے اور اپنے خطابات اور تحریروں میں ان سازشوں کو ببانگ دہل بیان کرتے تھے ۔ آئیے ان کے ایک خطاب سے یہودیوںکے چار بڑے مشنز اور اہداف کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈاکٹراسراراحمدؒ:گریٹر اسرائیل کا نقشہ یہودیوں نے Protocols of the elders of Zion میں 1897ء میں دنیا کے سامنے پیش کیا تھا جس کے گرد ایک سانپ ہے اور وہ ان سب علاقوں کو گھیرے ہوئے ہے جن پر یہود کا دعویٰ ہے کہ وہ یہاں گریٹر اسرائیل بنائیں گے ۔ ڈیڑھ کروڑ اسرائیلی دنیا میں موجود ہیں جن میں سے ابھی صرف 35 لاکھ اسرائیل میں آئے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب باقی سب یہودی بھی آئیں گے تو ان کے لیے رقبہ چاہیے اور ہم گریٹر اسرائیل بنائیں گے ۔ انہوں نے 4 اہداف طے کیے ہیں ۔ 1۔ آرمیگاڈان ، 2۔ گریٹر اسرائیل کا قیام،3۔ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ کو گرانا۔ یہ دونوں یروشلم کی ایک پہاڑی پر ہیں جسے ٹیمپل ماونٹ کہتے ہیں۔جہاں حضرت عمر فاروق hنے نماز پڑھی تھی وہاں مسجد اقصیٰ ہے اور جہاں سے حضورﷺ کا براق کا سفر شروع ہوا تھا اس چٹان پر بعد میں عبدالملک بن مروان نے ایک بہت بڑا گنبد بنا دیا تھا جسے قبۃ الصخریٰ کہا جاتاہے ۔ اس گنبد پر سونے کی پتری اردن کے سابق بادشاہ شاہ حسین نے چڑھائی تھی ۔ اس وقت یہودیوں نے کہا تھا کہ یہ سوناہمارے کام آئے گا جب ہم تھرڈ ٹمپل بنائیں گے۔ ان کے سیکنڈ ٹمپل کو 70ء میں رومی جرنیل ٹائیٹس نے گراد یا تھا ۔ 1967ء میں یہود کو دوبارہ یروشلم پر قبضہ مل گیا ۔ چنانچہ یہود کا تیسرا ہدف مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ کو گرا کر تھرڈ ٹمپل تعمیر کرنا ہے ۔ چوتھا مشن ان کا یہ ہے کہ وہاں Throne of David (حضرت داؤدؑ کا تخت )لا کر رکھیں گے ۔ یہ ایک پتھر تھا جس پر حضرت داؤدdکو بٹھا کر تاج پوشی کی گئی۔ پھر اسی پر بٹھا کر حضرت سلیمانdکی تاج پوشی ہوئی۔ پھر حضرت سلیمانdنے جو مسجد بنائی اُس میں اس پتھر کو رکھ دیا گیا ۔ اس کے بعد ہر اسرائیلی بادشاہ کی تاج پوشی اسی پتھر پر بیٹھ کر ہوتی رہی ۔ جب 70ء میں ٹائٹس نے سیکنڈ ٹمپل کو گرا دیا تو وہ اس پتھر کو اُٹھا کر اپنے ساتھ روم لے گیا ۔ پھر آئر لینڈ اور سکاٹ لینڈ سے ہوتا ہوا یہ پتھر برطانیہ پہنچا ۔ 14ویں صدی عیسوی میں اس پتھر کو ایک کرسی کی سیٹ میں لگا کر اسے تھرون بنا دیا گیا جو کہ اب ویسٹ منسٹر چرچ میں رکھا ہوا ہے ۔ چنانچہ چوتھا ہدف یہود کا یہ ہے کہ وہ اس پتھر کو لا کر یہاں رکھیں گے ۔ نیوکانزعیسائی بھی یہود کے ساتھ اس پر متفق ہیں ۔
میزبان:آپ کو یہود کے چار بڑے missions اور اہداف تو معلوم ہوگئے ۔ اب اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اسرائیل کیسے وجود میں آیا، یہودی کہاں سے آئے اور کیسے اس سرزمین پر آبادہو گئے، اس سرزمین پر اب تک کتنی جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور ان کا انجام کیا ہوا تو اس حوالے سے بھی ڈاکٹر صاحب ؒ کا یہ بیان موزوں ہوگا ۔
ڈاکٹر اسراراحمدؒ:برطانیہ نے 1917ء میں بالفور ڈیکلیریشن پاس کر دیا کہ یہودی فلسطین میں آباد ہو سکتے ہیں ۔ اس کے بعد یہود نے دھونس ، دھاندلی ، دھمکی سمیت ہر ہتھکنڈ ے کو استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا ۔ یہود کے پاس سرمایہ کی کوئی کمی نہیں تھی، صہیونی تحریک کےبانی سب بینکرز تھے جنہوں نے 1897ء میں جمع ہو کر یہودی پروٹوکول بنائے تھے ۔ لہٰذا فلسطینیوں کو دھن کی لالچ دے کر مہنگے داموں زمینیں خریدتے گئے ۔پھر جب 1948ء میں اسرائیلی ریاست قائم ہوگئی تو اس کے بعد کہیں فلسطینیوں کو جعلی عدالتی کارروائیوں کے ذریعے نکالا گیا ، کہیں زبردستی نکالا گیا ، 1948ء سے پہلے برطانیہ ورلڈ سپر پاور تھا جو یہود کی پشت پناہی کر رہا تھا، اب امریکہ کر رہا ہے ۔ 1948ء میں عربوںنے اسرائیل کے خلاف خوب جنگ لڑی، وہ جیت رہے تھے لیکن پتا نہیں کیوں صلح کر لی ۔ کچھ مہینوں کے بعد عربوں نے دوبارہ جنگ کی لیکن اتنے عرصہ میں اسرائیلی دہشت گرد اپنے قدم جما چکے تھے اور عربوں کو شکست ہوگئی ۔مغربی یروشلم پر بھی ان کا قبضہ ہوگیا ۔ 1967ء میں روس کے سکھانے پڑھانے پر مصر کے جمال عبدالناصر نے اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔ لیکن اسرائیل نے مغربی پشت پناہی میں مصر سے پورا صحرائے سینا لے لیا ۔ کچھ علاقے شام سے لے لیے ، اردن سے پورا مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم بھی لے لیا ۔ اس طرح 1967ء تک پورا یروشلم یہود کے قبضہ میں چلا گیا ۔ 1973ء میں مصرنے بدلہ لینے کی کوشش کی اور بڑی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کی بارلیو دفاعی لائن کو کراس کر لیا تھا لیکن پھر امریکہ کود پڑا اور مصرنے دوبارہ صلح پر آمادگی ظاہر کردی ۔ یہ ان کی تاریخ ہے ۔ یہودیوں میں بھی اندرونی طور پر بڑی کشاکش ہے جیسے مسلمانوں میں کچھ وہ ہیں جو نماز روزے کی پابندی کرتے ہیں ، دین سے ان کا تعلق ہے ، کچھ وہ ہیں جن کے نام مسلمانوں والے ہیں لیکن نماز روزہ کچھ نہیں ہے ، سیکولر اور مادہ پرست ذہنیت بھی ہے ۔ اسی طرح یہود میں بھی کچھ کٹر مذہبی ہیں ۔ لمبی داڑھی ، سرپر اونچا ہیٹ ، لمبی لمبی زلفیں اور خاص طو رپر کنپٹی کے لمبے بال رکھتے ہیں ۔ ایک انتہا پر یہ ہیں ۔ دوسری انتہا پر وہ یہودی ہیں جو شراب پیتے ہیں ، سور کھاتے ہیں ، ان میں بینکرز ہیں ، سائنسدان ہیں اور دیگر سیکولر لوگ ہیں ۔ کچھ درمیانے درجے کے مذہبی ہیں جیسے ملعون ایریل شیرون تھا۔ داڑھی نہیں ہے لیکن سر پر ٹوپی ضرور رکھتا ہے ۔ ان کے سیکولر اور مذہبی طبقہ کے درمیان کشاکش کے باجود ایک بات پر ان کا اتفاق ہے کہ پوری دنیا کی مالیات پر ان کا قبضہ ہوگا اور غیر یہود کو ہم حیوان بنا کر رکھ دیں گے ۔ ہماری ملٹی نیشنل کمپنیوں کا راج ہوگا ۔ حکومتوں کی باگ ڈور انہی کے ہاتھوں میں ہوگی ۔ باقی لوگ مزدوروں کی حیثیت سے کام کریں گے۔ انہی سے دولت لے کر کچھ تنخواہیں ان کو بھی دے دیں گے ۔ باقی سود کے ذریعے سے ملائی ہم کھینچتے رہیں گے، مکھن ہمارےپاس آتا رہے گا۔ البتہ ایک چیز میں ان کے دونوں طبقات میں اختلاف ہے ۔ ان کا مذہبی طبقہ کہتا ہے کہ ہم نے جو گریٹر اسرائیل بنانا ہے اس میں مصر کا وہ زرخیز علاقہ بھی شامل ہوگا جس میں حضرت یوسفd کے دور میں جاکر بنی اسرائیلی آباد ہوئے تھے ، صحرائے سینا بھی شامل ہوگا جہاں کوہ طور پر حضرت موسیٰ dکو تورات ملی ۔ مدینہ تک کا علاقہ بھی شامل ہوگا جہاں سے یہود کو نکالا گیا تھا ، عراق اور شام بھی شامل ہوں گے ، ترکی کا جنوب مشرقی علاقہ بھی شامل ہوگا ۔ جبکہ سیکولر یہودی کہتے ہیں کہ اتنے بڑے علاقے کو لے کر کیا کرو گے جہاں تم عربوں سے لڑو گے عرب تم سے لڑتے رہیں گے ۔ اس کی بجائے عرب اور اسرائیل مل کر رہتے ہیں ۔ دونوں کزن ہیں ۔ ایک حضرت اسماعیل d کی اولاد ہیں ، دوسرے حضرت اسحاق dکی اولاد ہیں ۔ہم دونوں مل کر اکانومک یونٹ بناتے ہیں ۔ جیسے ایشیا پیسیفک ایک unit بن گیا ہے، آسیان ہے، پورا یورپ ایک یونٹ بن گیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ پیسہ عربوں کا ہوگا ، تیل ان کا ہوگا ، مزدور ان کے ہوں گے منیجمنٹ ہماری ہوگی ۔ ٹیکنیکل شعبے ہمارے پاس ہوں گے ، سائنسدان ہم ہوں گے ، ملائی ہم کھاتے رہیں گے ۔چھاچھ ان کو دیتے رہیں گے ۔ ہمیں آم کھانے سے تعلق ہے پیڑ گننے کی کیا ضرورت ہے ۔ خوامخواہ عربوں سے دشمنی بڑھانے کا کیا فائدہ ۔ وہ اس چھوٹے سے اسرائیل کو تسلیم نہیںکرتے ، گریٹر اسرائیل کو کیسے تسلیم کرلیں گے ۔ لہٰذا اس خیال کو دل سے نکال دو ۔ یہ بہت بڑا اختلاف ان دونوں طبقوں کے درمیان ہے لیکن اسی کے اندر دو باتوں پر اتفاق ہوگیا کہ (1)پورا یروشلم ہمارے پاس رہے گا جسے ہم اسرائیل کا دارالخلافہ بنائیں گے ۔(2)۔ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کو گرا کر ہم تھرڈ ٹمپل ضرور بنائیں گے ۔ اس پر سیکولر یہود کا بھی اتفاق ہے کیونکہ وہ اتنی رشوت بھی اگر مذہبی یہود کو نہ دیں تو وہ ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔
میزبان: اسرائیل کی طرف سے غزہ خالی کرنےکے الٹی میٹم کے بعد اس وقت صورت حال یہ ہے کہ غزہ کے ہسپتال پر بمباری کر کے بچوں سمیت800 سے زائد افراد کو شہید کر دیاگیا ہے۔10 لاکھ فلسطینی مسلمان بے گھر ہو چکے ہیں، بجلی ،پانی اورگیس بند کر دی گئی ہے۔آئس کریم والے ٹرکوں کو مردہ خانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کاکہنا ہے کہ ہم رات کو ایک ساتھ سوتے ہیں تاکہ بمباری کی صورت میں ایک ساتھ مر سکیں ۔عالم عرب کی متبرک زمین پر انسانی المیہ جنم لےچکا ہے لیکن انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار اسی خونی درندے کےساتھ کھڑے ہیں جو کئی دہائیوں سے مسلمانوں کی نسل کشی کے در پے ہے۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے ایک عرصہ پہلے یہودیوں کے ان عزائم سے آگاہ کر دیا تھا اور ان کی ترجیحات کو بھی گن کر بتا دیا تھا ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
ڈاکٹر اسراراحمدؒ:میرا اندازہ یہ ہے کہ اب جو مذہبی یہودی ہیں ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ اگرچہ اب ان کا نمائندہ ایریل شیرون اس طرح کا عملی یہودی نہیں ہے لیکن انتہائی سفاک ہے ، جس نے لبنان میں صبرا اور شاتیلا کے فلسطینیوں کے دو کیمپ اس بے دردی سے اُڑا دیے تھے جس طرح چیونٹیوں کو پیروں تلے روند دیا جاتاہے ۔ اب ان کا فیصلہ یہ ہے کہ انہیں تین بڑے بڑے قدم اٹھانے ہیں۔(1) فلسطینیوں کا خاتمہ ۔ اگر فلسطینی باقی رہے تو لڑتے رہیں گے ، اگر دس ہم ماریں گے تو ایک دو وہ بھی مار دیں گے ، غیر یہودی چاہے ہزار بھی مرجائیں تو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ یہ تو کیڑے مکوڑے ہیں ، جنٹائلز اورگوئمز ہیں۔ البتہ یہودی کی جان قیمتی ہے ۔ اس لیے فلسطینیوں کو ختم کردو تاکہ لڑائی ختم ہو جائے ۔ چنانچہ اس کے لیے وہ اب فلسطینیوں کی اس طرح نسل کشی کریں گے کہ بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی لوگ بھول جائیں گے ، یا پھر جس طرح 1492ء میں سپین کے مسلمانوں کو ختم کیا گیا تھاکہ ایک بچہ بھی باقی نہ چھوڑا تھا ۔ (2)۔ اب وہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرا کو گرائیں گے اور ان کی جگہ تھرڈ ٹمپل بنائیں گے۔یہ جو انتفادہ اب شروع ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک سال قبل ایریل شیرون نے مسجد اقصیٰ کا دورہ کیا تھا اور وہاں تھرڈ ٹمپل کی تعمیر کے لیے بنیاد کا پتھر رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جس پر فلسطینی نوجوان ہاتھوں میں اینٹیں اور روڑے لے کر نکلے ہیں اور اس وقت سے یہ سلسلہ چل رہا ہے ۔ اب تک کتنے ہی فلسطینی مارے جا چکے ہیں لیکن کچھ نہ کچھ یہودی بھی مرے ہیں ۔ لہٰذا یہود کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو گیا اور وہ ہر صورت میں ان اہداف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ کئی کئی ٹن کے پتھر لا کر انہوں نے رکھ دیے ہیں کہ یہاں بنیاد پڑنی ہے ۔ (3)۔ امریکہ کو دھمکی دی کہ اب تم ٹانگ مت اڑاؤ ۔ اگر تم نے ہمارے اہداف میں رکاوٹ ڈالی تو تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ نیتن یاہو نے کہا تھا میں واشنگٹن میں آگ لگا دوں گا۔چنانچہ اب امریکہ کویہود کی دھمکی ہے کہ تم باز آجاؤ ۔ میں یہ بات خطاب جمعہ میں کرکے مسجد دارالسلام سے باہر نکلا ، شام کو ٹی وی پر ایل شیرون کی تقریر سنی ۔ اس نے کہا :
"It is not acceptable. Don't appease the Arabs, at our expense. We are not going to become Czechoslovakia. We have to depend on ourselves only and rely on ourselves only."
یہ وہ امریکہ کو سنا رہا تھا کہ ہم تمہارے محتاج نہیں ہیں ، اب تم بیچ میں آؤ تو سہی تمہارے چیتھڑے اُڑا دیں گے ۔
میزبان:اسرائیل میں پنجہ یہود کو مضبوط کرنے کے لیے یہودیوں نے عرب ممالک سے جنگیں بھی لڑیں لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے پرانہوں نے ان کو زہر کی بجائے گڑ دے کر مارنے کی کوششیں شروع کر دیں جس میں وہ کامیاب رہا۔کبھی اوسلو معاہدہ ہوا تو کبھی ابراہیم اریکارڈ کا سہانا خواب دکھایا گیا ۔حال ہی میں امریکی پریشر پر سعودی عرب کے ساتھ تاریخی امن معاہدے کی باتیں شروع ہو گئیں۔ عرب ممالک کے حکمران اپنی کم علمی، کم فہمی اور دنیاوی مفادات کے تحت جس کو اپنا دوست سمجھ کر اچھے سفارتی تعلقات استوار کر رہے ہیں وہی اصل میں ان کا ازلی اور ابدی دشمن ہے جس کے ہاتھوں ان کی تباہی اور بربادی کا ذکر نبی آخر الزماںﷺ کی احادیث مبارکہ میں ملتا ہے۔ ڈاکٹراسرار احمدمرحومؒ کئی دفعہ اپنے خطابات میں انہی احادیث کی روشنی میں امت مسلمہ کو قرب قیامت کے حالات و واقعات سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ اسی طرح کی ایک کاوش ملاحظہ فرمائیں۔
ڈاکٹر اسراراحمد ؒ:احادیث میں جو خبریں ہیں ان کے مطابق عربوں سے بہت سارے علاقے چھن جائیں گے ، یہ عراق ، اردن ، شام ، یہاں تک کہ ترکی کا جنوب مشرقی اور سعودی عرب کا شمالی حصہ بھی چھن جائے گا ۔ البتہ یہود کا مدینہ منورہ میں داخل ہونے کا خواب اللہ تعالیٰ پورا نہ ہونے دے گا ۔ یہ سب کچھ ہونے والا ہے ۔ حضورﷺ کی ایک حدیث کے مطابق ایک شخص کے ایک ہزار بیٹے ہوں گے تو999 ختم ہو جائیں گے۔ اتنی بڑی جنگ اور اتنی خونریزی ہوگی ۔ پوری زمین لاشوں سے اٹ جائے گی کہ کوئی پرندہ زمین پراُترنا چاہے لیکن اسے اُترنے کی جگہ نہیں ملے گی ۔ یہاں تک کہ وہ تھک ہار کرجب گرے گا تولاش پر گرے گا ۔ یہ وقت آنا ہے ، چاہے یہود کے ہاتھوں آئے یا یہود کے آلہ کار جو بنے ہوئے ہیں ان کے ہاتھوں آئے ۔ میرے نزدیک اس ملعون قوم کو اسی کام کے لیے باقی رکھا گیا ہے ۔ اسی لیے اسے موقع دیا گیا ، تقریباً دو ہزار سال بعد یہ آکر یہاں آباد ہو گئے ہیں ۔ یہ سارا کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ ان کو یہ استثنیٰ کیوں دیا گیا۔ یہ بڑی تلخ حقیقت ہے ۔ یاد کر لیجئے ۔ قوم نوحؑ ،قوم عاد، قوم ثمود، قوم شعیب ؑ کو ہلاک کیا گیا ، سدوم اور عمورہ کی بستیاں تباہ کردی گئیں ۔ آل فرعون کو ہلاک کیا گیا ۔ بنی اسرائیل کوکیوں چھوڑ دیا گیا ۔ یوں سمجھیے کہ اس پورے معاملے کودرمیان میں سے ایک وقفہ دے دیا گیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ اٹھا لیا گیا اوروہ دوبارہ آئیں گے ۔ یہ کیوں کیا گیا؟ اب اس حوالے سے میں بڑی تلخ بات کہہ رہا ہوں ، اس کو قبول کرنا آپ کے لیے آسان نہیں ہے ۔ اس قوم کو زندہ رکھا گیا ہے جو ملعون اور مغضوب علیہم قوم ہے۔ سب مفسرین سورہ فاتحہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ضالین نصاری ہیںاور مغضوب علیہم یہ یہودی ہیںاور قرآن کہتا ہے:
{لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط } (المائدۃ:78) ’’لعنت کی گئی اُن لوگوں پر جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں سے‘ دائودؑ کی زبان سے اور عیسیٰ ؑابن ِ مریم کی زبان سے بھی۔‘‘
اب ایک ملعون اورمغضوب قوم کے ہاتھوں آخری امت (امت محمدﷺ) اور اس کا بھی جو بہترین حصہ ہے ، خاص طور پر عربوں پر عذاب ان یہودیوں کے ہاتھوں آئے گا ۔ اس لیے ان کو بچایا گیا۔ یہ میں نے کئی دفعہ واقعہ سنایا۔ مولانا اصلاحی صاحب بتایا کرتے تھے کہ بھارت کی ریاست یوپی میں ایک روایت تھی کہ اگر کوئی بڑی گری ہوئی حرکت کرتا تھا تو اس کے سر پر چمار کے ہاتھوں جوتالگوایا جاتاتھا۔ جس کو آپ انگریزی میں کہتے ہیں: To add insult to injury وہ تکلیف بھی ہے جوتا کھانے کی اور ذلت بھی ہے کہ چمار مار رہا ہے۔ اُمت مسلمہ خیر امت ہے ۔ فرمایا: {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ}(آل عمران:110) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے۔‘‘
اس کے لیے عذاب بھی بدترین آئے گا اورخاص طور پر اس کا جو مرکز ہے (عرب) جس کے بارے میں حضورﷺ کی حدیث موجود ہے((ویل للعرب)) عرب کے لیے بہت بڑی ہلاکت ہے اور آج نظر آ رہا ہےکہ وہ ملعون اورمغضوب علیہم قوم ان کے سینے کےاندر خنجر کی طرح گھونپی گئی ہے اور تیس کروڑ کے قریب عرب بے حمیتی، بے غیرتی، بزدلی، کمزوری، ذلت، مسکنت کی مثال بنے ہوئےہیں۔ جبکہ یہود صرف تیس پینتیس لاکھ اسرائیل میں ہیں لیکن کوئی ان کے خلاف بول سکتاہے ؟ اس سےزیادہ (پچاس لاکھ کے قریب)تو امریکہ میں ہیں ، کل سوا کروڑ آبادی ہے یہود کی دنیا میں لیکن دیکھیے جوچاہتے ہیں کرتے ہیں ۔ جب چاہا عراق کے ایٹمی انسٹالیشن کو تباہ کر دیااور سعودی عرب کی فضا میں ان کے جہازوں کی ریفیولنگ ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کوڑا ان مسلمانوں کے لیے رکھا ہوا ہے کہ؎
جن کے رتبےہیں سوا، ان کی سوا مشکل ہے
جتنا اونچا مقام اللہ نے عربوں کودیا ،ان میں حضورﷺ کواٹھایا، ان کی زبان میں اپنا آخری کلام نازل کیا تو ان کی ذمہ داری بہت بڑی ہے۔ یہ وجہ میرے نزدیک ہے۔ واللہ اعلم!
میزبان:پچاس سال پہلے ارض فلسطین کاجو نقشہ تھا اس کا دور حاضر کے نقشہ سے موازنہ کریں تو اسرائیلی جارحیت اورناجائز قبضے کی داستان آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے۔ یہودسال ہا سال سے ظلم سے مسلمانوں کی نسل کشی اور گریٹراسرائیل کے قیام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ غزہ پر ڈھائی جانے والی حالیہ قیامت میںتو پورا عالم کفر چاہے وہ امریکہ ہو برطانیہ ہو یا یورپی ممالک ہوں ، سب کے سب اسی ظالم اور جابر کے ساتھ کھڑے ہیںاور دوسری طرف پورا عالم اسلام ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی عملی تصویر بنا ہوا ہے۔ہماری کم ہمتی اور بزدلی کی انتہا یہ ہے کہ مسلمانوں کے ازلی دشمن کے خلاف کوئی عملی اقدام اٹھانا تو بہت دور کی بات ہے واضح اور دو ٹوک انداز میں اس کی مذمت بھی نہیں کر پا رہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد ؒمرحوم مسلمانوں کی یہی حالت زار بیان کرتے ہوئےانتہائی افسردہ ہو جایا کرتے تھے۔ اسی کیفیت پر مبنی ان کا ایک بیان ملاحظہ فرمائیں ۔
ڈاکٹر اسراراحمد ؒ: آج دیکھیے دنیا میںجہاں خون بہتا ہے مسلمان کابہتا ہے۔ پچاس سال سے زیادہ ہو گئے کہ فلسطین میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے، تیس سال کے قریب ہونے کو آئے کہ کشمیر میں خون بہہ رہا ہے ،روزانہ اخبارات میں لکھا ہوتا ہے ، آج اتنے شہید ہوگئے ، ٹی وی پر مناظر بھی دیکھتے ہیں ۔ خون اگر گرا ہے تو بوسنیا میں مسلمانوں کا ، کوسوو میں گرا ہے تو مسلمانوں کا ، چیچنیا میں گرا ہے تو مسلمانوں کا ۔ صومالیہ ، فلپائن ، اب تو تھائی لینڈ میں بھی شروع گیا ۔ جہاں دیکھو مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے ۔ وہ جو کسی نے کہا تھا ؎
ہوگیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو
فلسطین میں بلڈوزر آرہے ہیں ، محلے کے محلے مسلمانوں کے مسمار ہو رہے ہیں ۔ کم ہمتی اور بزدلی کا عالم یہ ہے کہ ہم کھڑے ہو کریہ کہہ نہیں سکتے کہ:Enough is Enoughتم نے جو کچھ ہمارے ساتھ کیا ہے، اب ہم آ رہے ہیں میدان میں مقابلہ کریں گے۔ اس طرح بھیڑ بکریوں کی طرح ماریں نہیں کھائیں گے ۔ کسی مسلم ملک میں طاقت نہیں کہ یہ کہہ دے ۔ ہاںالبتہ انفرادی سطح پر کچھ بے چارے مسلمان اپنی جانیں دے کر آٹھ دس ظالموں کو اُڑا لیتے ہیں اور بس کیا !
میزبان:ناظرین! End of Timeکے حوالے سے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کے بعض اشعاراحادیث مبارکہ میں بیان کردہ حقائق کا خلاصہ معلوم ہوتے ہیں ۔ مرحوم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کو حضرت علامہ کے یہ اشعار بہت پسند تھے ،وہ اپنے خطابات میں اکثر ایک وجد کی سی کیفیت میں یہ اشعار پڑھا کرتے تھے ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔
ڈاکٹر اسراراحمدؒ:
آسمان ہوگا سحر کے نورسے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کویاد آجائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
آخری شعر اس نظم کا ہے:
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
اور یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
لا الٰہ الا اللہ
{ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ ط}
یہ اس پورے روئے ارضی کےاوپر ہو کر رہے گا لیکن اس کا طریقہ کیا ہے؟پہلے کسی ایک ملک میں اسلام نافذ کردو ، پھر وہ گلوبلائز ہو جائے گا ۔ آج کی دنیا گلوبلائزیشن کی طرف تو خود ہی جارہی ہے یا باطل گلوبلائز ہو رہا ہے یا حق گلوبلائز ہو گا ۔اب دنیا میں محدود سرحدوں ( نیشن سٹیٹ) کے اندر رہنے کا مسئلہ ختم ہوچکا ہے ۔یہ لکیریں رہ جائیں گی، ملٹی نیشنلز کی حکومت ہو گی اور گلوبلائزیشن کے بعد دنیا ایک گلوبل ویلج بن جائے گی ۔
میزبان: ناظرین یقیناً یہ چمن نغمہ توحید سے معمور ہوگا اور ان شاءاللہ ہوگا۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے گلوبلائزیشن کی بات کی ہے اور آج دنیا واقعی global village بن چکی ہے۔ قرآن پاک کی آیات اور نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات اٹل حقیقت ہے اور پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ قیامت سے قبل کل روئےارضی پر اسلام غالب ہو کر رہے گا۔ اس ضمن میں قرآن و حدیث سے کوئی reference درکار ہو تو ڈاکٹراسرار احمدؒ کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیں ۔
ڈاکٹر اسراراحمدؒ:قرآن مجید میں تین دفعہ اللہ کے آخری رسول ﷺ کی بعثت کا مقصد بیان ہوا ہے ۔
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9) ’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر۔‘‘
یعنی غلبہ دین حق ہو کر رہے گا ۔ پھر یہ کہ حضور ﷺ کو پوری نوع انسانی کے لیےبھیجا گیا:
{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا}(سبا:28) ’’اور (اے نبیﷺ!) ہم نے نہیںبھیجا ہے آپؐ کو مگر تمام بنی نوعِ انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر۔‘‘
آپ ﷺ کا مقصد بعثت پورا اسی وقت ہوگا جب پوری دنیا پر اللہ کا دین قائم ہو جائے اور یہ ہو کر رہے گا ۔ہو نہیں سکتا کہ حضورﷺ کی بعثت کا مقصد پورا نہ ہو اوردنیا ختم ہو جائے ۔
حدیث نبوی ﷺ ہے کہ:
اللہ نے میرے لیے زمین کو لپیٹ دیا یا سکیڑ دیاتو میں نے اس کے سارے مشرق اور سارے مغرب دیکھ لیےاور میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو کر رہے گی جواللہ تعالیٰ نے مجھے دکھائے۔ ٹھیک ہے درمیان میں کچھ مایوسی کےد ور آنے ہیں جیسے اولین دور میں آئے ۔ مکہ میں مسلمانوں پر جو بیتی ، اُحد میں جو بیتی لیکن بالآخر اسلام عرب میں غالب ہو کر رہا ۔ اسی طرح اس اُمت کے ساتھ ابھی بہت کچھ ہونا ہے ۔ divine punishment کا معاملہ ہوگا لیکن آخر میں اسلام غالب ہوگا ۔
میزبان:یہ بات طے ہو گئی ہے کہ دنیا کا مستقبل اسلام سے وابستہ ہے اور یہ اٹل حقیقت ہے کہ قیامت سے قبل global level پر اسلام قائم اور غالب ہو کر رہے گا لیکن اس سے قبل حق و باطل کا ایک عظیم معرکہ بھی ہو گا۔ جسے آرمیگاڈان یا الملحمۃ العظمیٰ بھی کہا جاتا ہے۔ حق و باطل کے اس آخری معرکے میں پاکستان کا کردار کیا ہوگا۔ موجودہ اور آنے والے حالات کی ایک جھلک اور ان حالات کےمیں ہمیں کیا کرنا چاہیے اس حوالے سے ڈاکٹرصاحب ؒ کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیں ۔
ڈاکٹر اسراراحمدؒ:پاکستان کی ایک destiny ہے، ایک تقدیر مبرم ہے کہ کفر اور اسلام کے مابین جو آخری معرکہ ہونا ہے اس میں پاکستان کو crucial role play کرنا ہے۔آخری جنگ ( الملحمۃ العظمیٰ یا آرمیگاڈان) مڈل ایسٹ میںہی ہو گی۔یہ بڑی عظیم جنگ ہونی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ایک مشرقی ملک سے فوجیں جائیں گی اورعرب میں حضرت مہدی کی حکومت قائم کریں گی اور خراسان سے سیاہ علم لے کر فوجیں نکلیں گی جو حضرت مسیح ؑکے ساتھ کھڑی ہوں گی اور یروشلم واپس لیں گی۔ حضور ﷺ کے زمانے میں جوایک بڑاملک خراسان تھا اس کا دل افغانستان اور پاکستان کا شمالی حصہ ہے ۔ لہٰذا ہمیں اپنی ایٹمی صلاحیت کی حفاظت ہر قیمت پر کرنی ہے ،پاکستان داؤ پر لگتا ہے تو لگ جائے بچانے والا اللہ ہے لیکن یہ کہ کم سے کم ہماری جو ایٹمی صلاحیت ہے، جو امانت ہے ہمارے پاس پوری امت مسلمہ کی اس کو کوئی گزند نہیں پہنچنےدینا۔
میزبان: علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے۔ اس دعا کےساتھ آج کے پروگرام کا اختتام کرتے ہیں کہ یا الٰہی ہمیں پاکستان میں اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کی توفیق اور ہمت عطا فرما اور حضرت مہدی کی مدد کے لیے خراسان سے نکلنے والے قافلے کا ہم سفر بنا دے۔بقول شاعر:
وقت فرصت ہےکہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024