فلسطین کی موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کے کرنے کے کام
شجاع الدین شیخ ، امیر تنظیم اسلامی
1- دعاؤں کا اہتمام:- حدیث نبوی ﷺکے مطابق دعا مؤمن کا ہتھیار ہے۔ ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور صدقِ دل سے فلسطین کے مسلمانوں کی مدد اور ظالموں کے جبر کو روکنے کے لیے دعائیں کرنی چاہیے۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 75 کے ذیل میں رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے مکہ مکرمہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیے دعائیں کیں( جبکہ فتح مکہ کےلیے اقدام8 ہجری میں فرمایا)۔ نبی اکرمﷺ ایسے مواقع پر قنوت نازلہ کا بھی اہتمام فرماتے تھے ۔
2- نوافل نمازوں کی کثرت:- سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 153 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط}صبراور نماز سے مدد حاصل کرو۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد کو متوجہ کرنے کے لیے کثرتِ سجود اور سجدوں کو طویل کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے یعنی فرض نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ نفل نمازوں کی طرف توجہ اور سجدوں کی کثرت کا اہتمام کریں۔
3- گناہوں کو چھوڑنا:- اللہ تعالیٰ کی مدد، اللہ کے سرکشوں ،باغیوں اور نافرمانوں کے لیے ہرگز نہیں آ تی۔ سورۃ النحل کی آ خری آ یت میں ارشاد ہوا ہے:{اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا} ۔ ’’بے شک اللہ تعالیٰ کی معیت (مدد) ان لوگوں کے لیے ہے جو تقوٰی اختیار کرتے ہیں۔‘‘ یعنی اپنی زندگی سے گناہوں، منافقت اور سرکشی کے رویہ کو ختم کرتے ہیں۔ سورۃالبقرہ کی آیت نمبر 186 سے بھی یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کی یہی شرط بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان رکھتے ہوئے اس کے احکامات کی مکمل فرمانبرداری کی جائے۔
4- تاریخ کا مطالعہ:- ہمیں چاہیے کہ اس وقت یہود و اسرائیل اور فلسطین کی تاریخ کا تفصیلی مطالعہ کریں اور اپنے قریبی لوگوں کو بھی یہ معلومات فراہم کریں۔ اس حوالہ سے بانی ٔتنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کےخطابات کی سماعت بھی فائدہ مند ہوگی۔
5- بچوں میں جوش جہاد اور شوق شہادت پیدا کرنا:- ہمارے لیے اپنے بچوں کی ذہن سازی کرنے کا بہترین موقع ہے تاکہ ان میں بھی امت کاد رد پیدا ہواور خدمت دین کے لیے مجاہدانہ تربیت کے ذریعہ افراد کار میسر ہوں۔
6-مالی تعاون:- ہماری ذمہ داری ہے کہ اس موقع پر اپنے اخراجات کو کم کر کے ایثار کرتےہوئے جس ادارہ پر بھی اعتماد ہو، اس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ مالی مدد فلسطین کے مسلمانوں کے لیے بھیجیں۔
7- نہی عن المنکر باللسان کے فریضہ کی ادائیگی :- سوشل میڈیا، یو ٹیوب، پریس کلب، جہاں بھی موقع ملے تو بول کر یا لکھ کر تقریر و تحریر، جس میں جو بھی صلاحیت ہے ، اُسے ظلم کے خلاف اور مظلوموں کی داد رسی کے لیے استعمال کرنے کی پوری کوشش کرے۔
8- پُرامن احتجاجی مظاہروں کا اہتمام :- فلسطین کے مسلمانوں پر بے انتہا ظلم وستم کے خلاف مسلمانوں کو اجتماعی سطح پر بڑے پیمانہ پر مظاہرے بھی کرنے چاہئیں تاکہ پوری دنیا کو معلوم ہو سکے کہ مسلمان متحد ہیں اور ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتے ہیں نیز یہ مسلمانانِ فلسطین کی بھی دلجوئی اور ہمت بڑھانے کا باعث ہوگا۔
9- مسلمان حکمرانوں، مقتدر طبقات اور امت کی افواج سے مطالبہ :- ان با اختیار لوگوں کو محض امدادی سامان، مالی تعاون یا مذمتی بیانات پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کی طرف سے ظلم کے خاتمہ کے لیے بھرپور جواب سامنے آ نا چاہیے۔ عوام کو چاہیے کہ ان طاقت و قوت رکھنے والے افراد پر اس حوالہ سے دباؤ ڈالنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ عالم اسلام کی افواج، ان کی عسکری قوت خصوصاً پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی اور ایٹمی طاقت تمام امتِ مسلمہ کی امانت ہیں۔ ہمارا تقاضا ہے کہ اس طاقت کا حوالہ دے کر اسرائیل سے بات کی جائے ۔
10- فوجی تربیت:- اسرائیل کا ہر شہری فوجی تربیت یافتہ ہےلہٰذا مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ نفاذِ عدل اور فریضۂ جہاد کی ادائیگی کی نیت سے اس طرح کی تربیت حاصل کریں جس کا اہتمام مسلم حکومتوں کو کرنا چاہئے۔
11- سفارتی تعلقات کا خاتمہ :- جن عرب و دیگر مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اپنے ملک میں ان کا سفارت خانہ کھولا ہوا ہے، انہیں چاہیے کہ فی الفور وہ اسرائیلی سفیر کو واپس بھیجیں، ان کے سفارت خانہ کو بند کریں اور اپنے سفیر کو اسرائیل سے فوراً واپس بلائیں۔ جب مسلم ممالک اسرائیل سے اس طرح کے سفارتی تعلقات ختم کریں گے تبھی اس پر کچھ دباؤ پڑے گا۔
12- اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ:- مسلم ممالک کو اسرائیل سے ہر قسم کے تجارتی تعلقات ختم کر دینے چاہئیں۔ جہاں پر بھی ان کی مصنوعات استعمال ہو رہی ہیں، مسلمانانِ عالم کو ان کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے تاکہ اسرائیل کو شدید معاشی جھٹکا پہنچے ۔
13- اللہ تعالیٰ کے دین کے غلبہ کے لیے جدو جہد:- آ ج امتِ مسلمہ کا سب سے بڑا جرم دین اسلام سے بے وفائی کرتے ہوئے اس کو نافذ و غالب کرنے کی جدو جہد کو پس پشت ڈالنا ہے ۔ دنیا میں 57 مسلم ممالک اور دو ارب سے زائد مسلمانوں کی تعداد ہونے کے باوجود آ ج امت اس فریضہ کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے ذلت و رسوائی کا شکار ہے۔ حدیث نبویﷺ کے مفہوم کے مطابق مستقبل میں امام مہدی کی مدد کے لیے مشرق ( خراسان کا علاقہ جو نبی کریمﷺ کے دور میں پاکستان ، افغانستان اور ایران کے چند علاقوں پر مشتمل تھا) سے افواج جائیں گی تو اس اعتبار سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم یہاں اللہ تعالیٰ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جدو جہد میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ہماری تمام تر صلا حیتیں اور کوششیں ان تقاضوں کی ادائیگی کے لیے پور ے اخلاص کے ساتھ لگانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آ مین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024