(امیر سے ملاقات ) امیرسے ملاقات قسط 20 - آصف حمید

9 /

ہمارے عدم استحکام کی کچھ ظاہری وجوہات بھی ہیں لیکن اصل اور

بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ خلافی کی ہے ۔

ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا لیکن پھر

ہم اپنے عہد سے مکر گئے۔

لہٰذا جب تک ہم اجتماعی توبہ نہیں کریں گے ، اور اسلام کا نفاذ

نہیں کریں گے تب تک یہاں استحکام نہیں آسکتا ۔

نظام کبھی بھی محض دعوت سے نہیں بدلابلکہ وہ ٹکراؤ کے

ساتھ بدلا ہے، انقلابی راستےاور جدوجہد کے ذریعے بدلا ہے۔

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میزان: آصف حمید

سوال: تنظیم اسلامی کےزیادہ تر رفقاء ہر معاملے میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی بات کرتے ہیں ۔ کیا یہ تقلید کہلائے گی؟ ( معاذ احمد ،ملتان)
امیر تنظیم اسلامی:ہمارے ہاں دینی اصطلاح میں جب لفظ تقلید استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد فقہی مذاہب کی پیروی ہوتی ہے۔ جیسے امام ابو حنیفہ ؒ کے فقہ کو ماننے والے حنفی کہلاتے ہیں ، اسی طرح مالکی ، حنبلی اور شافعی مذاہب ہیں ۔ ان کے پیروکاروں کو مقلد کہا جاتا ہے، اسی پیراڈائم میں سوال یہ ہوسکتاہے کہ کیا تنظیم اسلامی کے رفقاء نے بھی ڈاکٹر اسراراحمدؒ کو کوئی امام کا درجہ دے دیا ہے ، یا تنظیم اسلامی کوئی فقہی مذہب بن گئی ہے تو ایسا معاملہ قطعاً نہیں ہے ۔ البتہ اگر ہم اس فقہی پیراڈائم سے ہٹ کر بات کریں تو ڈاکٹر اسراراحمدؒ ہمارے استاد بھی ہیں ، ہمارے محسن بھی ہیں لیکن ہم جہاں ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا ذکر اپنے دروس میں کرتے ہیں وہاں اپنے اسلاف کا ذکر بھی کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبؒخود فرمایا کرتے تھے کہ آپ مجھے بھی سنو ، دیگر مفسرین کو بھی سنو ، پڑھو ۔ انہوں نے خود بھی بہت سے حضرات سے استفادہ کیا جن کا وہ ذکر بھی کرتے تھے۔ لہٰذا ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی بات کرنے سے اگر کوئی یہ نتیجہ اخذ کرتاہے کہ ہم ڈاکٹر صاحب ؒ کے سوا کسی کی نہیں سنتے یا ان کے سوا کسی کو quote نہیں کرتے تو ایسا مزاج نہ تنظیم اسلامی میں ہے، نہ ڈاکٹر صاحبؒ نے ایسا مزاج ہمارا بنایا ہے ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات تنظیم کے رفقاء ان سے اختلاف بھی کرتے تھے اور ڈاکٹر صاحب رجوع بھی کرلیا کرتے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارا بھی ذہن یہ بنایا کہ اپنے دل و دماغ کو کھلا رکھا کرو اور دیگر جگہوں سے بھی سیکھا کرو ،سمجھا کرو اور اپنے ذہن کو وسیع کرنے کی کوشش کیا کرو۔ ڈاکٹر صاحبؒ نےہمیں ایک فکر دی ، ایک نظریہ دیا اور پھر تنظیم اسلامی کی صورت میں ایک اجتماعیت قائم کی ، پھر منہج انقلاب نبوی ﷺکی روشنی میں اس کا ایک منہج معین کیا ، تنظیم کی اُٹھان بیعت کی بنیاد پر رکھی ۔ انہوںنے انقلاب کے لیے انتخابی راستے کی بجائے انقلابی راستہ تجویز کیا ۔ یہ کچھ مسلمات ہیں جو تنظیم اسلامی میں طے شدہ ہیں اور جو ان سے اتفاق کرتا ہے وہ تنظیم اسلامی میں شامل ہوجاتا ہے۔ ان مسلمان کے حوالے سے ہم کہیں گے کہ ہم جامد ہیں ۔ البتہ علمی آراءمیں اختلاف ہو سکتا ہے۔
سوال: ڈاکٹر صاحب نے ایک نظریہ کے تحت تنظیم کی بنیاد رکھی ہے، آپ نےبھی اس بنیاد پر تنظیم میں شمولیت اختیار کی ۔ اب آپ امیر ہیں ۔ کیارفقاء تنظیم اسلامی آپ سے اس بات کی بیعت کرتے ہیں کہ آپ اسی طریقے پر چلیں گے جو ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے یا ہم یہ سمجھتےہیں کہ نہیں آپ حالات کے مطابق فیصلہ کریں گے؟
امیر تنظیم اسلامی:جب کوئی شخص تنظیم میں شامل ہوتا ہے اوروہ بیعت کرتاہے توکہتاہے:
((انی اعاھد اللہ))۔ میرا عہد تو اللہ کے ساتھ ہے ۔
یعنی اس بات کاعہد کہ جن جن باتوں سے اللہ ناراض ہوتا ہے ان کو میں ترک کر دوں گا ۔ پھر یہ کہ کلمے کی سربلندی کے لیے اپنی جان کو بھی کھپاؤں گا، اپنے مال کو بھی کھپاؤں گا ۔ اصل میں ہر رفیق یہ وعدہ اللہ سے کرتاہے ۔ عالم ظاہر میں صحابہ کرام ؓ نے حضورﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ یہی تسلسل امت میں چلا ہے جس پر تنظیم اسلامی قائم ہے۔ ایک شخص تنظیم میں شامل ہو کر امیر تنظیم کے ہاتھ پر بیعت کرتاہے لیکن عہد اپنے اللہ سے کرتاہے کہ وہ گناہوں کو چھوڑ دے گا اور اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے اپنی جان اور مال کھپائے گا ۔ تنظیم میں نئے شامل ہونے والے مبتدی کہلاتے ہیں ، پھر کچھ تقاضے پورے کر لیتے ہیں تو وہ ملتزم ہو جاتے ہیں ۔ تب ان سے دوبارہ بیعت لی جاتی ہے کہ وہ سنیں گے اور اطاعت کریں گے ۔
((فی المنشط والمکرۃ۔۔۔۔۔علیھا)) آسانی ہو یامشکل ہو میری طبیعت آمادہ ہو یا نہ ہو ، چاہے دوسروں کو مجھ پر ترجیح دے دی جائے۔ نظم کے ذمہ دار لوگوں سےجھگڑا نہیں کروں گا۔ اس سارے عہد میں یہ الفاظ کہیں نہیں آئے کہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی بات کو لے کر چلیں گے تو مانیں گے ۔ مقصد یہ ہے کہ ہماری کمٹمنٹ اصل میں اللہ اوراس کے رسول ﷺ کےساتھ ہے۔ امیر کی اطاعت صرف معروف میں کی جائے گی ، معصیت میں اس کا حکم نہیں مانا جائے گا۔ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ امیر عین وہی کچھ کہے اور کرے گا جو ڈاکٹر صاحب کہتے یا کرتے تھے تو اس کی اطاعت کی جائے گی ۔ ایسا تقاضا تو ڈاکٹر صاحب نے بھی کبھی نہیں کیا ۔ وہ کہتے تھے کہ اپنےدل اور دماغ کو کھلا رکھو ۔ بہت سارے معاملات ڈاکٹر صاحبؒ کے دور میں انجام نہیں دیے گئے جو بعدازاں انجام دیے گئے ۔ جیسا کہ خود ڈاکٹر صاحب ؒ نے تسلیم کیا تھا کہ مجھ سے دعوت کے نظام کو کھڑا کرنے اور اس کو چلانے میں کمی رہی ہے ۔ تنظیم اسلامی کا اس وقت جو دعوتی نظام ہے یہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے بعد حافظ عاکف سعید کے دور امارت میں قائم ہوا ۔ آج ہم اس کے اندر ویلیو ایڈیشن کر رہے ہیں۔ دعوتی کیمپس کا تصور آ رہا ہے۔ مہمات کا تصور آ رہا ہے۔ انفرادی دعوت میں تیزی لانے پر غور کیا جارہا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے دورمیں سوشل میڈیا نہیں تھا لیکن آج اس فورم کو بھی دعوت کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ یعنی حالات کے مطابق فیصلے کرنا پڑتے ہیں  اور اس ضمن میں تنظیم میں کوئی پابندی نہیں ہے ۔
سوال: تنظیم اسلامی اب اتنی متحرک نظر نہیں آتی جتنی ڈاکٹراسرار احمد رحمہ اللہ کے دور میں تھی ؟( عمران منیر)
امیر تنظیم اسلامی: کسی نےکہا تھاکہ convincing کے اعتبار سے ترازو کےایک پلڑے میں اگرمولانامودودی ؒکو رکھ دیں اور دوسرے پلڑے میں پوری جماعت اسلامی کو رکھ دیں تو مودودی صاحبؒ کا پلڑا بھاری ہوگا۔ اسی طرح ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے پاس جو اہلیت اور قابلیت تھی وہ بعدوالوں میں تو نہیں ہے لیکن جہاں تک متحرک نظر آنے کی بات ہے تو تنظیم اسلامی نے ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے کام اور مشن کو آگے بڑھا یا ہے ۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر صاحب نے لاہور سے دورہ ترجمہ قرآن کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ آج صرف کراچی میں 40 مقامات پر دورہ ترجمہ قرآن ہوتاہے ، اس کے بعد خلاصہ مضامین قرآن بھی کئی جگہوں پر ہوتا ہے ، بعض جگہوں پر تراویح کے بعد مختصر بیان ہوتاہے۔ یہی سلسلہ تمام شہروں میں پھیل رہا ہے ۔ اسی طرح ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے دور تک تنظیم کے رفقاء کی تعداد 2000 کے لگ بھگ تھی لیکن بعد میں عاکف سعید صاحب کے دور میں یہ تعداد بڑھ کر 10 ہزار تک پہنچی۔ اسی طرح دعوتی نظام ، تربیتی نظام ، مختلف تربیتی کورسز کا نظام ڈاکٹر صاحب کے بعد قائم ہوا ہے ۔ اسی طرح حلقہ جات قرآنی میں اضافہ ہوا ہے ، دعوتی مجالس میں اضافہ ہوا ہے ۔ الحمد للہ۔
میزبان: جیسے آپ نے کہا کہ اس وقت ایک چینل تھا اور اب ہزاروں آپشنزہیں ۔ آج کئی گنالوگ ڈاکٹر صاحب کو سن رہے ہیں ، ایک مرغی فروش سے لے کر اعلیٰ عہدیداروں تک کوئی شخص ایسا نہیںہے جو ڈاکٹر صاحب کے ان کلپس سے استفادہ نہیں کر رہا۔
امیر تنظیم اسلامی: ڈاکٹر صاحب تو بیان کر کے چلے گئے مگر ان کے بیانات کو اللہ نے اتنی قبولیت بخشی کہ آج تمام معروف مکاتب فکر کے افراد جن میں طلبہ اور علماء حضرات بھی شامل ہیں وہ بھی ڈاکٹر صاحبؒ سے استفادہ کررہے ہیں ۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد بھی سلسلہ جاری ہے اور اس میں تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن کا بہت بڑا رول ہے۔ ان دونوں  اداروںکے ذریعے ترویج اور نشرواشاعت کا سلسلہ جاری ہے اور اس کو بھی متحرک ہونے میں شامل کرنا چاہیے ۔
میزبان: پھر یہ کہ آج تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے آگاہی منکرات مہمات کا سلسلہ جاری ہے ۔اب پورے سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے کہ کب کتنی مدت کے لیے کونسی مہم چلائی جائے گی اور ان مہمات میں پورے پاکستان سے رفقاء نکلتے ہیں اور بات پہنچاتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب ؒ کے دور میں اتنی مہمات نہیں ہوتی تھیں ۔لہٰذا الحمدللہ تحرک نظر آتا ہے۔
سوال: تنظیم اسلامی میں شرکت کے لیےبیعت کی شرط ہے اور ہم نے علماء سے سنا ہے کہ بیعت خلیفۃ المسلمین کے ہاتھ پر کی جاتی ہے اور وہ بیعت سب مسلمانوں کے لیے لازم ہو جاتی ہے۔ تنظیم میں بیعت کس حیثیت سے کی جاتی ہے اور جو لوگ اس بیعت سے باہر ہیںان کے بارے میں کیا حکم ہے؟( محمد عثمان، نوشہرہ)
امیر تنظیم اسلامی:اس میں کوئی شک نہیں کہ جب خلافت کا نظام قائم ہوگا تو اس وقت خلیفۃ المسلمین کے ہاتھ پر بیعت لازم ہوگی ۔ لیکن جب تک خلافت کانظام قائم نہیں ہےتب تک اقامت دین کی جدوجہد ہم پر فرض ہے اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے جماعت لازم ہے ۔ ، کیونکہ اقامت دین کی جدوجہد اکیلے اکیلے نہیں ہوسکتی ۔ سورۃ العصر میں ارشادہوتاہے :
{وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۵ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(3)}’’ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘
جماعت بیعت کی بنیاد پر قائم ہوگی جو کہ سنت سے ، سیرت صحابہؓ سے ، امت کے متواتر عمل سے ثابت ہے ۔ اب سوال ہے کہ جو اس جماعت میں شامل نہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے بارہا یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ تنظیم اسلامی الجماعت نہیں ہے بلکہ جماعت ہے جیسے دیگر کئی جماعتیں ہیں ۔ جو جس جماعت میں رہ کر دین کے لیے محنت کر رہا ہے وہ ہمارے لیے قابل قدر ہے۔ علمی اختلاف منہج کا ہو سکتا ہے، طریقہ کار کا ہو سکتا ہے لیکن ایسا نہیں کہ جواس جماعت میں نہیں معاذاللہ وہ اسلام سے فارغ ہو گیا۔ یہ باطل تصور ہےجس کے ہم قائل نہیں ہیں ۔
سوال: تنظیم کے افراد کو قانونی تقاضوں کے لیے ملک کی عدالتوں کی جانب رجوع کرنا پڑتا ہے جو کہ ایک بوگس نظام ہے۔ جماعت میں شامل افراد کیا جماعت کے نظام قضا سے رجوع کر سکتے ہیں؟ کیا جماعت میںقضا کا نظام موجود ہے اگر نہیں تو کیوں نہیں؟( محمد عثمان،خنے چائنہ)
امیر تنظیم اسلامی:قانونی تقاضے تو بہت سارے ہوتے ہیں جیسا کہ شناختی کارڈ بنوانا ، پاسپورٹ بنوانا ، ب فارم بنوانا اور ہر طرح کے لائسنس اور ڈاکومنٹس بنوانا وغیرہ ۔ ظاہر ہے یہ سب کام تو ریاست کا ہی ہے ۔ کوئی تنظیم یہ کام نہیں کر سکتی ۔ اسی طرح نظام قضاء قائم کرنا بھی حکومت کا کام ہوتاہے کوئی تنظیم جو ابھی اقامت دین کی جدوجہد کر رہی ہو وہ ایسا نہیں کر سکتی۔ البتہ ہمارے رفقاء کے درمیان کو ئی تنازعہ ہو جائے یا کسی رفیق تنظیم کا غیر رفیق تنظیم سے تنازع ہو جائے تو ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان کے درمیان مصالحت کا معاملہ کروادیں ، انہیں  عدالت نہ جانا پڑے، تھانہ کچہریوں کے چکر نہ لگانا پڑیں ۔ کئی بار کونسلز میں اچھے وکلاء بھی ہوتے ہیں وہ بھی تو فریقین کو بٹھا کر مصالحت کا معاملا کروا دیتے ہیں ، علماء کو بٹھا کر دونوں پارٹیز کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہم تو دین کی خاطر محنت کر رہے ہیں تو کیا ہم ایسی کوشش نہیں کریں گے ، ظاہر ہے اپنی حد تک لازماً کریں گے ۔ البتہ نظام قضا قائم کرنا حکومت کا کام ہوتاہے ۔
سوال: جب نبی اکرمﷺ نے مدینے کی طرف ہجرت کر لی تو وہاں مسلمان اپنی شریعت کے مطابق اپنےفیصلے کرنے لگے۔ کیا اس مرحلے کو اقامت دین کی تکمیل تصور کیا جا سکتا ہے اور فتح مکہ کو توسیع انقلاب کے زمرے میں لیا جا سکتا ہے ؟اگر تنظیم کے نزدیک اقامت دین کی تعریف شریعت کا نفاذ ہے تو کیا مدینہ ہی میں وہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ گیا تھا؟ اس نظریے سے اگر دیکھا جائے تومحض دعوت سے اقامت دین کی تکمیل ہو سکتی ہے ، تصادم کی ضرورت صرف توسیع انقلاب کےمرحلے میں درپیش ہو؟(عثمان نقوی، کراچی)
امیر تنظیم اسلامی:بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہجرت کے بعد مدینہ کی ریاست قائم ہو گئی تھی اور بعض کہتے ہیں کہ نہیں ہوئی تھی ۔ جو کہتے ہیں کہ نہیں ہوئی تھی ہمیں ان سے اتفاق ہے ۔ اس لیے کہ قرآن پاک سورۃ الحج میںتمکن کا لفظ لے کر آیا:
{اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط}(آیت:41)’’وہ لوگ کہ اگر انہیں ہم زمین میں تمکن ّعطا کر دیں تووہ نماز قائم کریں گےاور زکوٰۃ ادا کریں گے اور وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔‘‘
اب یہ تمکن کی بات تو ٹھیک ہےکہ حضورﷺ کو وہاں  ایک بیس کیمپ مل گیا ۔ سن دو ہجری میں رمضان کے روزے بھی فرض ہو رہے ہیں، عید بھی منائی گئی ہے، زکوٰۃ کا حکم بھی آگیا، ان عبادات کے تقاضوں پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے ۔ لیکن ریاست وہ ہوتی ہے جہاں ایک قانون ہو اور ایک ہی نظام ہو ۔ جبکہ مدینہ میں یہود بھی اپنے قانون کے مطابق فیصلے کررہے تھے ، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی ریاست ہو اور اس میں غیر اسلامی قانون بھی چل رہا ہو ۔ ایک ریاست میں ایک ہی قانون چلتا ہے دو نہیں چلتے ۔ اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں اگرچہ حضور ﷺ کو تمکن ملاجہاںدین کے کچھ تقاضوں پر عمل شروع ہوا لیکن ابھی ریاست قائم نہیں ہوئی تھی۔ سود کی حتمی حرمت 9 ہجری میں جاکر آئی۔ پھر سورۃ النصر کے حوالے سے سب کا اتفاق ہے کہ اس میں فتح مکہ، غزوہ حنین اور طائف کے بعد بیان آرہا ہے :
{وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا(2)}’’اور آپؐ دیکھ لیں لوگوں کو داخل ہوتے ہوئے اللہ کے دین میں فوج در فوج۔‘‘
 چنانچہ فتح مکہ سے قبل ہم نہیں کہہ سکتے کہ اسلامی ریاست قائم ہو گئی تھی ۔ مکہ فتح ہو گیا ، عرب کی سرزمین پر اسلام غالب ہوگیا تو اس کے بعد توسیع انقلاب کی باری آتی ہے۔اس کے بعد غزوۃ تبوک آتاہے ، اس کے بعد دوسرے ممالک میں انقلاب ایکسپورٹ ہوتاہے ۔ محترم ڈاکٹراسرار احمدؒ نے بارہا اس پر کلام بھی کیا اور ان کی بڑی قیمتی کتاب ہے: برصغیر میں اسلام کی تجدید فکر، اس کی تعمیل اور اس سےانحراف کی راہیں ۔اس کتاب سے کافی رہنمائی مل جائے گی ۔ فتح مکہ سے قبل غزوہ بدر بھی ہوا ہے ، غزوہ احد بھی ہوا ہے غزوہ خندق بھی ہوا ، تلواریں چلی ہیں اس کے بعد جاکر مکہ فتح ہوا ہے ۔ لہٰذا نظام کبھی بھی محض دعوت سے نہیں بدلابلکہ وہ ٹکراؤ کے ساتھ بدلا ہے انقلابی راستےاور جدوجہد کے ذریعے بدلا ہے۔
سوال: جب تنظیم کے ارکان اوررفقاء میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا اور یہ اس قابل ہو جائے گی کہ (ویکون الدین کلہ للہ )پر عمل کرکے منکرات کا راستہ روک سکے تو کیا اس سے قبل حکومت تنظیم پر پابندی نہیں لگا دے گی ؟ وہ اس بات کا انتظار کرے گی کہ آپ دو لاکھ ہو جائیں اور جہاد شروع کریں ؟( محمد بن حامد، ہندوستان)
امیر تنظیم اسلامی: ٹکراؤ کے مرحلے میں ہمارے سامنے ہمارے اپنے ہی مسلمان ہوں گے جو کہ حکومت اور اداروں میں ہوں گے ۔ لہٰذا ہم جان لینے کی بات نہیں کرتے بلکہ دین کے لیے جان دینے کی بات کرتے ہیں ۔ پھر یہ کہ دو لاکھ کی تعداد وحی میں تو نہیں لکھی ہوئی ، اس پر مشاورت ہو سکتی ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جتنے دین پر آج ہم عمل کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔ پھر منظم کرنے کامعاملہ ہے اور پھر کوئی اقدام کی طرف جانے کی بات ہے ۔ ہم اپنے حصے کا کام کرنے کی کوشش تو کریں ۔ جیسے حضورﷺ حتی الامکان جو پیش کر سکتے تھے پیش کرتے چلے گئے ۔اس کوشش میں آپ ﷺطائف کی طرف بھی گئے ، وہاں جو کچھ ہوا ہمارے سامنے ہے ۔ لیکن آپ ﷺ نے ہمت نہیں ہاری ، پھر اللہ نے یثرب کے دروازے اُن پر کھول دیے ۔ ہم نے اپنے حصے کا کام کرنا ہے ۔ باقی اللہ کی مرضی وہ کہاں سے نصرت کے دروازے کھول دے۔ اگر ہم تمام طبقات تک دعوت پہنچائیں تو ہوسکتا ہے جو اس نظام کے رکھوالے ہیں وہی نظام خلافت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں ۔
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے
جن تاتاریوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا انہی میں سے اُٹھ کر کچھ نے خلافت عثمانیہ قائم کردی ۔
سوال:اس وقت ملک کی غیر استحکامی صورتحال میںتنظیم اسلام میں کس مرحلہ میں ہے؟ تنظیمی رفقاء کو آئندہ کے لیےخود کو کس طرح تیار کرنا ہے؟( حمزہ عباد)
امیر تنظیم اسلامی:اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں سیاست، معیشت اور معاشرت میں استحکام نہیں۔ ہم نے اگست اورستمبر میں تقریباً تین ہفتوں پر مشتمل بقائے پاکستان : نفاذ عدل استحکام مہم چلائی ۔ اس مہم کے دوران میں ہم نے یہی پیغام پہنچانے کی کوشش کی کہ ہمارے عدم استحکام کی کچھ ظاہری وجوہات بھی ہیں لیکن اصل میں بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ خلافی کی ہے ۔ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا لیکن پھر ہم اپنے عہد سے مکر گئے لہٰذا جب تک ہم اجتماعی توبہ نہیں کریں گے ، دین کی طرف رجوع نہیں کریں گے ،تب تک یہاں استحکام نہیں آسکتا ۔ ان حالات میں تنظیم منہج انقلاب نبوی ﷺکو اختیار کرتے ہوئے دعوتی عمل کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے ، تنظیمی اور تربیتی مراحل بھی جاری ہیں۔ جتنا شریعت پر عمل کر سکیں اس کی ترغیب دلانا اور دعوتی مراحل میں جو مصائب آئیں ان کو جھیلنے کے لیے تیار کرنا ،یہ ہمارا مستقل کرنے کا کام ہے لیکن ساتھ ساتھ ہم ملکی حالات پر بھی اپنی رائے دیتے ہیں اور الدین النصیحہ کی بنیاد پر خیر کی صلاح بھی دیتے ہیں۔ 
سوال: گلگت بلتستان میں اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان آج کل کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ جہاں پہلے سے ہی طاغوتی منصوبے کے تحت حالات خراب کیے جارہے ہیں ، سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔ان حالات میں آپ عوام کے لیے کیا رہنمائی دیں گے ؟( نوید عثمان، گلگت بلتستان)
امیر تنظیم اسلامی:اس حوالے سے دو تین باتوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک دشمن قوتیں چاہتی ہیں کہ ملک میں انتشار ہو ، عدم استحکام ہو ۔ ایسی صورتحال میں دونوں طرف کے علماء جو مثبت اور تعمیری سوچ رکھنے والے ہیں، وہ مل کر کردار ادا کریں ۔ ماضی قریب میں بھی دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے شیعہ سنی علماء نے مل کر کردار اد کیا اور اس کے بہتر نتائج بھی برآمد ہوئے ۔دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن ہے ، وہ افغانستان سے اگرچہ گیا ہے لیکن اس کے باوجود چین سے نہیں بیٹھے گا ۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے کچھ شواہد بھی نظر آرہے ہیں کہ امریکی ذمہ داران کبھی گلگت میں جاکر بیٹھتے ہیں اور کبھی گوادر میں بیٹھتے ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ سی پیک کا منصوبہ کامیاب ہو ۔ ہمارے مقتدر طبقات اور ذمہ داران کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم امریکہ کی طرف جھکاؤ کرکے اپنے لیے مشکلات تو کھڑی نہیں کر رہے ۔ اسی طرح ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری پوری کریں اور جو بھی فرقہ واریت کو ہوا دے اُس کے خلاف کارروائی کریں تاکہ آگ بھڑکانے کی کوئی سوچے بھی نہ ۔ علماء کو رواداری اور ہم آہنگی والے پہلو کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔