(اداریہ) صبر بہترین ہتھیار! - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزاصبر بہترین ہتھیار!

گزشتہ سال اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کر دیئے جانے والے وزیراعظم کے بارے میں مقتدر حلقوں نے یہ تو واضح کر دیا تھا کہ اب انہیں کسی صورت کرسی اقتدار کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جائے گا۔ لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ اب ہماکس کے سر پر بٹھایا جائے گا۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہی حکومت جو ہر غیر جانبدار تجزیہ نگار کے مطابق پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین حکومت تھی، اُس نے پنجاب میں شریف فیملی کی مقبولیت کو شدید نقصان پہنچایا۔ لہٰذا طاقتوروں نے تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کو آفر کی کہ اگر مائنس ون جسے مائنس سربراہ جماعت کہا جائے تو بات سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی، اس پر وہ راضی ہو جائیں تو نئے سربراہ کی پشت پر بھاری بھرکم ہاتھ رکھا جا سکتا ہے۔ تاکہ وہ مغضوب جماعت کا سربراہ بن کر باقی جماعت کو اُن کے غیض و غضب سے بھی بچا سکے اور ملک کو اُسی جماعت سے ایک نیا نویلہ وزیراعظم بھی دستیاب ہو جائے۔ چنانچہ تحریک انصاف کے اٹھائے جانے اور غائب کیے جانے والے رہنماؤں سے مختلف سلوک کیا گیا تاکہ اُن میں سے کچھ کو ٹارگٹ کرکے نیا لیڈر بنایا جا سکے لیکن یہ نہ ہو سکا۔ ہو سکتا ہے اُس کی وجہ ان رہنماؤں کی اپنے بانی لیڈر سے محبت اور خلوص و اخلاص بھی ہو اگرچہ اس دلیل کو مکمل طور پر رد تو نہیں کیا جا سکتا ۔
ہماری رائے میں دو اور اہم وجوہات کی بنا پر تحریک انصاف کے بانی اور اصل مغضوب شخص سے یہ لوگ بے وفائی کرکے طاقتوروں کی آفر قبول کرنے سے گریز کرتے رہے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے عوام کا معاملہ یہ ہے کہ اگر اُن کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جائے کہ فلاں لیڈر کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ اُس کے زبردست حمایتی بن جاتے ہیں؟ چاہے اُنہیں اُس سے پہلے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں۔ اور دوسری یہ کہ اُنہوں نے اس بات کو قبول کر لیا تھا کہ ہماری حکومت کی تبدیلی میں اصلاً امریکہ کا ہاتھ ہے جس سے مغضوب لیڈر کی مقبولیت اتنی زیادہ ہوگئی کہ تحریکِ انصاف کے جن لیڈروں کو اتنی پر کشش پیشکش کی گئی تھی، وہ سمجھ گئے کہ جونہی اُنہوں نے یہ آفر قبول کی وہ عوام میں صفر ہو جائیں گے اور اُنہیں اپنے حلقہ کے عوام بھی قبول نہیں کریں گے۔ یہ بات حقیقت بن کر اُس وقت سامنے آئی جب تحریک انصاف کے اٹھائے جانے والے وہ لیڈر جنہوں نے تحریکِ انصاف سے علیحدگی اختیار کی اور مغضوب لیڈر کے خلاف بیان دیا تو اُن کے حلقہ کے عوام نے اُن کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ دوسری طرف جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے PDM کی حکومت کی کارکردگی سخت مایوس کن تھی اور ظاہر ہے اس کا ذمہ دار وزیراعظم شہباز شریف ہی کو سمجھا گیا جس پر طاقتوروں کے لیے مشکل ہوگیا کہ وہ انتہائی فرمانبردار وزیراعظم شہباز شریف کو پکا وزیراعظم بنا سکیں۔ لیکن اُس عزم میں تو مزید مضبوطی آئی کہ مغضوب شخص چاہے عوام کتنی ہی اُس کی دیوانی کیوں نہ ہو جائے اُسے ایوانِ اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ لیکن اب چوائس مزید محدود ہو گئی لہٰذا گوجرانوالہ میں تین سال پہلے ہونے والی تقریر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اور ٹیلی ویژن پر دیئے گئے اُس انٹرویو سے بھی صرفِ نظر کرتے ہوئے جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت کی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں ایسے ظلم نہیں کیے جو ہمارے لوگ پاکستان پر کر رہے ہیں۔ اقتدار عطا کرنے کا فیصلہ اُس شخص کے حق میں کیا گیا جسے کبھی اُس وقت کے سپریم کورٹ نے مجرم ٹھہرایا تھا اور جو 50 روپے کے اسٹام پیپر پر وعدہ کرکے گیا تھا کہ چار ہفتے میں واپس آجاؤں گا اور جسے عدالتیں باقاعدہ طور پر اشتہاری قرار دے چکی ہیں۔ اُسے نئے سرے سے چمکا کر اور دھمکا کر واپس لایا جائے چنانچہ طاقتوروں نے یکسو ہو کر فیصلہ کر لیا کہ فلاں بن فلاں سکنہ جاتی عمرہ اور بوقت پریشانی سکنہ جدہ و لندن کو نیا بناؤ سنگھار کرکے تخت نشین کیا جائے۔ لیکن ہر وہ شخص جس کے ذہن کے کونے کھدرے میں مقتول آئین اور بے وقعت قانون کسی حد تک ہیں وہ حیران و پریشان تھا کہ یہ کیسے ممکن ہوگا۔ کیونکہ مغضوب شخص نے جب ٹانگ میں گولی لگنے کی وجہ سے بائیو میٹرک کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے استثناء چاہا تھا تو اُس کے وکلاء کو کہا گیا تھا کہ بائیو میٹرک کا قانون ایسا حصہ ہے جس سے فرار ممکن نہیں لہٰذا مغضوب جو اُس وقت مضروب بھی تھا، اُس کے بارے میں حکم ہوا کہ اُسے عدالت میں لایا جائے چاہے سٹریچر پر کیوں نہ لانا پڑے؟
یاد رہے مغضوب اُس وقت اور اب بھی ملزم ہے جبکہ جو ملزم نہیں بلکہ مجرم ہے کے بارے میں ایسا فیصلہ دیا گیا ہے جس نے عدلیہ کی تاریخ کو تا قیامت تابناک کر دیا ہے۔ یعنی سب کچھ مجرم کے قدموں میں ڈال دیا۔ فیصلہ سننے کے بعد بعض تبصرہ نگاروں کا خیال تھا کہ اگر وہ فیصلے میں یہ بھی شامل کر دیتے کہ ہم سائل کو قومی اسمبلی کی تین چوتھائی نشستیں دے کر ملک کا وزیراعظم قرار دیتے ہیں تو حالات جس طرف جا رہے ہیں اُنہیں سمجھنے والے یعنی سمجھدار لوگ حیران نہ ہوتے۔ کہتے ہیں کہ یہ عالمی سطح پر تیسرا تیز ترین فیصلہ تھا۔ ہم نہیں جانتے کہ دوسرے دو کیسز کیا تھے عین ممکن ہے کہ وہ اتنے واضح اور جینوین ہوں اس لیے وقت نہ لگا ہو اور ہمارے والے کیس کا جتنا مضحکہ خیز فیصلہ سامنے آیا ہے اس پس منظر میں تقابل کریں تو شاید پاکستان اس حوالے سے بھی سرفہرست آجائے البتہ یہ ڈر اپنی جگہ پر موجود رہے گا کہ 139 نمبر پر کھڑی ہماری عدلیہ کو اس کے بعد عالمی عدالتیں اپنی برادری سے ہی نکال باہر نہ کریں۔
نواز شریف جب ہیتھرو ایئر پورٹ سے پاکستان روانہ ہوئے تو پاکستان کے ہائی کمشنر یعنی سفیر نے اُنہیں الوداع کیا اور جب لاہور پہنچے تو کمشنر لاہور نے اُن کا استقبال کیا۔ موجودہ نگران حکومت نے ابھی تک یہ وضاحت پیش کرنا ضروری نہیں سمجھی کہ وزیراعظم بننے سے پہلے وہ ایک عام شہری ہیں (بلکہ سپریم کورٹ کے مطابق وہ مجرم ہیں) حکومتی اعلیٰ عہدہ داروں نے کس بنیاد پر اُنہیں رخصت کیا یا اُن کا استقبال کیا۔ بہرحال سب مل کر میاں صاحب کا ایک بڑا جلسہ عام مینار پاکستان پر کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ جلسہ اتنا بڑا تھا کہ اُن کی بیٹی مریم نواز خوشی سے رونے لگیں۔ ہم کسی ایک جماعت کا بڑا جلسہ ہونے پر اظہار اطمینان کرتے ہیں۔ یہ سیاسی رونقیں بحال ہونے کی علامت ہے البتہ تحریک انصاف نے بھی اُن ہی دنوں میں جلسہ کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ لیکن نگران حکومت مغضوب لیڈر کی جماعت کو پہلے تو اجازت ہی نہیں دے رہی تھی تب وہ جماعت عدالت میں گئی تو عدالتوں میں آج کل ایک رسم پوری باقاعدگی سے ادا ہو رہی ہے کہ وہ مغضوب جماعت کا کیس کتنا ہی معمولی اور عام نوعیت کا کیوں نہ ہو فوراً فیصلہ نہیں دے سکتی بلکہ فیصلہ محفوظ کر لیا جاتا ہے پھر اجازت کے مطابق فیصلہ دیا جاتا ہے لہٰذا جلسہ کی اجازت دینے کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا اور بالآخر یہ فیصلہ سنایا گیا کہ وہ کسی شہر میں بڑا جلسہ نہیں کر سکتے (شاید وہ پاکستانی نہیں ہیں) ہاں البتہ فراخ دلی سے اُنہیں کاہنہ میں کارکنوں کا کنونشن منعقد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ پھر بعد میں اُس کنونشن کا پولیس نے جو حشر کیا وہ قارئین اخبارات میں پڑھ چکے ہوں گے اور لوگ جان چکے ہوں گے کہ جمہوریت واقعتاً بہترین انتقام ہے۔ تحریک انصاف کو خود ہی ورکرز کنونشن کی اجازت دے کر پھر وہاں لاٹھی چارج کرنا اور گرفتاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ شاید اجازت ہی اس لیے دی گئی تھی تاکہ وہ ایک جگہ جمع ہوں اور اُن کی گرفتاریاں کرنا اور ہڈیاں توڑنے کا عمل آسانی سے کیا جا سکے۔
ہم اکثر اس جریدے میں طعن و طنز کا انداز اختیار نہیں کرتے لیکن جس طرح پاکستان کے آئین اور قانون سے کھلواڑ کرکے اور طاقت سے فریقِ مخالف کو بلڈوز کرنے بلکہ اس پاک سر زمین میں اُنہیں زندہ دفن کرنے کا عمل کچھ عرصہ سے جاری ہے اس میں ہر قانون پسند شہری اپنے آپ کو بے بس پاتا ہے طعن و طنز خود ہماری طبیعت اور مزاج کے خلاف ہے لیکن انتظامیہ اور عدلیہ طاقت کے سامنے جس طرح تگنی کا ناچ ناچ رہے ہیں اور ہم جس طرح بنانا ریاستوں کو بھی شرم سار کر رہے ہیں اس پر دل جو خون کے آنسو رو رہا ہے یہ طعن اور طنز شاید اُسی کا نتیجہ ہے۔ کیا اب کوئی پاکستان کو مہذب ریاست شمار کرے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ طعن و طنز اُس آگ کو سرد کرنے کی ایک ناکام کوشش سمجھ لیں جو نگران حکومت یا اُن کے سرپرست لگا رہے ہیں وگرنہ ہمارا طعن و طنز سے کیا تعلق۔ وہ پاکستان جو اسلام جیسا فطری نظام نافذ کرنے کے لیے معرضِ وجود میں آیا تھا۔ جس کے لیے عدل و قسط کے نظام کو نافذ کرنے کا واضح اعلان تھا۔ اُس کے شہریوں کی خاصی بڑی تعداد آج کل بدترین ظلم و ستم کی شکار ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دریا کے دو کنارے مل سکتے ہیں، سورج مغرب سے طلوع ہو سکتا ہے لیکن ظلم اور اسلام یکجا نہیں ہو سکتے۔ عدل انسانیت کی معراج اور ظلم انسانیت کی توہین ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ یہ جاننے کے باوجود کہ ظلم کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا اور ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے مغضوب جماعت کے بعض لوگوں کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ رہا ہے اُنہیں جمہوریت کے بہترین انتقام کا نہیں صبر کے بہترین ہتھیار ہونے کا قائل ہونا چاہیے۔ مظلوم صبر سے کام لے تو اُس کی آہیں فلک میں شگاف کر دیتی ہیں لہٰذا ہم مغضوب جماعت کو دل چھوڑنے یا مشتعل ہونے کی بجائے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنے کی نصیحت کریں گے۔ بلکہ یہاں تک کہیں گے کہ یہ پاکستان ہم سب کا ملک ہے اور ہم سب مسلمان بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ ہم وطن بھی ہیں۔ جو ظلم کر رہے ہیں اُن کے لیے ہدایت کی دعا کریں اور اللہ سے اُن کے لیے معافی کے خواستگار ہوں اور اُس وقت تک کریں کہ سب پاکستانی ایک بار پھر شیر و شکر ہو جائیں۔ جو لوگ اس وقت پاکستان میں اقتدار اور قوت رکھتے ہیں اُنہیں بتایا جائے کہ وقت صداایک جیسا نہیں رہتا۔ یہ دھوپ اور چھاؤں کا کھیل ہے جو جگہ بدلتا رہتا ہے۔ خاص طور پر نگران کان کھول کر سن لیں کہ غیر جانبدار رہ کر صاف اور شفاف انتخابات پاکستان کو حیاتِ تازہ بخش دیں گے اور دھاندلی اور جعلسازی اور کسی کو زبردستی ہرانے یا انتخابات سے باہر رکھنے کی کوشش پاکستان کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوگی۔ یاد رکھیں! اپنوں کو مار کر کبھی لڑائی جیتی نہیں جاتی بلکہ اس سے دشمنوں اور غیروں کی فتح کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ اللہ پاکستان کو محفوظ و مامون رکھے۔ آمین یا رب العالمین!