(حق کی پکار) اٹھ! مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے اٹھ - اشفاق اللہ جان ڈاگیوال

9 /

اٹھ! مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے اٹھ

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال

 

غزہ پر صہیونی ریاست کے جبر و استبداد اور بربریت کے واقعات نہ تھم پائے، عالمی دہشت گرد ریاست اسرائیل کو بین الاقوامی سفارتی کوششیں بھی فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے سے نہ روک سکیں۔ دو عشروں سے اس نے نہتے شہریوں پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اب تک پانچ ہزار سے زائد فلسطینی صہیونی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جب کہ بچوں اور خواتین سمیت 15ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔
صہیونی افواج نے غزہ کے سب سے بڑے القدس اسپتال کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا اور ایک ہی رات میں پانچ سو سے زائد فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ اس حملے کے گزشتہ روز القدس اسپتال کے آس پاس کے علاقوں میں اسرائیلی طیاروں نے شدید بمباری کی۔ بموں کے ٹکڑے وہاں موجود لوگوں کو بھی لگے جس سے مریضوں اور پناہ گزینوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔
اسرائیلی طیاروں نے خان یونس کے ایک اسکول میں بھی بم گرائے جہاں اقوام متحدہ کے زیر انتظام کیمپ میںسینکڑوں فلسطینی پناہ گزین موجود تھے۔ ان میں سے متعدد شہید اور زخمی ہوئے۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے پانچ ہزار سے زائد عمارتیں اور بیس ہزار سے زائد گھر تباہ کیے جاچکے ہیں۔ جو فلسطینی مصر کی سرحد کی طرف پناہ کی تلاش میں جاتے ہیں اسرائیلی فوج ان پر بھی گولے برساتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسرائیل کے ان جنگی جرائم کے خلاف پوری دنیا کھڑی ہوجاتی لیکن سامراجی طاقتیں اسرائیل کے دفاع اور پشت پناہی کے لیے کھڑی نظر آرہی ہیں۔ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی جنگ بندی کی قرار داد کو ایک بار پھر ویٹو کر دیا ہے۔
امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں اور اس کو جدید اسلحہ کی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہیں، جب کہ اسرائیل کی بحریہ اور فضائیہ نہتے فلسطینی عوام پر تواتر سے بم برسا رہی ہیں۔
امریکا اور دیگر اتحادی ممالک سے اسلحہ بھرے جہاز اسرائیل پہنچ رہے ہیں اور جدید اسلحہ سے لیس امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک کی آبدوزیں و بحری بیڑے علاقے میں پہنچ چکے ہیں، تا کہ اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور کسی دوسرے ملک کو فلسطینیوں کی مدد کو آنے سے روکا بھی جا سکے۔ امریکی وزیر خارجہ کئی روز سے تل ابیب میں ڈیرے ڈالے بیٹھے رہے، ان کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن بھی پیچھے نہیں رہے وہ بھی بھاگے بھاگے اسرائیل پہنچے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے دورے کے موقع پر غزہ پر وحشیانہ حملوں کے معاملے پر اسرائیل کو کلین چٹ دیتے ہوئے اسے غزہ کے اسپتال پر حملے سے بری الذمہ قرار دیا اوراس کا الزام فلسطینی تنظیموں پر عائد کردیا۔ انہوں نے دورہ اسرائیل کے موقع پر صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات میں الٹا اسرائیل کو ہر طرح کی امداد دینے کے عزم کا اعادہ کیا جس سے اسرائیل کو شہہ ملی۔
اسرائیل بدترین جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے۔ جنیوا کنونشن 1949 میں طے پایا تھا جس پر اب تک 196 ممالک دستخط کر چکے ہیں۔ تاہم ہر ملک نے ہر شق پر دستخط نہیں کیا اور اکثر ملکوں نے اپنی من مانی سے کچھ شقیں تسلیم کیں اور کچھ نہیں۔
معاہدے کی شق آٹھ کے مطابق جان بوجھ کر شہری آبادی کے خلاف حملوں کی ہدایت کرنا یا انفرادی شہریوں کے خلاف، جو دشمنی میں براہ راست حصہ نہیں لے رہے ہیں، بھی جنگی جرم ہے آرٹیکل 8 بی 3 کہتی ہے جان بوجھ کر اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انسانی امداد یا امن مشن میں شامل اہلکاروں، تنصیبات، مواد، یونٹوں یا گاڑیوں کے خلاف حملوں کی ہدایت کرنا، جب کہ وہ مسلح تنازعات کے بین الاقوامی قانون کے تحت شہریوں یا سویلین اشیا کو دیے گئے تحفظ کے حق دار ہوں۔ آرٹیکل 8اے سات کے مطابق غیر قانونی منتقلی یا ملک بدری جنگی جرم کے زمرے میں آتی ہے۔
اسرائیل نے غزہ کی نصف آبادی کو اپنا علاقہ چھوڑنے کی وارننگ دے رکھی ہے۔ اسرائیل ویسے تو غزہ پر ہر قسم کے ہتھیاروں سے گولہ باری کر رہا ہے، لیکن اس میں ایک ہتھیار ایسا ہے جس پر انسانی حقوق کے مختلف اداروں کو سب سے زیادہ اعتراض ہے۔ یہ ہتھیار سفید فاسفورس کے بم ہیں۔ انسانی حقوق کے بڑے ادارے ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل دونوں ہی نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر حالیہ حملوں کے دوران یہ ہتھیار استعمال کیے۔
ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ جمعرات کو کہا کہ اس نے وڈیوز اور انٹرویوز کی مدد سے شواہد اکٹھے کیے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ شہر میں دو جگہوں پر سفید فاسفورس استعمال کیا۔ اس کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرائسس ایویڈنس لیبارٹری نے بھی شواہد فراہم کیے کہ اسرائیلی ڈیفنس فورس نے غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں فاسفورس بم برسائے۔ ایمنسٹی نے M825 اورM825A1 گولوں کی تصویریں دکھائیں جو امریکی محکمہ دفاع کا سفید فاسفورس پر مبنی اسلحے کا شناختی کوڈ ہے۔
لہٰذا اسرائیل جن جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے امریکا اس میں برابر کا شریک ہے۔ بین الاقوامی قانون کا تقاضا ہے کہ ضرورت مند شہریوں کے لیے انسانی امداد کی تیز رفتار اور بلا روک ٹوک منتقلی کی اجازت ہو۔ اس میں خوراک، پانی، طبی سامان، ایندھن اور زندگی کے لیے ضروری دیگر سامان اور خدمات شامل ہیں۔
شہریوں کو بھوک میں مبتلا کرنا بھی جنگی جرم ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل نے گزشتہ ہفتے اسرائیلی سرحدی علاقوں پر حماس کے حملوں کے جواب میں غزہ کا غیر قانونی طور پر مکمل محاصرہ کر رکھا ہے اور علاقے میں بجلی، خوراک، پانی یا ایندھن کا داخلہ بند کر دیا ہے، اتوار سے مصر کی سرحد سے کچھ امدادی سامان غزہ جانے کی اجازت ملی ہے۔ یہ ایک اور جنگی جرم ہے۔ اسرائیل نے ان تمام جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور مسلسل کر رہا ہے۔
دنیا بھر کے اسلامی ممالک کی واحد تنظیم اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لایا جائے۔ غزہ کی صورت حال پر اسلامی تعاون تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی کا غیر معمولی اجلاس ہوا جس کے اعلامیے کے مطابق او آئی سی نے غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بمباری کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی ہے۔
او آئی سی نے اسرائیل سے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ غزہ پٹی کا محاصرہ فوری ختم کیا جائے، اوآئی سی نے عالمی برادری سے غزہ پٹی کے لیے امداد فوری بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔ عالمی برادری اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی سے تعاون کرے، غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بمباری جنگی جرم ہے، عالمی برادری جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لائے، غزہ پٹی سے فلسطینیوں کے نکل جانے کے اسرائیلی مطالبے کو مسترد کرتے ہیں۔ عالمی برادری مشرق وسطیٰ میں امن کوششیں تیز کرے، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔
روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمان ارض فلسطین بالخصوص بیت المقدس کی بے حرمتی، فلسطینیوں کی نسل کشی اوراسرائیل کی جانب سے بدترین جنگی جرائم پر دل گرفتہ ہے اور مسلم حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ او آئی سی پونے دو ارب مسلمانوں کی جماعت ضرور ہے لیکن یہ ابھی تک ایک مردہ گھوڑا ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ او آئی سی میں شامل تمام مسلمان ممالک کے حکمران امریکا اور سامراجی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہیں، اسی لیے اس تنظیم نے آج تک امت مسلمہ کے کسی بھی مسئلے پر جرأت مندانہ مؤقف اختیار نہیں کیا۔
مسلمان امت واحدہ تو ضرور ہے لیکن امت متحدہ نہیں، مفادات کے غلام مسلم حکمرانوں نے امت کی غیرت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ایک چھوٹی سی ناجائز ریاست جس نے پوری امت مسلمہ کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے اور یہ مسلم حکمران پاؤں میں گھنگرو باندھے ناچ رہے ہیں۔
پوری امت بالخصوص کشمیر و فلسطین کے عوام ان سے بری طرح مایوس ہوچکے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان سے پوچھا نہیں جائے گا، اللہ رب العزت ہر اس بندے سے پوچھے گا جو کچھ کرنے پر مکلف تھا اور اس نے نہیں کیا اور قانون فطرت یاد رکھنا چاہیے کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا۔
گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے یہ مسلم حکمران بروز قیامت اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اللہ رب العزت کے دربار میں یہ ننھے منے شہداء ہماری شکایت کریں گے اور اس نبی کی شفاعت کے کس منہ سے ہم دعوے دار ہوں گے۔
جنھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ میری امت جسد واحد کی طرح ہے ایک حصے کو تکلیف ہوگی تو پورا جسم مضطرب ہوگا۔ یہود و نصاریٰ کسی بھی طور پر ہمارے حق میں نہیں۔ کشمیر ہو یا فلسطین ظلم صرف مسلمانوں پر ہی ہے اور ہمارے حکمران ان کے سامنے جھکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وقت ہے اب اٹھ کھڑے ہوں، علم بغاوت بلند کرو، جہاد کا جذبہ لیے، ایمان کو دل میں سموئے ہوئے ان یہودیوں کو نیست و نابود کر دو اور بتا دو کہ مسلمان ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ ہیں اور ظالم سامراج کے سامنے کبھی نہیں جھکے گا۔
آخر میں اثر جونپوری کے اشعار یاد آگئے:
غفلت سے نکل دین کی دعوت کے لیے اٹھ
اب گنبد صخریٰ کی حفاظت کے لیے اٹھ
ظالم کے شکنجے سے چھڑا اہل وفا کو
مظلوم زمانہ کی حمایت کے لیے اٹھ
جو جسم عرب کے لیے ناسور بنا ہے
اس خطہ موذی کی جراحت کے لیے اٹھ
مرکوز تری سمت ہیں امت کی نگاہیں
ایوبی کے فرزند قیادت کے لیے اٹھ
آقا کی غلامی کا اگر پاس ہے تجھ کو
آقائے مدینہ کی نیابت کے لیے اٹھ
دے ارض فلسطین کو نذرانہ لہو کا
صہیونی ریاست کی ملامت کے لیے اٹھ
القدس سے آتی ہے صدا مرد مسلماں
اٹھ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے اٹھ
(بشکریہ روزنامہ’’ایکسپریس‘‘)