(کارِ ترقیاتی) بتاؤ تم کس کا ساتھ دو گے؟ - عامرہ احسان

11 /

بتاؤ تم کس کا ساتھ دو گے؟عامرہ احسان

[email protected]

دنیا میں ایک مرتبہ پھر صف بندی ہورہی ہے۔ اِدھرہے شیطان اُدھر اللہ ہے، بتاؤ تم کس کا ساتھ دوگے؟ فلسطینی! وہ جو دنیا میں عسکری قوت کے اعتبار سے کسی قطار شمار میں نہیں آتے۔ اسلحہ؟ منظم پیریڈیں کرتی فوج؟ فضائی ،بحری فوج؟ کچھ بھی تو نہیں! خانہ ساز راکٹ، کلاشنکوف اور غلیلوں میں بھرے پتھر۔ مد ِمقابل دنیا کی چوتھی بڑی ایٹمی اسلحے اور سپردفاعی نظام سے لیس مضبوط ترین فوج! دنیا بھر کو جاسوسی آلات اور اُسلوب سکھانے فراہم کرنے والی، فلسطین پر قابض غاصب اسرائیلی طاقت۔ جسے امریکا، یورپی یونین تمام مغربی ممالک کی غیرمشروط مکمل حمایت حاصل ہے۔ فلسطینی راکٹوں (چند ہزار، نقصان پہنچانے کی نہایت محدود قوت والے) اور کلاشنکوفوں سے مسلح جوانوں نے 1400اسرائیلی مار دیے اور 239قیدی پکڑے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے زمین، آسمان، سمندر، ٹینکوں، جہازوں سے اندھا دھند بمباریاں کرکے دن رات (3 ہفتے سے زائد) ایک کردیا۔ غزہ میں 8500 شہید، 20ہزار زخمی، مغربی کنارے میں 120 شہید 2ہزار زخمی ہوئے۔
فلسطینیوں کی ایسی ناکہ بندی رکھی کہ پانی، خوراک، ادویہ، ایندھن اور آخر میں (دو دن) مواصلاتی رابطوں کے انقطاع کی قیامت توڑی ۔ غزہ لاشوں سے پٹ گیا۔ اسکول، ہسپتال، مساجد، رہائش گاہوں، سب پر وحشت ناک بمباری کے سارے عالمی ریکارڈ توڑ نے والی خونیں بلا بن گئی۔ حتیٰ کہ مسلمانوں سے منہ موڑنے کی عادت والی عالمی انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں بھی چلّا اٹھیں کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔ برطانیہ میں حکومتی انتباہات کے باوجود گلاسگو، مانچسٹر اور لندن میں بالخصوص تاریخ کا بہت بڑا مظاہرہ ہوا۔ اسپین، یونان، مراکش، برلن میں کئی چھوٹے بڑے مظاہرے حتیٰ کہ فرانس، اٹلی میں بھی ضمیر جاگ اُٹھے۔ ترکی میں 15 لاکھ کا مظاہرہ ہوا۔ اردگان کی سلطان عبدالحمید خان کی غیرتِ دینی کی یاد تازہ کرتی غم وغصے سے بھری فلسطینیوں کے حق میں طویل تقریر۔ ’حماس دہشت گرد نہیں‘ کو دُہرایا۔ وہ اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے کوشاں مجاہدین کی جماعت ہے۔ مغرب کو غزہ میں قتلِ عام کا مجرم اور اسرائیل کو قابض و غاصب قرار دیا۔ الجزیرہ کے مطابق یہ تقریر سخت، بلندآہنگ اور غیرمعمولی تھی۔ (قتلِ عام اور نسل کشی کے مجرم اسرائیل کو کسی ایک مغربی نے بھی دہشت گرد نہ ٹھہرایا۔)
مظاہرین کی ماتھا پٹی پرہم سب فلسطینی ہیں، قتلِ عام بند کرو لکھ رکھا تھا۔ لہو لہو مظلوم فلسطینیوں نے ضمیرِ عالم کو جھنجوڑ ڈالا۔ 75سالہ ظلم وستم سہتی قوم اور یکطرفہ فلسطینی آبادیاں اُجاڑتا، قتلِ عام کے مجرم غاصب اسرائیل کے بھاری بھرکم جرائم پر سوئی دنیا جاگ اٹھی۔ لاوا پھٹ پڑا۔ روس میں مسلم مملکت داغستان کے سینکڑوں مظاہرین اسرائیلی طیارے کی آمد پر مشتعل ہوکر رن وے پر چڑھ دوڑے۔ حکومت پر زور دیا کہ تمام سہولتیں بند کرکے جہازوں کا رُخ موڑ دو۔ بینر لہراتے، ’ہم یہودی مہاجرین کے خلاف ہیں، ’داغستان میں بچوں کے قاتلوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ‘… تل ابیب سے یہودیوں کو لے کر آنے والے جہاز کو گھیرے میں لے لیا۔ جہاز کے دروازے بند رکھے گئے۔ وقتی طور پر ایئرپورٹ بند کرکے تمام پروازیں موڑ دی گئیں۔ نفرت کی لہر پھیلتے دیکھ کر امریکا اسرائیل نے ماتم مچا دیا۔ امریکا نے روس کو ان کی حفاظت کرنے کی تاکید فرمائی۔ اور بیانات میں ہر جملے میںAnti-Semitic ’یہود دشمنی‘ کا پرانا کوڑا لہرایا جس سے دنیا میں 75 سال یہودیوں کی تمام تر وحشت اور ظلم کو اسی سے جواز بخشا۔ کوئی اُف نہ، ہولوکاسٹ کے ماروں کو! جنہوں نے فلسطین کی سرزمین کو فلسطینی خون سے سینچا اور ان کے گھروں کو ملبہ بناکر یہودیوں کی عشرت گاہیں بنائیں۔ ان پشت پناہوں نے مسلمانوں کا 77 فیصد رقبہ یہودی ناجائز قبضے میں دے کر فلسطینی اُجاڑکر، قتلِ عام باربار کرتے انہیں مہاجر کیمپوں میں، دنیا بھر میں بکھیر دیا۔ غزہ کی انسانی ناکہ بندی کا شکار کھلی جیل میں 23 لاکھ، ساڑھے 32 لاکھ اُردن میں، ساڑھے 16 لاکھ لبنان، 6 لاکھ اور حتیٰ کہ 5 لاکھ چلّی دھکیل دیے۔ اور دنیا بھر میں پھیلے یہودی آبادکار، ان مظلوموں کو قبرستان، کیمپوں میں ڈال کر یہاں آن بسے۔ داغستان کے مسلمان اسی غم وغصے سے دیوانے ہوکر اٹھے ہیں۔3 ہزار فلسطینی بچوں کی لاشوں، سینکڑوں پورے پورے خاندانوں سے محروم ننھے بلکتے بچوں کی تصاویر اور وڈیوز نے امریکی اسرائیلی خون آشامی اور 75 سالہ ظلم کی داستانوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اب ’اینٹی سیمٹک‘ کا میڈیائی ہتھیار نہیں چلے گا۔ اب ’اینٹی مسلم‘ (یہودی دشمن نہیں مسلمان دشمن) کی پکار اُٹھے گی۔ سب سے بڑھ کر خود مغربی ضمیر پکار اٹھا ہے: ’بادشاہ ننگا ہے!‘ آئرلینڈ میں گرجتے برستے مغربی یورپی یونین، برطانوی حکومت کو للکارتے جگاتے تنقید سے بھرے ممبر پارلیمنٹ اور سیاست دان اسرائیلی کو عالمی جنگی مجرم قرار دے رہے ہیں۔
دنیا بدل رہی ہے۔ 59مسلم ممالک کے ہوتے اُمت کے مراکز کا حال خون کے آنسو رلا دینے والا ہے۔ ایک طرف مسلم خون اور گوشت کے اڑتے لوتھڑے کافروں کا دل پگھلا رہے ہیں۔ سابق امریکی فوجی لوکاس گیج جو عراق میں تعینات رہا، اُس نے کہا: ’میں نے عراق میں جھوٹ کی بنیاد پر اس کے لوگوں کو تباہ ہوتے دیکھا اب میں خاموش یا غیرجانبدار نہیں رہ سکتا، جب میں غزہ کے لوگوں کو انہی جھوٹے لوگوں کے ہاتھوں تباہ کیا جاتا دیکھ رہا ہوں۔ میں فلسطین کے ساتھ کھڑا ہوں۔‘ جبکہ اِدھر سعودی عرب میں (لوگوں کے باربار متوجہ کرنے کے باوجود) ’میوزک/ ثقافتی میلہ سیزن، ناچ گانے، رقص وموسیقی دھوم دھام سے جاری ہے۔ دنیا کی فحش ترین رقاصہ شکیرہ کے رقص سے اس کا آغاز ہونا آخری لمحے تک طے تھا، جس پر اخفا کا پردہ ڈال کر باقی کھیل تماشے جاری ہیں۔ سعودی بھائی سے متاثر ہوکر نگران وزیراعلیٰ پنجاب یہ بھول گئے کہ یہ پاکستان ہے، 16دن پر محیط فیسٹیول، لاہور کی راتوں کو موسیقی سے گرمانے کا اعلان کر بیٹھے۔ جلد ہی بوجوہ پتہ چل گیا، اسلام ابھی زندہ ہے! آخری لمحے موسیقی بھری راتیں منسوخ ہوئیں! پھر صوفی موسیقی پر اکتفا کرنا پڑا! عنوان تھا لاہور لاہور ہے! اب کہنا پڑا: پاکستان پاکستان ہے!
نیٹ کی دنیا غم و غصے کا اظہار کررہی ہے۔ ایک ٹویٹ میں سعودی عرب میں فلسطینی جھنڈا لہرانے کے ’مجرم‘ کو پولیس گرفتار کرکے لے جا رہی ہے، رنگ میں بھنگ ڈال رہا تھا۔ دوسری طرف خونِ مسلم سے نہائی سیاہ رات میں فلسطینیوں کا پیغام آئینہ دکھا رہا ہے: ’مسلم ممالک کو بتا دو ہمارے جنازے نہ پڑھیں۔ ہم زندہ ہیں، تم مردہ ہو!‘ (گرچہ ’مسلم جواں‘ زندہ نظر آتا ہے، مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس!)
تیسری طرف نیتن یاہو دکھایا گیا ہے جو موجودہ کھجور کی گٹھلی جتنا اسرائیل والا نقشہ دکھاکر پھر اس سے بنتا ہوا گریٹر اسرائیل کا نقشہ مار کرسے نشاندہی کرتا دیکھا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب کا سینہ چاک کرتی لکیر، مصر و شام کا احاطہ کرتی اسرائیلی عزائم دکھا رہی ہے۔ جبکہ خون میں لتھڑے بھوکے پیاسے مسلمانوں کے مقابل ریاض ناچ، کھیل، گانے، عیش و عشرت میں گم ہے! کہاں ہے کشنر یہودی؟ بن سلمان اور بن زید کا جگری دوست؟ غزہ کے لیے امن کے چند گھنٹے، پانی کے گھونٹ، دوا کا کوئی انتظام؟ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ بلنکن تو اسرائیل پر حملہ ہوتے ہی لپک کر اسرائیل جا پہنچا، یہ کہتا ہوا کہ میں صرف سیکریٹری اسٹیٹ کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک یہودی کی حیثیت سے آیا ہوں۔ (یہودی اخوت کا مظاہرہ کرنے!) غزہ میں انسانیت کے خلاف کھلے برہنہ مظالم کی تائید ڈٹ کر کی! ع یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود! اُدھر اقصیٰ سے ایک امام کی پکار ہے افغانستان اور پاکستان کے لیے۔ ہمیں پکارا ہے خراسان والی احادیث کے تناظر میں ایٹمی طاقت اور قائداعظم، اقبال کی فلسطین سے محبت یاد کرتے ہوئے؟ کتنے سادہ لوح ہیں! ایک تو مسجد اقصیٰ کے معنی ہی دور کی مسجد ہے۔ ہمارے حکمران اور نوجوان تو گھر کے سامنے، قریب کی مسجد نہیں جاتے، اتنی دور کیسے جائیں؟
رہا افغانستان! ہم امریکا سے اُلفت کی منزلیں سر کرتے دوست دشمن کی پہچان کھو چکے۔ اس وقت تو ہم اپنے ملک میں موجود افغانوں کو نکالنے میں بہت مصروف ہیں۔ ہم امریکا کے ترجمان، سہولت کار امیر کبیر افغانوں کو نہیں چھیڑ رہے، جو امریکا برطانیہ نے یہاں بڑے ہوٹلوں یا آبادیوں میں ٹھہرا رکھے ہیں۔ غریب افغان جنگوں میں پاکستان کو اپنا ہی گھر سمجھ کر آ بسے۔ اب ان کی غلط فہمی دور کررہے ہیں۔ اپنے گھر جا رہیں، ہم سے تو ان کی کرنسی زیادہ مضبوط ہے، حکومت بھی ان کی اپنی ہی ہے۔ ہم تو کشمیر کے لیے بھی صرف دن مناتے ہیں! سو بابا جی معاف کر دو۔ اللہ مدد کرے گا تمہاری۔ (جیسے افغانوں کی مدد اس نے کی! ہم اس وقت بھی امریکا کی مدد میں مصروف تھے۔) اُدھر آئرلینڈ کے سیاست دان، پارلیمنٹ ممبران تڑپ رہے ہیں۔ ہماری سیکولر پارٹیاں سکون سے سیاست، نیز دوبئی (اسرائیلی معاہدے میں بندھا) اور برطانیہ میں اپنی جائیدادیں بچانے کو گونگے کا گڑ کھائے بیٹھے ہیں۔الیکشن لڑنے ہیں، امریکا آڑے ہاتھوں نہ لے لے! یہ بھی اندیشہ ہے۔ مسلم لیگی سینیٹر جذبات میں ہٹلر دِکھا کر یہودیوں کو تڑپا گیا ہے۔ اللہ اس کی سیٹ کی خیر کرے!