(قابلِ غور) اہل ِفلسطین اور امت مسلمہ - نعیم اختر عدنان

11 /

اہل ِفلسطین اور امت مسلمہ

اہل فلسطین خصوصاً غزہ میں اسرائیل کی درندگی ،امریکہ اور کئی یورپی اقوام کی کھلم کھلا

مدد و حمایت کے تناظر میں امت مسلمہ کے لیے قرآن مجید کی رہنمائی وہدایت

نعیم اختر عدنان

قرآن مجید کی بہت سی مدنی سورتوں میں ایسے کئی احکامات موجود ہیں جن پر دور نبوی ﷺ اور دور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اورمابعد ادوار میں عمل کیا گیا مگر پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں مسلمانوں کی سیاسی وحدت کاحامل نظام، نظام خلافت ،خلافت عثمانیہ کو ختم کردیا گیا۔ بقول اقبال ع
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبااس وقت سے لے کر آ ج تک اسلامی دنیا ایک اجتماعی قیادت سے محروم چلی آ رہی ہے ،اس وقت مسلمان ممالک کے نام سے اٹھاون کے قریب مملکتیں موجود ہیں جہاں مسلمان ہی حکمران ہیں۔ اوراس میں ترکی اورافغانستان کو چھوڑ کر باقی ماندہ ممالک کے حکمران،
یہ زائرین حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
بھلا ہمیں ان سے واسطہ کیا ہے جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
کے مصداق اہل کفر کے ہی کاسہ لیس اور انہیں کے بےدام غلام بنے ہوئے ہیں ،برطانوی سامراج نے بالفور ڈیکلیئر یشن کے ذریعے یہود کو سر زمین فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی، بلکہ یہود کےلیے علیحدہ وطن کے قیام کے لیے ہر قسم کی امداد فراہم کی ،اس حوالے سے پورا یورپ الکفر ملت واحدہ بن کر اسرائیل کے قیام کے لیے متحرک ہو گیا ،اور یوں فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی ریاست کی صورت میں ایک خنجر پیوست کردیا گیا، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے تاریخ ساز الفاظ میں اسرائیل کومغرب کا حرامی بچہ ،،قرار دیا ،یہی سازش برطانوی سامراج نے تقسیم ہندوستان میں ریڈ کلف ایوارڈ کےذریعے کی کہ گورداس پور کا علاقہ بھارت کو دے کر کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ کی راہ ہموار کردی۔ وہ دن اور آ ج کا دن اہل فلسطین کی طرح اہل کشمیر بھی ہندو سامراج کی چیرہ دستیوں اور ظلم وستم سے نبرد آزما ہورہے ہیں ، اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل ،عالمی عدالت انصاف ، انسانی حقوق کے دیگر ان گنت عالمی اداروں کی موجودگی میں یہود و ہنود فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کا مسلسل کشت وخون کر رہے ہیں ۔ ان دونوں ممالک پر کوئی مقامی ،علاقائی اور بین الاقوامی قانون اور ضابطہ اخلاق لاگو نہیں ہوتا ، ستم بالائے ستم عالمی قوتیں اور عالمی ادارے سامراجی طاقتوں کے بھیانک روپ میں ان جارح ممالک کی ہر طرح سے مدد کررہے ہیں۔ امت مسلمہ کی نام نہاد قیادت انہی عالمی طاقتوں کی زلف گرہ گیر کی اسیر بن چکی ہے ۔ اس تناظر میں اہل فلسطین کے علاقے غزہ میں حماس کے معمولی ردعمل کو بنیاد بناکر اسرائیل نے تین ہفتوں سے جاری اپنی سفاکیت اور شیطنت کی انتہا کردی ہے اور امریکی اور برطانوی سامراج اور دیگر مغربی ممالک کی علانیہ اور کھلم کھلا اسلحہ سمیت ہمہ اقسام کی حامل مدد کی جارہی ہے۔اسرائیل کی اس ننگی جارحانہ بدمعاشی کو بڑھاوا دینے میں یہ ممالک برابر کے شریک جرم ہیں ۔جبکہ مسلمان ممالک کے حکمران انہی ممالک اور عالمی اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ یہ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کریں ،یہ تو وہی بات ہوئی جو شاعر نے بیان کی ہے ؎
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
مسلمان ممالک اور دیگر اقوام عالم کی انصاف پسند عوام پوری دنیا میں اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے ظلم وجارحیت اور دہرے اور منافقانہ معیار پر تھو تھو کرکے سراپا احتجاج ہیں۔ اس تناظر میں ہم بحیثیت مسلمان آسمانی ہدایت کی جانب رجوع کرتے ہیں ۔قران پاک میں موجود سورہ توبہ کی آ یت نمبر 8اور 10میں ارشاد ربانی ہے:’’اور ان کافروں اور مشرکوں سے سے تمہارا عہد وپیمان کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ جب تم پر یعنی مسلمانوں پر غالب آ کر قابو پالیں تو نہ کسی قرابت داری اور نہ کسی عہد وپیمان کا پاس و لحاظ کریں گے ،یہ محض زبانی جمع خرچ سے تمہیں راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ان کی دل اس بات سے انکاری ہیں اور ان کی اکثریت بدکرداروں پر مشتمل ہے ۔‘‘ آ یت نمبر 10میں فرمایا گیا :’’ یہ کسی مسلمان کے حق میں کسی قرابت داری یا معائدہ کا مطلق لحاظ نہیں کرتے ،درحقیت یہ حد سے گزرے ہوئے لوگ ہیں ۔‘‘
سید قطب شہید ؒاپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں ان آ یات کے تحت لکھتے ہیں کہ کافر اور مشرک مسلمانوں سے اس وقت عہد و پیمان کرتے ہیں جب وہ کمزور و لاچار ہوں اور مسلمانوں کے مقابلے سے عاجز ہو جائیں اور جب یہ کفار مسلمانوں پر غالب اور فاتح ہوجائیں تو مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک اور برتاؤ کرتے رہے ہیں اور کریں گے جن کا مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتے۔ایسے حالات میں یہ کافر اقوام نہ کسی معائدہ کا خیال کریں گی اور نہ کسے انسانی اور اخلاقی ذمہ داری کا لحاظ و پاس کریں گی ، یہ اقوام مسلمانوں کے ساتھ ایسے مذموم افعال کے ارتکاب سے بھی دریغ نہیں کریں گی جن کو یہ خود بھی جرائم کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ فطرتا ًکسی عہد و معائدہ اور کسی تعلق و رشتہ داری کا لحاظ و پاس رکھنے کی بجائے ظلم و زیادتی کی تمام حدود و قیود کو پار کر جاتے ہیں ۔یہ سب کچھ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں اہل ایمان کے ساتھ یہی بہیمانہ سلوک روا رکھا گیا ہے ،فرعون کی دعوت پر بلائے جانے والے جادوگر جب حقیقت ایمان و اسلام سے بہرہ مند ہوگئے تو وہ فرعون کے غیظ و غضب کا شکار ہوگئے ۔ انہوں نے اس لمحے یہ بات کہی کہ’’ اور تم ہم سے جو انتقام لے رہے ہو تو صرف اس وجہ سے کہ ہم نے اپنے رب کی آ یات کو مان لیا ہے جب وہ ہمارے سامنے آ ئی ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے اہل کتاب سے فرمایا : ’’اے اہل کتاب تم ہم سے جو انتقام لیتے ہو تو صرف اس لیے کہ ہم اللہ پر ایمان لے آ ئے ہیں۔‘‘( المائدہ 59)
اللہ تعالیٰ نے اُن مومنین کے بارے میں بھی یہی فرمایا تھا جن کو اصحاب الاخدود نے آ گ کی خندقوں میں جلایا تھا۔ ’’ ان لوگوں سے اس لیے انتقام لیا گیا تھا کہ وہ اللہ العزیز و الحمید کی ذات پر ایمان لے آ ئے تھے۔‘‘یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ کافروں اور مشرکین کی جانب سے انتقام کا سبب اور وجہ ایمان و اسلام ہی قرار پاتا ہے اور اسی لیے یہ کسی بھی زمانے میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی ضابطے ،قانون اور کسی انسانی حق اور رشتہ داری تک کا لحاظ نہیں کرتے ہیں ، ان قرآنی تعلیمات کی روشنی میں امت اسلامیہ کی سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی عالمی اداروں اور ان کے بنائے گئے قوانین اور ضوابط کا کھلم کھلا انکار کردیں ۔ جب اہل کفر بین الاقوامی قوانین کو پائوں تلے روند رہے ہیں تو امت مسلمہ یکطرفہ طور پر ان عالمی قوانین اور اداروں کی محتاج کیوں ہے ،غزہ اور کشمیر میں روا رکھے گئے رویے کے تناظر میں امت مسلمہ کی طرف سے عالمی اداروں سے لاتعلقی بلکہ علی اعلان علیحدگی کا اعلان کرنا چاہیے اور اسلامی کانفرنفس تنظیم کو فعال بناکر تمام فیصلے اور اقدامات اس کے تحت کیے جائیں ۔ یہی راستہ امت کے وقار کے تحفظ کا راستہ ہے۔