(جاگو جگاؤ) اب عہدِ غلامی کر لو…! - ام محمد بن سعد

11 /

اب عہدِ غلامی کر لو…!

ام محمد بن سعد

دل ہے کہ ہر پل غمگین ہے، دماغ ہے کہ اپنے فلسطینی عضو کے درد کو بھلا نہیں پا رہا…اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ قلم لکھنے سے عاری ہے۔ ایک طرف مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں، تو دوسری طرف انہی مسلمانوں کی بے حسی کے بارے میں۔
جبکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ مسلمان تو جسدِ واحد کی طرح ہوتے ہیں جس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو سارا جسم درد محسوس کرتا رہے…پھر ہم کیوں درد محسوس نہیں کر پا رہے؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟یا جس طرح ایک شرابی نشے میں آ کر ایسا مدہوش ہوتا ہے کہ اسے صرف fantasyیاد رہتی ہےاور ہر درد بھول جاتا ہے، ہم بھی نشے میں ہیں…؟ ہاں! ہم نشے میں ہیں۔ دنیا میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا نشہ، بیرونِ ملک مقیم ہو جانے کا نشہ، بینک بیلنس بڑھانے کا نشہ، ایک مخصوص طبقے میں ڈگریاں حاصل کرنے کا نشہ… اور… ورلڈ کپ کا سستہ نشہ…کہ نہ خدا ہی ملا، نہ وصالِ صنم… بربادیِ وقت…خسر الدنیا والآخرۃ!
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیںیہود! اور صہیونیوں کی کوششیں تو بتاتی ہیں کہ ان کو یقین ہے کہ ان کا مسیحا آئے گا اور ان کو فتح نصیب ہو گی… ایک مسیحا ہمارا بھی تو آنا ہے، مگر ہم مومن ہونے کے باوجود ایمان کی کیفیت سے تہی دامن ہیں۔ بیت المقدس کس کا قبلہ ہے؟ شاید فلسطینیوں کا…باقی امت اس سے لاتعلق بنی بیٹھی ہے۔ کل کو خاکم بدہن، اگر بیت اللہ پر حملہ ہو جائے، تب بھی ہمارا یہی ردِ عمل ہو گا؟ کرکٹ کھیلیں گے اور جیت ’’عربی بھائیوں کے نام‘‘ کر دیں گے؟ کیونکہ بیت اللہ تو ان کا ہے!
غزہ میں شہادت پانے والے بچوں کا درد کیوں ہمیں اپنے بچوں کی طرح محسوس نہیں ہوتا؟ کیوں ان عورتوں کو ہم اپنی مائیں اور بہنیں نہیں سمجھتے؟ کیوں وہ مرد ہمیں ہمارے بھائیوں کی یاد نہیں دلاتے؟ میرےیا آپ کے بھائی کے گھر خدانخواستہ کوئی آگ لگا دے جبکہ پورا خاندان وہیں محصور ہو، کیا میرے حلق سے نوالہ اترے گا؟ میں چین کی نیند سو پاؤں گی؟ پھر کیسے ہم خبریں لگا کر اپنے بھائیوں پر بمباری ہوتے دیکھتے ہیں اور سامنے بیٹھے پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں، جیسے وہی کوئی ڈراما چل رہا ہو، ساتھ ساتھ اس پر تبصرہ چل رہا ہو، کوئی غمزدہ کرنے والا سین آئے تو چار آنسو بہا لئے جائیں…اس کے بعد وہ عارضی درد وہیں چھوڑ کر قہقہے لگاتے، گلچھرے اڑاتے اپنی دنیا میں مست مگن ہو جائیں! اس پر مستزاد یہ کہ ہم سمجھیں کہ آزمائش فلسطینیوں پر آئی ہے اور ہم تو ابھی بچے بیٹھے ہیں…ہر گز نہیں! امتحان تو ہمارا ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں۔ حق کا رخ کرتے ہیںیا جس کرکٹ گراؤنڈ کی طرف طاغوتی طاقتیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر، بندوق کی نالی سے ٹھوکر لگا کر ہمیں موڑتی ہیں، ہم مڑ جاتے ہیں۔۔۔!
کہنے لگے کہ ہم کو تباہی کا غم نہیں
میں نے کہا کہ وجہ تباہی یہی تو ہے
ہم لوگ ہیں عذابِ الٰہی سے بے خبر
اے بے خبر! عذابِ الٰہی یہی تو ہے!
یاد رکھیں۔ ایک بات تو طے ہے…کہ جلد یا بدیر، ہم پر بھی یہ حالات آنے ہیں۔ ملحمۃ الکبریٰ کی خبر رسول اللہ ﷺ ہمیں بہت پہلے دے چکے…سو ہم نے وہ وقت نہ دیکھا تو ہماری نسلوں کو دیکھنا پڑے گا۔ سو یہ کبوتر کی طرح آنکھیں موند کر سر گردن میں کئے بیٹھے رہنا ہمیں زیب نہیں دیتا۔ چاہے دیکھنے میں لگے کہ’’ایک میںPepsi نہیں پیوں گی تو کیا ہو گا؟‘‘یا ایک میرے McDonald's نہ کھانے سے ان کی دکانیں بند تو نہیں ہو جائیں گی‘‘…ہاں، نہیں ہو گا ایسا، لیکن ہمارا کھاتا تو اللہ کے نزدیک صاف ہو گا نا۔ اپنے حصے کا قطرہ ڈال کر گو کہ ہم غزہ کی سلگتی آگ نہ بجھا سکیں گے، مگر ربِ قہار کی بھڑکائی ہوئی دائمی آگ سے تو چھٹکارا حاصل کر پائیں گے نا؟ تو پھر کیوں نہ اپنے اپنے حصے کی معذرت اپنے رب کو پیش کرنے کا سامان کریں…کہ جب روزِ حساب اللہ تعالیٰ پوچھے کہ تم نے اپنے جسم کے دکھتے حصے کی کیا دوا کی، تو ہم اس کو عذر تو پیش کر سکیں…کہ اے میرے رب! تو نے مجھے قوتِ گویائی عطا کی تھی، سو میں نے سماعتوں کے در کھٹکائے…تو نے مجھے زورِ قلم عطا کیا تھا، سو میں نے روشنائی کے ذریعے خوابِ غفلت میں کھوئے ہوؤں کو جگانے کی کوشش کی۔۔۔تو نے مجھے زورِ بازو عطا کیا تھا، سو میں تو میدانِ جنگ میں ہی پہنچ گیا اور تیرے دشمن سے ٹکرا گیا…اے میرے رب! میرے ہاتھ پاؤں سلامت تھے، سو میں اہلِ اقدار کے ایوانوں کے در کھٹکانے جا پہنچا کہ وہ سیاسی محاذ پر سرگرم ہوں اور اپنا کردار ادا کریں…مجھ میں غیرت و حمیت باقی تھی سو میں نے ان کی مصنوعات خود پر حرام کر لیں…تو نے مجھے اچھے حافظے سے نوازا تھا، سو میں نے دن رات قنوت نازلہ یاد کر کے اس کا التزام کیا…اور اے میرے رب! تو نے امت کا مستقبل میری جھولی میں ڈال رکھا تھا، سو میں نے اس کو واقعی امت کا ایک کارآمد فرد بنا ڈالا۔۔۔اس کے دل میں احساس پیدا کیا کہ اگر امت کا ایک حصہ درد سے تلملا رہا ہو تو وہ بھی چین کی نیند نہ سو پائے…اس کے دل میںیہ شوق ڈالا کہ جب کالے جھنڈے القدس کو فتح کرنے جائیں تو ان میں سے ایک جھنڈا اس کے قوی بازو نے بھی اٹھا رکھا ہو۔ غرض جس سے جو بن پائے، کر گزرے۔ کیونکہ قطرہ قطرہ مل کر ہی سمندر بنے گا، اور چاہے وہ سمندر ہماری زندگیوں میں نہ بن پائے، مگر ہماری اخروی نجات میں ہمارے حصے کا ایک قطرہ ہی سمندر کا کام کر گزرے گا…اور یہی مطلوب و مقصود ہے!