(زمانہ گواہ ہے) فلسطینیوں کی مدد۔۔مگر کیسے؟ - وسیم احمد

11 /

اسرائیل کا ظلم اس قدرواضح ہے کہ غیر مسلم بھی اپنے ملکوں

میں اس ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، آج اگر ہم

فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو غلط کہتے ہیں تو کل کس منہ

سے ہم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی بات کریں گے ۔

آج اُمت اس لیے ذلت ، رسوائی اور بے بسی کا شکار ہے

کیونکہ اس نے امت والا کام چھوڑا ہوا ہے ۔

57 مسلم ممالک میں سے کوئی ایک ایسا ملک نہیں

ہے جہاں اللہ کا دین نافذ ہو ۔

فلسطینیوں کی مدد۔۔مگر کیسے؟کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: ارض فلسطین تینوں الہامی مذاہب یعنی یہودیوں عیسائیوں اور مسلمانوں کے نزدیک عقیدت و احترام کی حامل سرزمین ہے اور تینوں مذاہب کے پیروکار اس کی ملکیت کے دعوے دار بھی ہیں۔ آپ کی نظر میں اس سرزمین کا اصل حقدار کون ہے اور کیوں ہے؟
شجاع الدین شیخ :جب ہم کہہ رہے ہیں کہ تینوں مذاہب الہامی ہیں تو ایک اصول تو طے ہو گیا کہ یہ الہامی تعلیمات کو ماننے والے ہیں۔ بے شک ہم مسلمان یہ کہتے ہیں کہ تورات جو موسیٰ ؑ کو عطا کی گئی، انجیل جو عیسیٰ ؑ کو عطا کی گئی ان پر ہمارا ایمان ہے البتہ بعد میںان کتابوں میں تبدیلیاں کی گئیں۔ اب الہامی تعلیمات کا آخری اور مکمل طور پر محفوظ خزانہ صرف قرآن مجید ہے جو قیامت تک تمام انسانوں کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے ۔ جس طرح پچھلے تمام انبیاء ؑپر ایمان لائے بغیر ہم مسلمان نہیں ہو سکتے اسی طرح یہودی اور عیسائی اگر قرآن حکیم اور اللہ کے آخری رسول ﷺ پر ایمان نہیں لائیں گے تو وہ الہامی تعلیمات کے ماننے والے نہیں ہو سکتے ۔ سابق تمام انبیاء ؑسے بھی باقاعدہ میثاق لیا گیا تھا کہ جب آخری نبی ﷺآئیں گے تو تم ان کی نصرت بھی کرو گے ان پر ایمان بھی لاؤ گے جن کی آمد کا اشارہ تورات اور انجیل میں بھی موجود تھا ۔ اس میثاق کو میثاق نبیین کہا گیا ۔ پیغمبر سے لیا گیا وعدہ ان کی امت پر بھی binding ہوتا ہے۔ پھر نبی مکرمﷺ نے معراج کی رات تمام انبیاء کی امامت فرمائی جن میں  موسیٰ ؑ بھی موجود تھے ، عیسیٰ ؑ بھی موجود تھے ۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے خود طے کردیا کہ سابقہ انبیاء ؑ بھی آخری پیغمبر ﷺپر ایمان لائے اور پھر جب امام الانبیاء ﷺ نے تمام انبیاء کرام f کی امامت فرما دی تو یہ خود اشارہ تھا کہ اب امامت بنی اسرائیل کے پاس نہیںرہے گی بلکہ وہ نبی اکرم ﷺ کی امت کومنتقل ہو گئی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما چکا ہے کہ بیت المقدس کے انتظام کا معاملہ آخری پیغمبر ﷺ کے امتیوں کے پاس ہونا چاہیے۔چنانچہ 70ء میں جب ٹائٹس رومی نے یہودیوں کو بیت المقدس سے بے دخل کیا تو اس کے کچھ عرصہ بعد اس کا انتظام نصاریٰ کے پاس رہا پھرانہوں نے خلیفہ دوئم حضرت عمرؓ کے حوالے کر دیا ۔ پھر صلیبیوں نے قبضہ کیا تو صلاح الدین ایوبی ؒ نے واپس لے لیا اس طرح صدیوں تک بیت المقدس کا انتظام زیادہ تر مسلمانوں کے پاس ہی رہا ہے یا پھر تھوڑا عرصہ نصاریٰ کے پاس رہا ہے ۔ یہ تو برطانیہ نے غاصبانہ طور پر قبضہ کرکے یہودیوں کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دی ورنہ اصلاً تو اس پر مسلمانوں کا حق ہے ۔
سوال:اعداد و شمار سے یہ بات ثابت ہے کہ اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک فلسطین کا رقبہ مسلسل کم اور اسرائیل کاقبضہ اور خطےمیں اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے، آپ کے خیال میں غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن جنگ یعنی الملحمۃ العظمیٰ کا آغاز تو نہیں ہے؟
شجاع الدین شیخ :1917ءمیں بالفورڈیکلریشن کے ذریعے غاصبانہ طور پرفلسطین میں یہود کو آبادہونے کی اجازت دی گئی اور 1948ء میں امریکہ کی بدمعاشی کے نتیجہ میں UNOمیں اسرائیل کو تسلیم کر لیا گیا ۔ یہ دونوں معاملات ظالمانہ اور غاصبانہ طور پر ہوئے ۔ اس وقت UNOنے اسرائیل کے لیے جو رقبہ approve کیاتھا، آج اس سے 75 گنا زیادہ رقبے پر اسرائیل قابض ہو چکا ہےاور مسلسل اس کا غاصبانہ قبضہ بڑھ رہا ہے اور پھر مسئلہ صرف فلسطین پر ان کے غاصبانہ قبضے کا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل صہیونی منصوبہ گریٹر اسرائیل ہے جس میں سعودی عرب ، مصر ، شام ، عراق ، کویت سمیت کئی مسلم ممالک کے علاقے شامل ہیں ، حتیٰ کہ مدینہ منورہ کو بھی وہ گریٹر اسرائیل کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ اگران کے غاصبانہ قبضہ کا بڑھتا ہوا سلسلہ روکا نہ گیا تو یہ تمام علاقے اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو جائیں گے ۔ شام اور لبنان کی سرحدوں پر ابھی سے اس کی جارحیت کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ ان کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ کو شہید کرکے وہاں تھرڈ ٹمپل بنایا جائے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر مسلم ممالک کے اندرسے بھی شدید ترین ری ایکشن سامنے آئے گااور پھر کہا جا سکتا ہے کہ الملحمۃ العظمیٰ کی طرف معاملہ جا سکتا ہے جس کی خبریں احادیث میںہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم!
سوال:لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلم ممالک تو اب بھی اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں ، ان کی اپنی مصروفیات ہیں ۔ 26 اکتوبر کے اخبارمیں’’ لاہو رلاہور اے‘‘ کے عنوان سے ایک بڑے فیسٹیول کا اشتہار شائع ہوا ہے جو 16 دن تک مسلسل جاری رہے گا۔ یہ فیسٹیول نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایات پر ہورہا ہے ۔اس میں روزانہ ناچ گانا ہوگا ، اسٹیج ڈرامے ہوں گے ، بے حیائی کا دور دورہ ہوگا ۔ ہماری ترجیحات تو یہ ہیں ، ہم کیسے یہ توقع رکھتے ہیں کہ عالم اسلام کی طرف سے reaction آئے گا ؟
شجاع الدین شیخ :جو بات میں نےکی وہ اس تناظر میں تھی کہ اگر مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ کو گرایا گیا تو امت مسلمہ کے جذبات بھڑکیں گے جس کے نتیجہ میں عوام کا پریشر حکمرانوں پر بڑھے گا لیکن جیسا کہ آپ نے ذکر کیا فیسٹیول ہو رہے ہیں ، کنسرٹس ہو رہے ہیں ، چند دن پہلے کی بات ہے پشاور کے ایک معروف اسکول میں اسی طرح کےکنسرٹ کا انعقاد ہوا۔ آج کے اخبار میں کراچی کے ایک نامورامریکن اسکول کے طلبہ کی ایک پرائیویٹ فنکشن کی خبر شائع ہوئی ہے جس میں برہنہ لباس ، شراب اور ڈانس وغیرہ سب کچھ ہوتا رہا ۔ اللہ معاف کرے ۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم کرکٹ کے دیوانے ہوئے بیٹھے ہیں جبکہ ادھر غزہ کا شہر صہیونیوں نے تباہ کر دیا، ہزاروں مسلمان شہید ہوگئے ۔ مسلم حکمرانوں کی طرف سے صرف کھوکھلے مذمتی بیانات سے بڑھ کر کوئی ردعمل نہیں آیا ۔ او آئی سی ، چونتیس مسلم ممالک کی متحدہ فوج سب کہاں چلے گئے ۔ مسلم امہ کے پاس اس وقت دولت بھی ہے ، تیل اور ایٹمی صلاحیت موجود ہے ،بہتر ین میزائیل ٹیکنالوجی موجود ہے ، ہم نہیں کہتے کہ آپ فوراًجنگ کرو کم سےکم کوئی آواز توبلند کریں ۔ پورا عالم کفر اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے ۔ مسلم حکمران کسی مسلم ملک میں جمع ہوکر اپنا بیانیہ نہیں دے سکتے ؟ مسلم حکمرانوں میں ہر طرف بے حسی نظر آرہی ہے ۔ رہے عوام تو عوام کے پاس بولنے کی صلاحیت ہے ، احتجاج کی صلاحیت ہے، عوامی رائے اور عوامی پریشر develop کرنے کی صلاحیت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام میں کچھ جذبات ہیں ،کچھ مسلم ممالک میںایسے جذبات ہم نے دیکھے۔ ہمارا پیغام عوام کے لیے بھی ہے کہ وہ دعاؤں کا بھی اہتمام کریں، مظاہرے بھی کریں،آواز بھی بلند کریں، حکمرانوں کو غیرت بھی دلائیں، مقتدر طبقات تک اپنی بات کو بھی پہنچائیںلیکن اگر ہمارے مقتدر طبقات بھی صرف مذمتی قراردادیں پیش کریںتوان میں اور عوام میں فرق کیا رہے گا۔ اللہ حکمرانوں کو ہدایت عطا کرے اور انہیں امت کا دردعطا کرے ۔ یہ جو حرکتیں ہمارے حکمران کر رہے ہیں ، فیسٹیول ، ناچ گانے ، فلمیں ، ڈرامے ، بے حیائی وغیرہ ، یہ سب اللہ کے عذاب کو مزید دعوت دینے والی بات ہے ۔ جب امت کے ایک بڑے حصے کے ساتھ اتنا ظلم کیا جا رہا ہے، روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لاشیں اُٹھائی جارہی ہیں ، جن میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں اور بچیوں کی لاشیں بھی شامل ہیں ، کہاں وہ مناظر جو دیکھے نہیں جا رہے اور کہاں ہمارے وزیر اعلیٰ پنجاب 16 روزہ ناچ گانے پر مشتمل فیسٹیول منعقد کرنے جارہے ہیں ۔ اللہ ہدایت دے اور ہمیں ہمارے حصے کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال: فلسطینی مسلمانوں پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد پورا عالم کفر ملت واحدہ کی طرح نظر آتا ہے۔ یہ فرمایے کہ تمام مسلم ممالک کب اور کیسے اُمت مسلمہ کی شکل اختیار کریں گے۔ آپ مسلم ممالک کے عوام اور خاص طور پر مسلم حکمرانوں کو کیا پیغام دیں گے ؟ 
شجاع الدین شیخ :سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ تصور امت کیا ہے۔ اُمت کہتے ہیں ہم مقصد گروہ کو ۔ جیسے قرآن میں فرمایا :
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ }(الحجرات:10) ’’یقیناً تمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘
آج تو اس تصور کو مسلمان بھول ہی گئے ہیں ، آج ہمارے ملکوں میں ، شہروں میں ، گلی محلوں میں حتیٰ کہ گھروں میں اور سگے بھائیوں میں اتحاد نہیں ہے تو امت کی سطح پر کہاں ہوگا ، لیکن بہرحال ہرشخص کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ فلسطین کا معاملہ بہرحال اہم ہے ۔ یہ انبیاء کی سرزمین ہے، مسجداقصیٰ اور قبۃ الصخرٰی کا معاملہ ہے ۔ امت کا دیگر معاملات اور مسائل میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن اس معاملے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے ۔ لہٰذا کم ازکم اس مشترکہ معاملے کو highlightکرنے کی کوشش کریں۔ یہ تو ہم سب کے بس میں ہے ۔ اگر امت کا بڑا حصہ سویا ہوا ہے، اگر حکمران غیرت کا اظہار نہیں کررہے تو آپ اور میں جو جاگ رہے ہیں ہم اپنے حصے کا کام کرنے کی کوشش کریں۔ حکمران کب جاگیں گے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے لیکن ہم نے اللہ کو جواب دینا ہے کہ ہم نے اپنے حصے کا کام کیا تھا یا نہیں ۔ ہم ظالموں کے ظلم پر اگر خاموش ہیں تو یہ خود ایک ظلم ہے اور اگر مظلوم کی داد رسی کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو اللہ کے سامنے تو سرخرو ہو سکیں گے ۔
سوال:سعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک اسرائیل سے 1967ء سے قبل والی جغرافیائی صورتحال کے مطابق مسئلہ فلسطین کا حل چاہتے ہیں اور وہ یہی مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ فرمائیے کہ فلسطینیوں نے ہزاروں جانیں قربان کر کے پوری دنیا کو کیا یہ باور نہیں کراد یا کہ وہ گریٹر اسرائیل منصوبے اور عرب اسرائیل تعلقات کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے ؟ 
شجاع الدین شیخ : مسجد اقصیٰ پر آج صہیونی لوگوں کا قبضہ ہے اوروہ مسلسل اس کی بے حرمتی کر رہے ہیں ، گزشتہ تین چار سالوں میں ماہ رمضان کے آخری عشرے میں انہوں نے نمازیوں پر مظالم کیے، گولیاں چلائیں۔ اب پچھلے پانچ ماہ سے لگا تار ہزاروں کی تعداد میں یہودی وہاں  آتے ہیں اور مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتے ہیں ۔ حالانکہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت تو پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ امت اگر سو رہی ہے ، عرب حکمران اسرائیل سے تعلقات بڑھا رہے ہیں ، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں تو فلسطینی بے چارے کیا کریں ۔ ان کا مقدمہ لے کر کون کھڑا ہوگا؟اگر آج فلسطینی مزاحمت کررہے ہیں تو نہ صرف پوری امت مسلمہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں بلکہ یہ امت مسلمہ کو بیدار کرنے کے لیے بھی ہے کہ وہ کبھی بھی اسرائیل سے مسلم ممالک کے تعلقات اور اسے تسلیم کرنے کی بات قبول نہیں کریں گے ۔
سوال: غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف پوری دنیا میں عوام باہر نکلے ہوئے ہیں ، مظاہرے کر رہے ہیں اور فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حماس کو بھی مطعون کیا جارہا ہے ۔ اس کو دہشت گرد کہا جارہا ہے ۔ پاکستان میں بھی بعض دانشور حضرات کا یہ خیال ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کو بھی صرف سیاسی جدوجہد کرنی چاہیے اور کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانےسے گریز کرنا چاہیے۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
شجاع الدین شیخ : اسرائیل کا ظلم اس قدرواضح ہے کہ غیر مسلم بھی غیر مسلم ملکوں میں کھڑے ہو کراس ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جو اصل یہودی ہیں وہ بھی فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں ۔ آج صبح بھی ایک بڑے ربی کا بیان میں نے اخبار میں پڑھا کہ اسرائیل کا اقدام انتہائی غلط اور ظالمانہ ہے ، فلسطینیوں کی زمینیں ان کے حوالے کر دینی چاہئیں ۔ گویا کہ اسرائیل کا غاصب ہونا سب پر واضح ہو چکا ہے۔ تاہم حماس کو جو دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے تو انتہائی غلط ہے ۔ کیا دہشت گرد تنظیم قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہے جیسا حماس نے قیدی یہودی عورتوں کےسا تھ کیا ؟ حالانکہ ان کے اپنے لوگ یہودیوں کے ہاتھوں شہید ہورہے ہیں ، مظالم کی انتہا ہے لیکن اس کے باوجود وہ قیدی یہودی عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ یہ مناظر تو پوری دنیا نے دیکھ لیے ہیں ۔مخالفین کی طرف سے پروپیگنڈا تو ہوتا ہی ہے جیسے اسرائیل نے کیا کہ حماس نے 40 بچوں کی گردنیں اڑا دیں ۔ یہ پروپیگنڈا اس قدر تیز تھا کہ امریکی صدر جوبائیڈن بھی اس کی رو میں بہہ گئے۔یہ دہشت گردی کا لیبل ایک بے بنیاد الزام ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کے چیمپئین بھی وہ حقوق نہیں دے سکے جو حماس حالت جنگ میں قیدیوں کو دے رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ سیاسی جدوجہد وہاں کی جاتی ہے ،جہاں کم از کم کوئی سیاسی حقوق تو موجود ہوں ۔ جمہوریت کا یا آزادی اظہاررائے کا تصور موجود ہو ۔ انصاف کا کوئی امکان ہو ۔ اسرائیل کی تو ابتدا ہی ظالمانہ اور غاصبانہ طور پرہوئی ہے ۔پھر یہ کہ 1948ء میںجن علاقوں پر اس کا قبضہ تسلیم کیا گیا تھا اس سے 70 گنا زیادہ علاقے پر آج یہ قابض ہو چکا ہے ۔1957-58ء میں فلسطینیوں کے 30 ہزار سے زیادہ گھروں کو مسمار کرکے یہودیوں نے اپنے لوگوں کو آباد کیا ۔ 1973ء کی جنگ کے بعد اسرائیل نے مستقل قبضہ کرلیا ۔ اس سارے ظالمانہ طرز عمل کے بعد اب بتائیے کہ فلسطینی کیا کریں ؟ جبکہ پوری اُمت مسلمہ بھی سوئی ہوئی ہو ، کوئی ان کے لیے آواز اٹھانے والا بھی نہ ہو تو ان کے پاس کونسا راستہ باقی رہ جاتاہے، سوائے اس کے کہ وہ جدوجہد کریں ۔ ظالم اور غاصب کے خلاف جہدوجہد کرنا تو تسلیم شدہ انسانی حق ہے ۔ ایسے لوگوں کو دہشت گرد کہنے والے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی کوشش کریں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
’’(اے نبیﷺ!)یہ آپ سے پوچھتے ہیں حرمت والے مہینے میں جنگ کے بارے میں۔کہہ دیجیے کہ اس میں جنگ کرنا بہت بڑی (گناہ کی) بات ہے۔لیکن اللہ کے راستے سے روکنا‘ اس کا کفر کرنا‘ مسجد ِحرام سے روکنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے کہیں بڑا گناہ ہے۔اور فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔‘‘ (البقرۃ:217)
غزوۂ بدر سے پہلے ایک کافر مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا تو مشرکین نے طوفان اُٹھا دیا کہ مسلمانوںنے حرمت والے مہینوں کا لحاظ نہیں رکھا ، آج کا زمانہ ہوتا تو کہا جاتا کہ یہ تو بڑے دہشت گرد ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آیت نازل فرمادی کہ ہاں حرمت والے مہینوں میں لڑنا گناہ ہے لیکن اس سے بڑے گناہ گار اور فساد پھیلانے والے تو وہ ہیں جو اللہ کا انکار کرتے ہیں، مسجد حرام سے روکنا ، لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال دینا ، فتنہ انگیزی پھیلانا ، یہ سب تمہیں نظر نہ آیا، ایک کافر کا قتل نظر آگیا ؟ 75 سالہ ظلم کے خلاف اگر حماس نے آج تھوڑا ردعمل دے دیا تو وہ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو نظر آگیا ، اسرائیل کی 75 سالہ دہشت گردی ، سفاکی ، قتل و غارت گری نظر نہیں آئی ؟ ایسی بے انصافی جہاں ہو وہاں مظلوم اپنے حق کے لیےنہ لڑے تو کیا کرے۔ آج اگر ہم فسلطینیوں کی جدوجہد آزادی کو غلط کہتے ہیں تو کل ہم کس منہ سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی بات کریں گے ۔
سوال: ایک وقت تھا جب اسرائیل فلسطینیوں پہ مظالم کرتا تھا تو وہ پاکستان کی طرف مدد کے لیے دیکھا کرتے تھے لیکن آج پاکستان اندرونی طور پہ اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ وہ پاکستان کا ذکر تک نہیں کرتے ۔کیا بحیثیت قوم یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے ؟
شجاع الدین شیخ : غزہ کے مسئلہ پر جب ہم نے کراچی پریس کلب کے سامنے ایک مظاہرہ کیا تو ایک صحافی نے پوچھا کہ پاکستان کی کیا پالیسی ہونی چاہیے ۔ میں نے کہا پاکستان کی پالیسی روزاول سے واضح ہے ۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے ، اگر وہ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کرے گا تو ہم پاکستان سے جواب دیں  گے ۔ اسی طرح لیاقت علی خان جب امریکہ کے دورہ پر گئے تو وہاں آفر کی گئی کہ اگر آپ اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو ہم پاکستان کو اتنا خزانہ دیں گے کہ اس کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے ۔ لیاقت علی خان نے تاریخی جواب دیا : "Gentelmen! our souls are not for sale" یہ پاکستان کی پالیسی تھی جس کے تحت 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اپنے پائلٹ فلسطینیوں کی مدد کے لیے بھیجے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی پاکستان کو مدد کے لیے پکارتے تھے ۔ چند سال قبل عید الفطر کے موقع پر فلسطینی اپنے بچوں کی لاشیں سڑک پر رکھ کر پکار رہے تھے کہ کہاں ہے پاکستان ؟ اور یہ بات اسرائیلیوں کو بھی معلوم تھی کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو عربوں کی مدد کر سکتا ہے ۔ 1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے کہا تھا کہ ہمیں مسئلہ عربوں سے نہیں بلکہ ہمارا اصل نظریاتی دشمن پاکستان ہے ۔ آج پاکستان اندرونی طور پربھی غیر مستحکم ہے اور سیاسی اور معاشی بحران کا بھی شکار ہے ۔ اوپر سے ہم امریکہ کی طرف اس قدر جھک گئے ہیں کہ کوئی آزاد خارجہ پالیسی نہیں رکھ سکتے ۔ یہ چیزیں دنیا کو بھی نظر آرہی ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مقتدر حلقوں کو اس کا احساس ہونا چاہیے اور پاکستان کے استحکام کو ترجیح دینی چاہیے ۔ البتہ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے حصے کا کام کریں ، حکمرانوں کو بھی جگائیں اور ان کے لیے دعا بھی کریں کہ اللہ ان کے دل میں امت کا درد اور اللہ کا خوف ڈال دے ۔
سوال:یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ اسرائیل کئی بار پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا plan بنا چکا ہے جو الحمد للہ اب تک ہر بار ناکام ہوتا رہا ہے ۔ یہ بتائیے کہ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلہ کے باوجود اسرائیل پاکستان کو اپنے لیے خطرہ کیوں سمجھتا ہے ، کیا اب بھی پاکستان اسرائیل کے لیے خطرہ ہے ؟ 
شجاع الدین شیخ :بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ  بڑا پیارا تجزیہ کرتے تھے کہ اگر اسرائیل 1948ء میں قائم ہوا ہے تو اس سے 9 ماہ پہلے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ ہر بیماری سے پہلے اس کا علاج پیدا کرتاہے ۔ یعنی اسرائیل اگر ایک بیماری ہے تو پاکستان اس کا علاج ہے ۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ساری مسلم دنیا میں بہترین تربیت یافتہ فوج اگر کسی کے پاس ہے تو وہ پاکستان ہے ۔ یہ واحد مسلم ملک ہے جس کے پاس ایٹمی صلاحیت ہے ۔ بہترین میزائل ٹیکنالوجی ہے ۔ تبھی تو کئی مرتبہ اسرائیل نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کیںجو اللہ کے فضل سے ناکام ہوئیں۔ یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مملکت خداداد سے بروقت کوئی کام لینا ہے۔ان شا اللہ! اس سےیہ بھی پتا چلتا ہے کہ اسرائیل آج بھی پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے ۔ اللہ کرے کہ ہمارے مقتدر لوگوں کو بھی اس کی سمجھ آجائے ۔
سوال: روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے عالمی معیشت بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔یہ بتائیں کہ حالیہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کی وجہ سے عالمی معیشت اور خاص طور پر پاکستانی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ 
شجاع الدین شیخ :بات بہت واضح ہے کہ جنگ کی قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے اور جنگ کے نتائج بھی سامنے آیا کرتے ہیں ۔پاکستان کو بھی یوکرائن سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ ایٹمی اثاثے چھن جانے کے بعد وہ اس کی کتنی قیمت چکا رہا ہے ۔ روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے معاشی بحران آیا ہے اسی طرح عرب ممالک چونکہ تیل اور گیس کا بڑا ذریعہ ہیں اس لیے عرب اسرائیل جنگ اگر طول پکڑتی ہے تو دنیا میں توانائی کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ بھی ہوگا ۔ یہاں چائنا کا بی آر آئی منصوبہ اور سی پیک بھی ہے تو دوسری طرف IMECبھی ہے ۔ لہٰذا یہاں اگر تنازعہ کھڑا ہوتاہے اور امریکہ بھی اس میں کود پڑتا ہے تو یہ عالمی سطح پر معاشی بحران کا باعث بن سکتا ہے ۔ بہرحال اللہ بہتر جانتاہے ۔ ہم تو یہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عافیت کا معاملہ کرے ۔
سوال:پاکستانی عوام مصیبت اور مشکل کی اس گھڑی میں اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کا سہارا کیسے بن سکتے ہیں؟
شجاع الدین شیخ :یہ بہت اہم سوال ہے کہ ہمارے بس میں کیا ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ دعا مومن کا بہت بڑا ہتھیار ہے اور یہ رسول اللہﷺ کی سنت بھی ہے ۔نمازوں کے ذریعے اللہ کی مدد کو متوجہ کرنا قرآن پاک کا تقاضا ہے۔ لوگوں کی ذہن سازی کی جائے ، رائے عامہ ہموار کی جائے ۔ یہود کی تاریخ ، اسرائیل کی تاریخ، اسرائیل کے مظالم، فلسطین کی تاریخی اہمیت اور مسجد اقصیٰ کے مقام کو لوگوں کے سامنے لایاجائے ۔ اس مرحلے پر امت کا کردار کیا ہونا چاہیے اس حوالے سے لوگوں کی ذہن سازی کریں ، اپنے بچوں کو تعلیم دیں ، ان میں شوق شہادت پیدا کریں ۔ جذبہ جہاد پیدا کریں ۔ استاد محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے بیانات ، خصوصاً ان کی کتاب’’سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی، حال اور مستقبل‘‘ اور مسلمانان پاکستان کی خصوصی ذمہ داری‘کی طرف لوگوں کو رغبت دلائیں ۔ احادیث کی روشنی میں مستقبل کا منظرنامہ جب عیسیٰ ؑ تشریف لائیں گے ،حضرت مہدی کا آنا ، دجال کا آنا اور اس کا قتل ہونا ، خراسان سے فوجوں کا جانا یہ سب منظر نامے ہمارے سامنے رہیں ۔ اس کے علاوہ جو لوگ فلسطینیوں کی مالی مدد کر سکتے ہیں وہ جن اداروں پر اعتماد کرتے ہیں ان کے پاس مدد جمع کروائیں ۔ پُرامن احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رکھا جائے کیونکہ جب فلسطینی دیکھیں کہ ان کے پیچھے دنیا بھر سے مسلمان کھڑے ہیں تو ان کا دل بڑا ہو گا ۔ پھر ان پُرامن مظاہروں سے دنیا کو بھی ایک پیغام جائے گا ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے حکمرانوں  کو غیر ت دلانے کی کوشش کریں ۔
آخری بات یہ عرض کروں گا آج اُمت کیوں ذلت ، رسوائی اور بے بسی کا شکار ہے۔ اس لیے کہ امت نے امت والا کام چھوڑا ہوا ہے ۔57 مسلم ممالک میں سے کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں اللہ کا دین نافذ ہو۔ ہمارے استاد محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ سب سے بڑے مجرم عرب ہیں کیونکہ ان کی زبان میں قرآن نازل ہوا مگر انہوں نے اس کو نافذ نہ کیا ۔ مجرم نمبر دو مسلمانان پاکستان ہیں جنہوں نے اسلام کا نعرہ لگا کر پاکستان حاصل کیامگر 75 سال سے شریعت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ۔ اسی وجہ سے آج ہم بے بسی اور ذلت کا شکار ہیں ۔ اگر دین کو ہم ترجیح دیں ،دین کے غلبے کی جدوجہد کریں ،دین کے نفاذ کی طرف بڑھیں تو اللہ کہتا ہے میںتمہاری مدد کروں گااور تمہارے قدموں کو مضبوطی عطا کروں گا، یہ ہمارے کرنے کے کام ہیں جو ہمارے بس میں ہے وہ ہم کریں اور جوحکمرانوں کے بس میں ہے ان سے مطالبہ رکھیں اور پھر اللہ سے دعابھی کریں یہ ہماری بنیادی دعوت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ مسلمانوں کی نصرت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!