(حالاتِ حاضرہ) پاکستان اور افغانستان تعلقات - تنظیم اسلامی کا مؤقف

11 /

پاکستان اور افغانستان تعلقات

تنظیم اسلامی کامؤقف

 

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو دین کے نام، دین کی خاطر اور دین کے نفاذ کے لیے بنا۔اس کا استحکام اور اس کی بقاء صرف اسلام میں ہے۔ پاکستان کے بنتے ہی قرار دادِ مقاصد میں اس عزم کا ببانگِ دہل اظہار کیا گیا۔پاکستان کی Destiny (تقدیر مبرم) اسلام ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جو عزم و اعلان کیا گیا تھا اس کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ لہٰذا دستور میں طے شدہ اسلامی تشخص اور اسلامی اقدار کو رائج و قوانین کو نافذ کیا جائے۔ فطرت کا اصول ہے کہ خلاء نے ہر صورت میں پُر ہونا ہوتاہے ۔ لہٰذا دستوری سطح پرنظریہ کے نفاذ کی طرف پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں مسلمانانِ پاکستان خصوصاً دین سے محبت کرنے والے اور دین پر عامل افراد عمل درآمد کے لیے دوسرے راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے یا ان کو اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے غلط راستوں اور طریقوں پر ابھارا جاسکے گا۔ایسی صورتحال میں دشمن قوتیں موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں گی اور ہماری قومی سلامتی اور ملکی بقاء کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیں گی ۔
بھارت جو روز اوّل سے پاکستان کا دشمن ہے اس نے اسی موقع سے فائدہ اُٹھایا اور بنگال میں لسانی ، نسلی اور علاقائی تعصاب کو ہوا دے کر 1971ء میں پاکستان کو دولخت کر دیا ۔ اس کے بعد بھی ہم نے سبق نہیں سیکھا اور نظریۂ پاکستان کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے سنجیدہ ہوئے اور نہ ہی اس کو ضروری سمجھا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت جیسی دشمن قوتوں نے بلوچستان سمیت دیگر کئی علاقوں میں نفرتوں اور تعصبات کے بیج بوئے ۔ اس نے افغانستان کی سرزمین کو بھی اپنے مکروہ مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی مغربی سرحد بھی ہمیشہ غیر محفوظ رہی اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے غیر معمولی افرادی اور مالی وسائل اور توجیہات کا بوجھ پاکستان کو اُٹھانا پڑا ۔ روس کے افغانستان پر بالواسطہ تسلط اور بعد ازاں بلاواسطہ قبضے کے خلاف جدوجہد میں پاکستان نے امریکہ کی مدد سے بھرپور کردار ادا کیا۔جس کی وجہ سے پاکستان افغانیوں کا اعتماد جیتنے میں کامیاب رہا ۔ روس کے انخلاء کے فوری بعد افغانستان جب خانہ جنگی کا شکار ہوا تو اس وقت بھی پاکستان نے تحریکِ طالبان کاساتھ دے کر افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ جس کے نتیجہ میں افغانستان کے% 99 علاقے پر افغان طالبان کی حکومت قائم ہوگئی۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات سمیت پاکستان نے اس حکومت کو تسلیم بھی کرلیا اور اس دوستی کے نتیجہ میں پاکستان کی مغربی سرحد پہلی بار محفوظ ہو گئی ۔ پاکستان نے مغربی دنیا کی مخالفت کے علی الرغم طالبان حکومت کو سپورٹ کیا۔
سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد امریکہ نے اپنا اگلا ٹارگٹ عالم اسلام کو بنایا اورنائن الیون کا ڈراما رچا کر افغانستان پر بھی چڑھائی کر دی ۔ اس موقع پر پاکستانی قیادت سے کئی غیر دانشمندانہ فیصلے ہوئے اور افغانستان کے خلاف امریکہ کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے کر افغان طالبان کی اسلامی حکومت کو گرانے کا سہرا اپنے سر باندھنے کی وجہ سے پاکستان نے ایک مرتبہ پھر افغانیوں کا اعتماد کھو دیا ۔ پاکستانی قیادت نے مزید غیر دانشمندانہ فیصلے کرتے ہوئے امریکہ کی ایما پر پاکستان کے پُر امن قبائلی علاقوں میں فوجی کاروائیاں شروع کردیں ۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کی حدود کے اندر ڈرون اور فضائیہ کے حملوں اور اُن کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ انہیں اپنی کاررروائیاں قرار دیا ۔ ان حالات میں قبائلی علاقوں کے غیور اور مسلح عوام کا تین گروہوں میں منقسم ہوناایک فطری عمل تھا ۔ (1)۔ دین و شریعت سے مخلص عناصر جو بنیادی طور پر طالبانِ افغانستان کے جہاد کی کمک اور رسد میں مصروف اور فعال تھے۔ (2)۔وہ جو علاقے میں ظلم و بربادی پر پاکستان کی خاموشی بلکہ امریکہ کی پشت پناہی کے رد عمل میں پاکستان اور پاک فوج کے خلاف برسرِپیکار ہوگئے ۔ (3)۔ وہ جو امریکی، بھارتی اور افغانی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئے ۔ان میں سے دوسرے اور تیسرے گروہ نے مل کر تحریک طالبان پاکستان کی شکل اختیار کر لی اور غیر ملکی ایجنسیوں اور دشمن قوتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں حالات کی پیچیدگی اور انتشار کا باعث بنے ۔ نتیجتاً پاکستان کے ناصرف سرحدی بلکہ شہری علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات بڑھے اور 80 ہزار جانیں ضائع ہوئیں ۔ان حالات میں پاکستانی قیادت کے غیر دانشمندانہ فیصلوں اور دہری پالیسی کے باعث یہ تاثر عام ہونے لگا کہ ’’دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے۔‘‘
ہم دہشت گردی یعنی عوام الناس میں قتل و غارت کے ذریعے خوف و حراس پھیلانے کے قطعاً خلاف ہیں اور اس کی پُرزور مذمت کرتے ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف واضح ثبوت کے ساتھ قانونی کارروائی اور قانون کے مطابق بیخ کنی کا اہتمام ہونا چاہیے۔
مزید براں ہمارا مشورہ ہے کہ افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ اسلامی اخوت کے اصول کو بنیاد بنا کر حل کیا جائے۔ قریباً 40 سال قبل جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اسلامی اخوت اور بھائی چارہ کے اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزینوں کو مملکتِ خداداد میں جگہ دی۔طویل عرصہ سے پاکستان میں بسنے والے ان افغان پناہ گزینوں کی آج تیسری نسل پاکستان میں موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک بڑی تعداد میں افغان، پاکستان میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے اور اگرچہ غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہو جانا اور ٹھہرنا ہماری انتظامی مشینری کی بڑی ناکامی ہے تاہم اب اصولی طور پر ہمیں ناپسندیدہ عناصر کی چھان پھٹک کر کے اُنہیں الگ کرنا چاہیے اور باقی سب کی رجسٹریشن کا سلسلہ شروع کیا جانا چاہیے۔ یکطرفہ طور پر یہ فیصلہ نہیں کر لینا چاہیے کہ افغان فوری طور پر اور اتنے قلیل وقت میں ملک سے نکل جائیں بلکہ ہمیں افغانستان سے مذاکرات کرکے اور افغان حکومت کو اعتماد میں لے کرافہام و تفہیم سے یہ فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ ایک طرف ہمارے خدشات ختم ہو جائیں اور دوسری طرف افغانستان بھی اُنہیں سنبھالنے کا مناسب بندوبست کر سکے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو موجودہ حالات تک پہنچانے کے عوامل کا بھی غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جانا چاہیے ۔موجودہ انتشار اور منافرتوں کے حوالے سے بھی تشخیص و تفتیش ہونی چاہیے کہ یہ کس وجہ سے پیدا ہوئیں ۔ ان نفرتوں اور تعصبات کو ختم کرنے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے حوالے سے بھی عملی اقدامات اُٹھائے جانے چاہئیں۔ہماری رائے میں یہ منافرتیں اور تعصبات اُسی صورت میں ختم ہو سکتے ہیں جب ہم دوبارہ اپنی اصل بنیاد کی طرف لوٹ آئیں ۔ہم دستورِ پاکستان میں اسلامی شقات کو مؤثر بنانے اور ان کے نفاذ کے لیے دعوت، تربیت اور احتجاجی منہج کے قائل ہیں۔اسلام ہی واحد مشترکہ میراث ہے جس پر ہم سب دوبارہ اکھٹے ہو سکتے ہیں ۔ اس کی طرف پیش قدمی ہمارے درمیان دوبارہ ہم آہنگی اور یکجہتی کی فضا پیدا کر سکتی ہے ۔ نفاذ اسلام کی طرف عملی پیش رفت قیام عدل کو ممکن بنائے گی اور اس صورت میں ظلم و ستم کے شکاراور ناراض حلقوں میں دوبارہ امید پیدا ہوگی ۔ موجودہ حالات میں افغانستان کی اسلامی حکومت کو تسلیم کرنا اور ان کے ساتھ تمام سفارتی و تجارتی تعلقات وغیرہ بحال کرنا بھی ان منافرتوں میں کمی کا باعث بن سکتاہے ۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہماری مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ بھارت اور امریکہ کا واضح گٹھ جوڑ ہے اور ان دونوں کی پاکستان کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے موثر توڑ کے لیے افغانستان کی اسلامی حکومت کے ساتھ عسکری / دفاعی اتحاد وقت کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اور پالیسی میکرز کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے ۔
پاکستانیوں کی واضح اکثریت اسلام کو پسند کرتی ہے جبکہ امریکی غلامی سے سخت نفرت کرتی ہے ۔ امریکہ کی بالفعل غلامی سے نجات اور آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کرنے ، پاکستان میں اسلامی اقدار کو فروغ دینے ، شریعت ِاسلامی کے عملی نفاذ کا اہتمام کرنے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اسلامی فریضہ سرانجام دینے ، خصوصاً معیشت کو سود سے پاک کرنے اور اسے اسلامی خطوط پر استوار کرنے ، فحاشی، عریانی / بے پردگی کا خاتمہ و مخلوط تعلیم و معاشرت پر پابندی، ذرائع ابلاغ / میڈیا اور اجتماعی محافل کو اسلامی اقدار کے تحت لانے کے حوالے سے عملی اقدامات اکثریت کا اعتماد بحال کرنے کا موجب ثابت ہوں گے اور دوسری طرف اسلام کے نام پر متشدد یا عسکری منہج اختیار کرنے والوں (TTP) کے وجود کا جواز بھی ختم ہو جائے گا ۔ نیز علماءِ کرام کے فتاوٰی کے پیش نظر اسلامی ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد واقعتاً بلا شک و شبہ حرام قرار پائے گی۔پاکستان کے قبائلی علاقہ جات اور قبائلی عوام کی حق تلفیوں/ زیادتیوں کا ادراک و اعتراف اور ازالے کے لیے اعلانیہ، واضح اور حقیقی اقدامات کے اہتمام سے PTM کے وجود کا جواز بھی ختم ہو سکے گااور اس طرح اسلام کی طرف پیش رفت سے ہم ایک بار پھر بحیثیت پاکستانی قوم منظم اور متحد ہوکر بیرونی دشمنوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو ں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔