(اداریہ) جنگ کے سائے میں تنظیم اسلامی کا سالانہ اجتماع - ایوب بیگ مرزا

11 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

جنگ کے سائے میںتنظیم اسلامی کا سالانہ اجتماع

تنظیم اسلامی کا سالانہ اجتماع اس مرتبہ اِن حالات میںمنعقد ہو رہا ہے کہ فلسطینی مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ چکی ہے۔ کہنا تو ہمیں یہ چاہیے تھا کہ امتِ مسلمہ پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے، لیکن امتِ مسلمہ کہیں دکھائی دے رہی ہوتی تو ہم اُس کا ذکر کرتے۔ دنیا بھر کے مسلمان تو بعد کی بات ہے ہمیں تو عرب بھی متحد نظر نہیں آتے۔ یو اے ای کا رخ کچھ اور ہی نظر آ رہا ہے۔ اُس کی ایک خاتون وزیر نے کھلم کھلا حماس پر تنقید کی ہے۔ جذباتیت سے ہٹ کر اگر منطق کو اِس رویے کی بنیاد بنا کر غور و فکر کریں تو مسلمانوں کی یہ ٹوٹ پھوٹ دو اور دو چار کی طرح واضح نظر آتی ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ وہ ہستی جسے مسلمان نظریاتی طور پر اور زبانی طور پر کائنات کی عظیم ترین ہستی قرار دیتے ہیں اور جن کے بارے میں ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت اختتامی ہی نہیں تکمیلی بھی ہے اور دائمی بھی ہے یعنی حضرت محمد ﷺ۔ اُنہوں نے تو مسلمانوں کو ایک لڑی میں پڑو کر ایک ہی جسد قرار دیا تھا۔ اس سے وہ امت وجود میں آئی جو امتِ مسلمہ کہلائی جس کے ایک حصے کی تکلیف اور درد دوسرے حصہ کو خود پہنچ جاتا، لیکن جب مسلمانوں نے امت کے بانی اور حقیقی رہنما سے اپنے تعلق کوکمزور کر لیا، پھر علاقائی اور ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس نے مسلمانوں کو بُری طرح بکھیر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امت ِمسلمہ کی اصطلاح تقریروں اور تحریروں تک محدود ہو کر رہ گئی اور اُس کا وجود عملاً ختم ہوگیا۔
یہی وجہ ہے کہ آج یہودی نام کی وہ قوم جسے اللہ تبارک و تعالیٰ مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیتا ہے، مسلمان مرد اور عورتوں کے ہی نہیں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے اجسام کو پرزے پرزے کر کے ہوا میںاچھال رہا ہے۔ایسے میں مسلمان عملی طور پر کچھ کرنے کی بجائے بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اسرائیل کی زبانی مذمت کر رہے ہیں ۔ فلسطینیوں کو محض جھوٹی سچی تسلیاں دے رہے ہیں۔ ان میں اتنی جرأت نہیں کہ اسرائیل کے خلاف ایسے اقدامات کریں جس سے اسے یا اُس کے سرپرست امریکہ اور یورپ کو سفارتی ، معاشی اور تجارتی سطح پر کوئی نقصان پہنچے۔
اسرائیل کی نگاہِ بد اِس وقت مسجد اقصیٰ پر مرکوز ہے جسے وہ زمین بوس کر کے تھرڈ ٹمپل قائم کرنا چاہتا ہے۔ جن عرب علاقوں پر قبضہ کرکے وہ اُنہیں گریٹر اسرائیل کا حصہ بنانا چاہتا ہے وہاں کے عربوں کو صلح و صفائی اور امن و امان کا چکر دے کر اپنے جال میں پھنسا رہا ہے ۔ عرب حکمرانوں کے قلوب و اذہان کو اقتدار اور دولت کے نشہ نے اس بُری طرح جھکڑا ہوا ہے کہ وہ دشمن کے اصل وار کو سمجھ ہی نہیں پا رہے۔ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اگر مسلمان امریکہ اور اسرائیل کے سامنے اچھے بچے بن کر رہیں گے تو اُن کا اقتدار بھی قائم رہے گا اور عرب امن و امان میں بھی رہیں گے۔ سوال یہ ہے اور یہ ہے بھی بڑا اہم سوال جس کا جواب فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے ، کہ کیا اسرائیل عرب حکمرانوں کے اقتدار کی خاطر اور عرب عوام کے امن و امان کی خاطر اپنا گریٹر اسرائیل کا منصوبہ تج کر دے گا جو اُن کے مذہبی عقیدے کا جزو لاینفک ہے؟ کوئی نادان ہی اس کا جواب اثبات میں دے سکتا ہے۔ بہرحال ہم نے امتِ مسلمہ پر رونا دھونا اور فلسطینیوں کی اس انتہائی مخدوش حالت پر اپنے غم کا اظہار ہی کر سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم فرمائے!
اب ہم تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع کے حوالے سے رفقاء کے سامنے اپنی چند گزارشات رکھیں گے۔ اُمتِ مسلمہ کے لیے اللہ اور اُس کے آخری رسول ﷺ نے سال میں دو دن بطور عید مقرر کیے، یکم شوال کو عید الفطر سے موسوم کیا گیا اور دس ذوالحجہ کو عیدالاضحی کا نام دیا گیا۔ ان دو دنوں کے علاوہ کسی تیسرے دن کو عید
قرار دینا یقیناً بدعت ہے۔ اللہ اور رسولﷺ کی منشاء کے خلاف ہے۔ البتہ اسے محض لغوی معنی کے حوالہ سے دیکھا جائے تو اس کا مطلب ہے لوٹ کر آنے والا دن۔ اور اس میں خوشی اور اظہار مسرت کا عنصر بھی مضمر ہے۔ اس لیے کہ اُس ماہ مبارک کو پا لینا جسے اللہ رب العزت نے اپنا مہینہ کہا ہے اور اُس کی ایک رات کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا اور ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم سنت کو ادا کر لینا، اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہوگی کہ ایک مسلمان کی زندگی میں یہ خوشیوں بھرے دو تہوار لوٹ لوٹ کر آئیں۔ چنانچہ اردو زبان میں لفظ ’عید‘ کو خوشی اور جشن کا مترادف قرار دیا گیا۔ اسی لیے کہا اور لکھا جاتا ہے کہ ’’فلاں کی تو عید ہوگئی‘‘۔ یہ عید ہر انسان کی اپنی سوچ، فکر، خواہشات اور ترجیحات کے مطابق ہوتی ہے۔ مثلاً اپنے کاروبار اور تجارت کو ترجیح اوّل دینے والے تاجر کا مال دُگنی اور چوگنی قیمت پر فروخت ہو جائے تو اُس کی عید ہو جاتی ہے۔ ایک سماجی کارکن جب رضا کارانہ طور پر کسی کی مدد کرتا ہے تو اُس کا دل خوشی سے معمور ہو جاتا ہے۔ ایک سیاسی کارکن جب اپنے لیڈر کا جلسہ کامیابی سے منعقد کراتا ہے یا اپنے حلقہ سے اسمبلی کا ممبر بنواتا ہے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتا، اس لیے کہ سیاست سے دلچسپی کے علاوہ اُس کے ذاتی مفادات بھی اس کامیابی سے وابستہ ہیں۔ گویا لغوی معنی قدرے مختلف ہونے کے باوجود اُردو زبان میں عید خوشی اور مسرت کا مترادف لفظ سمجھا جاتا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو کسی تحریک کا سالانہ اجتماع بھی کارکنوں کے لیے عید کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ اس وقت جو اُفسردگی اور رنج و غم کا ماحول اور فضا ہے۔ اس میں کسی خوشی کا تصور تو سرے سے نہیں ہے لیکن اجتماع کی اہمیت میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ امت ِمسلمہ کے زوال کے خاتمے اور عروج کا تصور بھی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسلامی نظام مسلم ممالک میں رائج نہیں ہو جاتا اور صحیح معنوں میں امت ِمسلمہ وجود میں نہیں آ جاتی۔ لہٰذا اس ہدف کو اپنا نصب العین بنا کر کسی تحریک کے کارکنوں کا مل بیٹھنا آج پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ تنظیم اسلامی کے رفقاء چونکہ رضائے الٰہی کے لیے اقامتِ دین کی جدوجہد میں ہم سفر اور ہم رکاب ہیں، لہٰذا ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد دیکھ کر اُن کے ایمان کو جِلا ملتی ہے۔ ملک کے کونے کونے اور بیرون ملک سے آئے ہوئے رفقاء کو اپنے فکری اور تحریکی بھائیوں سے مل بیٹھنے کا موقع میسر آتا ہے۔ اس باہمی رابطہ سے اخوت و محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ تبادلۂ خیال سے فکر میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ دنیوی اُمور اور روٹین کے کاموں سے بالکل الگ تھلگ ہو کر ایک پاکیزہ ماحول میں ایک کارکن کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ماضی میں ہونے والی اپنی کوتاہیوں پر نگاہ ڈالے، اللہ اور اس کے محبوب رسولﷺ جن چیزوں کو ناپسند کرتے ہیں، اُن سے ہجرت کا عہد کرے اور باقی ماندہ زندگی میں اللہ کی غیر مشروط بندگی اور رسول کریم ﷺ کی پیروی کا عزم کرے۔
رفیق محترم! دنیا کے جھنجھٹ میں ان چیزوں پر غور کرنے کا موقع کہاں میسر آتا ہے۔ انسان صرف اتنی بات پر غور کر لے کہ 60 یا 70 سالہ زندگی کو آسودہ اور خوشنما بنانے کے لیے اسے کولہو کا بیل بننا پڑتا ہے تو ابدی اور لامحدود زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے کس قدر محنت درکار ہوگی۔ کیا ہم مطلوبہ محنت کر رہے ہیں؟ جواب کیا ہوگا اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
رفیق محترم! یہ دینی ذمہ داریاں ایک مسلمان کو عام حالات میں ادا کرنا ہوتی ہیں۔ آج مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حالات عام نہیں، خاص ہیں۔ محلاتی سازشوں نے بدترین سیاسی عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔ سودی معیشت، کرپشن اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں نے ملکی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کے سوا کچھ نہیں دیا۔ جس سے عوام میں سخت بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ مقتدر قوتیں اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں گویا داخلی سطح پر ملک افتراق اور انتشار کی لپیٹ میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانانِ پاکستان ایمان کے فقدان کی وجہ سے دنیوی دولت، اقتدار اور قوت کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اس پس منظر میں ایک رفیق کی ذمہ داریاں دو چند ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ اس وقت ہم ایک ایسی کشتی کے سوار ہیں جو خوفناک طوفانی لہروں کی زد میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ بدقسمتی سے اسے اندر سے بھی کچھ لوگ پھاڑ رہے ہیں اور خارجی طور پر امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا ابلیسی اتحاد اسے ہر صورت غرق کرنے کے درپے ہے۔
رفقاء گرامی! اس کشتی کو حفاظت اور سلامتی سے کنارے لگانا ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانانِ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ پاکستان کو خوش حال اور مستحکم کرنے کی جدوجہد اور اُخروی نجات کے لیے دینی ذمہ داریاں ادا کرنا درحقیقت ایک ہی سمت میں محنت اور جانفشانی کا تقاضا کرتی ہیں، یعنی اگر پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہو جائے تو پاکستان نہ صرف ناقابل تسخیر ہو سکتا ہے بلکہ سپر پاور آف دی ورلڈ بن کر اُبھر سکتا ہے اور جو لوگ اسے اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں کردار ادا کریں گے، وہ اللہ کی رضا پا کر امر ہو جائیں گے۔ وہ دنیا میں سرفراز ہوں گے اور جنت اُن کی منتظر ہوگی۔ بصورتِ دیگر سیکولر پاکستان میں ہم دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔ ہم مکڑی کی طرح ایسا جال بُن لیں گے جس میں خود ہی پھنس کر ہلاک ہو جائیں گے۔ خارجی صورتِ حال بالخصوص اپنے اردگرد کی فضا پر غور کیجئے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے۔ کشمیر جسے ہم اپنی شہ رگ کہتے ہیں اُس پر اُس نے اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔ ہر دوسرے دن ہمارا پانی بند کرنے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے مسلمان بھائیوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے۔ آزاد کشمیر کے حوالہ سے اپنے مذموم عزائم کا کھلے عام اعلان کر رہا ہے۔
رفقاء کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ گریٹر اسرائیل اور موجودہ جاری اسرائیل اور فلسطینیوں کی جنگ سے پاکستان کا کیا تعلق جڑتا ہے۔ گریٹر اسرائیل قائم کرنے کے آخری مرحلے میں جب اسرائیل فیصلہ کن جنگ شروع کرے گا تو وہ کسی صورت یہ رسک نہیں لے گا کہ کسی اسلامی ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں لہٰذا پاکستان کو خواہی نخواہی جنگ کا حصہ بننا پڑے گا کیونکہ پاکستان اگر اپنے ایٹمی ہتھیار سرنڈر کرتا ہے تو بھارت پاکستان پر چڑھ دوڑنے کے لیے کوئی وقت ضائع نہیں کرے گا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل ایک ابلیسی اتحاد میں بندھے ہوئے ہیں جس کا اصل ہدف مسلمانوں کو دنیا سے نیست و نابود کرنا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل جو مشرق وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل کے راستے کی ہر رکاوٹ دور کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اب ایٹمی پاکستان کو اپنے ہدف کے حوالے سے آخری رکاوٹ سمجھ رہا ہے لہٰذا بھارت کے ساتھ مل کر خوف ناک سازشیں تیار کر رہا ہے۔ امریکہ جسے ہم اپنا آقا اور محافظ سمجھتے ہیں، وہ اسرائیل کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا ہے اور آئے دن اپنے ناجائز مطالبات منوانے کے لیے ہمارا بازو مروڑتا ہے۔
رفقاءِمحترم! اپنی دنیا سنوارنے، پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے اورآخرت میں کامیاب ہونے کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اقامت دین کی جدوجہد میں عملاً اپنا تن من دھن لگا دیں، اب محض باتوں سے کام نہیں چلے گا۔ پانی سر سے گزرنے کو ہے، فیصلہ کیجیے: دل یا شکم۔ اس سالانہ اجتماع میں صف بستہ ہو کر دیگر رفقاء سے کندھے سے کندھا ملا کر اس عہد کو تازہ کریں کہ میرے رب نے اقامتِ دین کی جدوجہد کا جو فریضہ مجھ پر عائد کیا ہے، اُسے اپنے دنیوی اُمور پر ترجیح دوں گا۔ جس قدر ہو سکا، دین کی دعوت خاص و عام تک پہنچاؤں گا اور ایسے مثالی نظم کا مظاہرہ کروں گا کہ حکم ملنے پر قدم بڑھاؤں گا اور حکم ملنے پر رک جاؤں گا۔ اقامتِ دین کی جدوجہد میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے والے لوگ یقیناً دنیا کے خوش قسمت ترین لوگ ہیں۔ اے اللہ رب العزت! ہم سب کو اپنا عہد نبھانے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں عہد شکنی کی لعنت سے محفوظ فرما۔ آمین یا رب العالمین!