(کارِ ترقیاتی) درندہ بے دنداں و چنگ ! - عامرہ احسان

7 /

کارِ تریاقی

درندہ بے دنداں و چنگ !عامرہ احسان

ہر گزرتے دن کے ساتھ جدید دنیا کی خوفناک، سفاک جنگ سبھی کو شدید دھچکے، صدمے سے دوچار کیے دے رہی ہے۔ اندھی بہری بلا بن کر ٹوٹ پڑنے والے خون آشام اسرائیل کو کون روک سکتا ہے؟ (مڈل ایسٹ آئی میں جوناتھن کک لکھتا ہے کہ ’دھوکا مت کھائیے!یہ صرف امریکا کے اختیار میں ہے کہ وہ غزہ میں موت اور تباہی ختم کروا سکے مگر وہی اس وقت قتلِ عام کا (شریک) ذمہ دار ہے۔ اسرائیل کو کھلی چھٹی دی ہے کہ جتنے چاہو مار ڈالو! فلسطینی جان کی کوئی قیمت نہیں! ‘) اتنی بے پناہ درندگی، وحشت ایک پوری قوم میں کیونکر سرایت کرگئی؟ 1948ء یوم نکبہ اور قیام اسرائیل کے پسِ پردہ دجل فریب، ظلم کی خونچکاں داستان میں بھی مسلمانوں کے خلاف ابلیسی تکبر، حسد، ضد، کینہ پروری مضمر ہے۔ (خیبر، مدینہ تا ارضِ فلسطین)۔ اقبال اس قوم کی سفاکی کی بنیادی وجہ (اللہ کے احکام کی حد شکنی کرتے ہوئے) سودخوری بتاتے ہیں۔
از رِبا جاں تیرہ دل چون خشت و سنگ
آدمی درندہ بے دنداں و چنگ
سود خوری سے روحِ انسانی میں گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے اور دل اینٹ پتھر سا بن جاتا ہے۔ ( قرآن یہودکو پتھر سے بھی زیادہ سخت دل کہتا ہے!) آدمی چیر پھاڑ کرنے والے دانتوں اور پنجوں کے بغیر درندہ بن جاتا ہے!
ایں بنوک ایں فکر چالاک یہود
نورِ حق از سینۂ آدم ربود
سود خوری پر عیار، مکار یہودی نے بینکوں کے جال بچھا دیے۔ سود نے انسان کے سینے سے نورِ حق سلب کرلیا۔ ع
’’سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات‘‘
یاد رہے کہ سود ہر پیغمبر کی لائی شریعت میں حرام رہا۔ پروٹسٹنٹ عیسائیت نے پوپ سے سود حلال ہونے کا فتویٰ حاصل کیا۔ مسلمان البتہ احکام سے منہ موڑے پاکستان کی طرح حرام کھا کھلا رہا ہے۔ خود عالمی سودی قرضوں کے بھنور میں پھنسا قوم سمیت چکرایا پڑا ہے۔ جو قتلِ عام معاشی سطح پر افراد اور اقوام کو سودی قرضوں کی لعنت سے اٹھانا پڑتا ہے، وہی سفاکیت سودخور یہود کے روئیں روئیں میں اُتر گئی۔ مسلسل ان کے 5 وزرائے اعظم، فلسطینیوں کے قتلِ عام اور جبر وقہر کے ساتھ ان کی املاک و جائیداد پر ناجائز قبضے کے ازلی مجرم رہے۔ عالمی مغربی طاقتوں کی 75 سالہ پشت پناہی نے اسے بھاری جرائم پر مزید شیر کردیا۔ اسرائیل کا ہر نیا اقدام اس کے گھناؤنے کردار کا تعفن مزید بڑھا دیتا ہے۔
شمالی غزہ میں الشفاء ہسپتال پر درندگی کی انتہا کردی۔ تمام انسانی، طبی ضروریات سے محروم کرکے بمباریوں کا نشانہ بنا کر (جنگی جرم) ٹینکوں بلڈوزروں سے محاصرہ کیا۔ 15 نومبر کو 200 افراد اٹھا کر لے گئے۔ حماس کا ہیڈ کوارٹر ہونے کا خودساختہ بلاثبوت الزام لگاکر 650 مریضوں، 36 شیرخوار، 700 میڈیکل اسٹاف پر بائیڈن کی اجازت سے اسرائیلی فوج نے دھاوا بول دیا تھا۔ ہسپتال میں اجتماعی قبریں کھود کر 120 شہداء کو دفن کردیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے 18 نومبر کو بلڈوزر سے قبریں کھود ڈالیں اور 100 لاشیں نکال کر لے گئے، غزہ حکومت، میڈیا آفس اہلکار نے بتایا جس سے لواحقین اور اہلِ غزہ میں شدید رنج وغم اور تشویش پھیل گئی۔ پہلے بھی ایسی خبر آچکی کہ شہداء کے اجسادِ خاکی اسرائیلی (عیاذاً باللہ) لاشوں سے جلد اُتارکر طبی مقاصد و تجربات کرنے کے لیے اٹھا لے گئے۔
اسرائیلی فوج شمالی غزہ میں آدھے گھنٹے میں انخلاء کا حکم دیتی ہے۔ غزہ کا صحافی اپنے خاندان اور ہمسایوں کے ہمراہ نکلتے ہوئے منظر فلماتا ہے (جو سی این این پر دیکھا جاسکتا ہے)۔ باہر تحفظ کی توقع تھی وعدے کے مطابق مگر ساتھ ہی سر پر ڈرون اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ شروع ہوجاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمسائے کا جوان بیٹا احمد گولیوں کا نشانہ بن کر خون میں لتھڑ جاتا ہے۔ باپ ابواحمد فریادی ہے۔ ’میں نے کہا تھا مت نکلو!‘ مگر اہلِ غزہ کے لیے (خود یو این ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق بھی) کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ اس واقعے سے ثابت ہے کہ انہیںیہ اختیارضرور حاصل ہے کہ گھر رہ کر بمباری سے مریں یا باہر نکل کر گولیاں کھا کر، خاندان کے کچھ افراد کی قربانی دے کر نقل مکانی کریں۔ صحافی نے یہ فلمایا تاکہ دنیا حقیقت خود یکھ لے۔ اسرائیلی، طاقت کے بل بوتے پر میڈیا پر جھوٹ اُگل رہے ہیں! چہار جانب پوری بے حیائی ڈھٹائی سے نہ صرف اسرائیلی فوج کی درندگی جاری ہے بلکہ مغربی لیڈر، امریکی حکومت ڈٹ کر اس کی پشت پناہ ہے۔ انسانی حقوق کے بے شمار اداروں، جنیوا کنونشنز ہیگ کی عالمی عدالت برائے انصاف، لاکھوں صفحات پر مشتمل مقالوں کے ہوتے ہوئے یہ خونخواری کیونکر جاری ہے؟
اصلاً مغربی تہذیب کی سرشت میں یونانی فلسفہ ٔحیات پیوست ہے جو رومی بادشاہوں کے ہاں قانون اور طرزِ حکمرانی تھا۔ اُن کے ہاں مخالفین اور باضمیر انسانوں کو خوفناک طریقوں سے ایذا رسانی اور تشدد دینا، قتل و غارت گری ہی کا چلن تھا۔ ارسطو کا قول تھا: یونانیوں کے لیے غیرملکیوں کے ساتھ وہی برتاؤ واجب ہے جو وہ حیوانات کے ساتھ کرتے ہیں۔ نیتن یاہو نے برملا فلسطینیوں کو ’انسانی جانور‘ اسی فلسفے کے تحت قرار دیا تھا۔ (مسلمان کو تو جانور ذبح کرنے میں بھی رحم کی تعلیم دی گئی ہے!) (اس فلسفے کے تحت ہی سکندراعظم نے ایک جگہ 20ہزار پکڑ کر قتل کروا دیے اور 30ہزار غلام بناکر فروخت کردیے۔) دہشت گردی کی جنگ جو امریکی اتحادیوں نے مل کر افغانستان، عراق میں لڑی، اِس دوران ابوغریب، باگرام، گوانتانامو کی بے شمار سفاکانہ تفاصیل آج بھی شائع شدہ موجود ہیں۔
دمشق میں سیدنا عیسیٰ ؑکی واپسی/ نزول اور ’غوطہ‘ (شام) میں احادیث میں مذکور سیدنا مہدی کے ہیڈ کوارٹر کی پیشین گوئی کی بنا پر بشار الاسد کو مامور کرکے 2011ء سے آج تک غزہ کے سارے مناظر وہاں بنائے گئے۔ پورے ملک میں 7 فیصد اقلیت (نصیری) کا نمائندہ بشار، عظیم اکثریت پر نیتن یاہو جیسا حکمران ثابت ہوا۔ ایک کروڑ 20 لاکھ شامیوں کو بے دخلی/ انخلاء کا سامنا کرنا پڑا جان بچانے کو۔ ساڑھے 30لاکھ شہری 2021ء تک اندھا دھند غزہ نوعیت کے حملوں، بمباریوں، (ممنوعہ) کیمیائی حملوں کی قیامت میں لقمۂ تر بنے۔ شام دنیا میں شہری انخلاء کا سامنا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے 2022ء تک۔ شامی مسلمان پورے خطے میں جبری بے دخلی کا نشانہ بنے، یو این کے مہاجرین کے ادارے کے مطابق۔ شام میں سرکاری فوٹو گرافر ریکارڈ لے کر باہر بھاگ گیا۔ وہاں سے اس نے فاقوں سے مارے گئے شامی قیدیوں کے ڈھانچوں کے ڈھیروں اور لاپتا قیدیوں کی شناخت کے لیے ان کی اصل تصاویر شائع کروا دیں جو اتنی ہی لرزہ خیز تھیں جتنے آج کے ظلم! پہلے امریکا بعدازاں یہ جنگ روس، ایران اور حزب اللہ کی مدد سے بشار الاسد نے لڑی۔ تاہم یہ دنیا کی توجہ اس طرح نہ پاسکی جو اَب غزہ پر قیامت کی شدت پر سب تڑپ اٹھے ہیں۔ اس میں بہت بڑا حصہ آج کی مغربی نوجوان نسل کا کردار اور میڈیا کا برمحل بے لاگ استعمال کا ہے۔
9نومبر کو دنیا بھر میں ’شٹ ڈاؤن برائے فلسطین‘ دن منایا گیا۔ دنیا بھر کی متحرک تنظیموں نے اس کا اشتہار دیا اور اہتمام کیا۔ ’ہم انسانی تاریخ کے یوں گزر جانے کا خاموشی سے انتظار نہیں کرسکتے۔ اپنی شناخت سے بالاتر ہوکر ہمیں فلسطینی سڑکوں سے اٹھتی پکار کا جواب دینا ہے۔ ان کے قتل عام کے خلاف اقدام کرو۔ فلسطینی شاعر نے کہا تھا: ’خوف ہمیں بچا نہیں سکے گا اور خاموشی ہم پر سے (قتل عام کی) ذمہ داری ختم نہ کرسکے گی!ٹریڈ یونین، جوان، طالب علم، میڈیا، طبی کارکن، سوسائٹی کا ہر فرد دباؤ بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالے۔ مارچ، واک، دھرنے، ہڑتالیں، دیگر اقدامات، سیاسی دفاتر، بزنس، ادارے جو اسرائیل کے قتل عام میں، قابض ہونے میں سرمایہ کاری کے ذریعے شراکت کرتے ہیں، ان سب مقامات تک پہنچو۔ دباؤ ڈالو۔‘ جتنا ولولہ انگیز اور جذباتی یہ اشتہار تحریک اٹھانے والوں نے دیا ہے،وہ ہم مسلمانوں کو آئینہ دکھا رہا ہے۔
راقمہ نے افغانستان، عراق، شام کی جنگوں میں مغربی اقوام کے کردار پر سینکڑوں صفحے سیاہ کیے۔ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر! اب فلسطینی شہداء کے خون کی خوشبو (کتنی ہی وڈیوز گواہ ہیں) سے معطر ہواؤں کے جھونکے اور اس عظیم قوم کے بے مثل عزم نے دنیا میں ہر باضمیر انسان کو اُٹھاکھڑا کیا۔ (دنیا بھر میں اتنی بے شمار ریلیاں منعقد ہوئیں کہ صفحات تفاصیل سے بھر جائیں۔ سبحان اللہ! دکھ ہے تو لمز یونیورسٹی میں ناچتی (14نومبر) تھرکتی’ مسلم ‘ طالبات کا!) اللہ ان مغربیوں کی روشن ضمیری کو قبول کرکے ان کے وعدۂ الست کے نور کو مکمل کردے۔ ایسے ہر فرد کے لیے رب کے در پر ایمان کے لیے ، جہنم کی آگ سے اپنی اور ان کی نجات کے لیے دعاگو رہتی ہوں جوان ظالموں کے خلاف اپنی قوتیں صلاحیتیں پوری سچائی سے لگا رہے ہیں۔