(زمانہ گواہ ہے) دہشت گردی اور پاک افغان تعلقات - محمد رفیق چودھری

7 /

کون نہیں جانتا کہ امریکہ اور انڈیا نے TTPاوردیگر دہشت گرد تنظیمیں فساد

کے لیے کھڑی کی تھیں اب وہ مذاکرات کامیاب کیوں ہونے دیںگے: ایوب بیگ مرزا

CIAکے ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس گواہی دیتے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں انتشار پھیلانے

کے لیےماضی میں افغانستان اور ایران کی سرزمین کو استعمال کیا گیا : رضاء الحق

دہشت گردی اور پاک افغان تعلقاتکے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

سوال: پاکستان دنیا میں شاید واحد ملک تھا جس نے دہشت گردی کو بڑے مؤثر انداز میں کنٹرول کر لیا تھا لیکن بدقسمتی سے دہشت گردی دوبارہ شروع ہو چکی ہے جس میں زیادہ تر پاکستان کی security forces کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آپ کے خیال میں دہشت گردی کی اس نئی لہر کا ذمہ دار کون ہے ؟
ایوب بیگ مرزا: جہاںتک ذمہ دار ہونے کا تعلق ہےتو میں سمجھتا ہوں کہ کسی ملک میں کوئی اچھا واقعہ ہو یا برا اس کا ذمہ دار معاشرہ اور ریاست دونوں ہوتے ہیں ۔ البتہ جن کے پاس طاقت اور اختیار زیادہ ہے وہ اتنے ہی اس کے ذمہ دار ہیں ۔ آپ کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ دہشت گردی کو ہم نے موثر انداز میں کنٹرول کر لیا تھا مگر یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی تھی ، کہیں نہ کہیں کوئی چنگاری دبی رہ گئی تھی جو پھر بھڑک اُٹھی ہے ۔ انہیں خطرہ چونکہ فورسز سے ہی ہے اس لیے وہ فورسز کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں ۔ اس دہشت گردی میں وقفے ضرور آئے ہیں ، کبھی ذرا زیادہ وقفہ آگیا تو سمجھا گیا کہ دہشت گردی کم ہوگئی ہے، لیکن یہ مکمل طور پر ابھی تک ختم نہیں ہو سکی ، موقع ملتے ہی اب دوبارہ اس نے سر اُٹھا لیا ہے ۔
سوال: متعلقہ ادارے اگر اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو پھر ایسے واقعات نہیں ہوتے ۔ جیسا کہ امریکہ میں نائن الیون کے بعد دہشت گردی کا کوئی واقعہ امریکی اداروں نے ہونے نہیں دیا ۔ ہمارے ہاں اقدامات بڑے ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ تو کیا یہ security failure نہیں ہے ؟ 
ایوب بیگ مرزا: امریکہ میں جتنی دہشت گردی ہوتی ہے اتنی کہیں بھی نہیں ہوتی ۔روز آپ سنتے فلاں جگہ پر فائرنگ ہوئی اور اتنے طلبہ قتل ہوگئے ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس کو violence کا نام دیتے ہیں لیکن ہے تو دہشت گردی ، کیونکہ اس میں بھی قانون کو پاؤں تلے روند کر لوگوں کاناحق خون بہایا جاتاہے ۔ ایسے واقعات امریکہ میں آئے روز ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے ادارے اس طریقے سے کام نہیں کرتے جس طرح کرنا چاہیے ۔ جس طرح ہمارے دیگر اداروں اور شعبوں میں غلطیاں اور کوتاہیاں ہیں اسی طرح ہمارے دفاعی اداروں میں بھی ہیں ۔ یہاں تک کہ ایک ایئر بیس پر بھی حملہ ہوگیا ۔ حالانکہ ایسے حالات میں ایسے حساس مقامات کی سکیورٹی میں کوئی خلاء نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود بھی حملہ ہو گیا۔ اللہ کرے اس میں اتنا نقصان نہ ہوجتنا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔
سوال:دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات پاکستان کی مغربی سرحد کے آس پاس ہورہے ہیں ۔ آپ کے خیال میں کون اس کی پشت پناہی کر رہا ہے ؟
رضاء الحق:پاکستان کا مغربی بارڈر افغانستان اور ایران کے ساتھ لگتاہے ۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے سوائے افغان طالبان کے گزشتہ دور حکومت کے جس میں ملا عمرؒ کی حکومت تھی ۔ اس وقت پاکستان نے بھی ان کی حکومت کو تسلیم کیا ہوا تھا اور اس دور میں مغربی سرحد پر پاکستانی فوج تعینات کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑی ۔ ورنہ اس سے قبل بھی پاکستان مخالف عناصر افغانستان میں موجود ہوتے تھے اور اب بھی ہیں جو عصبیت کی بنیاد پر یا نظریاتی بنیادوں پر پاکستان کے مخالف تھے۔ان میں بھارتی اور امریکی عناصر بھی شامل تھے ، اور پاکستان میں کارروائیاں کرتے تھے ۔ سی آئی اے ، را اور موساد جیسی ایجنسیاں بھی ملوث تھیں ۔ سی آئی اے کے ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس گواہی دیتے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لیے ماضی میں افغانستان اور ایران کی سرزمین کو استعمال کیا گیا ۔ کلبھوشن یادیو اس کا زندہ ثبوت ہے ۔ 2001ء سے 2021ء تک افغانستان میں جو امریکہ کی بنائی ہوئی گورنمنٹ رہی ہے اس دوران بھارت کی وہاں بہت بڑی انوسٹمنٹ تھی ۔ وہاں پر بھارت کے 17 کونصلیٹ کھلے ہوئے تھے اور وہ کھلم کھلا دہشت گردی کروا رہے تھے جس کے ردعمل میںپھر پاکستان نے کچھ آپریشنز کیے کیونکہ وہاں سے دہشت گرد یہاں آ کر آباد ہو گئے تھے ۔ 2004ء میں جب ڈاما ڈولا پر حملہ ہوا تھا اس کے بعد TTPکا وجود سامنے آیا ۔ TTPمیں مختلف قسم کے عناصر شامل تھے۔ اُن میںسے بعض نے پاکستان میں دہشت گردی کو پھیلایا ۔ حال ہی میں افغانستان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی طرف سے ایک فتویٰ بھی جاری ہوا کہ افغانستان سے جاکر پاکستان میں دہشت گردی کرنا خلاف شریعت اور حرام ہے ۔ افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی امارت اسلامی اردو ویب سائٹ پر بیان جاری کیا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو ایکسپورٹ نہیں کررہا ۔ انہوں نے پاکستان کے نگران وزیراعظم کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا افغان حکومت پاکستان سے برادرانہ تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی کا سربراہ نورولی بھی افغانستان میں ہے ۔ بہرحال معاملات پیچیدہ ہیں ۔ اگر افغان طالبان TTPکی پشت پناہی نہ بھی کررہے ہوں تب بھی شاید ان کی کچھ مجبوریاں ہوں کہ وہ ان کو کنٹرول نہیں کر پارہے ۔ ان حالات میں مذاکرات ہی واحد حل نظر آتے ہیں ۔
سوال: طالبان کے ساتھ تنازعہ کو حل کرنے کے لیے ہمارے مذاکرات افغانستان کے ساتھ بھی چلتے رہے ، نوازشریف کے دور حکومت میںبھی طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوئے جوکہ ناکام ہوئے ، اس کے بعد ہمیں ردالفساد آپریشن کرنا پڑا ۔ پھر عمران خان کے دور میں بھی ایک مذاکراتی عمل چلا ، اس کے بعد ہم نے سیز فائر بھی کیا ، اس سب کے باوجود ہم ایک بار پھر اسی ڈگر پر آگئے ہیں کہ ان کے خلاف آپریشن کر رہے ہیں اور وہ ہمارے خلاف برسر پیکار ہیں ، پوری دنیا میں مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں، ہمارے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کامیاب کیوں نہیں ہورہے؟
ایوب بیگ مرزا: میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ بیرونی طاقتیں بھی ملوث ہیں ۔ خاص طور پر امریکہ ہے۔ بیرونی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ افغانستان اور پاکستان آپس میں بیٹھ کر معاملات طے کرلیں ۔ ورنہ ہر جگہ مذاکرات ہی کامیاب ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر جنگ عظیم دوم میںانگلینڈ اور اس کے اتحادیوں کو واضح فتح حاصل ہو گئی تھی لیکن اس کے بعد بھی بیٹھ کر انہیں مذاکرات کرنے پڑے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی فریق جنگ کو اس سطح پر لے جائے کہ بالآخر مذاکرات میں اچھی پوزیشن پر آجائے لیکن ہوتے آخر میں مذاکرات ہی ہیں ۔ اس کے بغیر معاملہ حل نہیں ہوتا ۔لیکن افغانستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات اس وقت تک کامیاب نہیں ہوں گے جب تک عالمی کھلاڑیوں کے مقاصد ادھورے ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ امریکہ اور انڈیا نے یہ TTPاور دہشت گرد تنظیمیں کھڑی کی تھیں ۔ جنہوں نے کھڑی کی تھیں وہ ان سے پورا پورا کام لیں گے۔ انہوں نے فساد کے لیے کھڑی کی تھی وہ مذاکرات کیوں ہونے دیں اور مذاکرات ہو جائیں تو وہ کامیاب کیوں ہونے دیں؟ پھر یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ TTPمیں کوئی ایک دو گروپ نہیں کہ جن کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوجائیں بلکہ اس میں مختلف قسم کے عناصر شامل ہیں ۔ لہٰذا ان سب سے مذاکرات کر کے، ان سب کو رضامند کر لینا بہت مشکل ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب ہماری اسٹیبلشمنٹ اور عالمی اسٹیبلشمنٹ متفق ہو جائیں کہ اب دہشت گردی بند ہونی چاہیے ۔ اس کے بغیر نہیں بند ہو گی۔ البتہ مذاکرات ہمیں اس لیے کرنے چاہئیں تاکہ کچھ تو سلسلہ تھم جائے اور ہمارا نقصان کم ہو ۔ اصل حل یہ ہے کہ بیرونی ہاتھ کوبیچ میں سے نکالنے کی کوشش کی جائے اور جتنے بھی فریق ہیں وہ آپس میں بیٹھ کر بات کو ختم کریں ۔ جب تک بیرونی قوتوں کا سہارا لیا جاتارہے گا تب تک معاملہ حل نہیں ہو گا۔اسی طرح ریاست اور حکومت کو بھی ایک پیج پر ہونا چاہیے ۔
سوال:یہ بات بھی on ریکارڈ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو روکنے کے لیے جتنے بھی آپریشن کیے گئے وہ کامیاب ہوئے اور دیر پا نہ سہی مگر امن قائم ہوا ، اس کی گواہی دنیا بھی دیتی ہے ۔ اس کی بجائے ایک گروہ کے ساتھ مذاکرات کی تجویز جس کی قیادت ہی منظر عام پر نہ ہو ، کیا معنی رکھتی ہے ؟
رضاء الحق:مذاکرات کا جوعمل ہوتا ہے اس میں ہمیشہ اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، بھروسا بھی اہم فیکٹر ہوتاہے لیکن ہمارے ہاں اس کی کمی ہے ۔ ہم دکھاتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں ۔ اس حوالے سے دو مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ لال مسجد کا واقعہ جب ہوا تو ایک طرف مذاکرات بھی چل رہے تھے اور دوسری طرف یَک دَم کریک ڈاؤن بھی شروع کر دیا گیا ۔ اسی طرح  اکبربگٹی کے ساتھ ہماری سیاسی قیادت مذاکرات کررہی تھی لیکن دوسری طرف بمباری کرکے انہیں ہلاک کر دیا گیا ۔ اس طرح متضاد رویے بھی مذاکرات کی کامیابی میں رکاوٹ ہوتے ہیں ۔
سوال: آپ نے اعتماد سازی کے اقدامات کی بات کی، عمران خان کے دور حکومت میںطالبان کے ساتھ دوسرا مذاکراتی دور ہوا جس میں ہم نے سیز فائز بھی کیا،ان کے کئی قیدی بھی رہا کیے ، یہ اعتماد سازی کے اقدامات ہی تھے۔اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا تھا ؟
رضاء الحق:اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات مخالف فریق کو مذاکرات کی سطح پر لانے کے لیے اس کے خلاف ایکشن بھی لینا پڑتاہے ، خاص طور پر جب اس نے اپنے کیے ہوئے وعدوں سے انحراف کیا ہو۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے دہشت گردی کو کنٹرول کیا مذاکراتی عمل میں بھی انہوں نے ہی حصہ لیا، افغانستان میں مذاکرات شروع کرتے وقت بھی ہمارے ایک سابق ڈی جی ISI وہاں موجود تھے تو کچھ سوچ سمجھ کے وہاں موجود تھے ۔ دوسری بات یہ کہ فوجی آپریشن آخری حل ہوتاہے مگر اس کے کچھ اہداف بھی ہوتے ہیں ۔ آپریشن کے بعد وہاں سول انتظامیہ بھی قائم کرنا ہوتی ہے جوکہ ہم نے اس طرح نہیں کی جیسی کرنی چاہیے تھی ۔ جو لوگ بے گھر ہوئے تھے ان کو دوبارہ اس طرح سے بحال نہیں کیا جیسا کہ کرنا چاہیے تھا ۔ پھر یہ کہ جو ٹی ٹی پی کے لوگ موجود تھے ان کی مانیٹرنگ نہیں کی گئی ۔ یہ بہت ساری غلطیاں  ہیں جن کی وجہ سے ہم کامیاب نہیں ہورہے ۔ TTPکے سربراہ نورولی نے افغانستان سے مفتی تقی عثمانی صاحب کو ایک خط لکھا ہے اور اس میں پوچھا کہ ہم پاکستان کے خلاف جو جہاد کر رہے ہیں اس میں کیا خامیاں ہیں ؟مفتی تقی عثمانی صاحب نے جواب دیا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی دعوت پر جب ہمارے علماء کا وفد کابل گیا تھا تو اس وقت ہمیں یقین دلایاگیا تھاہم چاہتے ہیں پاکستان میں امن ہو اور مذاکراتی عمل آگے بڑھے اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستانی علماء کا وفد TTPکی قیادت سے بھی مل لے ،ممکن ہے ان کے ذہنوں میں موجود اشکالات کو ختم کیا جا سکے ۔ اس سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ TTPافغانستان میں موجود ہے ۔ اب جیسا کہ افغان حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں کوئی مداخلت نہیں ہوگی ، اسے face value پر لینا چاہیےاور اعتماد سازی کے مزید اقدامات بھی پاکستان کو کرنی چاہئیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ افغانستان کے پاس ابھی دہشت گردی کو روکنی کی پوری صلاحیت اور طاقت نہ ہو ، اس وجہ سے بھی پاکستان کو انہیں کچھ margin دے کر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا چاہیے ۔
سوال: آپ نے بڑی اچھی بات کی کہ margin دینا چاہیےلیکن ساتھ ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے علاوہ بھی افغانستان کے ہمسایہ ممالک ہیں جن میں چین، ازبکستان ، تاجکستان ، ترکمانستان اور ایران شامل ہیں، ان میں افغانستان سے کوئی دہشت گردی نہیں ہوتی ۔ کیا وجہ ہے ؟ بحیثیت ہمسایہ پاکستان نے افغانستان کے لیے کیا نہیں کیا ۔ دہائیوں تک ہم نے ان کے مہاجرین کو سنھبالا ، پوری دنیا سے یہ طعنہ سنا کہ پاکستان جہادیوں کی نرسری ہے، اس کے نتیجے میں ہم نے کیا پایا؟ کلاشنکوف کلچر، ہیروئن کلچر اور دہشت گردی جس سے ہماری جان ہی نہیں چھوٹ رہی۔ ٹھیک ہے ہمسایہ کے بہت حقوق ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنا گھر ہی تباہ کرلیں ؟ 
رضاء الحق:آپ دوسری طرف بھی دیکھیں کہ20 سال تک افغانستان میں بمباری پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی اجازت اور تعاون کے ساتھ ہوتی رہی ، وہ قبائلی جو پاکستان کے بلا معاوضہ محافظ تھے، ان پر ڈرون حملے اور بمباری پاکستان کی اجازت سے ہوتی رہی ۔ آپریشن جتنے بھی ہوئے ان کے دوران ان کی زندگیاں متاثر ہوئیں ۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ 2021ء میں جب افغان طالبان نے دوبارہ حکومت سنبھالی تو اس کے بعد تقریباً ایک سال تک دہشت گردی کے واقعات تقریباً رُک گئے تھے لیکن دوبارہ پاکستان نے امریکہ کے چنگل میں پھنس کر ایک محاذ کھول لیا ۔ ایمن الظواہری کے قتل کے لیے پاکستانی ایئرسپیس استعمال ہونے کے الزمات سامنے آئے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کے بعد انہوں نے TTPکو حملوں کی اجازت دی لیکن مذاکرات میں جو وہ ثالثی کا کردار ادا کر رہے تھے یقیناً وہ متاثر ہوا جس کی وجہ سے TTPکو چھوٹ مل گئی ۔ پاکستان کو بھی سمجھنا چاہیے دنیا اس وقت بارود کے ڈھیر پر کھڑی ہے ، ایسے میں اپنے لیے نئے محاذ نہیں کھولنے چاہئیں ۔ کیا پاکستان یہ بھول چکا ہے کہ افغانستان سپر پاورز کا قبرستان ہے ؟ہمیں حقیقت کو مسخ کیے بغیر افغان طالبان اور TTPمیں فرق کرنا چاہیے۔
سوال: دو سال میں اگر طالبان اپنی سرزمین سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو نہیں روک پارہے تو ہم کیسےان کو یہ سرٹیفیکیٹ دیے رکھیں کہ وہ پاکستان حامی ہیں جبکہ پاکستان کے دشمن اور ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا:بلاشبہ ہم نے ان پریہ احسان کیا کہ ان کے مہاجرین کو اپنے پاس جگہ دی ، انہیں پالا پوسا ، سب کچھ دیا ، لیکن کیا ہم ان کا یہ احسان بھول گئے کہ وہ اگر نہ ہوتے تو سوویت یونین پاکستان کو روند ڈالتا ۔ وہ افغانی تھے جنہوں نے اپنی جانیں دے کر پاکستان کا تحفظ کیا۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ امریکہ افغانستان کو سوویت یونین کے حوالے کر چکا تھا ، وہ سمجھ چکا تھا کہ اب سوویت یونین کو روکنا مشکل ہے ۔ ٹھیک ہے اس روکنے میں بھی پاکستان نے مدد کی لیکن صرف پاکستان کی مدد سے سوویت یونین کو نہیں روکا جا سکتا تھا ، اس میں اصل کردار افغانیوں کا تھا جنہوں نے یہ جنگ لڑی ۔ یہ ان کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے ۔ اب اگر وہ دوسال میں دہشت گردی کو نہیں روک سکے تو ہم نے کونسا روک لیا ؟ ہم اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری ان پر کیوں ڈالیں ؟ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان کی ساٹھ ستر فیصد آبادی پاکستان کے خلاف ہے اور افغان طالبان جو ان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے ۔ یہ افغان طالبان کا بہت بڑا معرکہ ہے، بہت بڑا احسان ہے۔ یہ قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ صرف ہم نے ان پر احسان کیا اور نہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ صرف انہوں نے ہم پر احسان کیا۔ دونوں کا ایک دوسرے پر احسان ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ دونوں ہمسائے ہیں اور مسلمان ہیں ۔ صاف بات یہ ہے کہ دونوں کے درمیان امریکہ مسئلہ پیدا کر رہا ہے ۔
سوال: ہماری نگران حکومت نے تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا جو حالیہ فیصلہ کیا ہے ، کیا دہشت گردی کی موجودہ لہر اسی فیصلے کا نتیجہ ہے ، آپ کیا کہتے ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا:اس میں شک نہیں کہ کسی دوسرے ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے کا حق کسی کو نہیں لیکن اگر ہم تاریخی پس منظر دیکھیں تو ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کو اس انداز سے نہیں نکالنا چاہیے تھا کہ ان کا سامان اُٹھا کر باہر پھینک دیا جائے ۔
سوال: ہماری حکومت نے ایک time frame تو دیا تھا؟
ایوب بیگ مرزا:اتنے time frame میں توکوئی ایک دوکان خالی نہیں کرتا ۔ محسوس یہ ہورہا ہے کہ حکومت پاکستان زیادتی پر اُتری ہوئی ہے ۔ لاکھوں انسانوں کے لیے صرف ایک مہینے کا ٹائم دینا مذاق ہے۔ افغان حکومت نے لاکھ مرتبہ کہا کہ ان کو اس طرح نہ نکالا جائے لیکن پاکستانی حکومت کچھ سننے کو تیار نہیں تھی ۔ اب اگرچہ کچھ ٹائم بڑھایا ہے لیکن وہ بھی کافی نہیں ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا انداز افغانیوں کے ساتھ بڑا سخت ہے اور اس کی وجہ صاف نظر آرہی ہے کہ امریکہ اس خطے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشمکش چاہتا ہے ۔ اس کے لیے وہ مختلف اقدامات ہماری حکومت سے کروا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمارے تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔
سوال: پاکستان اور افغانستان کےدرمیان جو غلط فہمیاں ایک عرصے سے چل رہی ہیں ان کو جتنا جلدی ہو سکے دور ہونا چاہیے ۔اس میں علمائےپاکستان کیارول ادا کر سکتے ہیں ؟ 
رضاء الحق:جیسا کہ قرآن پاک میں بھی ہمارے لیے رہنمائی موجودہے:
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ}(الحجرات:10) ’’یقیناً تمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کر ادیا کرو ۔‘‘
اور مومن کی ایک اور شان یہ بھی بتائی گئی ہے:
{اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ } (الفتح:29) ’’کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں‘‘
دونوں طرف مسلمان ہیں ۔TTPکے زیادہ تر لوگ بھی کلمہ گو ہیں اگرچہ وہ غلط راستے پر لگ گئے ہیں ۔ اب علمائے کرام کا رول یہ ہونا چاہیے کہ وہ وفود کا تبادلہ کریں اور آپس کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔ جیسا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے ایک ویڈیو میں بتایا کہ ان کا وفد کابل گیا تھا جہاں افغان طالبان کی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ساتھ TTP کے افراد سے بھی ملاقات کی تھی۔ اسی طرح دیگر جتنے بھی سٹیک ہولڈرز ہیں وہ اپنی اپنی جگہ کردار ادا کریں ، خصوصاً اسٹیبلشمنٹ یہ باور کرائے کہ ہم نے بہرحال صلح صفائی سے ہی یہ معاملہ طے کرنا ہے ۔ جنگ نہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ افغانستان کے ۔ دونوں کی اپنی اپنی کمزوریاں ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش کریں تاکہ بیرونی دشمن فائدہ نہ اُٹھائیں ۔
سوال:پاکستان کے نگران وزیراعظم نے پریس کانفرنس میں جو اپنی افغان پالیسی اور اقدامات کا جواز پیش کیا ہے ، اس پر تنظیم اسلامی کا موقف کیا ہے ؟ 
ایوب بیگ مرزا:تنظیم اسلامی کاموقف اس بارے میں بالکل واضح ہے۔ (1)۔ کسی حکومت کو تسلیم کرنے کے جتنے معیارات ہو سکتے ہیں افغان حکومت ان پر پورا اُترتی ہے ، پھر اسے پاکستان تسلیم کیوں نہیں کر رہا ؟سب سے پہلے اسے تسلیم کیا جائے ۔ (2)۔ لڑنے جھگڑنے کی بجائے تمام معاملات افہام و تفہیم سے طے کیے جائیں اور باہمی تعلقات اسلامی اخوت کی بنیاد پر قائم کیے جائیں ۔ (3)۔ تنظیم اسلامی سمجھتی ہے کہ افغان طالبان اور TTP ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ افغان طالبان میں ایسے عناصر شامل نہیں ہیں جو پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہوں ۔ ان کے سربراہ نے بھی فتویٰ دیا ہے کہ پاکستان کے خلاف جہاد حرام ہے ۔ افغان طالبان نے یہاں تک بھی کہا ہے کہ بہت سے پاکستان مخالف عناصر سے ہتھیار واپس لے لیے گئے ہیں اور بہت سوں کو جیل بھیج دیا ہے ۔ اس سے واضح ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کوششیں ہو رہی ہیں اس میں پاکستان کو تعاون کرنا چاہیے ۔ (4)۔ پاکستان کےسیکولر طبقات طالبانائزیشن کا ایک ہوا کھڑا کر دیتے ہیں کہ طالبان آگئے ، یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا ۔ اس کا جواب بانیٔ تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسراراحمد ؒ جو دیا کرتے تھے آج بھی وہی جواب ہے کہ اگر آپ کو طالبانائزیشن سے اتنا ہی خطرہ ہے تو آپ اپنے ملک میں اسلامائزیشن لے آئیے مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا ، کون کہتا ہے کہ آپ طالبانائزیشن کی طرف آئیں ۔ جو کرنے کا کام ہمارا ہے وہ ہم نہیں کرتے اور الزام دوسروں پر لگاتے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا یہاں انتخابات میں اسلام ہر سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ ہوتا تھا ۔ اسلام کے نعرے بھی لگتے تھے ۔ لیکن آج انتخابات میں روایتی مذہبی جماعتوں کے علاوہ کوئی اسلام کا نام نہیں لیتا ۔ اپنی نظریاتی بنیادوں سے تو ہم خود پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔ اس کاانجام بہرحال وہی ہوگا یا تو لوگ طالبانائزیشن کی طرف جائیں گے یا پھر اسلام کے ہی خلاف ہو جائیں گے ۔ لہٰذا جب تک ہم اس نظریہ کی طرف واپس نہیں لوٹتے جس کی بنیاد پر 1947ء میں ملک بنا تھا اس وقت تک ہمارے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی ہم فلاح پاسکتے ہیں ۔